0
Saturday 16 Mar 2013 23:32

دہشتگردی اور ریاستی ادارے

دہشتگردی اور ریاستی ادارے
تحریر: مفتی گلزار احمد نعیمی
مھتمم جامعہ نعیمیہ اسلام آباد

وطن عزیز ایک دفعہ پھر شدید دہشتگردی کی لپیٹ میں آیا ہوا ہے۔ خونِ ناحق بے دریغ بہایا جا رہا ہے، انسانی جانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹا جا رہا ہے اور امن و امان کے ذمہ دار عوام کو تحفظ دینے میں بالکل ناکام ہوچکے ہیں۔ وجوہات کیا ہیں؟ اور ان پر غور و خوض کرکے اس تباہی سے وطن عزیز کو کیسے بچایا جاسکتا ہے؟ اس پر سوچ بچار کرنا حکومت اور ریاستی اداروں کی پہلی ذمہ داری ہے۔ جب جان کا تحفظ ختم ہو جائے تو عزت و مال کا تحفظ خود بخود ختم ہو جاتا ہے۔ پچھلے دو مہینوں میں کوئٹہ اور پھر کراچی میں ایک خاص مکتب فکر کو دہشتگردی کا نشانہ بنایا گیا۔ ہزارہ کمیونٹی اور عباس ٹاؤن میں ہمارے شیعہ بھائی سکونت پذیر ہیں، ان پر بے رحم بارود کی بارش کی گئی۔ ان کے اجسام کے پرزے درختوں اور عمارتوں سے لٹکے نظر آئے۔ 

دہشت و بربریت کی ایسی مثال اس سے قبل اس سرزمین نے نہیں دیکھی۔ اس کے ساتھ سندھ میں اہلسنت کے دو عظیم رہنماؤں پر بھی خودکش حملے کئے گئے۔ جیکب آباد میں پیر سائیں غلام حسین شاہ، سجادہ نشین قمبر والی شریف اور سید حاجن شاہ سجادہ نشین دربا عالیہ گوٹھ ماڑی شریف پر قاتلانہ حملے کئے گئے۔ پیر سید غلام حسین شاہ کا پوتا اور کچھ خادم اس حملے میں شہید ہوئے، اسی طرح سید حاجن شاہ پر حملہ ہوا اور وہ بھی شدید زخمی ہوئے، پھر کچھ دنوں بعد شہید ہوگئے۔
حیراں ہوں دل کو روئوں کہ پیٹوں جگر کو میں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں 

دہشتگرد منظم طریقے سے فرقہ ورانہ فساد بپا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، تاکہ فرقہ واریت کے نام پر دہشتگردی پھیلا کر مسالک کو ایک دوسرے کے سامنے لاکھڑا کیا جائے۔ لیکن بحمداللہ عوام کا شعور کافی حد تک بیدار ہوچکا ہے اور وہ دشمن کی ان چالوں سے بخوبی واقف ہیں۔ دشمن کی منظم چالوں کے باوجود عوام اسے مسلکی اختلاف یا مذہبی فرقہ واریت نہیں سمجھ رہے۔ عوام اس پر یکسو ہیں کہ یہ ملک دشمن عناصر کی کارروائیاں ہیں، جسے وہ مذہبی لڑائی کا رنگ دینا چاہتے ہیں۔ جگہ جگہ دہشتگردی کی جا رہی ہے۔ معصوم عوام کا خون بڑی بے دردی سے بہایا جا رہا ہے۔ گھروں کے گھر اور خاندانوں کے خاندان موت کے گھاٹ اتارے جا رہے ہیں۔ عوام کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہے۔ حکومتی ادارے بس صرف یہی اعلان کرکے اپنی ذمہ داری سے عہدہ برا ہو جاتے ہیں کہ ’’دہشت گردی ہونے والی ہے،‘‘ خودکش بمبار خاتون فلاں علاقے میں داخل ہوچکی ہے،‘‘ یہ عجیب اطلاعات ہیں۔
 
ہمارے اداروں کو بمبار کے داخل ہونے کی خبر تو ہوجاتی ہے مگر وہ اس کی کارروائی سے بے خبر رہتے ہیں۔ ایسی غفلت قوموں کو حرفِ غلط کی طرح مٹا دیتی ہے۔ جو لوگ اپنی حفاظت نہیں کرسکتے، انہیں کیا حق ہے کہ وہ اپنے آپ کو دنیا کے سامنے ایک قوم کے طور پر پیش کرسکیں۔
عالمی برادری ہمیں ایک قوم کیونکر تصور کرے گی؟ ہمیں باعزت مقام کیوں دے گی؟ جب ہم اپنی حفاظت نہیں کرسکتے تو ہم قوم کہلانے کا استحقاق نہیں رکھتے۔ جب ظلم رواج پاتا ہے تو اس سے بے شمار خطرناک جرائم جنم لیتے ہیں۔ پھر حکام کی عدم توجہی اور عوام کو حقارت کی نظر سے دیکھنا، ان سے تکبر و نخوت کا سلوک کرنا، ایسے جرائم ہیں جو مزید جرائم کی نشو و نما کے لئے نرسری کا کام دیتے ہیں۔ عربی کا ایک خوبصورت مقو لہ ہے:
’’الطا غیہ یتزوج الغرور فیلد ثلٰثۃ اولاد: الحمق و الحقر و الجریمۃ۔
یعنی جب ظلم کا غرور سے ملاپ ہوتا ہے تو اس سے تین چیزیں جنم لیتی ہیں۔ حماقت، نفرت اور جرم۔
کیا ہم ایسی ہی کیفیت کا شکار نہیں ہیں؟ اللہ ہمیں معاف فرمائے۔ آمین 

ہماری من حیث القوم بےوقوفی کی انتہا ہے کہ دہشت گردی نے خوفناک طریقے سے ہمیں اپنے پنجوں میں دبایا ہوا ہے اور ان دہشتگردوں سے نبرد آزما ہونے کے لئے ہمارے پاس کوئی موثر قانون نہیں ہے۔ پارلیمنٹ کے پاس اس ناسور کو ختم کرنے کے لئے قانون سازی کا وقت نہیں نکل سکا۔ عدالتیں قانون شھادت میں بےشمار خامیوں کی وجہ سے ان دہشت گردوں کو قرار واقعی سزا دینے سے قاصر ہیں۔ آج ہمارے ملک میں لوگ قتل کئے جاتے ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں قتل کئے جا رہے ہیں۔ مقتولین سڑکوں پر بے گورو کفن پڑے ہیں۔ ادارے ان کے قاتلوں کو پکڑنے سے قاصر ہیں۔ ہزاروں کا خون بہایا جا رہا ہے لیکن ان کے مقابلے میں قانون چند ہی کو پھانسی کے گھاٹ اتارتا ہے۔ یہاں قاتلوں کو تحفظ حاصل ہے اور مقتولین جانوروں کی طرح بے یارو مددگار، بائی ذنب قُتِلتُ کا سوال اپنے دل میں ہی لئے خاک میں اتر جاتے ہیں۔
یا اسفا!
آج ایک منصف کرسی انصاف پر بیٹھ کر قتل کے ملزموں کو ناکافی ثبوت کی بنیاد پر بری کر دیتا ہے مگر ایک جان جو ضائع ہوچکی ہے، اس کے قاتلوں کی تلاش میں نہ عدالت کو دلچسپی ہے اور نہ ہی ریاستی ادارے کوئی فکر کرتے ہیں۔ مقتول کی فائل داخل دفتر ہوجاتی ہے، عدالت خاموش، تھانہ خاموش اور تمام ذمہ دار ادارے خاموشی سے اس خون ناحق کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ پھر ایک اور مقتول کی لاش صحن انصاف میں آتی ہے۔ عدالت کا منصف اسے بھی عدم ثبوت کی بنیاد پر رائیگاں کر دیتا ہے۔ آج کمرہ عدالت کی الماریوں کو کھول کر دیکھیں، سینکڑوں فائلیں آپ کو نظر آئیں گی جن سے مظلوم مقتولین کا خون رِس رہا ہے اور اس خون ناحق کی وجہ سے ملک کے امن کی قباء سرخ ہوچکی ہے۔ مگر سب خاموش ہیں۔
 
چند ٹکے تھانیدار کی مثل اور ضمنیوں کا رخ قاتل کی حمایت کی طرف موڑ دیتے ہیں۔ قتل کو ایسے متنازع بنایا جاتا ہے کہ عدالت کو مجبور کر دیا جائے کہ وہ مقتول کو نظر انداز کرکے یہ سہارا لے کہ مقتول تو قتل ہو ہی گیا ہے، اس قاتل کی جان بچائی جائے۔ جب قاتل ایک دفعہ سزا سے بچ جاتا ہے تو وہ شیر ہو جاتا ہے، پھر وہ اور قتل کرتا ہے۔ آج ہمارے معاشرے میں کئی بےگناہ افراد کے قاتل دندناتے پھر رہے ہیں اور وہ قانون کے لئے چیلنج بنے ہوئے ہیں مگر قانون ان کے آگے بے بس ہے۔
اسلام نے سزاؤں میں بہت شدت کا رویہ اختیار کیا ہے۔ جب جرم ثابت ہو جائے تو سزا اور حد کے قانونی تقاضے بغیر کسی رعایت کے پورے کئے گئے۔ اسلام کا نظام عدل دنیا میں اسی وجہ سے مقبول ترین ہے کہ یہاں کوئی بےجا پھانسی نہیں چڑھتا اور قصور وار کبھی بچ کر نہیں نکلتا تھا۔ 

حضرت جابر (رضی اللہ تعالٰی عنہ) فرماتے ہیں کہ رسولِ خدا صل اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا:
جو شراب پئے تو اسے کوڑے لگاؤ اور پھر بھی باز نہ آئے اور چوتھی دفع شراب پئے تو اسے قتل کر دو۔
شراب نوشی کے جرم کا بار بار ارتکاب کرنے والے کو سرکار دو عالم (ص) نے قتل کرنے کا حکم دیا تو یہاں بار بار قتل کرنے والے قاتل بھی بےخوف و خطر گھوم پھر رہے ہیں۔ اگر ہم قانون کی عمل داری کو رواج دیتے تو وطن عزیز کی یہ حالت نہ ہوتی۔ کوئٹہ خون میں نہ نہلایا جاتا، کراچی میں خون کی ندیاں نہ بہائی جاتیں اور لاہور میں مسیحی برادری کے مال و متاع اور جانوں کو یوں آگ میں بھسم نہ کیا جاتا۔ کیا عوام یہ تصور کرلیں کہ وہ ایسے ملک میں ہیں جو دارالحرب بن چکا ہے۔ 

یہاں مجرم اور مظلوم کی تفریق مٹ چکی ہے۔ یہاں مجرم کو عزت اور تحفظ حاصل ہے، مظلوم بےبس اور بےکس ہے۔ الزام انڈیا اور امریکہ پر دھرا جاتا ہے۔ سانحہ بادامی باغ میں کتنے امریکی عیسائیوں کے گھر جلاتے ہوئے پکڑے گئے؟ کتنے انڈین باشندے مال و متاع لوٹتے ہوئے پکڑے گئے؟ یہ پاکستانی ہی تھے جنہوں نے ان غریبوں کی جمع پونجی لوٹی ہے۔ مجھے شاید زندگی بھر اس بچی کی گفتگو ایک خوفناک اژدھا بن کر کاٹتی رہے جو میڈیا کو بتا رہی تھی کہ میری شادی کے لئے میرے والدین نے لوگوں کے گھروں میں صفائی کرکر کے دو تولے زیور بنایا تھا اور وہ بھی یہ ظالم لوٹ کر لے گئے۔ 

کیا یہ ظالم حکمران ان غریبوں کی آہوں کو آسمان کے اس پار جانے سے روک سکیں گے۔ اقتدار کے پجاریو ! بتاؤ یہ لٹیرے امریکہ سے آئے تھے یا انڈیا سے؟ یہ تمھارے ہی پروردہ ہیں۔ تم نے ڈاکو، لٹیرے، قاتل اور بدمعاش پال رکھے ہیں، جن کے سہاروں پر تم اپنی حکومتیں چلا رہے ہو۔ اللہ کا وعدہ حق ہے۔ اللہ اپنی مخلوق کی ضرور مدد کرے گا اور تمہیں ضرور انجام تک پہنچائے گا۔ وہ اپنی زمین میں زیادہ دیر تک فساد برداشت نہیں کرتا۔ وہ ضرور کوئٹہ کے مظلوموں کی مدد کرے گا، وہ کراچی کے مقتولین کا ضرور بدلہ لے گا اور یقیناً وہ بادامی باغ کے مظلوموں کی آہ و فغاں کو عزت و تکریم دے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مفتی گلزار احمد نعیمی اہلسنت کے ایک اہم عالم دین ہیں۔ آپ جامعہ نعیمیہ اسلام آباد کے مہتمم ہیں، علاوہ ازیں جماعت اہلسنت کے مرکزی قائدین میں سے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 247112
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش