1
0
Thursday 9 May 2013 14:22

اپنے مستقبل پر مہر لگائیں

اپنے مستقبل پر مہر لگائیں
تحریر: سید اسد عباس تقوی

عزیز و محترم قارئین! میں اکثر سوچتا ہوں کہ جمہوریت کیسا نظام حکومت ہے کہ جس میں سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والے اور اس سے بہرہ انسان دونوں کو ایک ہی پلڑے یعنی ووٹ میں تولا جاتا ہے۔ سیاسیات میں پی ایچ ڈی کرنے والے ڈاکٹر کا بھی ایک ووٹ اور غلام حسین جو لوگوں سے پوچھتا پھرتا ہے کہ ووٹ کسے دینا چاہیے، کا بھی ایک ہی ووٹ۔ شاید علامہ اقبال نے اسی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا:
جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
اس بات سے بھی مفر نہیں کہ معاشرے کے امور کو چلانے کے لیے انسانوں کے بنائے ہوئے نظام ہائے حکومت میں اپنی تمام تر خامیوں کے باوجود جمہور کی رائے سے بننے والے نظام حکومت کو ہی بہترین نظام تصور کیا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جمہوری نظام حکومت میں موجود خامیوں کو کیسے دور کیا جاسکتا ہے؟ انسانی فکر تاحال اس حوالے سے کوئی ایسا راہ حل پیش کرنے سے قاصر ہے، جو اس نظام میں موجود تمام تر خامیوں کو ختم کر دے۔ بہر حال ترقی کی جانب سفر جاری ہے۔ کسی ملک میں انتخابی ادارے تشکیل دے کر یہ خامی دور کی جاتی ہے تو کہیں متعدد اداروں کو ایک دوسرے پر نگران بنا کر جمہوری نظام میں رہ جانے والی کمیوں کو پورا کیا جاتا ہے۔
 
مجھے اس دعویٰ پر بھی کوئی شک نہیں کہ انسانی معاشرے کے امور کو منصفانہ انداز سے چلانے اور اس کے لیے عادلانہ قوانین وضع کرنے کے لیے بہترین افراد الہی نمائندے ہی ہیں۔ ان نمائندوں کی عدم موجودگی یقیناً انسانیت کے لیے ایک آفت ہے اور آج کا انسانی معاشرہ اسی آفت سے دوچار ہے۔ یہاں ذہن انسانی میں چند ایک سوالات جنم لیتے ہیں۔ پہلا یہ کہ اس زمانے میں کہ جب انسانوں کے مابین کوئی الہی نمائندہ موجود نہیں تو عوام کس کو منتخب کریں؟ دوسرا یہ کہ کیا دین سے وابستہ افراد، ادارے اور جماعتیں ہی ان الہی نمائندوں کا نعم البدل ہیں؟ سوال اور بھی بہت ہیں جنہیں سمیٹنا شاید اس مضمون کی استطاعت سے باہر ہو۔

 میری نظر میں دین کا فہم کسی بھی مذہبی حکومت کو چلانے کے لیے اہم ہے، تاہم اس سے بھی اہم تر وہ انسانی خصائل ہیں جو الہی نمائندوں کا خاصہ ہوتی ہیں۔ آپ میں سے شاید ہی کوئی شخص اس بات سے اختلاف کرے کہ تمام تر الہی نمائندے بالخصوص وہ جنہوں نے حکومتیں قائم کیں، کی قابل ذکر خصوصیات میں سے اہم ترین خدا خوفی، سچائی، عدالت، امانت و دیانت، مساوات، جذبہ خدمت خلق، ایثار، شجاعت اور اسی قبیل کی دیگر صفات تھیں۔
 
ظلم پر مبنی معاشروں میں اوپر سے لے کر نچلے درجے تک ان خصوصیات کا فقدان واضح طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ حکمران عوام سے جھوٹ بولتے ہیں، ان کے مال میں بددیانتی کرتے ہیں، اقرباء پروری سے کام لیتے ہیں، معاشرے میں عدل و انصاف نہیں ہوتا یعنی امیر کے لیے الگ قانون اور غریب کے لیے الگ قانون، ایسے حکمران انتہائی بزدل ہوتے ہیں، چونکہ ان میں خدا خوفی کے بجائے اپنے مفادات کے ضائع ہو جانے کا خوف زیادہ ہوتا ہے۔ انہیں مخلوق خدا کے مسائل سے بھی سروکار نہیں ہوتا۔ بجلی آئے نہ آئے، صاف پانی ملے نہ ملے، زندگی کی ضروریات عام انسان کی دسترس سے باہر ہوں یا سینکڑوں میتیں سڑکوں پر پڑی انصاف کی کی بھیک مانگتی رہیں، انہیں اپنے جاہ و جلال سے غرض ہوتی ہے جبکہ اس کے برعکس خوف خدا رکھنے والے حکمران راتوں کو چین سے نہیں سو سکتے کہ مبادا میرے شہر میں کوئی شخص بھوکا نہ سوگیا ہو۔
 
مجھے اندازہ ہے کہ میری آج کی تحریر انتہائی سنگین ہوچکی ہے، تاہم میری نظر میں معاملہ ہے ہی اتنا سنگین۔ پاکستانی قوم 11 مئی کو اپنے اس اختیار کا استعمال کرنے جا رہی ہے جس کے استعمال کا حق اسے پانچ سال قبل یعنی 2008ء میں دیا گیا تھا، لیکن اس حق کے استعمال کے نتائج اس مملکت کے عوام نے پانچ سال بھگتے۔ بھگتے کا لفظ میں نے پاکستان کے عام شہری کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے جان بوجھ کر استعمال کیا ورنہ تو کئی ایسے بھی ہوں گے جو ان پانچ سالوں سے بہت لطف اندوز ہوئے اور انھوں نے خوب مال سمیٹا۔
 
میرا نہیں خیال کہ کسی ذی شعور انسان کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ 11 مئی 2013ء کو کیا ہونے والا ہے، تاہم کچھ ایسے بھی ہیں جو انتخابات کے سلسلے میں بجنے والی مختلف دھنوں پر محو رقص ہیں۔ وہ اسی طرح ناچتے گاتے 11 مئی کو انہی لوگوں کے انتخابی نشانوں پر مہر تصدیق ثبت کر آئیں گے، جن کے سبب انہیں پانچ سال جہنم جیسے حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ گذشتہ سات یا آٹھ دنوں میں نے بہت سے جلسوں، جلوسوں اور ریلیوں کا مشاہدہ کیا۔ ان پروگراموں میں عوام کی کثیر تعداد میں شرکت جہاں ایک جانب اس لحاظ سے خوش آئند تھی کہ عوام پاکستان کے مستقبل کے لیے پرعزم ہیں اور سیاسی عمل کا حصہ ہیں تو دوسری جانب انتہائی تکلیف دہ بھی تھی کہ ان جلسوں، جلوسوں میں شرکت کرنے والے لوگ کسی منشور، پالیسی یا ارادے کے لیے نہیں بلکہ شخصیات، پارٹیوں اور نشانوں سے وابستگیوں کے سبب پارٹی قائدین کے دعووں پر اچھل رہے تھے۔
 
میرا خیال تھا کہ گذشتہ پانچ سالہ دور نے بہت سوں کی آنکھیں کھول دی ہوں گی، لیکن مختلف جماعتوں کے جلسوں میں جب لوگوں کا جم غفیر دیکھا تو احساس ہوا کہ لوگوں کی ایک کثیر تعداد ابھی مسائل کے حل اور انتخابات کے مابین کسی تعلق کی قائل ہی نہیں۔ ان کی نظر میں انتخاب فقط ہار اور جیت کا کھیل ہے۔ میرا لیڈر جیت گیا مخالف لیڈر ہار گیا، میری پارٹی جیت گئی، مخالف پارٹی ہار گئی، میرا جھنڈا اونچا ہے، اس کا جھنڈا نیچا ہے وغیرہ وغیرہ۔ ملک میں جاری لوڈشیڈنگ کا شکوہ کرنے والے کئی لوگوں سے سوال کیا کہ آپ کس کو ووٹ دیں گے تو ان کا جواب سن کر میری حیرت کی انتہا نہ رہی۔ 
جی ہاں! وہ جماعتیں جو گذشتہ پانچ سال اقتدار میں رہنے کے باوجود ملک میں معیشت، توانائی اور امن و امان کے مسائل حل نہ کرسکیں ہی ان افراد کا انتخاب تھیں۔ میں نے استفسار کیا کہ پھر مسائل کا رونا کیوں روتے ہو، تو جواب تھا کہ اور کیا کریں۔ یقین مانیے! غلام حسین سچا ہے۔ اسے کیا معلوم کہ ووٹ کس کو دینا ہے؟ ووٹ کی کیا اہمیت ہے؟ ووٹ اس کے مستقبل پر کیسے اثر انداز ہوتا ہے؟ اسے تو جو جس ڈگر پر چڑھا دے دے گا، وہ اسی پر چلتے ہوئے اپنا ووٹ ڈال آئے گا۔ 

میں اپنے اس فکری سفر کے اختتام پر اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ملک میں جمہوری طریقے سے قائم ہونے والی حکومتوں اور آمریتوں میں عوام کا بہت بڑا دخل ہے۔ کرپٹ لیڈر اور بددیانت سیاستدان خود سے ہی اسمبلیوں تک نہیں پہنچ جاتے، ان کو اس مقام تک پہنچانے کے لیے عوام کی ایک بہت بڑی تعداد اپنی توانائیاں صرف کرتی ہے۔ ملک کی اس سیاسی ابتری کے ذمہ دار وہ لوگ بھی ہیں جو چپ کا روزہ رکھے ہوئے ہیں اور ہمیشہ نظام کی خرابی کی بات کرتے ہیں لیکن اس کو بدلنے کے لیے کوئی اقدام نہیں کرتے۔ ملک کی اس ابتر صورتحال اور کرپٹ حکومتوں کے لانے کے ذمہ دار وہ انتخابی ادارے بھی ہیں جنہوں نے انتخابی نظام کو اس قدر کٹھن بنایا کہ کوئی غریب اور سفید پوش پاکستانی ووٹ کاسٹ کرنے کی خواہش کے باوجود یہ حق استعمال نہیں کر سکتا اور یوں چند کروڑ ووٹ حاصل کرنے والی پارٹی اٹھارہ کروڑ یا اس سے زائد انسانوں پر حاکم بن بیٹھتی ہے اور ان کے سیاہ و سفید کے فیصلے انجام دینے لگتی ہے۔
 
راہ حل یقیناً جاری سیاسی نظام کی ازسرنو تشکیل ہے، جو ایک خاص وقت، وسائل اور کاوش کی متقاضی ہے۔ اس دوران میں ہاتھ پر ہاتھ دھر کے بیٹھ رہنا دانشمندی نہیں۔ انسانی زندگی میں اکثر ایسے مواقع آتے ہیں جہاں وہ اپنی خواہش کے مطابق نتائج حاصل نہیں کر رہا ہوتا، لیکن اس کے باوجود کوشش کو بھی ترک نہیں کرتا۔ آپ اپنی روزمرہ زندگی کو ہی لے لیجیے، پاکستان کے اکثر شہریوں کے ماہانہ اخراجات ان کی آمدن سے زیادہ ہیں، کیا اس پریشانی میں لوگ گھر بیٹھ جاتے ہیں کہ ہم کوشش کے باوجود اخراجات پورے نہیں کر پا رہے، اس لیے یہ کام ہی چھوڑ دو۔ نہیں ایسا کبھی نہیں ہوا، زندگی کا پہیہ بہر صورت رواں رہتا ہے کیونکہ خدا نے انسان کے ذمہ کوشش رکھی ہے، نتائج نہیں۔
خبر کا کوڈ : 262220
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

United States
ماشاٗاللہ بہت اچھا آرٹیکل ہے۔
ہماری پیشکش