0
Tuesday 14 May 2013 23:08

ٓAsia Pacific ریجن کی سیاست اور پاکستان

ٓAsia Pacific ریجن کی سیاست اور پاکستان
تحریر: جنرل (ر) عبدالقیوم 
 
اٹھارویں اور انیسوی صدی عیسوی میں تقریباً ہر بر اعظم میں انگریزوں کے زیر تسلط نو آبادیاں تھیں، جہاں انگریز راج تھا۔ موجودہ پاکستان میں راولپنڈی کے وسط میں آج کے جی ایچ کیو کے بالکل سامنے مال روڈ کے چوک پر ملکہ برطانیہ کا بت نصب ہوا کرتا تھا۔ اسی طرح پوری دنیا میں انگریز کا طوطی بولتا تھا اور انگریز Empire اتنی بڑی تھی کہ اس پر سورج کبھی غروب نہ ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ مشرق وسطٰی سمیت دنیا کے بہت سارے علاقوں پر فرانسیسیوں اور جرمنوں کی کالونیاں بھی تھیں۔ اس دور کو Colonialism کا دور کہا جاتا تھا۔ پہلی عالمی جنگ اور خصوصاً دوسری جنگ عظیم میں جب ہٹلر کی قیادت میں جرمن قوم اتحادیوں کی ناقابل تسخیر سمجھی جانے والی Maginot دفاعی لائن روندتی ہوئی فرانس اور برطانیہ سے ٹکرائی تو یورپ پاش پاش ہوگیا اور فرانس پر بھی جرمن قابض ہوگئے، جس سے ان بین الاقوامی تھانیداروں کی معاشی قمر ٹوٹ گئی۔ 

تاریخ کے اس موڑ پر جہاں جاپان کے دو بڑے شہروں ہیروشیما اور ناگا ساکی پر پوری انسانی تاریخ میں پہلے امریکی ایٹمی حملوں نے اتحادیوں کی فتح میں فیصلہ کن کردار ادا کیا، وہاں بین الاقوامی تھانیداروں کا ڈنڈا انگریزوں کے ہاتھ سے نکل کر امریکہ کے ہاتھ لگ گیا۔ اس طرح غریب دنیا کی بدنصیب زیر تسلط ریاستیں آسمان سے گر کر کھجور میں اٹک گئیں۔ دنیا پر اپنا قبضہ بر قرار رکھنے کے لئے امریکہ نے اپنی پالیسی میں تبدیلی کرلی اور دنیا کی پس ماندہ ریاستوں میں اپنے گورنر جنرل لگانے کے بجائے امریکہ نے دنیا کے سینکڑوں ممالک میں تقریباً 800 فوجی اڈے قائم کر لئے اور ان ممالک کے دارالخلافوں میں کٹھ پتلی حکمران بٹھا دیئے اور یہ جدید ورلڈ آرڈر نیو کلونیالازم (Neo Colonolisalism ) کہلایا، جو تا حال جاری ہے۔ اب تبدیلی صرف یہ آرہی ہے کہ دنیا کا مالیاتی، سنٹر آف گریویٹی مغرب سے مشرق کی طرف تیزی سے حرکت کر رہا ہے، اس تاریخی تبدیلی میں جنوب ایشیا، مشرقی ایشیا، برازیل اور چین جاپان کے علاوہ روس وغیرہ کا اہم کردار ہے یہی وجہ ہے کہ اب ایشیا Pacific ریجن بحرالکاہل سے زیادہ اہمیت اختیار کر گیا ہے، اس لئے اس علاقے میں بڑی طاقتوں میں تناؤ بڑھتا جا رہا ہے۔ 

تنازعوں کی کچھ وجوہات مندرجہ ذیل ہیں۔
1) شمالی کوریا ایک ایٹمی طاقت بن چکا ہے اور اس ملک کی قیادت بار بار یہ کہہ رہی ہے کہ ہماری آزادی پر حرف آیا تو ایٹم بم استعمال ہوسکتا ہے۔ اس صورت حال سے علاقے کے ممالک خصوصاً امریکہ، جنوبی کوریا اور جاپان وغیرہ بہت پریشان ہیں۔
2) دوسرا تنازع چین اور جاپان کے درمیان ہے۔ دونوں ممالک یہ کہتے ہیں کہ بحر اقیانوس میں واقعSenkaku اور Diaoyu کے جزیرے ان کے ہیں۔ یہ معاملہ بہت عرصے سے حل طلب ہے اور ان جزائر پر کنٹرول کی وجہ سے چین اور جاپان کے تعلقات تناؤ کا شکار ہیں۔
3) بحر جنوبی چین میں Reefs اور Shoals جیسے چند ایسے جزائر ہیں جن کی ملکیت سے متعلق جنوب مشرق ایشیا کے کچھ ممالک اور چین کے حق ملکیت کے متضاد دعوے ہیں۔ اس کے علاوہ بحر جنوبی چین میں ہی موجود سمندری حیات و معدنیات سے متعلق بھی جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک کے تحفظات ہیں جبکہ چین اس سارے علاقے کو اپنی ملکیت سمجھتا ہے۔
4) جاپان اور جنوبی کوریا کے درمیان بھی اسی قسم کے اختلافات موجود ہیں۔
5) روس بھی یہ چاہتا ہے کہ "South China Sea" میں سمندری حدود کا واضح اور شفاف تعین ہو جانا چاہیئے۔
6) امریکی فوج کی جاپان اور کوریا میں موجودگی اور فوجی اڈوں میں افواج کی نقل و حرکت کو روس اور چین علاقے کے لئے ایک خطرہ سمجھتے ہیں۔
 
امریکی سابقہ سفیر Freeman Jr نے 23 اپریل 2013ء کو Jiotong یونیورسٹی شنگھائی میں ایک سیمنار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ:
"In economic terms, Asia is now Sino-centric.China has recently joined the United States and Japan as a world economic power. Its interests and activities should be taken into account every where on our planet"
یعنی معاشی اصطلاح میں ایشیا میں اب چین کا طوطی بولتا ہے۔ چین حال ہی میں امریکہ اور جاپان کی طرح دنیا کی معاشی طاقت بن چکا ہے۔ اب چین کے مفادات اور معاملات کا گلوب پر ہر جگہ ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔ امریکی سفیر نے مزید کہا کہ امریکہ صورت حال کو بہت اچھی طرح سمجھتا ہے، اس لئے وہ چین کو روکنا نہیں چاہتا۔ یہی وجہ ہے کہ 1979ء سے لیکر، جب امریکہ نے چین سے تعلقات استوار کئے۔ اب تک امریکہ نے چین کی Global Governance میں شمولیت کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ چین کو نہ صرف ورلڈ ٹریڈ تنظیم کا رکن بنایا گیا بلکہ اس ملک کو G-20 میں بھی شمولیت پر امریکہ نے کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی۔ امریکہ اب چینی طلباء اور چینی مصنوعات کی درآمد کی حوصلہ افزئی کر رہا ہے۔
 
روس اور چین دونوں امریکہ کے میزائل ڈیفنس سسٹم کو بھی بہت ہی شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں بلکہ اس کے سخت خلاف ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد سے ہی سرد جنگ کے دور میں امریکہ کی سابقہ سویت یونین سے متعلق پالیسی "Containment" کی تھی، تاکہ سویت یونین کو ایسا تنہا رکھا جائے کہ یہ خود ہی ٹوٹ جائے۔ لیکن چین سے متعلق امریکی پالیسی "Engagement" کی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ آج امریکی اور چینی معیشت کی صحت کا انحصار باہمی تعاون پر ہے۔ امریکی سفیر کے مطابق چین فوجی لحاظ سے بھی ہر اس ملک سے طاقتور ہے جس کی سرحد چین سے ملتی ہے۔ اس میں روس اور ہندوستان دونوں شامل ہیں۔ اب چین اپنے بین الاقوامی چہرے کو موثر طریقے سے بر قرار رکھنے کے لئے برازیل، ہندوستان، جنوبی افریقہ اور روس سمیت سب سے بہتر تعلقات کا خواہاں ہے۔ یہ سب ممالک BRICS فورم کا حصہ ہیں۔
 
Asia Pacific ریجن میں بڑی طاقتوں کے مفادات کی جنگ جاری ہے۔ پاکستان کی نئی حکومت کو ایسے حالات میں پھونک پھونک کر قدم رکھنے چاہیں۔ ہماری بین الاقوامی سطح پر سب سے بڑی سفارتی کامیابی اس میں ہوگی کہ ہم بڑی طاقتوں سے مل کر مندرجہ ذیل مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔
1) پاک و ہند تعلقات میں بہتری لانے کے لئے ہندوستان پر سفارتی دباؤ ڈالا جائے کہ وہ کشمیر کا مسئلہ حل کر ے۔
2) افغانستان سے امریکہ اور روس کے اتحادیوں کے انخلا میں پاکستان ایک کلیدی کردار ادا کرے اور انخلا کے بعد افغانستان میں معاشی اور سیاسی توازن قائم رکھنے میں بڑی طاقتوں کا تعاون حاصل کیا جائے۔
3) پاکستان SCO کا مستقبل رکن بن جائے، اس میں روس اور چین کا تعاون انتہائی ضروری ہے۔
خبر کا کوڈ : 262971
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش