1
0
Tuesday 2 Jul 2013 10:51

امریکہ، دجالی خصلتوں کی واضع علامت

امریکہ، دجالی خصلتوں کی واضع علامت
تحریر: فدا حسین بالہامی
fidahussain007@gmail.com


ظلم و جور کا ماحول اعتماد سازی کی فضاء کو بدظنی کے زہر آلود عناصر سے حتماً مکدر کر دیتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ظلم پیشہ افراد اولین مرحلے میں ہی بھروسہ و اعتماد جیسی بڑی نعمت سے محروم ہو جاتے ہیں، اس قماش کے لوگ ہر فرد کو شک و شبہ کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، ظلم و تعدی کا دائرہ جس قدر وسیع ہوگا اسی قدر شک کے دائرے کا پھیلاؤ ہوگا، اس کی زندہ مثال موجودہ دور میں ستمگروں اور دہشتگردوں کا سرخیل امریکہ ہے۔ بلاشبہ امریکہ اپنے ظالمانہ کرتوتوں کے سبب دنیا کی ناپسندیدہ ترین ریاستوں میں سرفہرست ہے، نیز اس کے حکمرانوں کے تئیں دنیا بھر میں (امریکہ و بیرون امریکہ) نفرت کا لاوا ہے کہ جس کی شدت میں روز بروز اضافہ ہوا چاہتا ہے۔ اسی لئے امریکی خفیہ ایجنسیاں عالمِ انسانیت کے ہر فرد کو شک آور نگاہ سے دیکھتی ہیں اور دن رات ان کی ذاتی زندگی کے بھیدوں کو ٹٹولنے میں لگی رہتی ہیں۔
 
اس بات کا انکشاف امریکی خفیہ ایجنسی کے سابقہ اہلکار ایڈورڈ سنوڈن (edward snowden) نے کیا ہے۔ اس سنسنی خیز انکشاف کے مطابق جدید آئی ٹی ٹیکنالوجی کی مدد سے دنیا کے گوشہ و کنار سے تعلق رکھنے والے انٹرنیٹ اور موبائیل صارفین کی خفیہ معلومات حاصل کی جاتی ہیں۔ ایڈورڈ سنوڈن اس سلسلے میں جو خفیہ دستاویزات میڈیا کے سامنے لائے ہیں، ان کو بنیاد بنا کر واشنگٹن پوسٹ اور گاڑین نے تقریباً ایک جیسی رپوٹیں منظر عام پر لائی ہیں۔ ان رپوٹوں کے مطابق امریکی سراغ رساں ایجنسی خفیہ معلومات تک رسائی کے لئے نگرانی کا اعلٰی انتظام رکھتی ہے اور دنیائے انٹرنیٹ کی نو بڑی کیمپنیوں کی معاونت سے صارفین کے متعلق معلومات حاصل کر رہی ہے۔ مذکورہ کمپنیوں میں یو ٹیوب، فیس بک، اسکائپ، ایپل، یاہو، گوگل، پال ٹاک وغیرہ شامل ہے۔ 

پرزم نام سے موسوم اس پروگرام کے تحت لوگوں کے ای میل، ذاتی ویڈیوز، تصاویر اور فون کالز وغیرہ پر امریکہ کی بدنام زمانہ خفیہ ایجنسی کو دسترس حاصل ہے، جو عالمی قوانین کی رو سے ایک سنگین جرم ہے۔ واضع رہے کہ ایڈورڈ سنوڈن امریکہ سے فرار ہو کر گذشتہ چند روز سے روس کے انٹرنیشنل ہوائی اڈے پر خیمہ زن ہے۔ راز افشا کرنے کے پیچھے کون سے عوامل و محرکات ایڈورڈ کو در پیش رہے ہوں گے، اس کے متعلق قطعی طور کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا، البتہ یہ بات عیاں ہے کہ انتیس سالہ ایڈورڈ یقیناً معاملے کی سنگینی سے بخوبی واقف ہے اور اپنے اقدام کی حساسیت اور اس کے سنگین نتائج سے بھی آشنا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ پھر بھی اس خوبرو اور باصلاحیت امریکی جوان نے اپنی زندگی کے تمام خوابوں اور منصوبوں کو داو پر لگا کر اس طرح کے پر خطر راستے کا انتخا ب کیا۔؟ اس سلسلے میں موصوف کی یہ بات اہمیت کی حامل ہے جو انہوں نے برطانوی اخبار گاڑین کو اپنے فرار ہونے کے حوالے سے بتا دی۔ 

ایڈورڈ کا کہنا ہے کہ ’’میں اس معاشرے سے متنفر ہوں اور اس سے دور رہنا چاہتا ہوں، جہاں اس قسم کے گھناونے کاموں کو (سرکاری سطع پر) کیا جا رہا ہو، جس کے مطابق میری تمام حرکات و سکنات کو (بغیر کسی قانونی جواز کے) ریکاڑد کیا جائے۔‘‘ ایڈورڈ کی یہ بات امریکہ کے ہر انصاف پسند باشندے کے ضمیر میں گونج رہی ہے، لیکن سنوڈن جیسی جرائتِ رندانہ ہر شخض کے حصے میں نہیں آتی۔ موصوف کی سماج بیزاری کے حوالے سے جرات اظہار اور روشِ بغاوت دیکھ کر بلا ناغہ علامہ اقبال ؒ کی شاہکار نظم ’’ایک آرزو‘‘ ذہن میں ایک نئی کروٹ لے رہی ہے، گویا اپنے ناہنجار معاشرے سے بیزار اسنوڈن پر اقبال ؒ کی وہ کیفیت طاری ہے، جس کا اظہار انہوں نے اس طرع کے اشعار میں کیا تھا ؂
دنیا کی محفلوں سے اکتا گیا ہوں یارب
کیا لطف انجمن کا جب دل ہی بجھ گیا ہو
شورش سے بھاگتا ہوں دل ڈھونڈتا میرا 
ایسا سکوت جس پر تقریر بھی فدا ہو 

جولین اسانج نے جو انکشافات وکی لیکس کے ذریعے عالمی ذرایع ابلاغ کے سامنے کئے ہیں، اس سے امریکہ کافی حد تک رسوا ہوا، اور اب اس شخص (اسنوڈن) نے اس رسوائی میں اضافہ کر دیا ہے۔ خوش آئند امر یہ ہے کہ ایک جانب امریکی حکمرانوں کو عالمی سطح پر ایک قسم کی خفت کا سامنا ہے تو دوسری جانب ایڈورڈ سنوڈن کے حق میں چند ایک ممالک جیسے چین، روس، اور وینزویلا کا موقف یقیناً امریکی چوہدراہٹ کے لئے ایک بڑا دھچکا ثابت ہوگا۔ چنانچہ چین نے ایڈورڈ سنوڈن کو ہانگ کانگ سے ہوائی جہاز کے ذریعے ماسکو روانہ ہونے دیا اور تا دم تحریر وہ ماسکو کے انٹر نیشنل ہوائی اڈے پر قیام پذیر ہے۔ دریں اثناء ریاست متحدہ امریکہ کے وزیر خارجہ جان کیری نے روایتی انداز میں چین اور روس کو دھمکی دی کہ اگر ایڈورڈ سنوڈن کو امریکہ کے حوالے نہیں کیا گیا تو اس کے عالمی سطع پر سنگین نتائج بر آمد ہوسکتے ہیں، مگر نہ صرف چین امریکی دباؤ اور دھونس کو خاطر میں نہیں لایا بلکہ روس کے کان پر بھی جوں تک نہیں ریگی۔
 
روسی صدر نے دو ٹوک الفاظ میں امریکی مطالبے کو ہڑبونگ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔ روس کے وزیر خارجہ سرگئی لارووف نے بھی اس حوالے سے روس کے قانونی اور سیاسی موقف کی تائید کی۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ امریکہ کے دیرنہ حریف وینزوویلا نے ایڈورڈ سنوڈن کو پناہ دینے کی جانب واضع اشارہ کیا ہے۔ وینزوویلا کے موجودہ صدر نیکولاس ماڈور (Nicolas Maduro) نے اپنے پیش رو مرحوم ہیوگو چاویز کی امریکہ مخالف پالیسی پر برقرار رہتے ہوئے کر کہا ایڈورڈ سنوڈن کی طرف سے سیاسی پناہ کے حوالے سے کوئی درخواست موصول ہوئی تو اس پر سنجیدگی سے غور کیا جائے گا۔ 

بہرکیف معاملہ سیاسی اعتبار سے کافی حساس ہے۔ اس وقت جبکہ امریکہ اپنے چشم و ابرو کے اشاروں پر دنیا بھر کے بیشتر ممالک کی حکومتوں کو نچا رہا ہے، مذکورہ شہری نے امریکہ کے کمینہ پن کو طشت از بام کیا ہے، اور ڈرامائی انداز میں اپنے بغاوت کے راستے پر پیش قدمی کر رہا ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ چین نے اسے راہ داری فراہم کی، روس نے قانونی جواز کا حوالہ دے کر اسے واپس کرنے سے صاف انکار کیا اور ساتھ ہی ساتھ وینزوویلا نے پناہ دینے کی بات کی، جس سے امریکہ کی مصنوعی ہیبت کی قلعی کھل گئی۔ امریکہ کی اس راز جوئی کے پیچھے دراصل وہ خوف کار فرما ہے، جو عالمی رائے عامہ کے حوالے سے امریکہ کو لاحق ہے۔ امریکہ اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ اس کی خارجہ پالیسی اور ظالمانہ روش کے سبب دنیا بھر میں اس کے انگشت شمار خیر خواہ ہیں اور اس کے برعکس اس کے چھپے اور آشکار دشمنوں کی تعداد ان گنت ہے، جس میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ ایک بڑی انسانی جمعیت کے حالات و کوائف اور حرکات و سکنات پر نظر رکھنے پر مجبور ہے کہ مبادا کوئی امریکہ مخالف پلان عملی صورت اخیتار کرے۔
 
یورپی ممالک کے باشندے بشمول صاحبِ اقتدار طبقہ اس بات پر بجا طور پر سیخ پا ہیں کہ کیا ان کی بے لاگ حمایت اور بے چون و چرا اطاعت کا صلہ اعتماد شکنی کے سوا امریکہ کے پاس دینے کیلئے کچھ بھی نہیں تھا؟ واضع رہے کہ امریکی خفیہ ادارے نے اس حوالے سے اپنے حلیف ملکوں کو بھی مثتثنیٰ نہیں رکھا ہے، یہاں تک کہ یورپی یونین کے دفاتر کو بھی نہیں بخشا ہے۔ یورپی یونین کے دفاتر سے بھی بہت سی خفیہ معلومات غیر قانونی ذرائع سے حاصل کیں، جس سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ نہ صرف دشمنی بلکہ امریکہ کی پِیت کی ریت بھی نرالی ہے۔ یورپی یونین کے رہنماووں نے اس پر شدید ردعمل ظاہر کیا ہے۔ یورپی پارلیمینٹ کے صدر مارٹین شُلٹس نے غالباً پہلی مرتبہ کڑے لہجے میں امریکہ کو متّنبہ کیا کہ حقائق کی تصدیق ہونے کی صورت میں امریکی حکومت عالمی برادری علی الخصوص یورپی یونین کے سامنے جواب دہ ہوگی، نیز اس کے نتائج کچھ بھی ہوسکتے ہیں۔ 

برسلز میں میڈیا کے سامنے بیان دیتے ہوئے اس طرح کی غیر اخلاقی حرکتوں کو افسوناک قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بالفرض سنوڈن کے انکشافات مبنی بر حقیقت ثابت ہوئے تو میں سمجھوں گا کہ یورپ کے ایک شہری اور یورپی یونین کا سربراہ ہونے کے باوجود میرے ساتھ امریکہ نے دشمنوں جیسا سلوک روا رکھا ہے۔ جرمنی نے امریکہ کی اس غیر شائستہ حرکت کو سرد جنگ سے تعبیر کیا ہے۔ فرانس کے صدر نے بھی اپنا احتجاج درج کروایا ہے۔ بی بی سی اردو سروس کی ایک خبر کے مطابق فرانس کے صدر فرانسوا اولان نے کہا ہے کہ امریکہ فوری طور پر یورپی یونین کی جاسوسی بند کر دے۔ اولان نے مزید کہا ہے کہ یورپ یونین اپنے ساتھیوں اور اتحادیوں کے ساتھ اس طرح کا رویہ برداشت نہیں کرسکتا ہے۔ اگرچہ یورپی ممالک کے اس زبانی ردعمل کو کسی بھی ٹھوس کارروائی کا پیش خیمہ قرار نہیں دیا جاسکتا ہے، کیونکہ ان ممالک نے امریکہ کی غلامی کو اپنی بقاء کے لئے لازمی گردانا ہے۔ پھر بھی موجودہ ابلیسی نظام اس صورت حال کو اپنے لئے ایک بڑا دھچکہ سمجھتا ہے۔
اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگا طبعیت کا فساد
توڑ دی بندوں نے آقاؤں کے خیموں کی طناب
 
(علامہ اقبالؒ: ابلیس کی مجلس شوریٰ) 

عالمی تاریخ اور امریکی سیاست کی موجودہ روش سے یہ امر ثابت شدہ ہے کہ عالمی سامراج کی نظر میں بنیادی طور کوئی بھی دوست نہیں ہوتا ہے، بلکہ وہ بلا استثنٰی دنیا کے ہر فرد کو اپنا دشمن اور ہر ملک کو اپنا ہدف تصّور کرتا ہے۔ البتہ یہ اپنے دشمنوں کو زیر کرنے کیلئے ایک جامع شیطانی منصوبہ کے تحت ایک دشمن پر غلبہ پانے کے لئے دوسرے دشمن کو وقتی طور اپنا حمایتی بنا لیتا ہے۔ فی الوقت اگر مشرقی ممالک علی الخصوص اسلامی ریاستیں اس کی قہرسامانیوں اور ابلیسی سازشوں کی زد پر ہیں تو مغربی ممالک کو اس خوش فہمی میں نہیں رہنا نہیں چاہئے کہ توسیع پسندی کا یہ طوفان مشرق میں طغیانی لا کر اپنے آپ ہی تھم جائے گا۔ یورپی ممالک نے عالمی طاغوتی نظام کو اپنی ہر طرح کی خدمات سے پیش کرکے دراصل خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماری ہے۔ بالفرض طاغوت کا خنجر مشرق کا گلہ کاٹنے سے فارغ ہوگا تو اس رخ لازمی طور پر مغرب کی پیٹھ کی طرف ہی ہوگا۔
خبر کا کوڈ : 278755
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

United Kingdom
So beautiful
ہماری پیشکش