0
Thursday 1 Aug 2013 14:53

جمعۃالوداع، یوم القدس اور عالمی سازشیں

جمعۃالوداع، یوم القدس اور عالمی سازشیں
تحریر: عمران خان 
 
دنیا بھر کے مسلمان ماہ رمضان المبارک کا آخری جمعہ (جمعۃ الوداع) دینی جوش و جذبے سے منا رہے ہیں۔ یہ دن ملت اسلامیہ کے تمام مکاتب فکر میں یکساں اہمیت، حیثیت و تبرک کی وجہ سے امت مسلمہ کے درمیان وحدت، یگانگت اور اخوت کا عظیم مظہر ہے۔ چونکہ قبلہ اول بیت المقدس، مسجد اقصٰی اور فلسطین کی آزادی کے لیے پورا عالم اسلام یکساں موقف رکھتا ہے، چنانچہ اس اہم متبرک دن کو یوم اسلام، یوم القدس کے طور پر بھی منایا جاتا ہے۔ اس اہم اسلامی موقع پر دنیا بھر کے مسلمان جہاں عبادتوں، دعاؤں، مناجات کے ذریعے بارگاہ قدرت میں نذرانہ بندگی پیش کرتے ہیں، وہاں دنیا میں جاری ظلم، جور و ستم اور عالمی قوتوں خصوصاً امریکہ کی جانب سے امت کے بنیادی حقوق کی پامالی، ملت کے وسائل کی لوٹ مار اور ناجائز ریاست اسرائیل کے وجود کے خلاف مظاہروں، ریلیوں، جلسوں، جلوسوں، سمینارز، کانفرنسوں کے ذریعے سراپا احتجاج بھی ہوتے ہیں۔
 
ان اجتماعات کے دوررس نتائج و ثمرات اپنی جگہ مگر مسلک و عقیدہ سے بالاتر عوام کی شرکت سے اتحاد بین المسلمین کا جو نظارہ دیکھنے کو ملتا ہے، نہ صرف اپنی مثال آپ ہے بلکہ مسلمانوں کے درمیان فرقہ واریت اور تعصب کا جو بیج اہل فرنگ نے بویا اور امریکی و یہودی پالیسیوں نے مدتوں اس کی غذائی ضروریات پوری کرکے اسے تناور درخت بنایا، اتحاد امت کا ہتھیار ہی اس درخت کی جڑوں کو کاٹ سکتا ہے۔ عمومی طور پر اس بات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ وہ تمام ایام مخصوصہ جو مختلف حوالوں سے پوری اسلامی دنیا کے لیے یکساں محترم ہیں، ان کو مسلسل دہشت گردی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور پھر اسی دہشت گردی کو ملت کے مختلف مکاتب کے درمیان تفریق کا ذریعہ بھی بنایا جا رہا ہے۔ افغانستان، عراق، شام کی طرح پاکستان میں بھی دہشت گردی کا طوفان گرم ہے۔ 

حالیہ رمضان المبارک اس حوالے سے پاکستانی عوام پر بہت بھاری گزرا۔ جہاں پارا چنار، کراچی، کوئٹہ سمیت ملک کے دیگر علاقوں میں بم دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے معصوم اور بے گناہ شہریوں کو نشانہ بنایا گیا، وہاں ڈیرہ اسماعیل خان میں جیل پر دہشت گردوں کے حملے نے ہر ذی شعور شہری کو پہلے سے کئی گنا زیادہ تشویش میں مبتلا کر دیا۔ یہ حملہ سکیورٹی، انٹیلی جنس اور انتظامی اداروں کی ناکامی تھی یا عالمی سازش کاروں کو جنگجو بیچنے کی ایک کڑی، لوڈشیڈنگ اور کرفیو کے ذریعے دہشت گردوں کے جلوس کو محفوظ واپسی دی گئی یا مقامی چوروں، جیب کتروں اور معمولی مجرموں کو دوبارہ پکڑنے کی ٹھوس حکمت عملی اپنائی گئی، اس طرز کے کئی سوالوں پر بات کرنے سے زیادہ اہم چند واقعات اور بیانات ہیں، جن کا آپس میں بظاہر کوئی واسطہ نہیں۔ 

ملکی تاریخ میں جیل پر ہونیوالا یہ بدترین سانحہ جس رات پیش آیا، اگلی صبح پوری وفاقی کابینہ نئے صدر کے کامیاب انتخاب پر ایک دوسرے کو مبارکباد دے رہی تھی۔ ڈی آئی خان سے منتخب ممبر قومی اسمبلی مولانا فضل الرحمان کے بیان میں سانحہ کی مذمت سے زیادہ دہشت گردوں کی حوصلہ افزائی کا عنصر شامل تھا۔ یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ بنوں اور ڈی آئی خان، جہاں جیلوں پر سب سے بڑے اور کامیاب حملے ہوئے، دونوں مولانا صاحب کے مضبوط سیاسی گڑھ ہیں۔ ایک دن یہ سانحہ پیش آیا، اس سے اگلے روز بنوں میں لوڈشیڈنگ کے خلاف عجیب نوعیت کا ایک جلوس نکلا۔ جلوس کے شرکاء کے پاس جس مقدار اور نوعیت کا اسلحہ تھا وہ جنگی منظرنامہ پیش کر رہا تھا۔
 
جیل سانحہ کے محض دو دن بعد امریکی وزیر خارجہ جان کیری بھی پاکستان وارد ہوچکے ہیں۔ بظاہر بنوں میں لوڈشیڈنگ مظاہرے، جان کیری کے دورہ پاکستان، صدارتی انتخاب اور مولانا فضل الرحمان کے بیان میں ربط نہیں ہے مگر امریکہ کی شام میں جاری بیرونی مداخلت کی پشت پناہی، قطر میں طالبان دفتر کا قیام، مولانا فضل الرحمان کا دورہ قطر، خلیجی ملکوں کی جانب سے خطیر نذرانے اور بعد ازاں پاکستانی طالبان کے شام میں جاری جنگ میں حصہ لینے کا اعلان اور بالآخر جان کیری کا دورہ پاکستان، ڈی آئی خان جیل پر حملے کے دور رس مقاصد کو عیاں کرتے ہیں۔ عوام میں تو یہ تاثر گہرا ہوتا جا رہا ہے کہ امریکی وزیر خارجہ کا حالیہ دورہ دراصل دہشت گردوں کی شام میں سپلائی، نیٹو کے گمشدہ کنٹینروں کے ذریعے ان کو اسلحہ کی فراہمی اور اس کے عوض دیئے جانے والے معاوضے کے معاملات طے کرنے آئے ہیں۔ 

سیکورٹی و انتظامی ادارے ٹھیک یا غلط کے فرق سے عاری فقط ہائی کمان کے احکامات کے پابند ہیں۔ چنانچہ عوام کو دیگر سانحات کی طرح اس سانحہ کے ذمہ داران کے تعین یا ان کی سزاؤں کے انتظار میں جذباتی نہیں ہونا چاہیے۔ عالمی سازش کاروں کے ہاتھوں میں پھنسے اعلٰی پاکستانی مہرے جب تک زندگی یا ان ہاتھوں سے آزاد نہیں ہوتے، اس وقت تک ملک میں پائیدار امن، دہشت گردی کا خاتمہ اور حصول انصاف محض خواب ہی ہے۔ المیہ تو یہ ہے کہ جس جہادی جذبہ اور افرادی قوت کے بھروسے پر دنیائے اسلام کشمیر، فلسطین کو آزاد کرانے کا خواب دیکھتی تھی، وہ قوت کشمیر اور فلسطین کی تو آزاد نہ کراسکی، البتہ افغانستان امریکیوں کی خاطر روسیوں سے آزاد کرایا۔
 
بعدازاں افغانستان میں سی آئی اے، را، موساد، ایم آئی 6، کے قلعے تعمیر کرانے کے بعد پاکستان کو جمہوریت سے، عراق کو عوامی حکومت سے، شام کو اسرائیل و امریکہ مخالف حکومت سے آزاد کرانے کی جنگ لڑ رہی ہے۔ یہ وہی قوت ہے جو دورس امریکی عزائم کو پورا کرنے کے لیے ضیاء دور میں ذمہ دار اداروں کی شبانہ روز کاوشوں سے تخلیق کی گئی۔ اب یہ قوت ان افراد کے ہاتھوں میں مرکوز ہے جو شخصی اعتبار سے دینی مسند پر براجمان ہیں اور عملی لحاظ سے عالمی گریٹ گیم کا حصہ ہیں۔ چنانچہ اس گریٹ گیم کے انجام تک پہنچنے سے قبل یا اس کے خلاف موثر بند باندھنے سے قبل خونریزی کا یہ سلسلہ تھمنا ممکن نہیں۔ عالمی سازشوں کے درک سے ہی ان سازشوں کے خلاف موثر حکمت عملی اپنائی جاسکتی ہے اور جمعۃ الوداع، یوم القدس ان عالمی سازشوں کے ادراک کا ایک اہم ذریعہ ہے۔
 
ضرورت اس امر کی ہے کہ اس روز علماء، خطباء، امام جمعہ، دینی و سیاسی جماعتوں کے سربراہاں اس دن کو عالم اسلام کے خلاف جاری عالمی سازشوں اور اس میں کردار ادا کرنے والے مہروں سے عوام کو آگاہ کریں۔ فرقہ واریت، تعصب کی نفی کرتے ہوئے بیت المقدس، مسجد اقصٰی فلسطین، کشمیر کی آزادی کے لیے اور دہشت گردی و ظالمان کے خلاف آواز بلند کریں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ظالم کے خلاف اور مظلوم کے حق میں بلند ہونے والی کوئی بھی آواز بارگاہ قدرت میں بڑی فضلیت و منزلت رکھتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آتش نمرود میں ڈالا گیا تو ایک چڑیا اپنی چونج میں پانی لیکر اس آگ کو بجھانے چل پڑی، جب اس سے پوچھا گیا کہ اتنا سا پانی اتنی زیادہ آگ کو کہاں بجھا سکتا ہے۔ چڑیا نے جواب دیا میں اتنی نادان نہیں۔ میں جانتی ہوں اتنا قلیل المقدار پانی اس آگ کو بجھانے کے لیے قطعی ناکافی ہے، لیکن جب ابراہیم ؑ کے خلاف جلائی گئی آگ کو بجھانے والوں کے نام لکھے جائیں گے تو اس میں میرا بھی نام شامل ہوگا۔ جمعۃ الوداع، یوم القدس کے اجتماعات بھی طاغوت کے خلاف آواز بلند کرنے والوں میں شمولیت کا نادر موقع ہیں۔
خبر کا کوڈ : 288804
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش