5
0
Sunday 11 Aug 2013 07:49

شہید محرم علی، لشکر کرینگے میری دلیری پہ تبصرے

شہید محرم علی، لشکر کرینگے میری دلیری پہ تبصرے
 تحریر: علی ناصر الحسینی
 
دنیا میں لوگ کارنامے سرانجام دیتے ہیں اور ان کی خواہش ہوتی ہے کہ انہیں سراہا جائے، ان کی تعریفوں کے پل باندھے جائیں، ان کی ستائش کی جائے اور ان کو انعام و اکرام سے نوازا جائے، ہم نے اس بات کو بڑے بڑے علماء، دانشوروں اور باتقویٰ سمجھے جانے والے حضرات میں میں بھی دیکھا ہے اور ایسے بھی لوگ ہوتے ہیں جو کسی اور کے کارنامہ یا کارکردگی کو اپنے نام منسوب کرتے ہوئے ذرا بھی نہیں ہچکچاتے، وہ خود تو کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے مگر اپنی چالاکیوں اور شیطانی ذہن کی بدولت دوسروں کے کارنامے کو اپنے ساتھ منسوب کرنے میں ذرا دیر نہیں لگاتے، مگر اسی دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو بہت بڑے کام کر جاتے ہیں اور اپنا نام سامنے ہی نہیں لاتے، یہ لوگ خالصتاً خدا کیلئے عمل سرانجام دیتے ہیں اور اس عمل یا جدوجہد کے دوران اپنی جان بھی فدا کر جاتے ہیں۔ ان کی کوئی تعریف نہیں کرتا، ان کی شناخت بھی کئی ایک دفعہ پوشیدہ رہتی ہے، دنیا انکے کارناموں سے بھی آگاہ نہیں ہوتی، نہ ہی ان کے احسانوں تلے دبی اقوام ان کی تعریف و توصیف کرتی ہیں، یہ گمنام ہی رہ جاتے ہیں، ایران میں اگر جانا ہو تو شہداء کے قبرستانوں میں جائیں تو آپ کو ہر قبرستان میں ان فرزندان اسلام کی قبریں نظر آئیں گی، جن کے کتبوں پر لکھا ہوتا ہے گمنام شہید، ایران کی شہید پرور قوم اور حکومت اسلامی ان شہداء کو بے حد قدر و احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
 
پاکستان میں یوں تو مختلف سانحات میں شہید ہونے والے مومنین و جوانوں کی تعداد ہزاروں میں ہے، مگر بہت کم ہیں جو آگاہانہ طور پر شہادت کے رستے پر گامزن تھے اور دشمنان اہلبیت (ع) کو سبق سکھانے کے جذبے اور لگن سے سرشار تھے، نوے کے عشرے میں جب فرقہ پرست گروہ کے ایک رہنما اعظم طارق نے امام زمان (عج) کی شان میں پہلی بار گستاخی کی تو عالم تشیع میں اس پر شدید غم و غصہ دیکھا گیا، بہت سے شیعہ نوجوانوں نے اس گستاخی کو ناقابل برداشت سمجھا اور گستاخ کو سزا دینے کا مطالبہ کیا، کہتے ہیں کہ سپاہ محمد کے سربراہ کی خواہش بھی یہ تھی کہ وہ اس گستاخ کو ایسی سزا دے کہ یادگار بن جائے اور ان کا خیال تھا کہ وہ اس کا سر کاٹ کر مینار پاکستان پر لٹکائیں گے، مگر انہیں اس کا موقعہ نہ مل سکا۔
 
شہید محرم علی موچی دروازہ لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک غیرت مند شیعہ نوجوان تھے، جن کا دل گستاخی امام زماں (عج) پر ہر وقت کڑھتا رہتا تھا، شہید محرم علی کون تھا؟ اس کی کیا خدمات تھیں اور آیا ہماری قوم اس کے احسانات سے آگاہ ہے یا اس کی خدمات کی ستائش و توصیف کا حق ادا ہوا ہے اور اسی طرح ہماری تنظیموں نے ان کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو اگلی نسلوں تک منتقل کیا گیا ہے جیسا کہ اس کا حق ہے، یہ بہت سے سوالات ہیں جو آج اس شہید کی برسی کے دن ہمارے پیشِ نظر ہیں۔
شہید محرم علی بہ ظاہر زیادہ پڑھا لکھا نہیں تھا، مگر اس کے دل میں قوم و ملت کا درد بہت زیادہ سمایا ہوا تھا، جو لوگ اسے جانتے ہیں یا جن لوگوں نے اسے دیکھا ہے، وہ اس بات کی تصدیق کریں گے کہ وہ بے حد سخت جان اور زور آور انسان تھا، ایک ایسا انسان جو مضبوط جسم کا مالک تھا، جسکے سامنے ڈر یا خوف نام کی کوئی چیز نہ ہوتی تھی، آپ اسے خطروں کا کھلاڑی بھی کہہ سکتے ہیں۔

تنظیمی حلقوں میں وہ اس وقت آیا جب 1986ء میں لاہور میں کئی امام بارگاہوں کو جلا دیا گیا، اس وقت تک ملت تشیع کے پاس دفاعی حکمت عملی نام کی کوئی چیز نہ تھی، نہ ہی کوئی اس طرح کا سیٹ اپ تھا کہ جس پر ملت کے نوجوان ایسی کسی ہنگامی صورت حال میں جمع ہو جاتے، ضیاءالحق کا زمانہ تھا اور شہید قائد، ملت کے قائد تھے، جنہیں خود داخلی محاذ پر بے حد تکالیف اور مسائل کا سامنا تھا، ایسے وقت میں محرم علی تنظیمی حلقے میں داخل ہوئے، اس نے تنظیمی حلقے میں بھی یہ دیکھا کہ یہ لوگ بے دست و پا اور خالی ہاتھ ہیں، اپنی قومی بلڈنگوں کی حفاظت سندھی اجرکیں اوڑھ کر لکڑی یا ڈنڈا چھپا کر جھوٹا رعب ڈال کر کرتے ہیں، ایسے ماحول میں اس نے تنظیمی آنکھ کھولی تھی۔
 
کہتے ہیں کہ وہ اس حوالے سے کچھ نہ کچھ بنانے کے تجربے کرتا تھا، شائد قوم کی اس مشکل کا کوئی نہ کوئی راستہ نکالنا چاہتا تھا، وہ دفاعی سوچ سوچتا تھا اور اس کا دل امام بارگاہیں جلائے جانے پر بہت زیادہ دکھی تھا، یہ وہ زمانہ تھا جب اس کی ملاقات کسی نہ کسی طرح ڈاکٹر شہید سے ہوگئی، پھر یہ ڈاکٹر شہید کا پکا مرید بن گیا، ڈاکٹر شہید کو سب کچھ سمجھتا تھا اور وقت نے اسے شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کے قریبی رفقاء میں شامل کر دیا تھا، وہ ایک بار کسی کی مخبری پر گرفتار ہوگیا تھا، اس کے پاس سے کچھ خطرناک اسلحہ بھی پکڑا گیا تھا، اس پر قتل کا الزام بھی لگا، مگر اسے بچا لیا گیا، جس کے بعد وہ ڈاکٹر شہید کے اور زیادہ قریب ہوگیا۔ محرم علی کے بارے کہتے ہیں کہ وہ صرف اور صرف ڈاکٹر صاحب کی بات کو رد نہیں کرتا تھا، ڈاکٹر صاحب کے بچوں کے ساتھ ایک بار وہ پاراچنار گیا تو ایک گاڑی خراب ہوگئی، اس نے دو گاڑیوں کے درمیاں واسطہ بن کر ورکشاپ تک پہنچایا۔
 
اس میں اتنی طاقت تھی کہ وہ جب سیشن کورٹ بم دھماکے میں گرفتار ہو کر چوہنگ سنٹر میں اسیر تھا تو اسی دوران ملعون اعظم طارق بھی وہاں نظر بند ہوا تھا، جو محرم علی سے خطرہ محسوس کرتا تھا اور اس نے حکومت کو کہا تھا کہ یہ شخص اسے جیل کے اندر مارنے کی سازش کر رہا ہے، اصل میں محرم علی اپنی طاقت دکھانے کیلئے جیل کی سلاخوں کو پکڑ کر کھینچتا تھا اور زور لگاتا تھا، وہ کراٹے کا کھیل کھیلتا تھا، اس نے جیل کے اندر بھی ایسی ہی تصاویر بنوائی تھیں، عام تنظیمی لوگ تو اسے اپنے ساتھ گاڑی میں بٹھانے کا رسک مول نہیں لیتے تھے، مبادا ان کو پتہ بھی نہ چلے اور کوئی ایسا کام ہو جائے جو قانون کی نگاہ میں قابل گرفت ہو اور مصیبت کھڑی ہو جائے، مگر ڈاکٹر صاحب۔۔۔۔! 

اسے اگر کوئی پاگل کہتا تھا تو وہ اس کو پاگل بن کر ہی ملتا تھا، اور کہتا کہ میں پاگل۔۔۔ میں پاگل اور دیوار کے ساتھ زور سے سر ٹکراتا، سر پھوڑ لیتا اور سامنے والے کو جان چھڑوانا مشکل ہو جاتا، وہ معافی مانگتا تو خلاصی ہو جاتی، ڈاکٹر صاحب کی شہادت کے دن اس کی حالت دیکھنے والی تھی، وہ دیواروں سے سر ٹکراتا پھرتا تھا، اس کا پیر، اس کا بھائی، اس کا دوست اس سے چھین لیا گیا تھا، ایسا لگتا تھا کہ اس کیلئے ڈاکٹر شہید کے بعد جینا فضول کام ہو، اور پھر وہ لاہور سیشن کورٹ بم دھماکے کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔ اس نے شائد چار دن قبل ہی تو شادی کی تھی، ابھی تو اس کی نئی نویلی دلہن سے مکمل شناسائی ہی نہ ہوئی تھی، اس کے خاندان والوں سے زیادہ تعارف ہی نہ ہوا تھا۔

بم دھماکے میں مارے جانے والے سپاہ صحابہ کے قائد ضیاء الرحمان فاروقی اور دیگر تیئس افراد جن میں اکثریت پولیس اہلکاروں کی تھی، جب اس پر یہ الزام لگا تو کوئی اس کی پشت پر نہیں تھا، کوئی اس کے ساتھ نہیں تھا، گھر کے لوگ بھی گرفتار ہوگئے تھے، ایجنسیوں نے اس کے ماموں اور بھائی کو پیروی کرنے کی وجہ سے گرفتار کر لیا تھا، ایسے میں اس کی پیروی کیلئے اس کی نئی نویلی دلہن تھی جو ہائیکورٹ میں اتنے خطرات مول لے کر جایا کرتی تھی، اسے دھمکیاں دی گئیں، اسے ڈرایا گیا، اسے راستے سے ہٹانے کی سازشیں کی گئیں مگر اس نے ہمت نہ ہاری۔ اس نے عدالتوں کی راہداریوں میں اپنے عظیم شوہر کو بچانے کیلئے وہ دن گذارے جن میں دلہنیں گھر کے کام کاج کو ہاتھ نہیں لگاتیں کہ ہاتھوں کی مہندی کا رنگ ابھی پھیکا نہیں پڑا ہوتا۔
 
پنجاب اور مرکز میں اس وقت ایسے ہی حکومت تھی جیسے آج ہے، تو قارئین انداہ لگا لیں کہ عدالتیں اسے انصاف دے سکتی تھیں، اور ہماری ملت کی طرف سے تو اس کو کسی نے ہیرو نہیں بنایا تھا، نہ ہی اس سے کوئی اپنا تعلق بتانے کی جرات و ہمت رکھتا تھا، وہ عدالتی تاریخ میں بہت تھوڑے عرصہ میں سزا کا مستحق ٹھہرنے کے بعد متعصب حکمرانوں، ان کی لے پالک عدلیہ اور رفیق تارڑ جیسے صدر مملکت سے اپیلیں مسترد ہونے کے بعد پھانسی کا حق دار ٹھہرا دیا گیا اور یوں 11 اگست 1998ء کے دن فیصل آباد جیل میں اس حال میں پھانسی دی گئی کہ وہ انتہائی جرات اور بہادری کے ساتھ نعرہ حیدری کی گونج میں دار پر چڑھنے گیا، اس کی نعرہ حیدری کی گونج پوری جیل میں سنائی دی، جس کو تمام قیدیوں نے بھی سنا اور اس کی آواز کے ساتھ آواز بھی ملائی۔
 
اسے کسی قسم کا کوئی دکھ نہ تھا، وہ بہت مطمئن اور ہشاش بشاش تھا اور اس کی خواہش تھی کہ کوئی اور بھی اس کی موت پر ناخوش دکھائی نہ دے۔ اسی لئے تو شہید نے اپنی وصیت میں لکھا کہ ان کے جنازے کو بینڈ باجے کے ساتھ لے جایا جائے اور کوئی انکی میت پر نہ روئے، جبکہ بعض شخصیات کا نام لیکر جنازے میں شرکت سے بھی منع کیا۔ انہوں نے یہ بھی وصیت کی کہ انہیں اپنے دوست(شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی) کے پہلو میں دفن کیا جائے۔ شہید محرم علی کا مرقد ڈاکٹر شہید محمد علی نقوی کے مزار کے قریب یعنی علی رضا آباد رائیونڈ روڈ پر واقع ہے۔ وہ بیرون لاہور کے ایک علاقہ میں دفن ہونا پسند کرتا ہے، اسے نمود و نمائش کی خواہش ہوتی تو وصیت کرتا کہ اسے گامے شاہ میں دفنایا جائے، مگر اس نے اس حوالے سے بھی اپنے دوست کو فراموش نہیں کیا، اسے معرفت تھی کہ اس نے کیسے بخشش کا راستہ پانا ہے، وہ گمنام مجاہد تھا اور گمنامی میں ہی دفن ہوگیا۔
 
لاہور کے دل موچی دروازہ سے تعلق رکھنے والے محرم علی سے تو اہل لاہور (شیعیان لاہور) شائد آگاہ بھی نہ ہوں، کجا یہ کہ وہ لاہور سے باہر کے ایک اور گمنام مجاہد محرم علی کے ہر دلعزیز دوست شہید صفوی کی خدمات کو جان سکیں۔ آخر میں شہید محسن نقوی کے ایک کلام سے چند منتخب اشعار شہید محرم علی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے حاضر ہیں۔
یہ رونقیں، یہ لوگ، یہ گھر چھوڑ جاؤں گا
اک دن میں روشنی کا نگر چھوڑ جاؤں گا
قاتل مرا نشاں مٹانے پہ ہے بضد
میں بھی سناں کی نوک پہ سر چھوڑ جاؤں گا
تو نے مجھے چراغ سمجھ کر بجھا دیا
لیکن ترے لئے میں سحر چھوڑ جاؤں گا
لشکر کریں گے میری دلیری پہ تبصرے
مر کر بھی زندگی کی خبر چھوڑ جاؤں گا
یہ رونقیں، یہ لوگ، یہ گھر چھوڑ جاؤں گا
خبر کا کوڈ : 291382
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو
عجب چیز ہے لذت آشنائی
Iran, Islamic Republic of
لشکر کریں گے میری دلیری پہ تبصرے
مر کر بھی زندگی کی خبر چھوڑ جاؤں گا
well done
great thanks islamtime
Iran, Islamic Republic of
لشکر کریں گے میری دلیری پہ تبصرے
Iran, Islamic Republic of
خدایا! همیں شهیدوں کی راه کو جاری رکهنے کی توفیق عطا فرما۔
United Arab Emirates
خدا شہید کے درجات بلند کرے۔
شہید کی یاد دلانے پر اسلام ٹائمز کا شکریہ
ہماری پیشکش