0
Saturday 5 Oct 2013 19:26

جنیوا 2 مذاکرات اور درپیش چیلنجز

جنیوا 2 مذاکرات اور درپیش چیلنجز
تحریر: سعیدہ کدخدائی
اسلام ٹائمز- شام میں کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال یا عدم استعمال ایک ایسا ایشو ہے جو اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کے مستقل اراکین کے درمیان شدید اختلافات کے باوجود اب تک اس کونسل کے ایجنڈے میں موجود ہے۔ اب جبکہ روس سیکورٹی کونسل کے اکثر اراکین کی جانب سے پیش کردہ قرارداد کو ویٹو کر چکا ہے اور اس کے نتیجے میں ایک طرف امریکہ، برطانیہ اور فرانس اور دوسری طرف روس کے درمیان شدیداللحن قسم کے بیانات کا تبادلہ جاری ہے، سیکورٹی کونسل کے اراکین اس کوشش میں مصروف ہیں کہ دمشق کے نواح میں انجام پانے والے مشکوک کیمیائی حملے کی ذمہ داری شام حکومت کے کاندھوں پر ڈالتے ہوئے شام کے خلاف ایک انتہائی شدید قرارداد منظور کروائیں۔ 
 
روس کا موقف یہ ہے کہ ٹھوس شواہد اور دلائل کے بغیر مشکوک کیمیائی حملے کا الزام دمشق پر لگانا درست نہیں۔ اگرچہ اقوام متحدہ کے انسپکڑز نے اپنی پیش کردہ رپورٹ میں دمشق کے نواح میں انجام پانے والے حملے میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی تصدیق کی ہے لیکن اس رپورٹ میں اس بارے میں کچھ نہیں کہا گیا کہ یہ حملہ کس نے انجام دیا ہے؟ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ امریکہ، فرانس اور برطانیہ مسلسل اس حملے کا الزام صدر بشار اسد کی حکومت پر عائد کرتے آئے ہیں اور یہ امر امریکہ اور روس کے درمیان شدید اختلافات کی ایک بڑی وجہ بیان کی جاتی ہے۔ 
 
ایسے وقت جب شام کو غیرمسلح کرنے پر عالمی طاقتوں کے درمیان شدید لفظی لڑائی جاری ہے اس مفروضے کو مزید تقویت ملتی ہے کہ مستقبل قریب میں سوئٹزرلینڈ میں برگزار ہونے والی جنیوا 2 کانفرنس میں مفاہمت کی امید انتہائی مدھم ہوتی جا رہی ہے اور اس میں کوئی مضبوط معاہدہ انجام نہیں پا سکے گا۔ البتہ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ عالمی طاقتوں کے درمیان جاری تنازعہ کی اصل وجہ مغربی طاقتوں کی جانب سے شام پر سیاسی دباو بڑھانے کی خاطر سیکورٹی کونسل میں اس کے خلاف قرارداد منظور کروانے کی کوششیں اور اسی طرح شام کے خلاف فوجی آپشن کو کھلا رکھنے جیسے اقدامات ہیں جو روس کی جانب سے شدید ردعمل کا باعث بنے ہیں۔ لہذا شام کے خلاف کسی نئی قرارداد کی منظوری کیلئے انجام پانے والی کوششیں نتیجہ خیز ثابت ہوتی نظر نہیں آتیں۔ دوسری طرف اس وقت شام کے بحران کو فوجی مداخلت کے بغیر پرامن اور سفارتی طریقے سے حل کرنے پر مبنی روس اور چین کے درمیان انجام پانے والے اتفاق رائے کو پہلی ترجیح حاصل ہے۔ 
 
ایسا نظر آتا ہے کہ شام کے بارے میں مغربی ممالک کی تگ و دو اور اس کے خلاف فوجی کاروائی کے بارے میں اتفاق نظر پیدا کرنے کی کوششیں ناکامی کا شکار ہو چکی ہیں۔ روس کی ترجیحات میں سے ایک ترجیح 2014ء کے وسط تک شام میں موجود کیمیائی ہتھیاروں کو اس ملک سے خارج کر کے نابود کرنے کے بارے میں امریکہ کے ساتھ کسی نتیجے پر پہنچنا ہے۔ اقوام متحدہ میں روس کے مستقل نمائندے نے کیمیائی ہتھیاروں سے متعلق اقوام متحدہ کے انسپکٹرز کی شام میں فوری واپسی کا مطالبہ کیا ہے۔ اس مطالبے سے ظاہر ہوتا ہے کہ روس پوری طرح مطمئن ہے کہ دمشق کے نواح میں انجا پانے والا کیمیائی حملہ شام کے حکومت مخالف مسلح دہشت گرد گروہوں کی کارستانی ہے۔ حتی روسی صدر جناب ولادیمیر پیوٹن نے مغربی طاقتوں پر عالمی رائے عامہ کو دھوکہ اور فریب دینے کی کوشش کرنے کا الزام بھی لگایا ہے۔ 
 
روس نے دعوا کیا ہے کہ اسے شام نے ایسے ٹھوس شواہد مہیا کئے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت مخالف مسلح باغیوں نے کیمیائی ہتھیار استعمال کئے ہیں۔ بہرحال، روس نے شام کی حمایت جاری رکھی ہوئی ہے اور شام کے بحران سے متعلق روس کا موقف اس ملک کے پاس موجود ایک بامقصد روڈمیپ اور عالمی سطح پر مغربی طاقتوں کے مقابلے میں توازن برقرار کرنے کی کوشش کو ظاہر کرتا ہے۔ روسی حکام کا خیال ہے کہ جب تک مغربی ممالک شام حکومت کو کیمیائی حملے کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں وہ اس ملک کے خلاف کوئی قرارداد منظور نہیں ہونے دیں گے۔ اب تک سیکورٹی کونسل کے منعقدہ تمام اجلاس اتفاق رائے حاصل ہوئے بغیر ہی ختم ہو گئے ہیں۔ روس نے اب تک شام سے متعلق اقوام متحدہ کے منشور کے ایکٹ 7 کے اجراء اور فوجی مداخلت کی بھی پرزور مخالفت کی ہے۔ 
 
دوسری طرف اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل جناب بان کی مون نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا ہے کہ عالمی برادری اب تک شام کا مسئلہ پرامن طور پر حل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ انہوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب کے دوران سیکورٹی کونسل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ شام کے بارے میں مشترکہ موقف اپنائیں۔ لیکن روسی صدر جناب ولادیمیر پیوٹن کا خیال ہے کہ مغربی ممالک نے انتہائی فریب کاری اور دھوکہ دہی سے دمشق کے نواح میں انجام پانے والے کیمیائی حملے کا الزام شام حکومت کے سر تھونپنے کی کوشش کی ہے۔ وہ اس بات میں مصمم نظر آتے ہیں کہ ماسکو ہر حالت میں شام کے دشمنوں کے خلاف اس کی حمایت اور پشت پناہی کرتا رہے گا۔ 
 
جنیوا 2 کانفرنس کے آستانے پر اس اہم نکتے کی جانب بھی توجہ کرنا ضروری ہے کہ ایران کی شرکت کے بغیر اس اجلاس کا نتیجہ خیز ثابت ہونا تقریبا ناممکن نظر آتا ہے۔ ایران شام کا دوست ملک ہونے کے ناطے اس ملک میں جاری بحران کے خاتمے کیلئے انتہائی موثر اور بنیادی کردار ادا کر سکتا ہے۔ امریکہ سمیت مغربی ممالک کی جانب سے ایک طرف شام کے خلاف فوجی کاروائی کی دھمکیوں کے تسلسل اور دوسری طرف شام کے حکومت مخالف مسلح دہشت گرد عناصر کی مدد کو جاری رکھے جانے کے پیش نظر شام کے مسئلے پر عالمی طاقتوں کے درمیان اتفاق رائے کا حصول بہت مشکل نظر آتا ہے۔ لہذا جنیوا 2 اجلاس میں شام میں برسرپیکار فریقین کی موجودگی اور اسی طرح خطے کے بااثر ممالک کی شرکت سے اس ملک میں امن و امن کے حصول میں تیزی آ سکتی ہے۔ 
خبر کا کوڈ : 308100
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش