0
Friday 20 Sep 2013 18:16

شام کا مسئلہ اور امریکی اونٹ

شام کا مسئلہ اور امریکی اونٹ
 تحریر: محمد علی نقوی

روس نے شام میں دہشتگردوں کی جانب سے کیمیاوی ہتھیاروں کے استعمال کے بارے میں ثبوت و شواہد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو پیش کر دیئے ہیں۔ روس کے نائب وزیر خارجہ اور روسی صدر کے خصوصی ایلچی نے کہا ہے کہ ماسکو نے سلامتی کونسل کو ایسے ثبوت و شواہد پیش کئے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ دہشتگردوں نے شام میں کیمیاوی ہتھیار استعمال کئے ہیں۔
ادھر شام نے کہا ہے کہ وہ کیمیاوی ہتھاروں کے بارے میں امریکہ اور روس کے معاہدے کا پابند ہے۔ شام کے صدر بشار الاسد نے امریکی ٹی وی چینل فاکس نیوز سے انٹرویو میں کہا ہے کہ شام اپنے کیمیاوی ہتھیاروں کے بارے میں روس اور امریکہ کے معاہدے کا پابند ہے اور ان ہتھیاروں کو کسی بھی ملک کے حوالے کرنا چاہتا ہے جو انہیں قبول کرنے کو تیار ہو اور ان سے خطرہ محسوس نہ کرتا ہو۔ بشار اسدنے ایک بار پھر کہا کہ شام کی فوج اکیس اگست کے کیمیاوی حملوں کی ذمہ دار نہیں ہے۔ صدر بشار الاسد نے اس سوال کے جواب میں کہ کیا شام اپنے کیمیاوی ہتھیار امریکہ کے حوالے کرسکتا ہے تو کہا کہ کیمیاوی ہتھیاروں کی منتقلی کے لئے ایک ارب ڈالر کی ضرورت ہے اور اگر امریکہ یہ خرچ اٹھانے کو تیار ہے تو شام اپنے کیمیاوی ہتھیار امریکہ کے حوالے کرسکتا ہے۔
 
واضح رہے کہ امریکہ نے شام میں کیمیاوی ہتھیاروں کے استعمال کے بہانے شام پر حملے کرنے کی تیاریاں کرلی تھیں اور سعودی عرب نے اس کا بجٹ بھی فراہم کرنے پر آمادگی ظاہر کردی تھی، لیکن ایران کی حمایت اور شام کی ملت و فوج کی استقامت کو دیکھتے ہوئے امریکہ پسپائی پر مجبور ہوگيا۔ اس درمیاں روس نے شام کے کیمیاوی ہتھیاروں کے بارے میں تجویز پیش کرکے امریکہ کو مزید پیچھے دھکیل دیا۔ روس اور امریکہ کے درمیان ہونے والے اس معاہدے کی وجہ سے شام کیمیاوی ہتھیاروں کی تیاری پر پابندی کے معاہدے میں شامل ہو جائے گا اور اپنے کیمیاوی ہتھیار بین الاقوامی نگرانی میں دے دے گا اور اگر ضروری ہوا تو انہیں شام سے باہر منتقل کرنے پر بھی رضامند ہوجائے گا۔ اس فیصلے سے بشار الاسد کی حکومت نے ظاہر کر دیا ہے کہ وہ داخلی اور خارجی خطرات میں اضافے کے باوجود کیمیاوی ہتھیاروں کو استعمال کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی اور اس سلسلے میں ان ہتھیاروں سے دستبردار ہونے پر بھی تیار ہے۔ یقینی طور پر اگر شام داخلی تنازعات حتی خارجی خطرات کے مقابل کیمیاوی ہتھیاروں کے مفید اور کارآمد ہونے پر یقین رکھتا تو وہ روسی منصوبے کا خیرمقدم نہ کرتا۔
 
شامی حکومت کے کیمیاوی ہتھیاروں کے مسئلے پر امریکہ اور روس کے درمیان ہونے والے معاہدے پر دو طرح کے گروہ برھم ہیں، ان میں سے ایک امریکہ کے اندر جنگ پسند ٹولہ ہے، جبکہ دوسرا گروہ سعودی عرب کی قیادت میں بعض عرب ممالک ہیں۔ ریپبلکن پارٹی کے سینٹروں جان مک کین اور لینڈسے گراہم نے گذشتہ دنوں ایک مشترکہ بیان میں امریکہ اور روس کے وزرائے خارجہ جان کیری اور سرگئی لاوروف کے درمیان تین روزہ مذاکرات میں ہونے والے معاہدے کو وائٹ ہاؤس کی کمزوری کا نتیجہ قرار دیا ہے۔ شام پر فوجی حملے کے ان دو سخت حامیوں نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ معاہدہ یہ پیغام دیتا ہے کہ امریکہ شام کے بحران کو حل نہیں کر پایا ہے۔ 

امریکہ کے جنگ پسند ٹولے کہ جن میں جان مک کین اور لینڈسے گراہم کا نمایاں مقام ہے، کے موقف اور نظریات کا جائزہ لینے سے ظاہر ہو جاتا ہے کہ کیمیاوی ہتھیار یا شامی حکومت کی جانب سے ان کے مبینہ استعمال کا مسئلہ، ان کی تشویش نہیں ہے۔ دوسرے لفظوں میں اگر امریکہ کے جنگ پسند ٹولے کو شام میں کیمیاوی ہتھیاروں کے بارے میں تشویش ہوتی یا شام میں کیمیاوی ہتھیار استعمال کرنے والوں کو سزا دلوانا چاہتا تو وہ جنیوا معاہدے کا خیرمقدم کرتا۔ اب کچھ ذکر عربوں کا، ایسے میں جبکہ عالمی سطح پر روس کے منصوبے کے دائرے میں شام کے بحران کے حل کے لئے ٹھوس پیشرفت ہو رہی ہے، سعودی عرب اور امریکی حکام کی سرگرمیوں میں بھی اضافہ ہوگیا ہے۔ امریکہ کی سکیورٹی و دفاعی تعاون ایجنسی کے سربراہ "جوزف ڈبلیو رکسی" گذشتہ کئی دنوں سے سعودی عرب کے دورے پر ہیں۔ انہوں نے اس مدت کے دوران سعودی عرب کے اعلٰی حکام کے ساتھ کئی ملاقاتیں کی ہیں۔
 
گذشتہ روز جدہ میں امریکہ کی دفاعی اور سکیورٹی تعاون ایجنسی کے سربراہ نے سعودی عرب کے ولی عہد کے ساتھ بھی مذاکرات کئے۔ شام میں رونما ہونے والی تبدیلیاں خاص طور پر اس ملک میں استعمال ہونے والے کیمیاوی ہتھیاروں کا موضوع، ریاض و واشنگٹن کے حکام کے درمیان مذاکرات کا اصلی محور رہا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سعودی عرب و امریکہ کے حکام اس بات کے درپے ہیں کہ حتی موجودہ صورت حال میں جبکہ شام کے حوالے سے روس کے منصوبے کا وسیع پیمانے پر خیرمقدم کیا جا رہا ہے، شام پر حملے کے لئے ماحول کو ہموار کریں۔ امریکہ اس وقت بھی شام میں دھشتگرد گروہوں کی حمایت جاری رکھے جانے پر تاکید کر رہا ہے اور حال ہی میں امریکہ کی جانب سے شام کے دھشتگردوں کے لئے ہتھیار فراہم کرنے کی بحث منظر عام پر آئی ہے۔
 
قابل ذکر ہے کہ ریاض ابھی بھی شام کے خلاف جنگ کے نقّارے بجا رہا ہے اور شام میں دھشتگردوں کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے۔ امریکہ کی نیوز ویب سائٹ "انٹی وار" نے اپنی جدید ترین رپورٹ میں لکھا ہے کہ سعودی عرب نے موت کے سزا یافتہ 1239 قیدیوں کو شام روانہ کر دیا ہے، تاکہ یہ مجرم قیدی شام میں مسلح دھشتگردوں کی صفوں میں شامل ہوجائيں۔ "انٹی وار" نیوز سائٹ نے سعودی عرب کی وزارت داخلہ کے حوالے سے انکشاف کیا ہے کہ موت کے سزا یافتہ یہ قیدی مختلف قسم کے جرائم میں بھی ملوث رہے ہیں، لیکن اس کے باوجود شام جانے اور وہاں مسلح دھشتگردوں کی صف میں شامل ہونے کی بنا پر ان کی تمام سزاؤں کو معاف کر دیا گیا ہے اور سعودی عرب کی حکومت ایسے قیدیوں کے اہل خانہ کو ماہانہ تنخواہ ادا کر رہی ہے۔ اس موضوع سے نشاندہی ہوتی ہے کہ سعودی عرب کی شام میں رونما ہونے والی تبدیلیوں پر خاص نظر جمی ہوئی ہے۔ ریاض نے گذشتہ اڑھائی برسوں کے دوران امریکہ کے ساتھ ہماہنگ ہوتے ہوتے ہوئے، شام کے بحران کو ہوا دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ قابل ذکر نکتہ یہ ہے کہ سعودی عرب نے، قطر کے ساتھ ملکر امریکہ کو یہ اطمینان دلایا تھا کہ شام پر فوجی حملے کی صورت میں، جنگ کے اخراجات وہ خود اٹھائینگے۔
 
اس وقت جبکہ روس بعض علاقائی ملکوں کے ہمراہ اس کوشش میں ہے کہ کسی بھی طرح شام پر فوجی حملے کا آپشن ختم کروا دے اور شام کے بحران کو سفارتی راہ سے حل کروائے اور حتی دمشق نے بھی ماسکو کے منصوبے کو قبول کرنے کے ساتھ اپنی نیک نیتی کا اظہار کیا ہے، پھر بھی ریاض و واشنگٹن دمشق کے خلاف سازشیں بنا رہے ہیں۔ اس کی واضح مثال شام میں کیمیکل ہتھیاروں کے استعمال کے حوالے سے اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں کی رپورٹ کے تناظر میں سعودی عرب و امریکہ کے مواقف ہیں۔ اگرچہ ان معائنہ کاروں نے شام میں اپنے معائنہ کی مکمل رپورٹ پیش نہیں کی ہے اور شام میں کیمیکل ہتھیاروں کو استعمال کرنے والوں کے ناموں کا بھی اس رپورٹ میں کو‏ئی ذکر نہیں کیا گیا ہے، لیکن ریاض و واشنگٹن کے بعض حکام شام کے خلاف بین الاقوامی محاذ کھڑا کرنے کی گھناؤنی سازش کر رہے ہیں اور اس حوالے سے شام کی حکومت کو مورد الزام قرار دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ 

یہ ایسی صورت حال میں ہے کہ شام میں مسلح دھشتگردوں کی جانب سے کیمیکل ہتھیاروں کے استعمال کے بارے میں روس و اسلامی جمہوری ایران کی طرف سے مستند دستاویزات، امریکہ کے لئے ارسال کر دی گئی ہیں۔ اب یہ واضح ہوگیا ہے کہ شام، امریکہ کی جانب سے پیش کئے جانے والے منصوبے کہ جس پر عمل درآمد میں بعض عرب ممالک پیش پیش نظر آرہے ہیں، کی بھیٹ چڑھ رہا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ علاقے میں بھڑکنے والی ہر ممکنہ جنگ کے شعلے، دیر یا زود علاقے کے تمام ملکوں کو اپنی لپیٹ میں لے لینگے۔ اس میں شک نہیں کہ یہی عرب ممالک کہ جو شام میں جنگ کے لئے نقّارے بجا رہے ہیں، ہر دوسرے ملک سے پہلے امریکہ کی جنگ کی آگ میں جل جائینگے۔ امریکہ میں جنگ پسند ٹولہ، برتری کو ثابت کرنے، تک قطبی نظام کو نافذ کرنے، داخلی مشکلات اور مسائل پر پردہ ڈالنے اور اسلحہ کی فائدہ مند تجارت کو جاری رکھنے کے لیے جنگ چاہتا ہے۔ اس کی نظر میں طاقت کے استعمال یا اس کے استعمال کی دھمکی کے بغیر امریکی ڈپلومیسی اور اقتصاد کی حرکت رک جائے گی۔
 
ریاستہائے متحدہ امریکہ کے قیام سے قبل بھی وہاں جنگی جنون موجود تھا اور پہلے امریکہ کے مقامی باشندے اس جنگی جنون کا نشانہ بنے اور اس کے بعد اس ملک کے شمالی اور جنوبی ہمسائے اس کی جارحیت کا نشانہ بنے۔ انیسویں صدی کے اواخر میں امریکہ اسپین کے ساتھ جنگ میں مغربی ملکوں کو عبور کرتا ہوا مشرقی ایشیا کے معاملات میں دخیل ہوگيا۔ پہلی اور دوسری عالمی جنگوں میں امریکہ نے عالمی سطح پر جنگوں میں حصہ لیا اور کامیابی کے بعد فاشزم کے محور پر دنیا کی قیادت کا دعویدار بنا۔ بعد کے ستر برسوں میں جزیرہ نمائے کوریا، ویتنام، گراناڈا، پاناما، عراق، افغانستان، پاکستان، صومالیہ، یمن اور لیبیا امریکی فوج کی جارحیت اور حملوں کا نشانہ بنے۔ ان جنگوں میں اسلحہ ساز کمپنیوں اور اسلحہ بیچنے والوں نے کئی سو ارب ڈالر کمائے اور خارجی خطرات کو دور کرنے کے بہانے امریکی حکومتیں اپنی کئی مشکلات اور مسائل پر پردہ ڈالنے میں کامیاب رہیں۔ 

بہرحال چونکہ امریکہ کے جنگ پسند ٹولے اور ان کے پٹھو عرب ممالک کو ایک مستقل جنگ کی اشد ضرورت ہے، اس لیے وہ شام کے بحران جیسے سیاسی بحرانوں کو حل کرنے کی ہر قسم کی کوشش کو ناپسندیدہ اقدام قرار دیتیں ہیں۔ اسی لیے حتی امریکہ کی موجودہ حکومت جیسی کوئی حکومت ملکی رائے عامہ اور بین الاقوامی اعتراضات کے دباؤ کے تحت شام پر حملے کا منصوبہ ختم کرتی ہے یا اسے مؤخر کرتی ہے تو جنگ پسند ٹولہ اس پر سخت اعتراض کرتا ہے، لیکن یہ بات کہ امریکی حکمران جنگ پسند ٹولے کے دباؤ کا کس حد تک مقابلہ کر پاتے ہیں، اس کا انحصار آئندہ کے حالات پر ہے۔ اگرچہ اس وقت بظاہر یہ نظر آتا ہے کہ شام میں کیمیاوی ہتھیاروں پر بین الاقوام نگرانی اور کنٹرول پر مبنی روس کی تجویز اور دمشق کی جانب سے اس تجویز کے خیر مقدم سے شام پر حملے کا بخار قدرے کم ہوگیا ہے، اس کے باوجود شام کے خلاف امریکہ کے مقاصد کے بارے میں کچھ نہيں کہا جاسکتا، کیونکہ شام کے خلاف امریکہ کے غیر سنجیدہ فیصلے ابھی ختم نہيں ہوئے ہيں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ شام کے مسئلہ میں امریکی اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 303690
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش