4
0
Sunday 17 Nov 2013 21:02

سانحہ راولپنڈی اور کبوتر

سانحہ راولپنڈی اور کبوتر
تحریر: نذر حافی
nazarhaffi@yahoo.com

اگر کوئی غیر مسلم ملک ہوتا، کافر حکومت ہوتی، غیر اسلامی جلوس ہوتا اور کسی غیر مسلم عبادت گاہ سے جلوس پر پتھراو کیا جاتا تو اس کے باوجود بھی دنیا کا ہر باشعور انسان اس غیر مہذب حرکت کی مذمت کرتا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ وطن عزیز پاکستان میں ایک عرصے سے "دین اور اسلام" کے نام پر اس طرح کی نامناسب اور غیر مہذب کارروائیاں جاری ہیں۔

اس سال 10 محرم الحرام کو پاکستان کے شہر راولپنڈی میں عصر عاشور جلوس عزا پر حملے کے بعد اس شہر کی تاریخی امام بارگاہ کو بھی نذر آتش کر دیا گیا۔ راولپنڈی میں جمعہ کی کشیدگی کے بعد لگائے گئے کرفیو میں نرمی کے بعد پھر کرفیو لگا دیا گیا، جبکہ شہر میں موبائل فون سروس غیر معینہ مدت کے لیے معطل رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

اطلاعات کے مطابق بروز جمعہ عصر عاشور کو عزاداروں پر یہ حملہ اس وقت کیا گیا جب مولوی نے نماز جمعہ کے خطبوں کے دوران شیعوں کو کافر قوم قرار دے کر انہیں مٹا دینے کا فتویٰ دیا اور ان پر حملے کے لیے لوگوں کے جذبات کو ابھارا جو نماز کے فوراً بعد ’’شیعہ کافر‘‘  کے نعرے لگاتے ہوئے جلوس پر ٹوٹ پڑے۔ سنجیدہ حلقوں کا کہنا ہے کہ مولوی کی اس حرکت سے صاف ظاہر ہے کہ وہ یقینی طور پر کسی غیر ملکی ایجنسی کا ایجنٹ ہے۔ لہذا سرکاری اداروں کو چاہیے کہ وہ اس معاملے کا سنجیدگی سے نوٹس لیں اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کریں۔ لوگوں کا کہنا تھا کہ موجودہ حالات کو قابو کرنے کے لئے شرپسند عناصر کا قلع قمع ضروری امر ہے۔ جبتک اس مولوی جیسے لوگوں کو نکیل نہیں ڈالی جاتی، حالات قابو میں نہیں آسکتے۔

ہمارے لئے اس سے بڑھ کر بدقسمتی کی بات کیا ہوگی کہ عام طور پر قتل و غارت اور دہشت گردی کے واقعات میں جو لوگ ملوث پائے جاتے ہیں وہ یا تو کسی دینی مدرسے کے طالب علم ہوتے ہیں یا پھر کسی دینی پارٹی اور گروہ کے کارندے ہوتے ہیں۔ وہ دینی مدارس اور مساجد جن کا مشن انسان کو مسلمان اور مومن بنانا، عالم بشریت کو تحمل اور برداشت کا درس دینا اور دنیا میں اخوت و بھائی چارے کا فروغ ہونا چاہییے تھا، اب ان کا مشن "بے گناہوں کا خون بہانا" بن گیا ہے۔

ایک مسلمان ہونے کے ناطے کتنی شرم کی بات ہے کہ ہمارے ملک میں کافر، شرابی، زانی، ڈاکو اور لٹیرے سب امن کے ساتھ رہ رہے ہیں، لیکن مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہم لوگ اب پرامن طریقے سے سفر تک نہیں کرسکتے۔ مسافروں سے بھری گاڑیوں میں صرف یہ دیکھا جاتا ہے کہ شیعہ کون ہے۔؟ شیعہ ثابت ہونے پر زندہ انسانوں کو جانوروں کی طرح ذبح کر دیا جاتا ہے۔

ہم لوگ باعزت طریقے سے دین کے نام پر اب جلوس بھی نہیں نکال سکتے، وہ یوم القدس کا جلوس ہو، عید میلاد النبی (ص) کا جلوس ہو یا دس محرم الحرام کا ۔۔۔ ہمارے دینی مراکز پر بھی خوف و ہراس کے بادل چھائے ہوئے ہیں، وہ مسجدیں ہوں یا امام بارگاہیں، سب کو دہشتگردی کا خطرہ ہے۔ ہمارے ہاں محب وطن اور دیانتدار پولیس آفیسرز ہوں یا آرمی کے جوان، ڈاکٹرز ہوں یا پروفیسرز، سب کو چن چن کر موت کے گھاٹ اتارا جا رہا ہے۔

ہم ان سارے واقعات کو امریکی مداخلت، انتظامیہ کی سستی اور پولیس کی غفلت کہہ کر اپنی آئندہ نسلوں کی جان نہیں چھڑوا سکتے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ اس طرح کے واقعات ہمارے ہاں بار بار نہ دہرائے جائیں اور ہماری آئندہ نسلیں ان خطرات سے محفوظ رہیں تو ہم سب کو مل کر ملی وحدت، اجتماعی شعور، وسیع القلبی اور احترام باہمی کے لئے مل کر جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔ امریکہ، سی آئی اے اور غیر ملکی ایجنسیاں جو کچھ کر رہی ہیں وہ اپنی جگہ، لیکن جو ہماری ذمہ داری بنتی ہے ہم وہ تو ادا کریں۔

ہم حد اقل ان لوگوں کو تو مشخص کریں جن کا دین ہی دوسروں کو مارنا اور قتل کرنا ہے، جن کی شریعت ہی جلاو، گھیراو اور مار بھگاو ہے، جن کا مذہب ہی دوسروں کو کافر کہنا ہے اور جن کی عادت ہی شرارت اور فتنہ فساد ہے۔ ہم کم از کم ان دو رکعت کے اماموں کو تو بے نقاب کریں کہ جن کی تکبیریں صرف نفرت کی آگ کو بھڑکانے کے لئے ہیں۔ اگر ہم سب ملکر اور تعصبات سے بالاتر ہوکر شرپسندی، فرقہ واریت، تعصب اور دہشت گردی کے خلاف منظم جدوجہد کریں تو آج بھی ہمارے درمیان علامہ طاہرالقادری، مولانا منور حسن، علامہ قاضی احمد نورانی جیسے بے شمار لوگ موجود ہیں جو اپنی تمام تر مشکلات کے باوجود ان اختلافات کو ختم کرانے یا کم کرانے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔

ہمارے ہاں عدم برداشت اور اجتماعی شعور کے فقدان کے علاوہ ایک اہم مسئلہ "حالات سے حکومتی سیٹ اپ کی چشم پوشی" بھی ہے۔ آپ مثال کے طور پر اسی دس محرم الحرام کے واقعے کو ہی لیجئے، سرکاری اہلکاروں کی نیک نیتی اپنی جگہ، لیکن جب سرکاری انتظامیہ کو معلوم ہے کہ اس روٹ سے دس محرم الحرام کا جلوس آرہا ہے اور وہ جانتے بھی ہیں کہ اس روٹ کے راستے میں ایک ایسی مسجد آتی ہے جس میں جمعے کی دو رکعتیں پڑھانے کے لئے ایک امام صاحب نے خطبہ بھی دینا ہے تو ان کو چاہیے تھا کہ ان دو رکعت کے امام صاحب کو قبل از وقت ضروری ہدایات دی جاتیں اور خطبے سے پہلے ان سے امن و امان قائم رکھنے کا عہد لیا جاتا۔

اگر انتظامیہ روز جمعہ کے اجتماع، عزاداری کے جلوس اور مولانا موصوف کے مزاج سے چشم پوشی نہ کرتی تو یقینی طور پر اتنا بڑا حادثہ پیش نہ آتا۔ اگر انتظامیہ نے جمعۃ المبارک کے خطبے سے پہلے "مولانا" سے عہد نہیں لیا تو اس کی صرف تین ہی تو وجوہات ہوسکتی ہیں۔
الف۔ مولانا پر انتظامیہ کا حسن ظن
ب۔ مولانا کو انتظامیہ کی طرف سے آشیرباد
ج۔ انتظامیہ کی حالات سے چشم پوشی

اس طرح کی دوسری مثال تہران میں قائم پاکستان ایمبیسی ہے، جہاں پر لوگوں کو چھوٹے چھوٹے کاموں کے لئے ہزاروں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ کئی مرتبہ لوگوں نے اپنی آواز ایوان بالا تک پہنچائی ہے لیکن ایمبیسی کے حکام بالا مسلسل چشم پوشی کا مظاہرہ کر رہے ہیں، حالانکہ بات صرف اتنی سی ہے کہ کاونٹر پر معین شدہ شخص کی نگرانی کو یقینی بنائیں کہ وہ اپنا کام بطریق احسن انجام دے۔ ہم سب کو ان حالات سے نکلنے کے لئے یہ سمجھنا چاہیے کہ جب تک ہماری عوام میں اجتماعی شعور اور ملی وحدت نہیں اور حکومتی اہلکار اپنی ذمہ داریوں سے چشم پوشی کر رہے ہیں، اس وقت تک اس ملک میں سکون اور امن قائم نہیں ہوسکتا۔

غیر ملکی دشمن اور بیرونی ایجنسیاں اسی وقت کسی ملک یا قوم میں کامیاب ہوتی ہیں، جب کوئی قوم فرقوں اور ٹولوں میں بکھر جاتی ہے اور اس کے حکمران اپنی ذمہ داریوں سے غفلت برتنے لگتے ہیں۔
ہمارے ملک کی بربادی میں جتنا حصہ غیر ملکی ایجنسیوں اور دو رکعت کے اماموں کا ہے، اتنا ہی غیر ذمہ دار سرکاری اہلکاروں کا بھی ہے۔ جو خطرے کے وقت کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 321888
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

بہت خوب بالکل درست کہا ہے کہ اگر کوئی غیر مسلم ملک ہوتا، کافر حکومت ہوتی، غیر اسلامی جلوس ہوتا اور کسی غیر مسلم عبادت گاہ سے جلوس پر پتھراو کیا جاتا تو اس کے باوجود بھی دنیا کا ہر باشعور انسان اس غیر مہذب حرکت کی مذمت کرتا۔
8 محرم الحرام کو سوشل میڈیا کے ذریعے جب ایک مخصوص جماعت نے اپنے لوگوں کو روز عاشور راجہ بازار پہنچنے کی کال دی اور اس کال میں انھیں اپنے ساتھ اسلحہ لانے کی بھی ہدایت کی تو اس وقت انٹیلی جنٹس اور انتظامیہ نے کوئی کارروائی کیوں نہیں کی۔
Iran, Islamic Republic of
اگر انتظامیہ روز جمعہ کے اجتماع، عزاداری کے جلوس اور مولانا موصوف کے مزاج سے چشم پوشی نہ کرتی تو یقینی طور پر اتنا بڑا حادثہ پیش نہ آتا۔ ضروری تھا کہ امام صاحب کو قبل از وقت ضروری ہدایات دی جاتیں اور خطبے سے پہلے ان سے امن و امان قائم رکھنے کا عہد لیا جاتا۔
غیر ملکی دشمن اور بیرونی ایجنسیاں اسی وقت کسی ملک یا قوم میں کامیاب ہوتی ہیں، جب کوئی قوم فرقوں اور ٹولوں میں بکھر جاتی ہے۔
ہماری پیشکش