0
Saturday 14 Aug 2010 12:34

64واں یوم آزادی ہم سے کیا کیا سوال کر رہا ہے؟

64واں یوم آزادی ہم سے کیا کیا سوال کر رہا ہے؟
پاکستانی قوم آج وطن عزیز پاکستان کا 64واں یوم آزادی انتہائی جوش و جذبہ اور عقیدت و احترام سے منا رہی ہے۔یہ وہ مبارک دن ہے،جب برصغیر کے مسلمانوں نے بابائے قوم حضرت قائداعظم رہ کی بے لوث اور مخلصانہ قیادت کے پرچم تلے آزادی حاصل کر کے برطانوی استعمار اور ہندو کی سیاسی و اقتصادی غلامی سے نجات حاصل کر کے ایک الگ وطن کے حصول میں زبردست کامیابی حاصل کی اور تحریک آزادی جس کے لئے بنگال کے حکمران سراج الدولہ اور میسور کے حکمران ٹیپو سلطان شہید نے جانوں کے نذرانے پیش کئے اور برصغیر کے لاکھوں مسلمانوں نے 1857ء کی جنگ آزادی میں برطانوی استعمار کو للکارتے ہوئے جرأت و بہادری کا بے مثال مظاہرہ،اور لازوال قربانیاں پیش کیں،وہ ہماری تاریخ آزادی کے ایک سنہری باب کی حیثیت رکھتی ہیں۔ 
پاکستان میں موجود تمام طبقوں،فرقوں اور مذاہب سے تعلق رکھنے والے بلاامتیاز رنگ و نسل،وطن عزیز کی آزادی،سلامتی اور بقا کے لئے دعا کرتے ہوئے،اپنی عقیدت کا اظہار کریں گے۔یہ مبارک دن اس حوالے سے پوری قوم کے لئے دعوت فکر و عمل ہے کہ جن عظیم مقاصد کے لئے اس آزاد وطن کے حصول کے لئے ہم نے بے مثال قربانیاں دیں،کیا وہ مشن ہم پورا کر پائے؟تاریخی حقائق اور معروضی حالات کو سامنے رکھتے ہوئے،ہمیں حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے،یہ امر تسلیم کرنا پڑے گا ہم اس وطن کے قیام کے بنیادی اغراض و مقاصد کو پورا نہیں کر پائے۔بابائے قوم حضرت قائداعظم رہ کی وفات اور لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد وہ قیادتیں قوم پر مسلط ہوتی رہیں،جن کے قول و فعل کے تضاد اور قیام پاکستان کے بنیادی اغراض و مقاصد کو پس پشت ڈالنے کے نتیجے میں ہم نہ صرف مشرقی پاکستان سے محروم ہو گئے،بلکہ 90 ہزار سے زائد پاک فوج کے افسر اور جوان بھارت کے جنگی قیدی بن گئے۔
اور پھر اس کے بعد جو مایوس کن صورتحال پیدا ہوئی،اس نے ملک گیر سطح پر سیاسی انتشار اور افتراق،مذہبی و سیاسی جماعتوں کے درمیان محاذ آرائی، حکمرانوں کے قول و فعل میں کھلے تضاد،قومی وسائل کی لوٹ مار،نسلی،لسانی،گروہی اور صوبائی عصبیت،وفاق اور بین الصوبائی اختلافات،نے جہاں عوام کی محرومیوں اور مایوسیوں میں اضافہ کیا،انہیں آزادی کی نعمتوں اور برکتوں سے بہرہ ور کرنے کی بجائے مایوسی کی دلدل میں دھکیل دیا وہاں جہالت،ناخواندگی،بے روزگاری،غربت و افلاس،لاقانونیت،منظم جرائم پیشہ گروہوں کی سرگرمیوں اور معاشرے کے بعض بااثر افراد کی طرف سے ان کی سرپرستی،بدعنوانی،کرپشن،ٹیکس چوری،مذہبی مکاتب فکر کے درمیان ہونے والی شدید محاذ آرائی،تعمیر و ترقی کے لئے ٹھوس منصوبہ بندی کے فقدان اور صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مہم جو عناصر کی طرف سے منتخب سیاسی حکومتوں کی بساط لپیٹنے،غیر جمہوری اور غیر نمائندہ حکومتوں کے قیام،بار بار مارشل لاء کے نفاذ اور جمہوری اقدار کی پامالی نے قومی سیاست میں عوام کی دلچسپی بڑی حد تک ختم کر دی،اور سیاستدانوں پر ان کا اعتماد متزلزل ہو کر رہ گیا اور ایک آزاد وطن کے حوالے سے ان کی تمام توقعات نقش برآب ثابت ہوئیں۔
اس پس منظر میں دسمبر 71ء میں سقوط مشرقی پاکستان کے بعد بچ جانے والے پاکستان کے چاروں صوبوں میں زبردست سیاسی مایوسی انتشار،ناامیدی،گرانی،غربت و افلاس کے بڑھتے ہوئے گراف،بے روزگاری،لاقانونیت ملک گیر سطح پر ہونے والی دہشت گردی،شدید بارشوں اور سیلاب سے ہونے والی بربادی اور تباہ کاریاں ہم سے استفسار چاہتی ہیں کہ آزادی کے 63 سال بعد تو قومیں سیاسی و معاشی استحکام کی جانب مثبت پیش رفت میں کامیاب ہوتی ہیں،اور حصول آزادی کے بعد اس کے مقاصد کا حصول ان کی تمام کوششوں کا مرکز و محور بن کر کامیابی کی راہ ہموار کرتا ہے۔لیکن پاکستان جو زبردست جغرافیائی اہمیت رکھنے کے علاوہ اس وقت 18 کروڑ افراد کا مسکن و ماوا ہے،جہاں کے موسم نہایت خوشگوار،زمین بے حد زرخیز،دنیا کا بہترین نہری نظام،محنت کش افرادی قوت،معدنی وسائل سے مالا مال،زرعی اجناس کی فاضل پیداوار اور پہلا اسلامی ایٹمی ملک ہونے کے باوجود محرومیوں اور مایوسیوں میں کیوں گھرا ہے؟۔
قیامت خیز سیلاب کی تباہ کاریوں پر قابو نہیں پایا جاسکا۔معاشی اور اقتصادی مشکلات میں خوفناک اضافے کے باعث حکمران کاسہ گدائی اٹھائے پھر رہے ہیں؟سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان وسائل سے بھرپور استفادہ کرنے،عوام کی محرومیوں کا ازالہ کرنے،ایک روشن خیال اور ترقی یافتہ معاشرے کی تشکیل اور فرسودہ رسومات کے خاتمے کے لئے کیا ہمارے دانشوروں،اساتذہ،ماہرین تعلیم،تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام،مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے ماہرین،سیاسی تجزیہ نگاروں،صنعت کاروں اور سرمایہ داروں نے ملک کو دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے دوش بدوش کھڑا کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کیا ہے؟ کاش اگر ایسا ہوتا تو آج 18کروڑ عوام کی اکثریت محرومیوں اور مایوسیوں کا شکار نہ ہوتی۔اس کے باوجود اگر ہم آج بھی عزم صمیم کے ساتھ اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے ضمیر کی اس آواز کو سنیں کہ ہم نے اس ملک کو کیا دیا ہے،اور اس نے ہمیں کیا دیا ہے؟ اس وقت قیامت خیز تباہ کاریوں سے متاثر ہونے والے کروڑوں افراد کی امداد،بحالی اور متاثرہ علاقوں کی تعمیر نو کے تقاضے کیا ہیں؟کھلے آسمان تلے پڑے لاکھوں متاثرہ خاندان،ہزاروں ہلاک ہونے والے مرد و خواتین اور بچے،لاکھوں ایکڑ پر کھڑی تباہ شدہ فصلیں،لاتعداد نجی و سرکاری املاک کی تباہی کے ازالے کے ساتھ ساتھ ملک گیر سطح پر دہشت گردی سے شہریوں کا تحفظ کس طرح ممکن بنایا جاسکتا ہے،اور آزاد کشمیر میں قیامت خیز زلزلے سے متاثرین کی امداد و بحالی کے لئے پوری پاکستانی قوم کے جوش و جذبے کا احیاء کس طرح ممکن ہے؟۔
 متاثرین کے لئے ملنے والی غیر ملکی امداد کے صحیح استعمال اور اس میں کرپشن اور بدعنوانی کو کس طرح روکا جاسکتا ہے،تاکہ اس امداد کی راہ میں زلزلہ زدگان کے لئے غیر ملکی امداد میں پیدا ہونے والی رکاوٹوں کا اعادہ نہ ہونے پائے،تو پھر ہمیں ایسی مثبت اور تعمیری سوچ اور فکر و عمل کا مظاہرہ کرنا ہو گا،جس میں بلاوجہ اور اپنی کمزوری پر پردہ ڈالنے کے لئے دوسروں کے خلاف الزام تراشی نہ کی جائے،اور حصول آزادی کے لئے برصغیر کے مسلمانوں کی طرف سے دی جانے والی بے مثال قربانیوں اور اپنے وسائل اور معروضی حالات کو سامنے رکھتے ہوئے آئندہ صورتحال کو بہتر بنانے اور ابتلاء و آزمائش کے تمام لمحات سے موثر طور پر نمٹنے کے لئے ہمیں ذمہ دارانہ رویہ اختیار کرنا ہو گا۔ 
ہمیں یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ حصول آزادی کی نسبت آزادی کے تحفظ کے لئے زیادہ قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔اسی مثبت فکر و عمل کی بنیاد پر ہمارے کئی ہمسایہ ممالک ہماری نسبت کم تر وسائل کے باوجود ترقی کے میدان میں بہت آگے جا چکے ہیں،ان میں سے بعض ممالک ہماری نسبت کئی سال بعد آزاد ہوئے،لیکن ان کی ترقی کی رفتار ہم سے کہیں زیادہ اور نتیجہ خیز ہے۔ رمضان المبارک کے اس مقدس و محترم مہینے میں کروڑوں پاکستانی سیلاب کی تباہ کاریوں کا شکار ہو کر اس قدر بے سہارا اور بے آسرا ہیں کہ انہیں سحری و افطاری کے لئے بھی کچھ میسر نہیں ہوتا،اور لاکھوں متاثرین تک ابھی تک امدادی جماعتوں کی رسائی بھی ممکن نہیں ہو سکی۔حکمرانوں کے دورے بھی ان کی اذیت کا ازالہ نہیں کر پائے،یہ صورتحال پوری قوم سے اس امر کا تقاضا کرتی ہے کہ تمام سرمایہ دار،مخیر حضرات،نجی و فلاحی ادارے سیلاب زدگان کی امداد کے لئے آگے بڑھیں اور سیلاب کی تباہ کاریوں کے خاتمے کے بعد متاثرین کی گھروں کو واپسی،ان کی بحالی اور متاثرہ علاقوں کی تعمیر نو کے لئے قوم اس جوش و جذبے کا مظاہرہ کرے،جو زلزلہ زدگان کی بحالی کے لئے دیکھنے میں آیا تھا۔ 
جذبہ اخوت اور بھائی چارے کو فروغ دیا جائے،ہر قسم کی نسلی،لسانی،گروہی،علاقائی اور صوبائی عصبیت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے،اس لئے کہ اسلام نے پوری امت کو جسد واحد قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر جسم کے کسی ایک حصے کو تکلیف پہنچتی ہے،تو اس سے پورا جسم متاثر ہوتا ہے۔ یہی اسلام کا بنیادی جذبہ اخوت ہے۔حکمرانوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ بیرونی امداد کے صحیح استعمال کو یقینی بنا کر ملک کو ماضی کی طرح بدنام اور غیر ملکی امداد کی راہ میں رکاوٹ نہ پیدا ہونے دیں۔یہ ان کی بنیادی ذمہ داری ہے۔
آزاد وطن عزیز کی 64 ویں سالگرہ کے موقع پر ہمیں حضرت قائداعظم رہ اور مصور پاکستان،علامہ اقبال رہ کے فرمودات اور اس آزاد مملکت کے بنیادی اغراض و مقاصد اور ان دونوں عظیم ہستیوں کے کردار اور اصولوں کو سامنے رکھ کر یہ فیصلہ کرنا ہو گا،کہ یہ دن قیام پاکستان کے بنیادی اغراض و مقاصد کے حصول کے لئے مخلصانہ کارکردگی کا تقاضا کرتا ہے،صرف اسی طرح ہم اسے اپنے ازلی دشمنوں، مہم جو عناصر اور مفاد پرستوں سے محفوظ و مامون رکھ کر عوام کو آزادی کی نعمتوں اور برکتوں سے بہرہ ور کرسکتے ہیں۔
 "روزنامہ جنگ"




خبر کا کوڈ : 34063
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش