1
0
Tuesday 14 Jan 2014 00:06

اعتزاز! تم ہی ہمارے ہیرو ہو

اعتزاز! تم ہی ہمارے ہیرو ہو
تحریر: ڈاکٹر عامر لیاقت حسین

میں ’’ آئیڈل ‘‘ کا قائل نہیں ہوں اور ہو بھی کیسے سکتا ہوں کیونکہ اُن کا اُمتی ہوں جنہوں نے کعبۃ اللہ کے اطراف رکھے سینکڑوں ’’آئیڈل‘‘ ہی نہیں بلکہ انا، نفرت، برتری اور استکبار کے وہ اَن دیکھے بُت بھی مسمار کئے جنہیں نفسِ انسانی نے چپ چاپ اپنا خدا بنا رکھا تھا، آئیڈل توڑنے والے خدا پرستوں کے ’’آئیڈیل‘‘ بن جاتے ہیں، اُن کے نقشِ پا کی بھینی بھینی خوشبو راہوں کا تعین کردیتی ہے اور چلنے والے کبھی بھٹکتے نہیں، یہ راستے صرف اُن منزلوں پر قیام کرتے ہیں جہاں دن ہی اُجلے نہیں ہوتے بلکہ راتیں بھی باوضو ہوتی ہیں، ایسے مسافروں کو اندھیروں کا خوف ہوتا ہے اور نہ ہی تاریکیاں راستہ روکنے کی جرأت کرتی ہیں، اِن کے قلوب کی دنیا بدل جاتی ہے، نگاہیں دیکھنے کے آداب سیکھ لیتی ہیں اور بُرے یا اچھے کی تمیز کوئی معنی نہیں رکھتی، بُرے بآسانی پہچان لئے جاتے ہیں اور اچھوں کے صرف نام لئے جاتے ہیں۔

اِس پیر سے پہلے بھی ایک پیر آیا تھا، ہنگو کے علاقے ابراہیم زئی میں 6 جنوری 2014ء کی اُس صبح کی پیدائش عام دن کی طرح اختتام پذیر ہونے کو نہیں ہوئی تھی، آج تو اِس کی روشنی میں کوئی اپنے لہو کی روشنائی سے اِس صبح کو دائمی حیات دینا چاہتا تھا، اُسے اپنے وطن سے شدید محبت تھی اور اُن کالے ناگوں سے بے انتہا نفرت جو ’’بے وجہ کھدائی‘‘ کے دوران دھرتی ماں کا سینہ پھاڑ کے پھنکارتے ہوئے نکل آئے تھے اور اب بقائے انسانیت کے نظرئیے پر ’’کنڈلی‘‘ مارے بیٹھے تھے، بظاہر سب کی طرح وہ بھی اُن سانپوں سے بچنا چاہتا تھا لیکن کوئی یہ نہیں جانتا تھا کہ اُسے بچنے سے زیادہ بچانے کی لگن ہے،یہ بھیانک اژدھے تو دہشت کی بین پر بربادی کا رقص کرکے خوب جھومتے تھے مگر اُس سرفروش کی تو ایک ہی دھن تھی کہ مادرِ وطن جب بھی تقاضا کرے اپنی جان اُس پر نچھاور کردوں۔

نویں جماعت میں مستقبل کے خواب بُننے والا وہ پندرہ سالہ مجاہد اچھی طرح جانتا تھا کہ اُس کے اسکول کے یونیفارم پر کس کا حق ہے اور وہ کسی دہشت گرد کو یہ اجازت دے ہی نہیں سکتا تھا کہ اُس کی مادرِ علمی کی شناخت اُس خون آشام کے پلید وجود کا حصہ بنے چنانچہ اُس نے 6 جنوری پیر کی صبح پراسرار انداز میں اسکول کی جانب بڑھتے اُس بے حِس و بے حیا کے اِرادوں کو بھانپ لیا جس نے اُسی کے اسکول کا یونیفارم یوں پہن رکھا تھا کہ جیسے جاہل کے ہاتھوں میں کتاب تھما دی جائے، وہ سمجھ گیا، یہ طالب علم نہیں صرف ’’طالب‘‘ ہے، معصوم جانوں کا طالب، خوشیاں نوچنے کا طالب، مسرتیں چھیننے کا طالب، سانسیں گھوٹنے کا طالب، اِس کے بڑھتے ہوئے جان لیوا قدموں کو بس ایک وہی روک سکتا تھا،گو کہ یہ اُس کی ذمہ داری تھی نہ فرض لیکن 500 طلباء اور اساتذہ کی جان اُس نے اپنی ایک جان میں محفوظ کر کے لمحے بھر میں یہ فیصلہ کرلیا تھا کہ اگر میں شہید ہوگیا تو میرے ساتھی طلباء اور اساتذہ موت سے بے وجہ لڑنے سے بچ جائیں گے، صرف میں ہی تو جان سے جاؤں گا باقی سب تو بحفاظت اپنی ماؤں کے پاس پہنچ جائیں گے اور میں بھی کہاں مَروں گا، ہاں میرے دوست مجھے دیکھ نہیں سکیں گے، میرے اپنے مجھے پھر پا نہیں سکتے اور میرے اساتذہ مجھے محسوس نہیں کر پائیں گے مگر میں یہیں اِن کے پاس رہوں گا، رزاق سے رزق بھی پاؤں گا اور ابدی زندگی بھی، بس میرے پیاروں کو اِس کا شعور نہیں ہوگا۔

چنانچہ اُس نے 500 مسکراہٹوں کی حفاظت کی خاطر اور ماؤں کی مامتا کو بچانے کیلئے اُس پتھرائی آنکھوں اور بِلا قلب سانسیں لینے والے گوشت پوست کے ایک انسان نما وجود کا ہاتھ تھام لیا اور اُس سے پوچھا کہ تم کون ہو؟ وہ جو انسانی لہو کی مہک پر خون پینے آیا تھا اُس کے سوال پر ٹھٹک کر رہ گیا، ایک لمحے کے لئے اُس نے پتھریلی آنکھیں اُس کے روشن چہرے پر گاڑیں اور کچھ کہنے کی کوشش کی مگر دوسرے ہی لمحے وہ تڑپ کر آگے بھاگنے کے لئے جیسے ہی پورا زور لگانے کو تیار ہوا تو اُس بزدل کو بہادر مجاہد نے دبوچ لیا، وہ جانتا تھا کہ اُس نے برہنہ موت کو بھینچ رکھا ہے اور وہ کسی بھی وقت اپنے پنجے اُس کی گردن میں گاڑ کر خون پی جائے گی مگر جب پیشِ نظر خالق کے بندے اور بندوں کی زندگی ہو تو رب کی بندگی کے سوا کچھ نظر ہی نہیں آتا، دو مختلف سواریاں تیزی سے اُن دونوں کی جانب بڑھ رہی تھیں، کچھ سفید لباس میں ملبوس اور کچھ سیاہ لبادے اوڑھے اُن کی طرف آرہے تھے، لمحے کے ہزارویں حصے میں خدوخال واضح ہوگئے، پُرنور اور حسین چہرے والوں نے اعتزاز کو اپنی بانہوں میں تھاما اور بہشتی پھولوں کی مالا پر لٹا کر ہواؤں کے سپرد کر دیا جو سوار کو منزلِ مقصود پر پہنچانے کیلئے مدت سے بے تاب تھیں۔

دوسری جانب بھیانک چہرے، کنجی آنکھوں اور سیاہ لبادے والوں نے خودکش حملہ آور کو ایک ٹھوکر ماری کہ وجود چیتھڑے ہوگیا اور کہا کہ ’’دیکھ! بہشت وہ ہے جہاں اعتزاز جارہا ہے اور نیچے نظر ڈال! زمین کھسک رہی ہے اور جہنم کی گھاٹیاں واضح ہورہی ہیں، رب کے حکم کے منتظر ہیں کہ ایک ٹھوکر سے تجھے واصلِ دوزخ کریں‘‘ اور پھر وہاں تو ٹھوکر لگی لیکن منظر ایک دھماکے کا تھا، اُن تھمے لمحات کو دیکھنے والے جب چاہیں دیکھ سکتے ہیں مگر اِس کیلئے احادیث کی نگاہیں چاہیں، یقین کے ستون سے ٹیک لگا کر جب بھی ایمان کی بینا نگاہیں دوڑائیں گے مناظر خود بخود نظر آجائیں گے، اُس ایک لمحے میں بہت کچھ ہوا، میرے ’’پاکستان آئیڈل‘‘ کو معرفتِ الٰہی کے راستے مل گئے اور وہ ایک بندے کی تعمیری شان کے ساتھ رب سے ملاقات کیلئے چل پڑا اور شدّادی جنت کا طالب کسی اور کے فہم کا شکار بن کر اُن وادیوں میں پھینک دیا گیا جہاں پیپ، خون، آگ اور سڑے ہوئے گوشت کے سوا کچھ نہیں۔

اعتزاز! تم ہی ہیرو ہو، تمہاری ماں کو سلام جس نے تم جیسے سپوت کو جَنا، تمہارے باپ کو سلام کہ بے شک جسے ایک بہادر بیٹے کا باپ کہلائے جانے کا حق حاصل ہے، تمہارے خاندان کے ایک ایک فرد کو سلامِ عقیدت جنہوں نے تمہیں دیکھا، چھوا اور تمہارے بوسے لئے، مجھے تمہارے مسلک، عقیدے اور نظرئیے سے کوئی سَروکار نہیں مجھے تو صرف تمہارے جذبے سے پیار ہے، تم اپنے اسکول پر نہیں اپنے وطن پر قربان ہوئے، تم نے پاکستان کی نحیف آواز کو سن لیا تھا، تم نے ماں کی بے چارگی کو محسوس کرلیا تھا جبھی تو تم نے اُس کے آنچل پر کوئی آنچ تک نہ آنے دی، تم نے اِس معرکے میں اپنے آپ کو تو گنوایا لیکن جو کمایا ہے وہ گنوا کر ہی کمایا جاسکتا تھا، آج تم اَمر ہوگئے ہو، کوئی تمہیں ستارۂ امتیاز دینے کی بات کررہا ہے تو کوئی نشانِ جرأت۔ مگر تاریخ نے تمہیں از خود ایک نشان اور نشانی بنا دیا ہے، تم اپنے تئیں اعتزاز سے اعزاز بن گئے ہوں، اعتزاز تو یہاں اور بھی ہیں اور اُن پر اعتراض بھی کیا جا سکتا ہے لیکن تم وہ اعتزاز ہو جس نے اِس نام کو آج کوئی معنی دیئے ہیں۔

میرے پاس تمہارے لئے لفظوں کے پھول، اشکوں کے موتی اور جذبات کے ستاروں کے سوا کچھ اور نہیں، اب تو تم خود ستاروں کے ہم سفر ہو، اللہ نے تمہیں پرواز کا اعجاز عطا فرما دیا ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیاروں میں تمہارا شمار ہوگا، صحابہ کرام تمہیں محبت سے دیکھا کریں گے اور اہلِ بیت اطہار (ع) کو تمہاری شہادت پر ناز ہوگا، اُس ایک لمحے نے تمہیں کتنا بَلند کردیا، اُس ایک پَل نے تمہیں کہاں سے کہاں پہنچا دیا، تم چُنے ہوئے تھے پَر تمہیں معلوم نہ تھا اور جب معلوم ہوا تو ماں کو بتانے کا وقت نہ تھا۔ اعتزاز! تم جس کے تھے اُس نے تمہیں اپنے پاس بلا لیا ہے، شہادت اور رشک کے اعزاز کے ساتھ! تمہارے ایک فیصلے نے دنیا کو بتلا دیا ہے کہ پاکستان دہشت گردوں کی چراگاہ نہیں بلکہ بہادروں کی پناہ گاہ ہے جہاں انسانیت کے دشمنوں کیلئے کوئی جگہ نہیں ہے۔
خبر کا کوڈ : 340785
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

United States
جناب عامر لیاقت صاحب
جی ہاں آپ کو پاکیزه ہستیون کے مسلک اور مکتب سی کیوں سروکار ہوگا، جن کو الله تعالٰی نے ہر رجس سے پاک رکها ہے، جنکی مودت کو اجر رسالت قرار دیا ہے، جنکی اطاعت کو قرآن میں واجب قرار دیا ہے۔ آپکو سروکار ہو یا نہ ہو، ہمین تو رسول اکرم سے عشق کی بنا پر انکی اہل بیت سے بهی عشق ہے، اور انکے مکتب سے بهی، جو کہ اسلام ناب و خالص کے محافظ ہیں۔
ہماری پیشکش