1
0
Sunday 18 May 2014 11:31

بدقسمت عہد، حضرت اویس قرنیؓ کے مزار پر حملہ

بدقسمت عہد، حضرت اویس قرنیؓ کے مزار پر حملہ
تحریر: ڈاکٹر صفدر محمود

صدمے کی چادر اوڑھے میں سوچ رہا تھا کہ ہم کس قدر بدقسمت عہد میں زندہ ہیں۔ جس عہد میں اپنے نبیﷺ سے محبت و عقیدت کے تقاضے پورے نہ ہوں، وہ بدقسمت عہد ہی تو ہوتا ہے، کیونکہ ہمارا مسلمان ہونا اور ہماری مسلمانی بھی نبی کریمﷺ کی مرہون منت ہے، جن کے ذریعے اللہ سبحانہ ٗ تعالٰی کی آخری کتاب اور مکمل دین ہم تک پہنچا۔ ہر مسلمان جانتا ہے کہ حب رسولﷺ کے بغیر ایمان کی تکمیل نہیں ہوتی اور حب رسول اللہﷺ ہی کا تقاضہ ہے کہ حضورﷺ کے خاندان اور اہل بیت سے محبت بھی کی جائے اور ان کا نام یا ذکر بھی نہایت ادب سے کیا جائے۔
 
سچ یہ ہے کہ ہمارے مذہب، دین، حب الٰہی اور حب رسولﷺ میں ادب کو وہی اہمیت حاصل ہے جو عمارت میں بنیاد کو حاصل ہوتی ہے، اس لئے جب ادب کی حدود کو عبور کیا جائے تو ایمان کے ستون لرزنے لگتے ہیں۔ میں نے فقط بنیادی تقاضوں کے حوالے سے صرف ’’حب‘‘ کی بات کی ہے، کیونکہ عشق اس سے اگلی منزل ہے، جو صرف خوش قسمت لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔ حب رسولﷺ، حب الٰہی ایمان کا تقاضا ہے، لیکن عشق رسولﷺ اور عشق الٰہی وہ نایاب تحفے ہیں جو بڑی محنت، خضوع و خشوع، ذکر و اذکار اور عبادت سے نصیب ہوتے ہیں، کیونکہ اسی راہ پر چلنے سے ہی اپنے خالق اور اس کے حبیب ﷺ سے خصوصی تعلق کی راہیں استوار ہوتی ہیں، باطن منور ہوتا ہے، آنکھوں سے پردے ہٹتے ہیں اور کائنات کے راز قلب و نگاہ کی کائنات میں فاش ہوتے ہیں۔ عشق روحانی سفر کا نقطہ آغاز ہے اور عشق کی روشنی حاصل کئے بغیر انسان روحانی دنیا میں قدم نہیں رکھ سکتا۔ اسی لئے میں عشق کو ادب کی انتہا سمجھتا ہوں اور اگر ادب کے تقاضے ملحوظ خاطر نہ رہیں تو عشق کی منزلیں طے نہیں ہوتیں۔ 

غزوہ احد میں حضور نبی کریمﷺ کا دانت مبارک شہید ہوگیا۔ خبر سفر طے کرتے کرتے حضرت اویس قرنی کے کانوں تک پہنچی۔ آپ ؓ صدمے سے نڈھال ہوگئے اور عشق رسولﷺ کے جنون میں اپنے سارے دانت توڑ ڈالے کہ نہ جانے محبوب ﷺ کا کون سا دانت شہید ہوا ہے۔ چاہتے تو صرف ایک دانت توڑ کر عشق کے تقاضے پورے کر لیتے، لیکن حضرت اویس قرنی تو سرتاپا عاشق رسولﷺ تھے۔ ان کے رگ و پے میں عشق سمایا ہوا تھا اور اس عشق نے جذب کی ایسی کیفیت پیدا کر دی تھی، جس میں سوچ کا دامن ہاتھ سے چھوٹ جاتا ہے۔ یہ سود و زیاں کا معاملہ نہیں رہتا۔ عشق بلا خطر آتش نمرود میں کود پڑتا ہے۔ حضرت اویس قرنی نے خبر سنتے ہی بے اختیار ایک دانت توڑ ڈالا کہ حضور ﷺ کا دانت مبارک شہید ہوا تھا، پھر خیال آیا کہ نہ جانے کون سا اور پھر اسی لگن کی انتہا میں سارے دانت توڑ ڈالے۔ 

ذرا غور کیجئے، دانت توڑنا کتنا دردناک تکلیف دہ عمل ہوتا ہے۔ دانت میں معمولی درد ہو تو رات بھر نیند نہیں آتی، کھانا پینا مشکل ہوجاتا ہے لیکن خود دانت توڑنا۔ انسان تصور ہی سے خوفزدہ ہوجاتا ہے اور ہمت جواب دے جاتی ہے، لیکن عشق میں درد کی لذت ہی کچھ اور لذت ہوتی ہے، کیونکہ عشق ادب کے ساتھ ساتھ ایثار بھی مانگتا ہے۔ ایثار ادب ہی کا شاخسانہ ہے۔ عاشق الٰہی اور عاشق رسولﷺ کو اتنی ہوش یا شعور ہی کہاں ہوتا ہے کہ وہ درد کا حساب لگانے لگیں۔ ہوش اور شعور پر تو عشق کا غلبہ ہوتا ہے اور اس غلبے سے درد لذت بن جاتا ہے۔

عشق کی انتہا کے بغیر محبوب کے دل میں جگہ نہیں ملتی اور اگر یہ جگہ مل جائے تو پھر عاشق کے سامنے زمین و آسمان ہیچ ہوجاتے ہیں۔ یہ بھی اسی عشق کی انتہا کا کرشمہ تھا کہ حضور نبی کریمﷺ نے روئے مبارک حضرت عمرؓ اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی طرف کرکے فرمایا تھا کہ جب اس (حضرت اویس قرنیؓ) سے ملو تو میرا سلام کہنا اور اس سے کہنا کہ میری امت کے حق میں دعا کریں۔ اللہ اللہ۔ یہ مقام کسی اور کو نصیب نہ ہوسکا کہ حضورﷺ نے اپنی امت کے لئے دعا کرنے کا اعزاز بخشا ہو۔ حضور نبی کریمﷺ کو اپنی امت سے حد درجہ پیار تھا۔ اسی پیار کے صدقے میں وہ اپنی امت کی بخشش کے لئے فکرمند اور دعاگو رہتے تھے۔ اللہ سبحانہ ٗ تعالٰی سے امت کے لئے آسانیاں، رحمتیں اور برکتیں مانگتے رہتے تھے اور اسی پیار کا کرشمہ تھا کہ حضور نبی کریمﷺ نے حضرت اویس قرنی ؓکو امت کے لئے دعا کا پیغام بھیجا۔
 
دوستو! ذرا غور کرو کہ جس ہستی سے حضور نبی کریمﷺ خود دعا کے لئے کہیں، وہ کیا ہستی ہوگی؟ اس کا اللہ سبحانہ ٗ تعالٰی کے دربار میں کیا مقام ہوگا؟ اور پھر ہم کتنے بدقسمت عہد میں زندہ ہیں کہ اس عظیم ہستی کے مزار پر بموں سے حملہ کیا گیا اور عمارت کو نقصان پہنچایا گیا۔ اس سے ملحق مسجد، خانہ ٔ خدا..... کو بھی دھماکوں سے نقصان پہنچایا گیا اور مسجد کا ایک حصہ شہید ہوگیا۔ آپ نے بھی یہ خبر اخبارات میں پڑھی ہوگی اور آپ کو علم ہوگا کہ حضرت اویس قرنی کا مزار ملک شام میں واقع ہے۔ دہشت گردی نے ادب کی حدیں پامال کر دیں۔ کچھ عرصہ قبل حضرت زینت ؑ کا مزار مبارک دہشت گردی کا نشانہ بنا، پھر خبر آئی کہ حضرت خالدؓ بن ولید کے مزار پر حملہ ہوا اور ساتھ ہی خبر آئی کہ عظیم ترین عاشق رسول حضرت اویس قرنی کے مزار کا کچھ حصہ شہید کردیا گیا۔ جہاں نبی کریمﷺ کی نواسی، حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور حضرت فاطمہ زہرہ ؑ کی بیٹی اور تاریخ اسلام کی عظیم ہستی، جرأت، بہادری، صبر، رضائے الٰہی اور استقلال کی مثال حضرت زینب ؑ کا احترام ملحوظ خاطر نہ ہو، وہاں کسی اور کے احترام کی توقع عبث......!! اسی لئے میں کہتا ہوں کہ ہم بدقسمت عہد میں زندہ ہیں۔ یہ عہد بدقسمت ہے جس میں خانوادہ رسول ﷺ سے لے کر مجاہدین اور عاشقان رسولﷺ تک کے ادب کو لہولہان کیا جا رہا ہے۔

یادش بخیر.....میں احد کے میدان میں حضرت امیر حمزہؓ کے مزار کے قریب کھڑا تھا اور میرے ساتھ مدینہ منورہ کی ایک نیک شخصیت تھیں، حضور نبی کریمﷺ کو اپنے چچا حضرت امیر حمزہؓ شہید جنگ احد سے بہت پیار تھا۔ میرے ساتھ کھڑے شخص نے زمین پر اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ یہ وہ مقام ہے جہاں حضورﷺ کے دانت مبارک شہید ہوئے۔ کسی نے وہاں سرخ نشان لگا دیا تھا۔ کہنے لگے گذشتہ سال ہندوستان سے ایک روحانی شخصیت یہاں آئی تھی۔ انہوں نے مراقبہ کرکے کشف کے ذریعے یہ مقام دریافت کیا تھا۔ میں نے اس مقام کو ہاتھ سے بوسہ دیا اور پھر ہاتھ چوم لیا۔ اگلی بار وہ جگہ ڈھونڈنے کی سرتوڑ کوشش کی نہ ڈھونڈ سکا۔ میں اس قابل نہ تھا۔ آج تک دل میں قلق ہے کہ جھک کر زمین پر اس مقام کو بوسہ کیوں نہ دیا؟ ہاتھ لگا کر چومنا خام محبت اور سطحی عقیدت کی علامت ہے۔ جن کو عشق ہوتا ہے وہ سوچتے نہیں بے اختیار کر گزرتے ہیں۔ 

ذکر ہو رہا تھا حضرت اویس قرنیؓ کا..... کتنے خوش قسمت تھے آپ کہ انؓ سے حضور نبی کریمﷺ کو غائبانہ محبت تھی۔ حضرت سید علی ہجویریؒ المعروف داتا گنج بخش نے اپنی زندہ عظیم کتاب ’’کشف المحجوب‘‘ میں لکھا ہے کہ آپﷺ نے صحابہ ؓ سے فرمایا تھا کہ قرن میں اویس نامی ایک شخص ہے جسے قیامت کے روز قبیلہ ربیعہ اور مضر کی بھیڑوں کے بالوں کی تعداد کے برابر میری امت کے لوگوں کی شفاعت کا حق ہوگا۔ حضرت عمرؓ اپنے زمانہ ٔ خلافت میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ساتھ مکہ معظمہ آئے تو اپنے خطبہ میں فرمایا ’’اے اہل نجد! کھڑے ہوجائو۔‘‘ ان سے پوچھا تمہارے اندر کوئی قرن کا آدمی ہے؟ قرن کے لوگ آگے آئے تو اویسؓ کے بارے میں پوچھا۔ انہوں نے بتایا اویس نامی ایک دیوانہ ہے، جو جنگل میں اونٹوں کے پاس ہی رہتا ہے۔ غم اور خوشی کو بھی نہیں جانتا بلکہ جب لوگ ہنستے ہیں تو وہ روتا ہے اور جب لوگ روتے ہیں تو وہ ہنستا ہے۔
 
حضرت عمرؓ اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ ڈھونڈتے ڈھونڈتے ان کے پاس پہنچے تو حضرت اویس قرنی ؓنماز میں مصروف تھے۔ فارغ ہوئے تو ان بزرگوں کو سلام کیا اور اپنے ہاتھ اور پہلو کے وہ نشان دکھائے، جن کا ذکر حضورﷺ نے اپنے صحابہ ؓ سے کیا تھا، تاکہ وہ انہیں پہچان لیں۔ گویا حضرت اویس قرنی ؓکو علم تھا کہ حضور نبی کریم ﷺ نے اپنے صحابہؓ کو ان کی نشانیاں بتائی تھیں۔ ان عظیم حضرات نے حضرت اویس قرنی ؓکو حضور نبی کریمﷺ کا سلام اور پیغام دیا۔ ضروری باتیں ہوگئیں تو حضرت اویس قرنی ؓنے فرمایا۔ آپ حضرات کو تکلیف ہوئی، اب واپس جائو قیامت قریب آگئی ہے، اس وقت ہمیں وہ دیدار ہوگا جو کبھی منقطع نہیں ہوگا۔ اب میں قیامت کے راستہ کا توشہ تیار کرنے میں مشغول ہوتا ہوں۔
 
اہل قرن پر اس دیوانے کی حقیقت کا راز فاش ہوا تو وہ ان کی بہت قدر و منزلت کرنے لگے، جو حضرت اویس قرنی ؓکو گوارا نہ تھی۔ چنانچہ وہ اس جگہ کو چھوڑ کر کوفہ کی طرف نامعلوم مقام کی طرف چلے گئے۔ آخری دفعہ انہیں اس وقت دیکھا گیا جب جنگ صفین میں وہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی طرف سے میدان جہاد میں نکلے اور لڑتے ہوئے شہید ہوگئے۔ سچے عاشق رسولﷺ اور عاشق الٰہی کی زندگی ہی شہید کی زندگی ہوتی ہے کیونکہ سچا عشق یعنی عشق حقیقی شہادت کی رزم گاہ کا مسافر ہوتا ہے۔ دوستو! ان معصوم ہستیوں، مادرزاد اولیاء کرام اور عاشقان کو ہر لمحہ آخرت کے توشے کی فکر رہتی تھی اور رہتی ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ ہم آخرت کے توشے سے بے فکر اور بے نیاز ہو کر ذلیل و خوار ہو رہے ہیں۔
"روزنامہ جنگ"
خبر کا کوڈ : 383755
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
Dr Safdar Mahmood ka bahot shukria. awr jang akhbar k alawa islam times ka b dil ki gahrayoon sy shokria.ada kartay han.
ہماری پیشکش