0
Saturday 2 Aug 2014 10:53

اسرائیل کا انجام قریب ہے ۔ ۔ ۔!

اسرائیل کا انجام قریب ہے ۔ ۔ ۔!
تحریر: تصور حسین شہزاد

غزہ میں اسرائیل کی دہشت گردانہ کارروائیاں جاری ہیں۔ تین ہفتوں سے جاری بربریت میں بچوں اور خواتین سمیت 1400 سے زائد افراد شہید ہوچکے ہیں۔ آج بھی 25ویں روز فلسطینی سرزمین زوردار دھماکوں سے گونج رہی ہے۔ اسرائیلی فوج کے فضائی حملے اور ٹینکوں سے گولہ باری جاری ہے۔ جارح اسرائیل اپنی ہی جنگ بندی کی کئی بار خلاف ورزی کرچکا ہے۔ اسرائیل نے 16 ہزار اضافی فوج بھی طلب کرلی ہے، جس کے بعد سرحد پر اسرائیلی فوجیوں کی تعداد 86 ہزار ہوگئی ہے۔ اسرائیلی فوج حماس کی سرنگوں کو نشانہ بنانے کا اعلان کرچکی ہے۔ عید کے روز حملے میں ایک سو فلسطینی شہید ہوئے۔ امریکہ نے بھی دکھاوے کے لئے ہی سہی اس حملے کی مذمت کی۔ اقوام متحدہ کے ترجمان کرس گنیس کا کہنا تھا کہ یہ حملہ پوری دنیا کی تذلیل ہے۔  غزہ میں اسرائیلی بربریت کا آج 25 واں دن ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم نتین یاہو کی طرف سے طویل المدتی کارروائی کی دھمکی کے بعد غزہ پر زمین، سمندر اور فضا سے شدید بمباری کی گئی، صہیونی فوج کی زمینی اور فضائی بمباری کے نتیجہ میں شہید ہونے والے تو رہے ایک طرف سینکڑوں زخمی ہسپتالوں میں پڑے ہیں، جن میں معصوم اور شیر خوار بچوں کی تعداد زیادہ ہے، لیکن عالمی برادری اسرائیلی بربریت روکنے میں ناکام ہوچکی ہے۔

صہیونی فوج کی بربریت کی انتہا یہ ہے کہ اس نے غزہ میں اقوام متحدہ کے کیمپ کو بھی نشانہ بنا ڈالا ہے۔ جس کے نتیجہ میں بچوں سمیت 32 فلسطینی جام شہادت نوش کر گئے، جبکہ مختلف علاقوں میں اسرائیلی بربریت کے دوران 112 فلسطینی شہید اور متعدد زخمی ہوگئے۔ فلسطینی طبی ذرائع کے مطابق صہیونی فوج نے بمباری میں جبلیہ کے مہاجر کیمپ میں قائم اقوام متحدہ کے ایک سکول کو نشانہ بنایا جس میں 10 بچوں سمیت 20 افراد شہید اور درجنوں زخمی ہو گئے، تاہم بعد میں شہداء کی تعداد 35 سے بھی بڑھ گئی۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے عیدالفطر کے موقع پر جنگ بندی کی اپیل کے بعد اسرائیل کی جارحیت میں تھوڑی دیر خاموشی کے دوران فلسطینیوں نے اپنے پیاروں کو روتے ہوئے عید منائی۔ اقوام متحدہ کے بار بار خبردار کئے جانے کے باوجود اسرائیل نے اقوام متحدہ کے سکول کو نشانہ بنایا، اس سکول میں فلسطینی پناہ لئے ہوئے تھے۔ اس حملے میں 15 سے زائد افراد شہید ہوئے۔ اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی کے کمشنر نے اسرائیلی بربریت کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور ان کارروائیوں کو عالمی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے بھی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ شمالی غزہ میں اسرائیل طیاروں کے ذریعے پمفلٹ گرا رہے، جس میں فلسطینیوں کو گھر بار چھوڑنے کا کہا گیا ہے۔

اقوام متحدہ وسائل کی عدم دستیابی پر مظلوم فلسطینیوں کی مدد سے عاری ہے تو عرب حکمران اپنی مجبوریوں کے سبب اپنے فرض کی ادائیگی سے عاجز ہیں۔ حماس اس وقت تک اسرائیل کے ساتھ لڑنے کے لئے تیار ہے جب تک اسرائیل کی طرف سے گذشتہ 7 برسوں سے جاری غزہ کی اقتصادی ناکہ بندی ختم نہیں کی جاتی۔  یہ بات قابل ذکر ہے کہ حماس اور اسرائیل کے درمیان موجودہ فوجی تصادم زیادہ طویل ہوگیا ہے۔ 2012ء میں ہونے والے لڑائی 8 دن جاری رہی تھی جبکہ 2008ء میں ہونے والی جنگ 22 دن بعد ختم ہوگئی تھی۔ موجودہ لڑائی میں اسرائیل نے 10 روز تک غزہ پر مسلسل فضائی، بحری اور بری فوج کی بمباری کے بعد زمینی کارروائی شروع کی تھی۔ اقوام متحدہ کے امدادی ادارے ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی کے سربراہ کے مطابق اسرائیلی فوج کو 17 مرتبہ بتایا گیا تھا کہ جبلیہ کے سکول میں مہاجرین پناہ گزین ہیں۔ اسرائیلی فوج نے حماس پر شہریوں کو ڈھال بنانے کا الزام عائد کرتے ہوئے توپ خانے سے سکول کو نشانہ بنا ڈالا۔ اسرائیل کی ہر کارروائی کی بنیاد ہمیشہ سے جھوٹ ہی رہا ہے۔  والدین کے پہلو میں سوئے درجنوں بچے اس حملے میں شہید ہوگئے۔ اس حملے میں عورتوں اور بچوں سمیت متعدد شہید ہوئے، یہ واقعہ عالمی شرمندگی کا باعث بنا۔ اقوام متحدہ کے امدادی ادارے کے سربراہ کا کہنا ہے کہ ہم وثوق سے کہہ سکتے ہیں اس حملے کا ذمہ دار اسرائیل ہے اور اس نے جھوٹ کو بنیاد بنا کر حملہ کیا۔ سکول کے ملبے سے بموں کے ٹکڑے اور دیگر شواہد جمع کئے ہیں، جو اسرائیلی حملے کی تصدیق کرتے ہیں۔ دوسری جانب ڈھٹائی کی انتہا ہے کہ پہلے اس حملے کی ذمہ داری اسرائیل نے قبول کی بعد میں اس کو حماس کے کھاتے میں ڈال دیا کہ یہ حملہ حماس کو نشانہ بنانے کے لئے کیا ہے، کیونکہ حماس ایسی جگہوں کو راکٹ داغنے کے لئے استعمال کرتی ہے۔

گذشتہ ہفتے بھی اقوام متحدہ کے ایک سکول کو نشانہ بنایا گیا تھا جس میں 15 بچے شہید ہوگئے تھے۔ اسرائیل کی بمباری میں سکول، مساجد، رہائشی عمارتیں حتیٰ کہ ہسپتال بھی نشانہ بنے ہیں۔ عید کے روز اسرائیل نے مظالم کی نئی داستاں رقم کرکے ثابت کر دیا کہ ان کا وزیراعظم نیتن یاہو کوئی انسان نہیں بلکہ درندہ ہے جو بے گناہ اور معصوم لوگوں کے لہو سے دھرتی کو رنگین کئے جا رہا ہے، اور دنیا ورطہ حیرت سے اسے دیکھ رہی ہے مگر اس کا مقابلہ کرنے یا اس کا ہاتھ روکنے میں متامل ہے، جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ عالمی ضمیر مردہ ہوچکا ہے۔ امریکہ کی انسانی حقوق کے لئے لڑنے کی ساری باتیں بے معنی ہوچکی ہیں، وہ اسرائیل کا طفیلی بن کر رہ گیا ہے۔ اس میں اتنی جرات نہیں کہ وہ طاقت کے بل بوتے پر اسرائیلی وزیراعظم کا ہاتھ روک سکے۔ یہ سنگین صورت حال مسلمان ممالک کے لئے نہایت سبکی کا باعث ہے۔ مگر افسوس کہ مسلم ممالک کے حکمران مصلحتوں اور منافرت کا شکار ہیں۔ یہ سب مظالم دیکھ کر بھی چپ ہیں، ان میں کسی میں اتنی ہمت نہیں کہ وہ آگے بڑھ کر ظالم کا ہاتھ روک لے۔ شائد یہ ذوالفقار علی بھٹو اور شاہ فیصل کی مثالوں سے خوف زدہ ہیں، جنہوں نے اسرائیل کے خلاف فلسطینیوں کی مدد کی لیکن نتیجتاً اپنی جانوں سے گئے۔ موجودہ مسلم حکمران اپنے انجام کے خوف سے آنکھیں موندے بیٹھے ہیں، مگر یہ تاریخ کا سبق ہے کہ
 جو چپ رہے گی زبان خنجر
 لہو پکارے گا آستین کا

اسرائیلی مظالم اپنی انتہا کو پہنچ چکے ہیں، اب وہ اللہ کی پکڑ میں آنے والا ہے، اس کا منطقی انجام دنیا بہت جلد دیکھے گی، کیونکہ جہاں اکثریت مسلم ممالک خاموش ہیں، وہاں ایران اور ترکی اپنی غیرت کا مظاہرہ کر رہے ہیں، اور غیرت مند بزدل نہیں ہوتے۔ اسرائیل بہت جلد اپنے انجام سے دوچار ہونے کو ہے۔
خبر کا کوڈ : 402529
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش