0
Tuesday 5 Aug 2014 21:01
مرے سوا سر مقتل مقام کس کا ہے

5 اگست کا زخم، جدائی کے 26 سال

5 اگست کا زخم، جدائی کے 26 سال
تحریر: ارشاد حسین ناصر
 
4 اگست 1988ء جمعرات کا دن تھا۔ قائد ملت جعفریہ علامہ سید عارف حسین الحسینی پاراچنار سے اپنی زندگی (ظاہری) کا آخری دورہ کر کے پشاور میں واقع جی ٹی روڈ پر چغل پورہ کے علاقہ میں اپنے مدرسہ جامعۃ المعارف الاسلامیہ میں پہنچے تھے۔ پاراچنار میں ان کی مصروفیات اور ملاقاتیں آج بھی لوگوں کو یاد ہیں اور وہ اکثر لوگ ابھی زندہ ہیں جو اس آخری دورہ میں آپ کیساتھ رہے، آپ کی زیارت کی یا آپ کے خطابات سے مستفید ہوئے، ان کے لئے یہ آخری زیارت، ملاقات یا تقریر سنہری یادوں اور قیمتی خزانے کی مانند ہیں۔ مجھے شہید کے اہل خانہ میں سے کئی لوگوں کے انٹرویوز کرنے کا موقعہ ملا، ان کے بہنوئی پاراچنار شہر سے ملحقہ گاؤں ملانہ میں رہتے تھے۔ شہید قائد کا اپنی بہن سے بہت پیار تھا، اسی بہن نے ایک دن پہلے خواب بھی دیکھا تھا اور اپنے ماں جائے کو پشاور جانے سے روکنے کی بھرپور کوشش بھی کی تھی، مگر شہید نے چونکہ طے کر لیا تھا ور اپنے اگلے پروگرام سے مکمل آگاہ بھی تھے، اس لئے اپنی منزل پانے کیلئے پشاور چلے آئے تھے۔ 

پشاور میں ان کا انتظار کیا جا رہا تھا، قاتلوں کا گروہ بار بار ان کی خبر لے رہا تھا کہ پہنچے ہیں یا نہیں۔ کسی کو خبر نہیں تھی کہ یہ مدرسہ جسے شہید قائد کے ارمانوں کا مرکز کہا جاسکتا ہے اب ایک مقتل بننے جا رہا تھا، ایسا مقتل جسے دیکھ کر ہمیشہ ان کے عاشقان تڑپتے رہیں گے، ان کی یادوں سے معمور اس عظیم مرکز دینی کو شہید کے نام سے پکارتے رہیں گے اور جب بھی وہاں جائیں گے تو شہید کی یادوں اور شہادت کی داستان کی فلم ان کی آنکھوں کے سامنے گھوم جایا کرے گی۔ شہید قائد نے اپنی زندگی کی آخری رات جو شب جمعہ تھی، عبادت و ریاضت اور معاملات کو نمٹاتے گذاری۔ ان دنوں پاکستان پر بدترین فوجی آمر جو شیعت کا دشمن اور پاکستان میں تکفیریت کا بانی کہا جاسکتا ہے، مطلق العنان حکمران تھا۔ جنرل ضیاءالحق نے ان دنوں شمالی علاقہ جات (گلگت بلتستان) جہاں اہل تشیع کی اکثریت آباد ہے، پر افغان مہاجرین کے ذریعہ لشکر کشی کروائی تھی۔ ہزاروں کی تعداد میں صوبہ سرحد کے تکفیریوں اور افغان مہاجرین کو جدید اسلحہ سے لیس کرکے انہیں فوجی حصار و حفاظت میں سینکڑوں کلو میٹر کا فاصلہ طے کرکے شمالی علاقہ جات میں امن و سکون کی زندگی گذارنے والے بے دست و پا عوام پر چڑھائی کروائی گئی تھی۔

اس لڑائی میں کئی دیہات برباد کر دیئے گئے تھے، کھڑی فصلوں کو جلا دیا گیا تھا، جانوروں کو بھی نہیں بخشا گیا تھا، وحشت و درندگی کی شرمناک داستان رقم کی گئی تھی، اس لشکر کشی کے متاثرین کی مالی مدد اور دیگر امور کیلئے شہید بھاگ دوڑ کر رہے تھے۔ ان کیلئے امداد اکٹھی کر رہے تھے، ان کی بحالی کا ساماں کرنا چاہتے تھے، ان کے دکھوں میں شریک ہونا چاہتے تھے، ان مظلوموں و محکوموں کی دلجوئی کرنا چاہتے تھے، مگر ان کے پاس وقت کی دولت نہیں تھی، وقت ان کے ہاتھ سے نکلا جا رہا تھا، شائد ان کے پاس چند گھنٹے بچ رہے تھے، وہ بھی شب جمعہ کے جس میں شہید کی عادت تھی کہ وہ دعائے کمیل کی تلاوت کرتے تھے، اپنے رب سے راز و نیاز کرتے تھے، اپنے گناہوں اور غلطیوں کی معافی مانگتے تھے، اپنے لئے اس شب میں خصوصی طور پر شہادت طلب کرتے تھے۔ پارچنار سے آکر انہوں نے اپنے پاس موجود جمع کی گئی امدای رقم اپنے محافظ ضامن حسین کو دی کہ وہ قصہ خوانی میں واقع پاک ہوٹل میں مینیجر کو دے آئے، جس نے اسے گلگت پہنچانا تھا۔

ضامن رقم کی گنتی کرکے پاک ہوٹل چلا گیا، شہید قائد عبادت اور دعا میں مصروف ہوگئے، بس یہ سلسلہ چلتا رہا، وقت کی رفتار تیزی سے ملت کی یتیمی کی طرف بڑھ رہی تھی، اگر کسی کو پتہ ہوتا کہ کچھ ہی دیر میں ملت یتیم ہونے والی ہے تو اپنی قربانی دے کر بھی اسے روکنے کی کوشش کرتا، مگر اس درسگاہ کو مقتل بننا تھا اور ہمیں شہید کی نوحہ خوانی کرنا تھی۔ شہید نے بھی اپنے لئے اسی مقام کو پسند فرمایا تھا، نہ صرف پسند فرمایا تھا بلکہ اس کے حصول کی عملی کوششیں اس طرح کی تھیں کہ صرف ساڑھے چار سال کے قلیل عرصہ میں اندرون و بیرون ممالک میں پاکستانی شیعہ قوم کا وقار اور مقام اس سطح پر لے گئے تھے، جس کیلئے ہم ترستے تھے اور اگر کسی کو ناگوار نہ گذرے تو آج بھی ہم اس مقام کو ترستے ہیں۔ رات بھر عبادت، نماز و دعا میں مشغول رہنے کے بعد صبح کی اذان سے پہلے شہید ایک بار پھر وضو خانے میں تشریف لے جاتے ہیں اور تھوڑی ہی دیر میں واپس سیڑھیوں کی طرف پلٹتے ہیں۔
 
اسی اثناء میں قاتل جسے وقت کا ابن ملجم کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا سامنے آتا ہے، اسے نشاندہی کی جاتی ہے کہ یہی ہے وہ ملاں۔۔۔بس پھر کیا ۔۔۔ جمیل اللہ جو پستول سے فائرنگ کا ماہر مانا جاتا تھا اور اس کا انتخاب اسی بناء پر قاتلوں کے گروہ کے دیگر اراکین نے کیا تھا اور اس کی پریکٹس بھی کی گئی تھی۔۔ صرف ایک گولی سے ملت کو یتیم کر دیا، شہید کے سینے میں پیوست ہونے والے فائر سے جمعہ کی دم فجر پشار کی سرزمین مقتل میں بدل جاتی ہے۔۔۔۔ ایک اور کربلا بن جاتی ہے جہان فرزندِ ابا عبداللہ الحسین کو خون میں نہلا دیا جاتا ہے ۔۔۔۔
ایک بار چہار سو شور برپا ہوتا ہے۔۔۔۔
پھر قاتل قاتل کی صدائیں بلند ہوتی ہیں ۔۔۔۔
پھر آنسوؤں کے سیلاب امڈ آتے ہیں، پھر سسکیوں کا سماں بندھ جاتا ہے۔۔۔
پھر ماتم و نوحہ اور سینہ کوبی و سیاہ پوشی کا موسم لوٹ آتا ہے۔۔۔
پھر فزت و رب الکعبہ کی آواز سنائی جاتی ہے۔۔۔۔
پھر ملت کو نئے امتحانوں کا سلسلہ درپیش ہوتا ہے۔۔۔

مقتل میں بہنے والے شہید قائد کے سرخ خون کو ان کے روحانی فرزند انقلاب کی نوید سمجھتے ہیں اور یہ صدا آتی ہے
حسینی تیرا سرخ خون نوید انقلاب ہے
حسینی تیرے مقصد کو منزل تک پہنچائیں گے۔۔۔

کئی قسم کے شعار ہیں جن سے نوجوانوں کو حوصلہ دیا جا رہا ہے۔۔۔ کئی قسم کی باتیں ہیں جنہیں مایوس اور زخمی دلوں کو روشن امید میں بدلنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ پانچ اگست کو ان کی شہادت کے چھبیس سال مکمل ہو رہے ہیں مگر حالت یہ ہے کہ۔۔
فصیل جسم پہ تازہ لہو کے چھینٹے ہیں 
حدود وقت سے آگے نکل گیا ہے کوئی

وقت کا آمر جو آپ کے قتل کی سازش میں بھی شریک تھا، پشاور میں آپ کی نماز جنازہ میں اپنی تمام ٹیم جو اس قتل میں بھی حصہ دار تھی، کیساتھ شامل ہو اتھا، مگر حالت کچھ یوں تھی کہ۔۔
وہ قتل کرکے مجھے ہر کسی سے پوچھتے ہیں 
یہ کام کس نے کیا ہے یہ کام کس کا ہے


جنرل ضیاء الحق کو شائد اسکا اندازہ نہ تھا کہ جس ہستی کے بے گناہ قتل میں وہ شریک ہونے جا رہا ہے، وہ خدا کا برگزیدہ ہے اور امام خمینی کے بقول فرزند راستین سیدالشہداء ہے، ایسی ہستی کے خون میں ہاتھ رنگنے اسے بہت مہنگے پڑے اور ملک پر مسلط گیارہ سال کی نحوست کیساتھ ہی جنرل ضیاء بارہویں روز ہی اپنے منطقی انجام کو اس حال میں پہنچا کہ اس کی ہڈی ملی نا پسلی۔۔۔ اگر ملی تو ایک عینک جسے اس کا جسد قرار دیکر فیصل مسجد کے سامنے دفنا دیا گیا،جبکہ شہید قائد کو لاکھوں عاشقان و ماتمیان کی موجودگی میں ان کے آبائی گاؤں پیواڑ میں دفن کر دیا گیا۔ اس سے پہلے ان کے جسد مبارک کو ان کے مدرسہ میں آخری دیدار کیلئے رکھا جاتا ہے، اسی دوران ان کے حقیقی وارث رہبر کبیر امام خمینی کے نمائندگان خصوصی آیت اللہ جنتی کی قیادت میں خصوصی طیارہ میں تشریف لائے تو مدرسہ میں میت والے کمرے میں ان کی آمد کیساتھ ہی شہید قائد نے ان کا استقبال خود کیا، موقعہ پر موجود کئی برادران جو اب بھی زندہ ہیں، اس بات کے گواہ ہیں کہ جیسے ہی امام کے نمائندے کمرے میں داخل ہوئے تو شہید نے اپنے چہرے کا رخ ان کی طرف کیا اور اسی دوران زلزلہ برپا ہوا، جسے پورے پاکستان میں محسوس کیا گیا، کیمرہ مین کے ہاتھ سے کیمرہ چھوٹ گیا، یہ بھی عجیب سماں تھا، جسے سفیر نور میں بھی رقم کیا گیا ہے اور اس کے گواہوں نے مجھے بھی انٹرویوز میں بتایا تھا۔

شہید قائد کی روحانی و معنوی شخصیت اور اعلٰی مقام سے ہر ایک آگاہ نہیں تھا، ان کی شہادت کے بعد یہ راز کھلے اور جس پر کھلے وہ ان کا پکا مرید ہوگیا، ان کا معتقد ہوگیا ان کے مزار کا مجاور ہوگیا اور ہر سال 5 اگست کو پیواڑ میں حاضری دینے لگا۔ جس نے ان کا واسطہ دیا اور مرادیں طلب کیں، اس کی مرادیں پوری ہوگئیں، خداوند کریم سے دعا ہے کہ وہ ملت کو ان کا صحیح نعم البدل عطا فرمائے۔(آمین)
خصوصی گذارش! قوم کی قیادت اور رہبری کے تمام دعویداروں کے حامیان و طرفداران سے گذارش ہے کہ اس موقعہ پر وہ قوم کو آگاہ کریں کہ شہید کے کیس کی کیا پوزیشن ہے اور وہ اس کیلئے کیا کر رہے ہیں۔؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
خبر کا کوڈ : 403236
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش