2
0
Sunday 21 Sep 2014 14:45

آہ معمار قوم کا قتل!

آہ معمار قوم کا قتل!
تحریر: فرحت حسین
ایم فل اسکالر


جنگ ختم ہوگئی اور جنگ میں موجود مال غنیمت کو لوگوں نے اکٹھا کرنا شروع کر دیا ۔جنگ میں جیت مسلمانوں کی ہوئی تھی اس وجہ سے اس غزوہ کے قیدی جو غیر مسلم تھے حضور اکرم ﷺ کے سامنے لائے گئے اور آپ ﷺ نے ان قیدوں کی دیکھ بھال کرنے سے پہلے ان کے حالات کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ ان قیدوں میں  ایسے اشخاص بھی موجود ہے جو مسلمانوں کے بچوں کو تعلیم کی دولت سے آراستہ کر سکتے ہیں۔ آپ ﷺ نے حکم فرمایا کہ ان قیدیوں کے لیے تعلیم دینے کے عوض آزادی دی جاسکتی ہے اور آپ ﷺ نے ایسا عملی طور پر کر کے دکھایا۔ یہ واقعہ بانی اسلام کا ہے جس میں آپ ﷺ نے مسلمانوں کی تعلیم پر اتنا زور دیا اور مسلمانوں کے گویا قاتلوں کو تعلیم دینے کے عوض نہ معاف کیا بلکہ آپ نے ان کو آزادی کا پراوانہ بھی عطا کر دیا۔ اتنے بڑے مجرم ہونے کے باوجود  تعلیم دینے کی مصلحت کو زیادہ اہمیت دی گئی جبکہ ایک طرف آپ کے رحم و کرم کی مثال تو دوسری طرف تعلیم کی قدر و قیمت کو اس انداز میں پیش کیا گویا دنیا حیران رہ گئی۔ تعلیم صرف اہم نہیں بلکہ تعلیم دینے والا استاد اور معلم اس سے بھی اہم تر ہے۔ اس استاد کو معمار قوم کہا گہا۔ یعنی قوم کی کی باگ ڈور اس کے ہاتھ ہوتی ہے۔ قوم اگر ترقی کرنا چاہتی ہے تو استاد کے حقوق اور فرائض منصبی کا خیال کرے۔ اس کے ساتھ استاد بھی اپنی ذمہ داری ادا کرے تو قوم ترقی کے زینے طے کرتی جائے گئی
یوں یہ سفر ترقی قوم کے سرمایہ کو منفعت بخش بناتا جائے گا۔

استاد قوم کو سنوارتا ہے، استاد قوم کو بھلائی کے راستے پر لے کر جاتا ہے، استاد قوم کو دنیا بھر میں متعارف کرواتا ہے۔ استاد قوم کی معاشی ذمہ داریوں کا احساس دلاتا ہے۔ معاشرے میں سماجی و معاشی مسائل حل کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ استاد قوم کو فکر کی بلندیوں پر لےجاتا ہے اور بلندیوں تک لےجا کر معراج کرواتا ہے بلندیوں میں پرواز کرواتا ہے۔ جس زمانے میں جمود ٹوٹتا ہے لوگ خوشحال ہوتے معاشرہ بہتر سے بہتر تر کی طرف گامزن ہو جاتا ہے۔ دنیا بھر میں بالعموم اور ترقی یافتہ ممالک میں بالخصوص استاد کا احترام کیا جاتا ہے اور لوگ اسی وجہ سے ترقی کی منزل کی طرف رواں دواں ہیں لیکن آج بانی اسلام کے دیئے ہوئے قوانیں اور قواعد کو بھلا دیا گیا صرف نام کے مسلمان اور دعوی، باقی اور کچھ نہیں آپ ﷺ کی تعلیمات کے مطابق عمل کی بجائے آپ ﷺ کی تعلیمات کے برعکس عمل کیا یعنی بانی اسلام نے مجرم استاد کو معاف کر دیا تو ہم نے بےگناہ استاد کو معاف نہیں کیا۔ آپ ﷺ نے مسلمانوں
کے قاتل کو تعلیم کے عوض رہائی دی ہم نے تعلیم کے  عوض استاد کو شہید کر دیا، استاد کو احترام اور مقام دینے کی بجائے ان کو شہید کا مقام دے دیا۔ جب استاد کو شہید کر دیا تو قوم بھی شھادت کی دہلیز پر جا کھڑی ہوئی۔ پاکستان میں حق اور سچ کی بات پر تو دھماکے اور دہشت گردی کی دھمکی دی جاتی ہے مگر کرپٹ و کرپشن اور دہشت پھیلانے والوں کو آزادی اور سرعام پھرنے کی اجازت دی جاتی ہے۔ یہ کون سی مملکت خداداد کا قانون ہے اور دہشت گردی کرنے والوں کو کوئی نہیں پوچھتا۔

گذشتہ کچھ عرصہ سے پاکستان بھر میں اساتذہ کے سرعام قتل سے دل خون کے آنسو  روتا ہے۔ قابل غور بات یہ ہے دہشت گردوں نے تعلیم دینے والے طبقے کو نشانہ بنایا اور بنا رہے ہیں اس سے پتہ چلتا ہے کہ قوم کو ترقی کی طرف لے جانے والے معمار کا قتل گویا قوم کا قتل ہے، نہ فقط قوم بلکہ فکر اور شعور کا قتل ہے کیوںکہ  ہر ناحق اٹھنے والی آواز کا راستہ استاد روکتا ہے یا روکنے کی کوشش کرتا ہے یا روکنے کا شعور دیتا ہے۔ یہ صرف افراد اور اجسام کا قتل نہ تصور کیا جائے یہ سوچ و فکر کے قتل سمجھا جائے۔ ویسے بھی کوئی عقل مند آدمی جو عمارت بنانا چاہتا ہو وہ عمارت بنانے والے معمار کو قتل کر دے تو کیا عمارت وجود میں آ جائے گی؟ یقیناً نہیں، تو ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ آج دنیا بھر اور ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک سے جدا ہم نے اپنا رویہ کیوں اختیار کر لیا ہے؟ مقام تعجب ہے کہ کچھ دارالعلوم اور مدرسے علم کی روشنی کرنے والوں کا راستہ روکنے کی بات کرتے ہیں، یہ مدارس اور دارالعلوم ، علم کے نام پر موجود ہیں لیکن علم کے خلاف کام کر رہے ہیں یا اپنے علم پر اندھا اعتماد کر کے ہر ایک کو جاہل اور اپنے آپ کو علم کا مینار تصور کر بیٹھے ہیں جو کہ بہت بڑی جہالت ہے۔ اس سے زیادہ ان اداروں سے سوال ہے جو یہ دعوی کرتےہیں کہ ہم نے یہ کیا اور وہ کیا۔ کہاں ہیں وہ اساتذہ کی تنظیمیں؟ جو اساتذہ کے حقوق کی بات کرتی تھیں کہاں گئی وہ انسانی حقوق کی تتظیمیں جو انسانی حقوق کی بات کرتیں تھیں؟ کیا ان کا کام صرف پیسہ لے کر آواز بلند کرنا اور صرف پیسے کے ساتھ شور مچانا ہے؟ کیا ان کی ذمہ داری یہ ہی ہے؟ ایک ڈھول بجانے والا بھی یہ کام کر سکتا ہے اس کو پیسے دیئے جائیں تو وہ ساری دنیا کو اپنی طرف متوجہ کر لے گا اور باقی لوگوں کی بات سنی ہی نہیں جائے گی، بس آخر میں  علامہ اقبال کی روح سے معذرت کرتے ہوئے کہتا ہوں کہ،
نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے پاکستان والو
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں
خبر کا کوڈ : 410845
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

رسول پاک ﷺ کا فرمان ہے کہ استاد روحانی باپ ہوتا ہے، اسلام میں باپ کا بہت بلند مقام ہے، جس قوم میں باپ کی عزت، اہمیت اور مقام و مرتبے کا علم نہ ہو وہ مردہ قوم ہے، جامعہ کراچی کے استاد کا قتل انسانیت کے چہرے پر سیاہ داغ ہے۔ جناب فرحت بھائی اللہ آپکو سلامت رکھے آپ نے استاد کا مقام اسلامی تعلیمات اور عصر حاضر کے تناظر میں پیش کیا ہے۔
والسلام
Pakistan
اللہ آپ کی قلم میں اور زور دے۔
ہماری پیشکش