0
Thursday 4 Nov 2010 10:31

بغداد میں بے سابقہ بم دھماکے، سعودی عرب کی جانب سے نوری المالکی کو بلیک میل کرنے کی کوشش

بغداد میں بے سابقہ بم دھماکے، سعودی عرب کی جانب سے نوری المالکی کو بلیک میل کرنے کی کوشش
اسلام ٹائمز[مانیٹرنگ ڈیسک]- لبنان کے ایک روزنامے "الاخبار" میں معروف لبنانی مصنف ایلی شلھوب نے ایک مضمون شائع کیا ہے جسکا عنوان یہ ہے:
"بغداد جل رہا ہے: ریاض سیاسی معاملات کی قومی سلامتی کے ساتھ سودابازی کرتا ہے"۔
مصنف اس مضمون میں لکھتا ہے: نوری المالکی صبح سعودی عرب کی جانب سے کی گئی پیشکش کو مسترد کرتے ہیں اور اسی رات بغداد کے مختلف محلے بم دھماکوں کی لپیٹ میں آ جاتے ہیں، سینکڑوں افراد جاں بحق اور زخمی ہو جاتے ہیں۔ یہ اتفاقات ایسے وقت رخ دیتے ہیں جب عراق میں نئی حکومت کی تشکیل کا بحران اپنے حل کے آخری مراحل سے گزر رہا ہے اور کئی سوالات کے جنم لینے کا باعث بن جاتے ہیں، ان سینکڑوں عراقی باشندوں کا خون بہانے کا اصلی ذمہ دار کون ہے؟
اس مضمون میں مزید کہا گیا ہے: بغداد میں گذشتہ رات کے بم دھماکے 76 بیگناہ افراد کے جاں بحق ہونے اور 325 افراد کے زخمی ہونے کا باعث بنے، عراق میں دہشت گردانہ اقدامات کی شدت میں اضافہ کئی سوالات کو جنم دیتا ہے، ان میں سے ایک سوال ان بم دھماکوں کے ٹائم فریم سے مربوط ہے، قومی اتحاد اور کردستان اتحاد کا نوری مالکی کی زبانی سعودی عرب کی دعوت کو مسترد کرنے کچھ ہی گھنٹے بعد ان دہشت گردانہ اقدامات کا انجام پانا کیا معنا رکھتا ہے؟۔ دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اپنی نوعیت کے منفرد بم حملے جو عراق کی تاریخ میں بے سابقہ ہیں کس طرح بغیر کسی سیکورٹی وارننگ کے وقوع پذیر ہو گئے؟۔
ایلی شلھوب لکھتا ہے کہ ان بم حملوں کی نوعیت ظاہر کرتی ہے کہ انکے پیچھے انتہائی ماہر اور ٹرینڈ افراد کا ہاتھ ہے جنکا مقصد عراقی حکومت کے سیکورٹی پلان کو ناکام بنانا ہے، وہ سیکورٹی پلان جس کیلئے کئی سالوں سے ہزاروں سیکورٹی اہلکار سرگرم عمل رہے ہیں۔ دوسری طرف ان بم حملوں کا مقصد عراق کی قومی سلامتی ہے جس پر وزیراعظم نوری مالکی نے اپنی الیکشن مہم میں خاصا زور دیا تھا۔ ان حملوں سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ انکے پشت پردہ کارفرما عوامل عراق کی قومی سلامتی کو شدید خطرات سے دوچار کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔
مصنف لکھتا ہے کہ عراقی وزیراعظم نوری المالکی کے قریبی حلقے ان بم دھماکوں کو سعودی عرب کی جانب سے ایک واضح پیغام تلقی کرتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ سعودی عرب نے ان دہشت گردانہ اقدامات کے ذریعے یہ پیغام دیا ہے کہ "آپ لوگوں نے میری پیشکش کو مسترد کیا ہے، لیکن آپ لوگ جان لیں کہ میرے پاس سیاسی کھیل جیتنے کے اور بھی راستے ہیں جنکو میں ضرورت پڑنے پر استعمال کر سکتا ہوں اور آپ لوگوں کیلئے حقیقی خطرے فراہم کر سکتا ہوں"۔
ایلی شلھوب نوری مالکی کے قریبی افراد کی زبانی لکھتا ہے: سعودی چاہتے ہیں کہ ہر قیمت پر عراق میں واپس آئیں، جب انہوں نے نئی حکومت کی تشکیل کیلئے عراقی سیاسی جماعتوں کو سعودی عرب میں اجلاس کرنے کی دعوت دی تو انکا مقصد عراق میں ایک کامیاب حکومت کی تشکیل نہ تھا۔ سعودی اس سے قبل نوری مالکی کی سربراہی میں بننے والی کسی بھی حکومت کی مخالفت کا اظہار کر چکے تھے لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ نوری مالکی کو حکومت میں آنے سے روک نہیں سکتے تو ایسی حکومت کی پیشکش کی جس میں نوری مالکی کو مرکزی حیثیت حاصل نہ ہو۔ جب انہیں اس مقصد میں بھی شکست کا سامنا کرنا پڑا تو وہ ہوا جسے نہیں ہونا چاہئے تھا۔ نوری المالکی یہ وضاحت بھی کر چکے تھے کہ انہوں نے یہ پیشکش اس لئے مسترد نہیں کی کہ وہ سعودی عرب کی جانب سے ہے بلکہ وہ عراق کے باہر سے آنے والے ہر راہ حل کے مخالف ہیں۔ انہوں نے مزید کہا تھا کہ عراقی سیاستدان اس بات کو ترجیح دیتے ہیں کہ ملک کے اندر سے کوئی راہ حل سامنے آئے۔
مصنف عراق کے باخبر ذرائع کی زبانی لکھتا ہے کہ عراقی سیکورٹی فورسز میں ایسے افراد بھی موجود ہیں جو بکے ہوئے ہیں اور پیسے کے بدلے ہر کام کرنے کو تیار ہیں۔ لہذا وہ بم والی گاڑیوں کو پولیس چوکیوں سے گزر جانے کی اجازت دے دیتے ہیں۔ بعض اوقات وزیر داخلہ بھی نوری مالکی کی بات سننے سے انکار کر دیتا ہے جسکی ایک مثال گذشتہ ستمبر میں وزیراعظم کی جانب سے جرنل عبدالکریم خلف کی برکناری پر مبنی جاری کردہ حکم ہے جو اب تک اجراء نہیں کیا گیا۔ ایسے حالات میں ملک میں امن و امان کیسے قائم کیا جا سکتا ہے؟۔
ایلی شلھوب صراحت کے ساتھ لکھتا ہے کہ عراق کے باخبر ذرائع دعوا کرتے ہیں کہ سعودی عرب قومی سلامتی کے بدلے سیاسی امور پر سودابازی کرنے کے درپے ہے۔
خبر کا کوڈ : 42748
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش