0
Friday 26 Nov 2010 19:15

سعودی عرب،اقتدار کی رسہ کشی اور سیاسی اصلاحات

سعودی عرب،اقتدار کی رسہ کشی اور سیاسی اصلاحات
تحریر:آر اے سید
سعودی عرب کے بادشاہ کے دفتر کی جانب سے ایک بیان جاری ہوا ہے جس میں شاہ عبداللہ کی خرابی صحت کی خبر دی گئي ہے۔ سعودی عرب کے چھیاسی سالہ بادشاہ کی خرابی صحت اس ملک کے مستقبل کے بارے میں سوالات اٹھاۓ جانے کا باعث بنی ہے۔اور یہ ایسی حالت میں ہے کہ جب سعودی عرب کے ولیعہد شاہزادہ سلطان بن عبدالعزیز بھی کینسر کے مرض میں مبتلاء ہیں۔یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب میں اقتدار کے حصول کی رسہ کشی میں شدت آگئي ہے۔
سعودی عرب چونکہ تیل برآمد کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے اور مشرق وسطی کے مسائل میں اہم کردار کا حامل ہے،اس لئے اس ملک میں اقتدار کی منتقلی اور سیاسی عمل کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔اس اہمیت کے پیش نظر امریکی خفیہ ایجنسیوں کے حمایت یافتہ بندر بن سلطان جیسے افراد سعودی عرب کے سیاسی اکھاڑے میں کود پڑے ہیں،تاکہ وہ اقتدار کی اس رسہ کشی میں دوسروں سے پیچھے نہ رہ جائيں۔بندر بن سلطان امریکہ میں سعودی عرب کے بیس برس تک سفیر رہنے کے بعد سنہ دو ہزار پانچ میں سعودی عرب واپس لوٹے اور انہوں نے یورپ خاص طور پر امریکہ کی خفیہ ایجنسیوں کی مدد سے شاہ عبداللہ کو اقتدار سے دور کرنے کے لئے کودتا کیا،لیکن ان کی یہ کوشش ناکام ہو گئي۔
 شاہ عبداللہ نے اقتدار حاصل کرنے کے بعد سعودی عرب کی سیاست میں اصلاحات انجام دیں،ہرچند یہ اصلاحات بہت ہی کم اور معمولی نوعیت کی تھیں۔سعودی عرب میں اقتدار کی منتقلی کے معاملے میں عبدالعزیز کے سنہ انیس سو بتیس میں تیار کردہ منشور نے پیچدگی پیدا کر رکھی ہے۔اس منشور کے مطابق سعودی عرب کے اولین بادشاہ عبدالعزیز کے بیٹے زندہ ہوں گے،اس وقت تک ان کے پوتوں کو اقتدار میں آنے کا حق حاصل نہیں ہے۔اسی لئے سعودی عرب میں اقتدار بادشاہ کے بھائیوں کی جانب منتقل ہوتا ہے۔
اگرچہ سعودی عرب کے وزیر داخلہ اور وزراء کی کونسل میں شاہ عبداللہ کے نائب کو اس سال حج کے امور کی نگرانی کے لئے منتخب کئے جانے سے ان کی ولایتعہد یا بادشاہ بننے کی راہ ہموار ہوئي ہے،لیکن مبصرین کا کہنا ہےکہ سعودی عرب میں آئندہ کے حکام ماضی سے مختلف ہوں گے۔سیاسی امور کے ماہر علی الاحمد کہتے ہیں کہ سعودی عرب میں اقتدار کی رسہ کشی واضح طور پر دکھائي دے رہی ہے اور اس کا بہت زیادہ امکان پایا جاتا ہے کہ اقتدار کی اس رسہ کشی اور جنگ میں شاہی خاندان سے باہر کا کوئی فرد ہی جیت حاصل کرے گا۔
سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ سعودی حکام زیادہ عمر کی بنا پر ریٹائرمنٹ کے قریب پہنچ چکے ہیں اس لئے اب سعودی عرب میں برسراقتدار آنے والے حکام کا تناسب ماضی کے حکام سے مختلف ہونے کی توقع ہے۔یہی وجہ ہے کہ امریکہ جیسے ممالک سعودی عرب کے حالات پر گہری نظر رکھتے ہوۓ ایسے سیاستدانوں کو برسراقتدار لانے کے لئے کوشاں ہیں،جو مشرق وسطی سے متعلق امریکہ کی پالیسیوں کے مخالف نہ ہوں۔سعودی عرب کے سماجی کارکن ملک میں آل سعود کی طاقت محدود کئے جانے کے خواہاں ہیں۔
سعودی عرب کی انسانی اور سماجی حقوق کی تنظیم کے اراکین کی ایک تعداد سعودی وزیر داخلہ نایف بن عبدالعزیز سے دارالحکومت ریاض میں مظاہرہ کرنے کی اجازت چاہتی ہیں،جس میں مذکورہ تنظیم کے اراکین سعودی عرب میں آل سعود کی طاقت کم کرنے کے لئے سیاسی اصلاحات کا مطالبہ کریں گے۔سعودی حکام کی طرف سے اجازت ملنے کے بعد مظاہرین احتجاج کے دوران آئین کی بنیاد پر عام لوگوں میں سے وزیراعظم کے انتخاب،شاہی خاندان کی نگرانی اور اس خاندان کے افراد کے مواخذے،ملک کی عدلیہ،انتظامیہ اور مقننہ کے آزاد و خود م‍ختار ہونے اور علاقوں کے حکام اور مشاورتی کونسلوں کے اراکین کو منتخب کئے جانے کی ضرورت پر زور دیں گے۔ 
سعودی عرب کے سماجی کارکن سیاسی اصلاحات اور شاہی خاندان کے اثر و رسوخ میں کمی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کے کارکن اصلاحات کے مطالبے اور سیاسی نظام میں تبدیلی کے نعرے سے عوام کو حکومت کے خلاف اکٹھا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اسلامی تحریک براۓ اصلاح کے سربراہ اور حکمران خاندان کے مخالف سعید الفقیہ نے بھی عوام سے مطالبہ کیا ہے کہ اجتماع میں بھرپور شرکت کریں۔

خبر کا کوڈ : 45175
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش