0
Thursday 16 Dec 2010 03:38

مظلوم فلسطینی بچے اور مسلم امہ

مظلوم فلسطینی بچے اور مسلم امہ
تحریر:تصور حسین شہزاد
اسرائیل شائد بہت جلد اپنے وجود کا خاتمہ چاہتا ہے یہی وجہ ہے کہ اسرائیل میں جاری مظالم نے انسانی و اخلاقی حدود کو بری طرح پامال کرنا شروع کر رکھا ہے۔کہتے ہیں ظلم آخر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔دنیا بھر میں اسرائیل انسانی حقوق کی پامالی میں سرفہرست ہے اور اسرائیل کے فلسطینیوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک نے انسانیت کو بھی شرما کر رکھ دیا ہے۔اسرائیل میں انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والی ایک تنظیم کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی پولیس ایک منظم طریقے سے اپنے ہی قوانین کو پامال کرتے ہوئے پتھر پھینکے کے جرم میں کم عمر بچوں کو رات کے وقت ان کے گھروں سے اٹھا لیتی ہے اور ان کے والدین کی عدم موجودگی میں ان سے تفتیش کی جاتی ہے۔
”بیت سالم“ نامی اس تنظیم نے جاری کردہ اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ مقبوضہ مشرقی بیت المقدس کے علاقے سلوان میں جہاں فلسطینی اور یہودی آبادکاروں کے درمیان کشیدگی پائی جاتی ہے ،اسرائیلی پولیس کا فلسطینی بچوں کےساتھ رویہ انتہائی نامناسب اور اسرائیلی قوانین کے خلاف ہے۔مشرقی بیت المقدس کے علاقوں میں یہودی آباد کاروں اور فلسطینیوں کے درمیان شدید کشیدگی پائی جاتی ہے اور اس کشیدگی میں پتھراو میں کم عمر فلسطینی بچے بھی شامل ہو جاتے ہیں۔”بیت سالم“ کے مطابق نومبر 2009ء سے اکتوبر 2010ء کے عرصے میں پتھر پھینکنے کے جرم میں کم از کم 81 فلسطینی بچوں کو اسرائیلی پولیس نے گرفتار کیا،جن میں ایک پانچ سالہ بچہ بھی شامل تھا۔”بیت سالم“ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی پولیس بچوں کو قانون میں حاصل حقوق اور تحفظ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے رات کے وقت ان کے گھروں سے گرفتار کرتی ہے۔رپورٹ میں کہا گیا کہ رات کے پچھلے پہر بچوں کو ان کے گھروں میں بستروں سے اٹھا کر تفتیشی مراکز میں لے جایا جاتا ہے،جہاں اُن سے گزشتہ دنوں میں پیش آنے والے کسی واقعہ کے بارے میں پوچھ گچھ کی جاتی ہے۔
[رپورٹ میں کہا گیا کہ اکثر بچوں نے دوران تفتیش پولیس کی طرف سے تشدد کیئے جانے کی بھی شکایت کی۔بیت سالم کے مطابق ان بچوں کی شکایت کو یکسر مسترد کر دیا جاتا ہے اور پولیس کی تحقیقات کے ادارے کی طرف سے جن شکایات پر تحقیقات شروع کرنے کا اعلان بھی کیا،ان پر کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔بیت سالم کا کہنا ہے کہ انھوں نے چار ایسے واقعات کی تفصیلات اکھٹی کی ہیں،جن میں حراست میں لیے جانے والے بچوں کی عمر بارہ سال سے کم تھی اور جو اسرائیل کے قانون کے تحت مجرمانہ کارروائی کی عمر میں نہیں آتے۔اس تنظیم نے کہا کہ ایک واقعہ میں ایک آٹھ سالہ بچے کو آدھی رات کے بعد اس کے گھر سے اس لیے حراست میں لے لیا گیا کیونکہ اس کا نام پتھر پھیکنے کے واقعات میں ملوث ایک دوسرے بچے سے ملتا تھا۔
بیت سالم نے مطالبہ کیا ہے کہ اسرائیل کی پولیس فوری طور پر بچوں کی گرفتاریوں کا سلسلہ بند کرے۔پولیس کے ترجمان میکی روزن فیلڈ نے بیت سالم کی رپورٹ کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ گرفتاریاں اسرائیل کے قوانین کے تحت کی جاتی ہیں۔انھوں نے فرانسیسی خبر رساں ادارے کو بتایا کہ جتنے بھی بچوں کو گرفتار کیا گیا ہے انھوں نے پتھراو کرنے کا الزام قبول کیا ہے۔روزن فیلڈ نے اعتراف کیا کہ بعض مرتبہ تفتیش کے دوران بچوں کے والدین موجود نہیں ہوتے،لیکن تفتیش کے ہر عمل کی ”کلوز سرکٹ ٹی وی“ کے ذریعے نگرانی کی جاتی ہے۔اس اعلانیہ جرم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں امریکہ کو نظر آتی ہیں نہ ہی اقوام متحدہ کا کوئی ادارہ ان مظالم پر آواز بلند کرنے کے لئے تیار ہے۔ان بچوں کا جرم صرف یہی ہے کہ یہ مسلمان ہیں۔اگر یہ بچے کسی اور مذہب سے تعلق رکھتے ہوتے تو آج پوری دنیا میں ایک حشر برپا ہوتا،لیکن مسلمان ہونے کے جرم میں ان بچوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف کوئی آواز بلند نہیں کی جا رہی۔اسرائیل کے ان مظالم اور عالمی برادری کی مجرمانہ خاموشی اس بات کی واضح دلیل ہے کہ ان کی دشمنی مسلمانوں سے ہے۔
 مسلمانوں کے معاملے میں امریکہ بھی خاموش ہو جاتا ہے اور اقوام متحدہ بھی آنکھیں موند لیتا ہے اور انسانی حقوق کی نام نہاد تنظیمیں بھی چپ سادھ لیتی ہیں۔امریکہ کی دہشت گردی کےخلاف نام نہاد جنگ نے بھی واضح کر دیا ہے کہ ان کا نشانہ دنیا بھر میں مسلمان ہی ہیں۔ان حالات میں مسلمانوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک پلیٹ فارم پر متحد ہو جائیں۔جب اسلام دشمن قوتیں متحد ہو سکتی ہیں تو مسلمانوں کو باہمی اتحاد کرنے میں کیا قباحت ہے؟
خبر کا کوڈ : 47020
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش