1
0
Sunday 3 Apr 2011 23:47

استقامت کے ثمرات

استقامت کے ثمرات
تحریر:محمد علی نقوی
 رہبر انقلاب اسلامی نے آج اتوار کو اسلامی جمہوریہ ایران کی فوج کے کمانڈروں سے ملاقات میں فرمایا آج علاقے میں جو مثبت و مبارک تبدیلیاں اور انقلابات رونما ہو رہے ہيں وہ ملت ایران کی استقامت کے ثمرات کا ایک حصہ ہے اور مستقبل میں اس قسم کی مزید تبدیلیاں رونما ہوں گی۔ رہبر انقلاب اسلامی حضرت آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے مزید فرمایا کہ مستقبل میں علاقے میں مزید تبدیلیاں اور انقلابات رونما ہوں گے۔ رہبر انقلاب اسلامی کے فرمان کے مطابق خطے کی اقوام کی مشکلات کو حل کرنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ ہے کہ اس علاقے سے امریکہ کا اثر و رسوخ ختم کیا جائے اور خطے کے ممالک اور اقوام اپنی تقدیر کا فیصلہ خود کریں۔ مصر اور تیونس میں بن علی اور حسنی مبارک کی حکومتوں کی سرنگونی اور لیبیا، بحرین اور یمن میں عوامی تحریکوں میں پیدا شدہ شدت کی وجہ سے یورپی حکومتوں خاص کر امریکہ کو اس بات کی سخت تشویش لاحق ہو گئي ہے کہ مشرق وسطیٰ کے علاقے میں اب ان کے فوجی اڈے بند ہو جائیں گے اور ان ممالک میں ان کا اثر و رسوخ یا تو بالکل ختم ہو جائے گا یا اس میں بہت زیادہ حد تک کمی آجاۓ گی۔ امریکہ نے دوسرے یورپی ممالک سے زیادہ اس خطے کی صورتحال کے بارے میں اپنے ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حسنی مبارک کی حکومت مشرق وسطیٰ میں امریکی پالیسیوں کا ایک اہم ستون شمار ہوتی تھی۔ یہ حکومت صیہونی حکومت کے بعد اس خطے میں امریکہ کی سب سے بڑی اتحادی تھی۔ بن علی اور اس سے پہلے حبیب بورقیبہ نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی حمایت کی وجہ سے نصف صدی سے زائد عرصے تک تیونس پر حکومت کی۔ لیبیا کے حاکم معمر قذافی نے بھی حالیہ برسوں میں عرب ممالک کے نزدیک اپنی ساکھ بہتر بنانے کی بہت کوشش کی۔ اور یہ بات بھی سب کو معلوم ہے کہ بحرین کا بادشاہ بھی خلیج فارس کے علاقے میں امریکہ کا ایک اہم اتحادی ہے۔ اور اس ملک میں امریکہ کا ایک اہم فوجی اڈہ بھی موجود ہے۔ ظاہر ہے کہ اس طرح کی حکومتوں کی سرنگونی امریکہ کے لۓ ایک بہت بڑے المیۓ سے کم نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی خاص طور پر برطانیہ اور فرانس اپنی پوری کوشش کر رہے ہیں کہ خطے کے ممالک میں قانون، عدل اور انصاف قائم کرنے والی جمہوری حکومتیں تشکیل نہ پائيں۔ 
رہبر انقلاب اسلامی نے جہاں مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے ممالک میں چلنے والی عوامی اسلامی تحریکوں کے ہائی جیک کرنے کی بعض ممالک کی کوششوں کا ذکر کیا ہے تو آپ کا اشارہ بلاشبہ امریکہ، صیہونی حکومت اور ان دونوں حکومتوں کے بعض یورپی اتحادیوں کی جانب ہے۔ البتہ امریکہ کے زیرقیادت تسلط کے نظام کو صرف اس بات کی تشویش لاحق نہیں ہے کہ ان ممالک میں عوامی تحریکوں کے نتیجے میں ان ممالک میں برسراقتدار وائٹ ہاؤس سے وابستہ ڈکٹیٹر حکومتوں کا خاتمہ ہو جائے گا بلکہ امریکہ کی تشویش میں اس بات کی وجہ سے اور بھی اضافہ ہو جاتا ہے کہ تیونس، مصر، بحرین، یمن اور لیبیا کی عوامی تحریکیں اپنے اندر اسلامی رنگ لئے ہوئے ہیں۔
اس میں دو رائے نہیں کہ 1980ء کے عشرے میں رونما ہونے والا اسلامی انقلاب کہ جس نے لاشرقیہ اور لاغربیہ کا نعرہ لگا کر اسلامی تعلیمات کی اساس پر نظام حکومت قائم کیا، ساری دنیا کی دیندار قوموں کے لئے نمونہ عمل بن کر سامنے آیا اور اگر اس وقت کی دونوں بڑی طاقتیں اور رجعت پسند حکام اس کا راستہ نہ روکتے تو آج مشرقی بلاک کی طرح مغربی بلاک کا شیرازہ بھی بکھر چکا ہوتا۔
تین عشروں پر محیط ایک طویل اور صبر آزما مرحلے کے بعد قوموں نے آمریت اور امریکہ نواز حکام کے خلاف جو تحریک شروع کی ہے وہ پوری طرح سے اسلامی انقلاب سے متاثر ہے، اس کا اعتراف دوستوں سے زیادہ دشمن کی طرف سے کیا جا رہا ہے۔ یہی وجہ کہ امریکہ اور اس کے مغربی اتحادی سرا سیمگی کی حالت میں جو مواقف اختیار کر رھے ہیں وہ تضاد کا مجموعہ ہے اور اس سے اس خطے میں اٹھنے والی عوامی اور اسلامی تحریک کے حوالے سے ان کی بوکھلاہٹ پوری طرح عیاں ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای اس سے قبل بھی اپنے ایک خطاب میں اصولوں، اقدار اور خاص طور پر اسلام پر ملت ایران کی ثابت قدمی و استقامت کو اسلامی جمہوریہ کے دوام اور دیگر قوموں کے لئے اس کے نمونہ عمل بن جانے کا باعث قرار دیتے ہوۓ فرما چکے ہیں کہ بعض ممالک میں قوموں کی عظیم تحریکیں اور علاقے میں اسلامی بیداری، یقینی طور پر بتیس سال قبل کی ایرانی عوام کی تحریک سے متاثر ہے اور اب بڑی طاقتوں اور ان کے تسلط کا زمانہ رفتہ رفتہ ختم ہو رہا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے قوموں کی عظیم تحریکوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ تحریکیں یکبارگی اور دفعتا وجود میں نہیں آئیں، بلکہ ایک طویل عرصے کے مطالبات اور ادراک کے جمع ہو جانے کا نتیجہ ہیں اور یقینی طور پر ملت ایران کی اسقامت ان تحریکوں کے ظہور میں بنیادی طور پر موثر رہی ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے ا س سے قبل بھی اپنے ایک خطاب میں ایران کے اسلامی انقلاب کو ایک بے نظیر واقعہ قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ ایران کی قوم نے ایمان ،قومی وقار اور اپنے پرافتخار تاریخی اور ثقافتی ورثے پر تکیہ کرتے ہوئے انقلاب اسلامی کو کامیاب بنایا، تاکہ اسلام کے سائے آزادی و خودمختاری، قومی وقار ، دنیوی سعادت و خوشحالی نیز اخروی سربلندی حاصل کر لے۔
خبر کا کوڈ : 62965
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Germany
You have shed a ray of sunhsine into the forum. Thanks!
متعلقہ خبر
ہماری پیشکش