3
0
Thursday 19 May 2011 14:00

آئی ایس آئی،حقانی نیٹ ورک اور پاراچنار

آئی ایس آئی،حقانی نیٹ ورک اور پاراچنار
تحریر:سید علی شیرازی
گذشتہ کچھ عرصے سے امریکہ اور یورپی ممالک کی طرف سے پاکستانی حکومت اور فوج پر شدید دباو رہا کہ شمالی وزیرستان میں آپریشن کیا جائے، اس کے علاوہ ملک کے اندر بڑھتی ہوئی دہشت گردی کے اکثر ڈانڈے شمالی وزیرستان سے ہی جا کر ملتے تھے، اس کے باوجود شمالی وزیرستان میں آپریشن سے پاک فوج لیت و لعل سے کام لے رہی تھی کیونکہ شمالی وزیرستان کی سب سے بڑی مشکل یہ تھی کہ وہاں پر گڈ طالبان کے بھی محفوظ ٹھکانے ہیں۔ اکثر اخبارات میں "گڈ طالبان" اور "بیڈ طالبان" کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے، پہلے اس اصطلاح کو سمجھ لینا چاہیے تاکہ پورا سناریو (Scenario) سمجھ میں آ جائے۔
اگر طالبان کی کلی فارمیشن کو سمجھا جائے تو طالبان کو اس وقت دو بڑے حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے، "اینٹی پاکستان طالبان" اور "پرو پاکستان طالبان"، اینٹی پاکستان طالبان میں تحریک طالبان پاکستان، سواتی طالبان، القاعدہ، پنجابی طالبان، لشکر جھنگوی اور 313 بریگیڈ وغیرہ شامل ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ جس طرح افغانستان میں اسلامی ملک ہونے کے باوجود امریکی کٹھ پتلی افغان حکومت کے خلاف جہاد جائز ہے اسی طرح پاکستان کے اندر بھی امریکی کٹھ پتلی حکومت کے خلاف جہاد نہ صرف جائز ہے بلکہ افغان حکومت کے خلاف جہاد سے بھی بڑا جہاد ہے۔ اسی وجہ سے ان گروپس نے پاکستان کے اندر دہشت گردی کا ایک طوفان برپا کیا ہوا ہے، طالبان کی اس قسم کو امریکی سپورٹ بھی حاصل ہے کیونکہ امریکہ پاکستان کے جہادی کیڈر کو پاکستان میں ہی مصروف عمل رکھنا چاہتا ہے۔
اس کے برعکس پرو پاکستان طالبان کا نظریہ ہے کہ جہاد صرف افغانستان میں قابض امریکی اور نیٹو فورسز کے خلاف ہو سکتا ہے۔ اس گروپ میں جلال الدین حقانی گروپ (جس کو مغربی ذرائع ابلاغ حقانی نیٹ ورک کے نام سے یاد کرتے ہیں)، حافظ گل بہادر گروپ اور مولوی نذیر گروپ وغیرہ شامل ہیں۔ ان کو پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کی سپورٹ حاصل ہے، افغانستان میں امریکہ کے خلاف جہادی سرگرمیوں کی وجہ سے یہی گروپس سب سے زیادہ ڈرون حملوں کا نشانہ بنتے ہیں۔
افغانستان میں انڈین قونصل خانوں کا پاکستان کے اندر سبوتاژ کی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی وجہ سے پاکستانی فوج اور انٹیلیجنس میں شدید تحفظات پائے جاتے ہیں، لہذا آئی ایس آئی یہ سمجھتی ہے کہ افغانستان میں انڈیا کو کاونٹر کرنے کے لیے اُن کے پاس واحد زندہ فورس یہی "پرو پاکستان طالبان" ہیں، اسی وجہ سے ان طالبان کو آئی ایس آئی کی جانب سے "اسٹریٹجک ایسٹس" (Strategic assets) کہا جاتا ہے۔ جلال الدین حقانی اور حافظ گل بہادر کا علاقہ شمالی وزیرستان ہے اور یہیں پر ان کے محفوظ ٹھکانے ہیں۔
جنوبی وزیرستان میں پاک فوج کی جانب سے آپریشن کے بعد اینٹی پاکستان طالبان شمالی وزیرستان کی طرف فرار کر گئے، جس کی وجہ سے شمالی وزیرستان میں "پرو پاکستان" اور "اینٹی پاکستان طالبان" آپس میں گڈ مڈ ہو گئے۔ شمالی وزیرستان میں آپریشن کے بارے میں بڑھتے ہوئے امریکی دباو اور شمالی وزیرستان میں موجود محفوظ ٹھکانوں سے تحریک طالبان کی جانب سے مسلسل ملک دشمن کاروائیوں نے پاکستانی فوج کو مجبور کر دیا کہ جنوبی وزیرستان جیسا آپریشن شمالی وزیرستان میں بھی لانچ کیا جائے، لیکن ایک بڑی مشکل جو یہاں درپیش تھی وہ پرو پاکستان طالبان کے ٹھکانے ہیں، جو شمالی وزیرستان کے انہی پہاڑوں اور وادیوں میں واقع ہیں۔ پاکستانی فوج اور انٹلیجنس ادارے یہ چاہ رہے ہیں کہ شمالی وزیرستان میں آپریشن لانچ کرنے سے پہلے "پرو پاکستان طالبان" کو شمالی وزیرستان سے کسی اور ایجنسی منتقل کر دیا جائے، تاکہ یہ گروپس آپریشن کی زد میں نہ آئیں۔ 
آئی ایس آئی کی نظر جس علاقے پر پڑی وہ اپر کرم ایجنسی کا علاقہ خیواص تھا، تورا بورا کے دامن میں واقع خیواص کئی خوبیوں کا حامل علاقہ ہے، انتہائی گہری کھائیوں اور اونچے پہاڑ ہونے کی وجہ سے ڈرون حملوں سے انتہائی محفوظ علاقہ تصور کیا جاتا ہے کیونکہ جی پی ایس گلوبل پوزیشنگ سسٹم کے آلات یہاں کام چھوڑ جاتے ہیں۔ لہذا آئی ایس آئی سراج الدین حقانی نیٹ ورک کو اس علاقے میں منتقل کرنے کے لیے سرگرم ہو گئی۔ لیکن اس پلاننگ میں ایک بڑی رکاوٹ یہاں کے شیعہ طوری قبائل ہیں جن کا یہ آبائی علاقہ ہے۔ آئی ایس آئی نے پارا چنار کے شیعہ طوری قبائل کے علماء اور مشران پر دباو ڈالنا شروع کر دیا کہ خیواص میں طالبان کو محفوظ ٹھکانے دئیے جائیں۔ لیکن حالات و واقعات سے آگاہ بابصیرت طوری قبائل یہ جانتے تھے کہ طالبان جیسے "شجرہ خبیثہ" کو اگر ایک دفعہ علاقے میں پنپنے کا موقع دے دیا گیا تو پھر ساری عمر اس کے کانٹے چننے میں گزر جائے گی۔
کیونکہ طالبان کو خلق کرنے والی فورسز نے طالبان کے اجزائے ترکیبی میں سے اہم جزو "شیعہ دشمنی" رکھا ہے، گڈ طالبان، بیڈ طالبان، اینٹی پاکستان، پرو پاکستان طالبان سبھی کا اہم جزو ترکیبی "شیعہ دشمنی" ہے۔ شیعہ دشمنی کے ایجنڈے پر یہ سبھی اکٹھے نظر آتے ہیں، مولوی نذیر جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھتا ہے، آئی ایس آئی کی مکمل سپورٹ حاصل ہے بلکہ ازبک جنگجووں کے خلاف جنگ آئی ایس آئی نے مولوی نذیر کے پرچم تلے ہی لڑی تھی۔ لیکن اس کے باوجود لشکر جھنگوی کے اکثر دہشت گرد اسی کے محفوظ ٹھکانوں میں زندگی گزار رہے ہیں، ڈیرہ اسماعیل خان میں ہونے والے اکثر خودکش حملوں میں مولوی نذیر کے مبینہ "فدائی" ملوث رہے ہیں۔ انہی "گڈ طالبان" نے گذشتہ چھ سالوں سے پارا چنار کے تمام زمینی راستے مسدود کیے ہوئے ہیں۔
خفیہ ایجنسیوں کی جانب سے  ٹل پاراچنار روڈ کو خیواص میں طالبان کو محفوظ ٹھکانے دینے کے ساتھ مشروط کیا جا چکا ہے، جس پر طوری قبائل کسی صورت راضی نہیں ہیں، طالبان نوازی کی آئی ایس آئی پالیسی کا سب سے زیادہ تاوان شیعہ قوم نے ادا کیا ہے، کبھی سینکڑوں ڈاکٹروں، وکلاء اور دانشوروں کی ٹارگٹ کلنگ کی صورت میں، کبھی مساجد اور امامبارگاہوں میں دھماکوں کی صورت میں اور اب پاراچنار کے محاصرے کی صورت میں۔
آخر کب تک اس مبینہ "اسٹریٹجک ایسٹس" کی وجہ سے ملک میں فرقہ واریت کا بازار گرم رکھا جائے گا،؟ کب تک پارا چنار کے معصوم بچے ادویات کی کمی کے باعث تڑپ تڑپ کر جان دیتے رہیں گے،؟ آخر کب تک سات لاکھ افراد اس کرب ناک محاصرے میں رہیں گے۔؟ ان مبینہ "اسٹریٹجک ایسٹس" کی وجہ سے وہ کونسی آفت ہے جو پاکستان پر نہیں ٹوٹی، ملک میں خودکش بم دھماکے، ریمنڈ ڈیوس کی رہائی، ایبٹ آباد آپریشن جیسی انتہائی ذلت آمیز رسوائی کا سامنا اسی "اسٹریٹجک ایسٹس" کی بدولت ہے، پاکستانی عوام آخر کب تک ان غلط پالیسیز کا خراج دیتی رہے گی۔؟
خبر کا کوڈ : 72954
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
SALAM h r u is news ko paray aur share karay
Philippines
Haha. I woke up down today. You’ve chereed me up!
good
ہماری پیشکش