0
Wednesday 15 Jul 2009 10:08

شہید حجاب۔مروا شیربینی

شہید حجاب۔مروا شیربینی
اشتیاق بیگ
مصر سے تعلق رکھنے والی مروا شیربینی کا شمار اپنے کالج کے اچھے مقررین میں ہوتا تھا۔ کالج سے گریجویشن کرنے کے بعد اس نے کیمسٹ کے شعبے کو اپنایا ۔ شیربینی کا شوہر عکاظ مصر کی ایک یونیورسٹی میں لیکچرار تھا۔2005ء میں یہ خاندان اچھے مستقبل کے خوابوں کی تعبیر کے لئے مصر سے جرمنی کے شہر ڈرسٹن منتقل ہوا۔ 28 سالہ جرمن شہری الیکس ان کا پڑوسی تھا۔ مسلم خاتون شیربینی جب بھی حجاب پہنے اپنے گھر سے باہر نکلتی تو الیکس اسے تحقیر آمیز نظروں سے دیکھتا تھا۔ شیربینی نے اس بات کا ذکر اپنے شوہر سے بھی کیا کہ ہمارے پڑوسی کو ایک مسلمان خاندان کا یہاں رہنا شاید گوارا نہیں ، شوہر نے اس کی بات پر زیادہ توجہ نہ دی۔ اگست 2008ء میں مروا جب اپنے 3 سالہ بچے کو گھر کے قریب واقع پارک میں جھولا جھلا رہی تھی تو اسی اثناء میں الیکس پارک میں داخل ہوا اور شیربینی کو حجاب پہنے دیکھ کر اسے مسلم انتہا پسند، دہشت گرد اور کتیا کہا۔ مروا اور اس کے شوہر نے الیکس کے اس مذہب کی بنیاد پر تعصبانہ اور نازیبا رویئے پر عدالت سے رجوع کیا۔ عدالت میں اپنے بیان میں الیکس نے کہا کہ اس شدت پسند مسلم خاندان کو جرمنی میں رہنے کا کوئی حق حاصل نہیں ، عدالت نے الیکس کو مسلم خاتون کے مذہب کی توہین کرنے پر مجرم پایا اور اس پر 780 یورو جرمانہ کیا۔ الیکس نے عدالت کے اس فیصلے کے خلاف اعلیٰ عدالت میں اپیل کی تھی ۔
یکم جولائی 2009ء کو شیربینی اپنے خاوند عکاظ اور تین سالہ معصوم بیٹے کے ہمراہ مقدمے کی سماعت کے لئے عدالت میں موجود تھی۔ اس موقع پر شیربینی کو حجاب میں دیکھ کر الیکس نے چاقو کے اٹھارہ وار کرکے شیربینی کو شہید کر دیا جو اس وقت تین ماہ کی حاملہ تھی۔ شیربینی کا شوہر عکاظ اپنی بیوی کو بچانے کی کوشش میں قاتل کے چاقو اور پولیس کی گولی لگنے سے شدید زخمی ہو گیا اور ہسپتال میں زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہے۔ شیربینی کی شہادت کے خلاف مصر کے ہزاروں لوگ احتجاج کے لئے سڑکوں پر نکل آئے اور انہوں نے قتل میں ملوث الیکس کو قرار واقعی سزا دینے کا مطالبہ کیا۔ واضح ہو کہ جرمنی مصر کا تیسرا بڑا تجارتی پارٹنر ہے اور مصر سالانہ تقریباً چار ارب ڈالر کی اشیاء جرمنی سے درآمد کرتا ہے۔ ایران میں بھی مروا شیربینی کے سفاکانہ قتل کے خلاف ہزاروں لوگوں نے مظاہرے کئے اور جرمن سفارتخانے پر انڈے پھینکے۔ ایران کی حکومت نے بھی جرمن سفیر کو طلب کر کے اس سفاکانہ قتل پر اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا۔
امریکی صدر اوبامہ نے مصر میں کئے گئے تاریخی خطاب جس میں انہوں نے مسلمانوں کے خلاف مغرب میں پائے جانے والے تعصب کا حوالہ بھی دیا تھا اور اپنی تقریر میں مسلمان لڑکیوں کے اسکارف پہننے کی حمایت کی تھی۔ انہوں نے یورپ سے بالخصوص یہ کہا تھا کہ وہ مسلمانوں کے خلاف اپنے سابقہ رویئے پر نظرثانی کریں، انہوں نے اس کا بھی ذکر کیا تھا کہ فرانس میں جو حجاب پر پابندی عائد ہے، فرانس اس پر نظرثانی کرے۔ سمجھا یہ جا رہا تھا کہ اس کے بعد مسلمانوں کے خلاف فرانس اور یورپ کے رویئے میں تبدیلی آئے گی مگر کچھ ہی دنوں پہلے فرانس کے صدر سرکوزی نے بڑے واضح الفاظ میں یہ کہہ دیا ہے کہ فرانس میں حجاب اوڑھنے کی اجازت نہیں۔ برطانیہ میں بھی مسلمانوں کے خلاف توہین آمیز واقعات میں اضافہ ہوا ہے ۔ کچھ عرصہ قبل ایک مسلمان خاتون ٹیچر کو نقاب پہننے پر برطرف کر دیا گیا، ایک برطانوی نوجوان نے ایک مسلم خاتون جس نے اسکارف اوڑھا ہوا تھا، کے منہ پر تھوکنے کی مذموم جسارت کی اور اسلام کو برا بھلا کہا اور اس خاتون سے کہا کہ تمہارے بچے بڑے ہو کر خودکش حملہ آور بنیں گے۔ برطانوی عدالت نے اگرچہ اس شخص کو پندرہ دن کی سزا سنائی ہے جو کہ اس جرم کے لئے ناکافی ہے۔ اس طرح کے واقعات نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ یورپ کے رویئے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے بلکہ مسلمانوں کے خلاف نفرت میں اضافہ ہوا ہے۔ مغربی ممالک ہمیشہ مسلمانوں پر شدت پسندی کا الزام لگاتے ہیں جبکہ مذکورہ واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ شدت پسندی مغربی معاشرے میں نہ صرف موجود ہے بلکہ اس میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
یورپ آزادی اظہار رائے اور بنیادی انسانی حقوق کا علم بلند کرنے کا دعویدار ہے ۔ ان ممالک میں بے راہ روی اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ وہاں لباس کو مختصر سے مختصر کیا جا رہا ہے اور مغربی معاشرے میں نیم عریاں لباس پہننے پر کوئی پابندی نہیں بلکہ یورپ کے کئی ساحلوں پر کپڑے پہن کر جانے کی اجازت نہیں اور یورپ کی نظر میں یہ سب کچھ  بنیادی انسانی حقوق کے زمرے میں آتا ہے، لیکن اگر انہی ممالک میں رہنے والا مسلمان اپنے مذہبی احکام کے تحت جسم کے حصوں کو ڈھانپ کر سکون محسوس کرتا ہے تو اس کی اجازت نہیں ، کیا یہ انسانی بنیادی حقوق کی پامالی کے زمرے میں نہیں آتا۔اسی طرح شہید حجاب مروا شیربینی کو بھی اپنی مرضی کا لباس پہننے کا پورا حق حاصل تھا مگر مغربی معاشرے کے ایک شدت پسند شہری نے اس کا یہ حق اس سے چھین لیا اور صرف اس بات پر اس کی جان لے لی کہ اس بدبخت کو ایک مسلم خاتون شیربینی کا حجاب اوڑھنا پسند نہ تھا۔

خبر کا کوڈ : 8174
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش