1
0
Saturday 30 Jul 2011 00:07

ملک اسحاق کی رہائی کیوں اور کیسے؟

ملک اسحاق کی رہائی کیوں اور کیسے؟
تحریر:سید علی شیرازی
جیسا کہ گذشتہ کالم میں عرض کیا جا چکا ہے کہ نئے جنرل الیکشن کے سلسلے میں مختلف جماعتوں میں ابھی سے جوڑ توڑ شروع ہو چکا ہے، مسلم لیگ ن جنوبی پنجاب کے شدت پسند ووٹ کو اپنے حق میں استعمال کرنے کے لئے مسلسل کوشاں ہے، جس کے لئے پنجاب کے وزیر داخلہ اور وزیر قانون رانا ثناءاللہ کافی فعال ہیں۔ ملک اسحاق کی رہائی بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، اس کالم میں ہم پنجاب حکومت کی جانب سے ملک اسحاق کو "ماہانہ وظیفہ" دلوانے کے بارے میں کچھ اہم ڈاکومنٹس بھی منظر عام پر لانے والے ہیں، جن کے بارے میں میڈیا پر شور تو کافی مچایا گیا لیکن کوئی واضح ثبوت نہ ہونے کی بنا پر معاملہ دبا دیا گیا۔
ملک اسحاق کی رہائی کا باعث بننے والے عناصر کو جاننے سے پہلے ملک اسحاق پر درج مقدمات پر ایک نظر ڈالتے ہیں، تاکہ حقائق کو بہتر انداز میں درک کیا جا سکے۔
ملک اسحاق پر دہشت گردی، قتل، فرقہ وارنہ نفرت، ناجائز اسلحہ، دھماکہ خیز بارود اور 16 ایم پی او کے 44 کیسز کی فرد جرم عائد کی گئی تھی۔ ان میں سے 35 کیسز میں 70 سے زائد افراد کے قتل میں ملک اسحاق "لیک آف ایویڈنس" Lack of Evidence کی بنا پر بری ہو چکا ہے۔ آئیں دیکھیں کہ یہ "لیک آف ایویڈنس" Lack of Evidence کیسے پیدا کی جاتی ہے۔ ان 35 کیسز میں مشہور کیس "کوٹ چوہدری شیر محمد" گاوں کا ہے، وقوعے کے مطابق 18 اگست 1996ء کو ایصال ثواب کی ایک مجلس عزا پر ملک اسحاق نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ فائرنگ کر کے گھلوی خاندان سے تعلق رکھنے والے 12 افراد کو شہید کر دیا، جن میں سردار علی، عبدالرحیم، اللہ دتہ، محمد یوسف، اسلام الدین، محمد نواز، سید علی شاہ، سید شوکت علی شاہ، اللہ بخش، اکبر علی، بشیر احمد اور شیر محمد شامل تھے۔ 1997ء میں ملک اسحاق کی فیصل آباد سے گرفتاری کے بعد ملتان جیل میں ایک شناخت پریڈ کے دورآن فدا حسین گھلوی نے دیگر موقع کے گواہوں کے ہمراہ سول جج اور ڈپٹی سپریٹنڈنٹ جیل کی موجودگی میں ملک اسحاق کو وقوعہ کے "مرکزی مجرم" کے طور پر شناخت کر لیا۔ 
گھلوی خاندان کو ملک اسحاق اور لشکر جھنگوی کے نیٹ ورک کی جانب سے سنگین نتائج کی دھمکیاں موصول ہونا شروع ہو گئیں، کیس کے ٹرائل کے دوران اس کیس کے پانچ چشم دید گواہان سمیت آٹھ افراد کو شہید کر دیا گیا۔ جن میں چوہدری مختار حسین گھلوی، مختار فوجی، شوکت علی، عاشق حسین، فضل حسین اور اس کا بیٹا علی رضا شامل تھے۔ 8 مارچ 2004ء کو انسداد دہشت گردی ملتان کی عدالت نمبر 2 کے جج زوار احمد شیخ نے "لیک آف آیویڈنس" Lack of Evidence کی وجہ سے فیصلہ کرتے ہوئے ملک اسحاق کو بری کر دیا۔ اپیل کرنے پر ہائی کورٹ نے ملک اسحاق کے خلاف فیصلہ دیا جبکہ سپریم کورٹ نے دوبارہ "لیک آف ایویڈنس" Lack of Evidence کو بہانہ بناتے ہوئے دوبارہ ملک اسحاق کو بری کر دیا۔
مدعی پارٹی کو کیس واپس نہ لینے کی بنا پر قتل کی دھمکیاں، گواہوں کو موت کے گھاٹ اتارنا، پولیس آفیسر کی گھٹیا پراسیکیوشن اور جج حضرات پر لشکر جھنگوی کا پریشر، یہ سب عناصر مل کر "لیک آف ایویڈنس" پیدا کر دیتے ہیں۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ دہشت گردی کے واقعات کی پراسیکیوشن اور عدالتی ٹرائل کے دوران "اسٹیٹ" کی حیثیت خاموش تماشائی کی سی ہوتی ہے۔ پولیس کو رشوت دے کر ٹھیک پراسیکیوش کروانا اور لاکھوں روپے وکلاء پر خرچ کر کے عدالت سے مجرموں کو سزا دلوانا فقط اور فقط مدعی کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ جو پہلے ہی لاشیں گرتی دیکھ چکا ہوتا ہے۔
ملک اسحاق اس وقت چھ کیسز میں ضمانت پر ہے جو کہ مندرجہ ذیل ہیں
نوشہر جدید، ضلع بہاولپور، 120-بی، 114/34، 324/109
سٹی بی ڈویژن، ضلع رحیم یار خان،  188، اے او۔13-20-65، 109 ب پ
سٹی اے ڈویژن، رحیم یار خان،      16 ایم پی او
سٹی اے ڈویژن، رحیم یار خان،    16 ایم پی او
صدر میلسی، وہاڑی، 7/ اے ٹی اے، 324/34، 302/109
غلہ منڈی، ساہیوال، 7/اے ٹی اے، 302/109، 34 ت پ،
بہاولپور،   302/109
جبکہ تین کیسز میں سزا یافتہ ہے۔
ممتاز آباد، ملتان، 16 ایم پی او، 353/186
سول لائن، بہاولپور، 148،224/225،324/395 کیس میں اقبال جرم پر میاں بشیر احمد بھٹی کی سپیشل جج عدالت نمبر 1 ملت نے  ساڑھے سات سال سزا سنائی۔
ممتاز آباد، ملتان، 296۔16/اے،9 ایکٹ،353/186 کیس میں ریاض الحسن علوی جج اے ٹی اے عدالت نمبر 2 بہاولپور نے سزا سنائی، جو کہ بسر کردہ حوالات میں ایڈجسٹ کروا دی گئی۔
ملک اسحاق پر آخری کیس سری لنکن ٹیم پر حملے کا تھا جس میں پنجاب پولیس نے گھٹیا پراسیکیوشن کے تمام ریکارڈز توڑ دئیے۔ پولیس کی جانب سے عدالت میں جو گواہ پیش کیے گئے اُن میں سے ایک گواہ کے مطابق کہا گیا کہ "میں مینار پاکستان گروانڈ میں تفریح کی غرض سے موجود تھا جہاں پر دو افراد آپس میں گفتگو کر رہے تھے کہ ہمیں جیل سے لشکر جھنگوی کے امیر ملک اسحاق کا پیغام آیا ہے جنہوں نے حکم دیا ہے کہ مجھے رہا کروانے کے لئے سری لنکن ٹیم کو اغوا کرو"دوسرے گواہ نے بھی عدالت کے سامنے اسی سے ملتا جلتا بیان دیا ہے۔ ان دونوں گواہوں کو عدالت نے رد کر دیا۔ انتہائی پیشہ وارانہ اور اعلٰی معیار کی حامل پنجاب پولیس کی جانب سے ایسے غلط اور غیر منطقی گواہیاں دلوانا ممکن نہیں، بلکہ معاملہ کچھ اور ہے پنجابی کی ایک مثل مشہور ہے کہ
"کتیا خود چور کے ساتھ ملی ہوئی ہے"
گھٹیا پراسیکیوشن پر ہی بس نہیں کیا گیا، بلکہ پنجاب حکومت اور سپاہ صحابہ کے مبینہ "سیاسی اتحاد" کے بعد 5 اپریل 2008ء کو مشہور ہسٹری شیٹر، خطرناک دہشت گرد ملک اسحاق کو پنجاب پرونشنل ریویو بورڈ کی جانب سے ماہانہ وظیفہ بھی جاری کروایا گیا، اس وظیفہ کو جاری کروانے کی رٹ ایڈیشنل سیکرٹری ہوم منسٹری آف پنجاب عثمان انور اور سیکشن آفیسر محمد اسلم نے ملک اسحاق کی جانب سے دائر کروائی، اس رٹ کے نتیجے میں دہشت گرد ملک اسحاق کو پہلے 10 ہزار روپے وظیفہ دیا گیا، جو بعد میں 30 ہزار روپے کر دیا گیا۔ اس رٹ میں جسٹس میاں نجم الزمان کی جانب سے جاری ہونے والے آرڈر کے ڈاکومنٹس آپ دیکھ سکتے ہیں۔

عدالتی فیصلہ۱ 
1
 عدالتی فیصلہ ۲
2
 عدالتی فیصلہ ۳
3


آئندہ آنے والے کالم میں ہم ملک اسحاق کی رہائی کے اسباب، رہا کروانے والی خفیہ اور غیر خفیہ طاقتوں کے بارے میں بات کریں گے۔
                                                                                  جاری ہے۔
خبر کا کوڈ : 88108
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

high court appeal ka faisla hi nhe hoa hy ... aur na hony diya ja rha hy
ہماری پیشکش