0
Tuesday 25 Oct 2011 13:15

انقلاب اسلامی ایران دنیا میں اصل تشیع کی شناخت کا باعث بنا، علامہ افتخار حسین نقوی

انقلاب اسلامی ایران دنیا میں اصل تشیع کی شناخت کا باعث بنا، علامہ افتخار حسین نقوی

علامہ سید افتخار حسین نقوی کا شمار پاکستان کی معروف مذہبی شخصیات میں ہوتا ہے، اپنے دور میں ہونیوالی مکتب تشیع کی تمام سرگرمیوں میں ہراول دستے کے طور پر شامل رہے۔ ایک مدت تک تحریک جعفریہ پنجاب کے صدر رہے اسکے بعد آپکو تحریک جعفریہ پاکستان کے مرکزی جنرل سیکرٹری کے طور پر چن لیا گیا۔ ضلع میانوالی میں قائم مدرسہ امام خمینی رہ کے انچارج ہیں۔ آج کل اسلامی نظریاتی کونسل کے ممبر ہیں اور اس کونسل میں ایک فعال کردار ادا کر رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے علامہ صاحب سے انکی ابتدائی زندگی سے لے کر موجودہ مقام تک پہنچنے اور دیگر اہم موضوعات پر تفصیلی گفتگو کی ہے۔ چونکہ اسلام ٹائمز کا علامہ سید افتخار حسین نقوی سے یہ پہلا انٹرویو تھا اسلئے روٹین سے تھوڑا لمبا ہو گیا ہے۔ لہذا قارئین کی دلچسپی کو برقرار رکھنے کے لئے اس دو قسطوں میں پیش کیا جا رہا ہے۔

اسلام ٹائمز: سب سے پہلے تو اپنے اِبتدائی حالات اور خاندانی پس منظر سے قارئین ’’اِسلام ٹائمز‘‘ کو آگاہ فرمائیں۔
 
 علامہ افتخار حسین نقوی: یہ ایک تفصیل طلب سوال ہے۔ ہم نقوی البخاری سیّد ہیں اور سید جلال الدین بخاری کی اولاد سے ہیں، جن کا مزار اوچ شریف ڈسٹرکٹ بہاولپور میں ہے۔ وہ بخارا سے یہاں آئے تھے۔ البتہ ان کے بیٹے سید علی سرمست جو ان کے ساتھ آئے تھے، ان کے دو بیٹے وہیں رہ گئے تھے۔ سید صدر الدین بدرالدین بخاری (باکھری) سکھر میں روہڑی دریا کے کنارے ان کا مزار ہے جس پر سبز واری لکھا ہوا ہے۔ شاہ جمال کومونڈکہ ایک جگہ ہے وہاں پر ہمارے بزرگوں کی قبریں بھی ہیں۔ سید سنوارے شاہ ہمارے جد اعلٰی تھے۔ خان گڑھ کا ایک علاقہ ہے ٹھل مراد شاہ، عاقل شاہ، یہ دریائے چناب کا کنارہ ہے وہاں پر آ کر یہ سادات آباد ہو گئے، یعنی سندھ کے کنارے پر بھی تھے اور چناب پر بھی۔ میرے دادا کا نام سید مراد شاہ تھا، جو سکندر شاہ کے فرزند تھے اور سکندر شاہ غلام علی شاہ کے فرزند ارجمند تھے، ان سے اوپر چلیں تو غلام علی شاہ، مراد علی شاہ کے فرزند تھے اور مراد علی شاہ، سنوارے شاہ کے صاحبزادے تھے۔ ویسے عزاداری تو گھروں میں ہوتی تھی لیکن باقاعدہ شیعہ ہونے کا اعلان انہی نے کیا۔

1935ء میں بڑا سیلاب آیا، خان گڑھ میں سادات کی ایک بہت بڑا حویلی تھی، جس میں سارے سادات اکٹھے ہی رہتے تھے۔ پردہ داروں کو لانے، لے جانے کے لیے اونٹ اس حویلی کے اندر آ کے بیٹھتا تھا، تو جب چناب میں ایک خوفناک قسم کا سیلاب آیا جس میں ساری آبادیا ں ختم ہو گئیں تو یہ لوگ وہاں سے ہجرت کر کے ملتان، مظفرآباد آ گئے۔ میر ے دادا کی قبر وہیں پر ہے۔ میری ولادت اسماعیل آباد ٹیکسٹائل کے قریبی علاقے جنگل بہیڑہ میں ہوئی۔ اس وقت کنوئیں ہوتے تھے اب وہاں آبادیاں ہو گئیں ہیں۔ میری پیدائش ایک غریب گھر میں ہوئی تھی۔ جب ہم سیلاب سے متاثرہ لوگ یہاں آئے تو میرے دادا نے ایک زمیندار کے ہاں مزارعے کا کام انجام دیا اور تھوڑی سی زمیں لے لی، بیس پچیس بیگھے (ایک ایکڑ میں دو بیگھے ہوتے ہیں)۔ میرے بابا کا نام سید منظور حسین شاہ تھا، سید صدر الدین شاہ ان کے بھائی تھے۔ ہم تین بھائی ہیں۔ بڑے بھائی کا نام سید ذوالفقار علی ہے۔ وہ ملتان اور بعد ازاں جھنگ میں پیش نماز کے طور فرائض سر انجام دیتے رہے۔ میرا بچپن اسی علاقے میں گزرا، پہلی اور دوسری جماعت اسماعیل آباد ٹیکسٹائل مل کے ہائی سکول میں حاصل کی۔

1962ء میں میرے والد صاحب بھکر آ گئے، جہاں میں نے تیسری کلاس پڑھی۔ اسماعیل پور میں مغیث اے شیخ کی کپڑے کی ایک مل ہے۔ میرے والد صاحب وہاں ملازمت کرتے تھے۔ وہاں ہماری رہائش چھکڑ بستی میں تھی۔ اسماعیل پور اور چھکڑ بستی کا تین میل کا فاصلہ تھا یہ راستہ ریت کے ٹیلوں سے بھرا ہُوا تھا۔ تیسری، چوتھی اور پانچویں کلاس میں نے یہاں پڑھی۔ وہاں سے پیدل سکول آتے تھے۔ غربت کا یہ عالم تھا کہ ہمارے پاؤں میں جوتے بھی نہیں ہوتے تھے۔ تپتی ریت پر پاؤں رکھنا بہت دشوار ہوتا تھا۔ ریت پر اُگنے والے پودوں پر پاؤں رکھ کر پاؤں کو ٹھنڈا کرتے پھر گرم ریت پر گامزن ہو جاتے تھے۔ ہمارے گھر غربت و فقر تھا، والد صاحب مسلسل مزدوری کیا کرتے تھے، اس سلسلے میں انہیں حیدر آباد، سندھ کے دُور دراز علاقوں میں سفر کرنا پڑتا تھا۔
 
غالباً 1968ء میں جس سال ملتان بورڈ بنا، میں نے اسی سال میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ انہی دِنوں والد صاحب کسی سفر پر گئے، ان کی واپسی کا انتظار طویل تر ہوتا گیا، حتٰی کہ چھ ماہ بِیت گئے۔ چونکہ ان کی طرف سے خیر و عافیت کی کوئی اِطلاع نہ تھی، لہٰذا ہم نے یہی سمجھا کہ وہ اب اِس دُنیا میں نہیں رہے۔ ہماری والدہ بہت پارسا، نیک خاتون تھیں اور بے حد محنتی، خوددار اور غیور تھیں۔ ہمارے چچا اور دیگر رشتے دار مال دار اور بڑی بڑی زمینوں کے مالک تھے جبکہ خود ہمارے حصے کی جو زمین تھی، وہ کوئی خاص آمدن نہیں دیتی تھی۔ جب ہم نے میٹرک کا داخلہ بھیجنا تھا تو درکار رقم گھر میں موجود نہ تھی۔ میری والدہ نے چھوٹی بہن کی بالیاں بیچ کر میری فِیس کا اِنتظام کیا تھا۔ جب میں نے میٹرک کر لی تو اماں جی کا خیال تھا کہ میں کوئی کلرکی وغیرہ کروں، کیونکہ تنگدستی کے باعث حالات اِسی بات کے مقتضی تھے۔ والد صاحب کی عدم موجودگی میں والدہ ہی ہمیں سنبھالے ہُوئے تھیں۔ چنانچہ میری ملازمت کی بات کرنے کی غرض سے والدہ میرے رشتے کے ایک چچا سید راجن شاہ کے ہاں خود چل کر گئیں۔ ان کی ایک سیاسی شناخت تھی اور وہ بہت مالدار بھی تھے۔ انہوں نے میری ملازمت کی حامی بھر لی، لیکن اِسی اثناء میں والد صاحب کا خط آ گیا۔ پتہ چلا کہ وہ ایک طویل، مشکل اور جاں گسل سفر کے بعد کربلا پہنچ چکے ہیں۔

اِس خط میں میری بابت خاص طور پر لکھا گیا گیا تھا کہ میرے بیٹے کو کسی اور جگہ (ملازمت وغیرہ کے لیے) نہیں بھیجنا، صرف دینی تعلیم کے لیے بھیجنا ہے۔ تو میری زندگی کا یہ وہ موڑ ہے جس نے میرے حالات کا رُخ علم اور دینی تعلیم کی طرف پھیر دیا۔ آج مَیں اسی حیثیت میں آپ کے سامنے موجود ہُوں۔ اِس ضمن میں یہ بات دِلچسپ ہے کہ والد صاحب نے قُبۂ حسینی ع میں تین دُعائیں مانگی تھیں، جن میں ایک دُعا میرے متعلق یہ تھی کہ جس طرح یہ جو عماموں والے یہاں پھر رہے ہیں، میرا بیٹا بھی اِسی طرح دِین کا عالِم بنے۔ دوسری دُعا یہ تھی کہ میرے جتنے بھی غریب رشتے دار ہیں، میں انہیں زیارت پہ لے آؤں، کیونکہ امیر تو سارے ہی جاتے ہیں، میرے توسط سے میرے ان غریب اعزاء کو بھی زیارت نصیب ہو جائے۔ تیسری دُعا یہ تھی کہ مولا مجھے کوئی نشانی دے۔ تو اس سلسلے میں فرماتے ہیں کہ ضریح کے اندر سے مجھے ایک سبز کپڑا دیا گیا، جسے اکثر وہ اپنی کمر کے ساتھ باندھے رکھتے تھے۔ ہر چند کہ اماں پریشانی کے عالم میں تھیں لیکن ابا جان کے اس خط کے بعد انہوں نے مجھے شیعہ میانی منظرالعلوم عربیہ جعفریہ میں داخل کروایا۔ تو یوں میری دینی تعلیم کا آغاز ہُوا۔ بسم اللہ میں نے قائد مِلّت جعفریہ علامہ سیّد ساجد علی نقوی سے ہی کی۔
 
اولٰی اور ثانیہ کی کتب ہم نے شیعہ میانی میں پڑھیں۔ پھر دو افراد مجھے نجف تعلیم کے لئے لیجانے کا باعث بنے، ایک آغا سید ساجد علی نقوی اور دوسرے میرے والد محترم جو آغا حکیم کے مقلد تھے۔ کچھ لوگوں نے مجھے نجف جانے سے روکنے کے لئے ادھر اُدھر کی باتوں میں لگانے کی کوشش کی اور اس طرح کے مشورے دیئے کہ میں الیکٹریشن وغیرہ کا کام سیکھ لوں اور پیسے کماؤں۔ میں وقتی طور پر ان کی باتوں میں آ بھی گیا مگر بعد میں اللہ کا کرم ہوا کہ علامہ ساجد علی نقوی نے مجھے والد کی ہدایت پر عمل کرنے پر زور دیا، چنانچہ میں اس قافلے کی ہمراہی میں نجف اشرف کے سفر پر روانہ ہُوا۔
 
میں نے اگر اُس وقت والد صاحب کی نافرمانی کی ہوتی تو یقیناً یہ میرے لیے ایک بڑی تباہی ثابت ہوتی۔ نجف اشرف جب پہنچ گئے تو سرگودہا کے شیخ منظور حسین ۔۔۔۔، آج کل وہ لندن میں ہوتے ہیں تو ان دنوں وہ مدرسہ مہدیہ میں درس تدریس سے منسلک تھے جو کہ آیت اللہ کشف العطاء کا مدرسہ تھا۔ میں وہاں ڈیڑھ سال تک زیر تعلیم رہا، اسی دوران علامہ ساجد علی نقوی وہاں تشریف لے گئے۔ یہ آیت اللہ حکیم کا آخری دور تھا وہ کوفہ میں نظر بند تھے۔ جب وہ جمعے کے روز زیارت کے لئے تشریف لاتے تو ہم ان کا والہانہ استقبال کرتے اور حکومت وقت کی ناانصافی کے خلاف اور زیادتی کے خلاف جلوس نکالتے تھے۔ اس وقت حسن البکر جیسا جابر حکمران وہاں مسلط تھا۔ علامہ ساجد نقوی سے پھر میں نے کسب فیض کرتے ہوئے دروس کو دہرایا اور ان علوم کو فارسی اور عربی میں سیکھا۔ دوسرے پاکستانی جن سے میں نے استفادہ کیا ان میں امداد حسین نقوی اور مولانا کرامت حسین نقوی بھی شامل ہیں، جن سے میں نے کتاب فقہی کتاب مسائل المنتخبہ پڑھی۔

مولانا غلام حسین نجفی شہید سے منطق صغریٰ کبریٰ کے قاعدے پڑھے۔ علامہ ساجد علی نقوی سے میں نے زیادہ استفادہ کیا اور ان سے اصول و نحو، فقہ اور عقائد کی کتب پڑھیں۔ ان کی فکر اور سوچ میں بڑی وسعت تھی، تنگ نظری نہیں تھی، چنانچہ اس نے ہمارے لیے بہت رستے کھولے۔ ان کے علاوہ دیگر نامور علمائے دین سے خوب استفادہ کرنے کا موقع مِلا، جن میں آیت اللہ محمد علی مدرس، آیت اللہ شیخ عباس کوچانی، آیت اللہ العظمٰی بشیر وغیرہ شامل ہیں۔ دینی تدریس کے اس تسلسل کے چار مراحل ہوتے ہیں جن میں پہلا مرحلہ مقدمات کا جو تقریباً تین چار سال چلتا ہے۔ دوسرا سطوح، تیسرا مرحلہ ہوتا ہے خارج (زبانی لیکچرز) اور آخری مرحلہ جب انسان خود تدریس بھی کر رہا ہوتا ہے اور صاحب الرائے ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد اساتید کوئی موضوع دیتے ہیں اور اس پر استدلالی بحث لکھی جاتی ہے اور اس بحث کی روشنی میں دیکھا جاتا ہے کہ یہ شخص اس مرحلے پر پہنچ گیا ہے کہ خود سے قرآن و سنت کا مطالعہ کر کے حکم شرعی نکال کر سکتا ہے۔ اس کے بعد کہا جاتا ہے کہ تم مجتہد بن گئے ہو، اب تم کسی کی تقلید نہیں کر سکتے، تم اپنے فتوے پر عمل کرو گے۔ مثلاً یونیورسٹی میں جیسے آپ پی ایچ ڈی کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لئے پہلے مقالہ لکھیں گے تو اس کے لیے باقاعدہ چند پروفیسر بیٹھ کر بحث کریں گے، آپ سے سوالات کریں گے، پھر یہ فیصلہ ہو گا کہ آپ اس قابل ہیں کہ آپ کو ڈاکٹریٹ کی ڈگری دی جائے۔
 
اس ضمن میں دو سلسلے مروّج ہیں۔ ایک سلسلہ پرانا چل رہا ہے، اس میں ایک مرجع تقلید مجتہد ہوتا ہے جو علمی شہرت رکھتا ہے اور اسے اُستاد مانا جاتا ہے، اس کے پاس جو شاگرد پڑھ رہے ہوتے ہیں وہ خود درجۂ اجتہاد پر ہوتے ہیں۔ سو سو مجتہد اُن کے پاس شاگرد بیٹھا ہوتا ہے تو وہی شخصیت کورس بھی دے رہی ہوتی ہے، اسے حوزے کا زعیم کہا جاتا ہے، جیسے یونیورسٹی کا چانسلر ہوتا ہے، لیکن یہ یونیورسٹیوں سے مختلف سلسلہ ہوتا ہے۔ یونیورسٹیاں محدود ہوتی ہیں جبکہ اُس میں وسعت زیادہ ہے۔ اب چونکہ زمانہ تبدیلی کے مراحل میں آ گیا ہے، لہٰذا باقاعدہ کمیٹیاں بن گئی ہیں جو کورس کو بھی دیکھ رہی ہیں، باقاعدہ اِمتحانات کے لیے سسٹم بن گیا ہے، جو پہلے اِس طرح نہیں تھا۔ ہمارے اساتید میں تفسیر اور فقہ کے ایک اُستاد مشہد مقدس میں آیت اللہ سیّد مرتضوی اور آیت اللہ اشرفی سے ہم نے استفادہ کیا۔ ان کے علاوہ شہید باقرالصدر کے مختلف مسائل کے حوالے سے اخلاقی دروس اور محافل میں بھی بیٹھنے کا شرف حاصل ہُوا، گو کہ اُن کی شاگردی اِختیار نہیں کی مگر اُن سے قربت بہت تھی، اُن کی نصیحتوں، ہدایتوں، نورانی کرنوں اور عرفانی شعاؤں سے بہت کچھ حاصل ہُوا۔
 
نجف اشرف میں آیت اللہ اِسحاق فیاض کے پاس مَیں نے سطوح (فتوح؟) کی آخری کتاب کفایت الاصول پڑھی۔ 1976ء میں نجف اشرف کا ماحول بڑی مشکل میں تھا۔ روزانہ پکڑدھکڑ کا سلسلہ، مظالم بڑھتے جا رہے تھے۔ علماء کی گرفتاریاں جاری تھیں۔ شہید باقرالصدر کی پہلی گرفتاری پر جلوس بھی نکالے گئے۔ اُن دِنوں مدرسہ مہدیہ میں ڈیڑھ سال گزارنے کے بعد مدرسہ ’’شُبّریّہ‘‘ میں منتقل ہو گئے، جو آیت اللہ سیّد علی شُبر نے بنایا تھا، اُنکے بیٹے اپنے زمانے کے بہت بڑے خطیب جواد شُبر اس کے منتظم تھے، جو بعد اَزاں صدامی عہد میں شہید کروا دیئے گئے۔ 1976ء میں حوزہ علمیہ کو خالی کرنے کے لیے زبردستی جو افراد نکالے جا رہے تھے تو اس دوران ہمیں بھی گرفتار کیا گیا، ہم تیس چالیس افراد پندرہ دِن تک صدامیوں کی جیل کے ایک ہی کمرے میں مقید رہے۔ 15دِن بعد ہمیں ایک بس میں سوار کرا کے ایران بھجوا دیا گیا۔ ہم قُم پہنچنے کے بعد زاہدان اور تفتان سے ہوتے ہُوئے 18 ذلحجہ غدیر کے دِن کوئٹہ پہنچ گئے۔
 
اُس وقت مجھے تقریر کرنی نہیں آتی تھی، کیونکہ جب میں نجف اشرف میں پڑھ رہا تھا تو میری توجہ زیادہ تر فنِ تقریر پر عبور حاصل کرنے کے بجائے پڑھائی کی طرف تھی۔ یہ میرا سات سال کا عرصہ بنتا ہے، اِس عرصے میں میں نے اِتنا پڑھا ہے جو پاکستان میں یا کسی اور جگہ بیس سال میں بھی نہیں پڑھا جاتا۔ صبح کی نماز کے بعد درُوس کا سلسلہ شروع ہوتا تھا اور تادیر جاری رہتا تھا۔ متواتر لکھنا بھی میری عادت میں شام تھا، میرے پاس اب بھی اپنے لِکھے درُوس کی بہت سی کاپیاں موجود ہیں۔ اپنے وہاں قیام کے دوران میں عربی کے اسٹوڈنٹس کے ساتھ زیادہ لِنک رکھتا تھا، جس کا بڑا فائدہ ہُوا۔
 
پاکستان آنے کے بعد تبلیغ کا آغاز ملتان سے کیا۔ مفتی عنایت علی شاہ صاحب  کے توسط سے اندرون پاک گیٹ جھِک محلہ(ناصرآباد) میں ایک مسجد خالی ہُوئی تھی، وہاں اُس وقت 85 سالہ بزرگ سیّد مُرتضیٰ صاحب نے ساٹھ ستر سال پیش نمازی کی تھی، ان کی جگہ مجھے پیش نمازی کا موقع ملا۔ میرے وہاں جانے سے پیشتر وہاں کی حالت کچھ اچھی نہ تھی، مسجد کے باہر کچھ لوگ بیٹھ کر جُوا وغیرہ کھیلا کرتے تھے، چناچہ اسی دوران ہم نے وہاں ایک تنظیم سپاہِ مہدی کے نام سے بنائی۔ اس تنظیم کے تحت ہم نے 1977ء میں چھوٹے چھوٹے اِصلاحی کِتابچے نکالے، مثلاً اعمالِ ماہِ رجب، اعمالِ ذی الحجہ، اعمالِ عاشورہ، آیت اللہ دستغیب کی کتاب گناہانِ کبیرہ (سو گناہوں کے تذکرے پر مشتمل مجموعہ) کی تلخیص سو صفحے پر چھاپی، جس کے بڑے اچھے اثرات مرتب ہُوئے، حتٰی کہ بچوں نے گھر جا کر ٹیلی وِژن توڑ دِیئے۔ میں وہاں سے چار پانچ میل کے فاصلے پر شیعہ میانی سے سائیکل پر پڑھانے آیا کرتا تھا۔ کبھی امیر حسین نقوی مجھے سائیکل پر لے آیا کرتے تھے، کبھی تانگے پر بیٹھ کر آ جایا کرتے تھے۔
 
شیخ محسن صاحب نے نجف اشرف سے آنے کے بعد بڑی غربت اور فقر کی حالت میں کام شروع کیا۔
 جب وہ جامعہ اہلبیت ع کے لئے زمین لینے جا رہے تھے تو جیب میں کرایہ بھی نہیں تھا۔ میں اُس وقت نجف اشرف میں تھا۔ ہم وہاں کوشش کر رہے تھے کہ کسی طرح شیخ صاحب کے لیے پیسے پہنچ جائیں۔ یوسف نفسی صاحب اُس وقت آغا خوئی کی درس گاہ میں ہُوا کرتے تھے۔ ہم نے ابراہیم خوئی کے وکیل ابراہیم قیسی کو پیغام بھجوایا کہ شیخ محسن علی نجفی صاحب کے لیے پیسے بھیجے جائیں۔ جن لوگوں سے زمین لینے کی بات ہوئی تھی اُنھیں وعدہ دے بیٹھے تھے کہ بیس ہزار روپیہ دیں گے تو ان حالات میں ان کو ابراہیم قیسی والا چیک مِل گیا اور ان کی بات رہ گئی اور یہ اِدارہ بن گیا۔ انہوں نے پھر مجھے جامعہ اہلبیت ع اِسلام آباد میں بُلا لِیا۔ یہاں ہم پنجابی طلباء کو لے آئے، جن میں جواد نقوی صاحب، عدیل صاحب، واجد نقوی، قاضی مرتضیٰ، عباس موسوی وغیرہ شامل ہیں۔ تو یہ یادیں ہیں اُن دِنوں کی۔
 
یہاں سے ہم نے 1979ء میں ایک رسالہ’’ الزہرہ‘‘ شروع کیا، جس کے لیے ہم نے تین ماہ کا ملک گیر دورہ کیا۔ اس کے بعد ایران کا انقلاب آ گیا۔ یہ شوق ہُوا کہ اِنقلاب کے بعد ہم کوئی نئی معلومات لیں، چنانچہ 1980ء کے کنونشن کے بعد میں قُم ایران چلا گیا۔ وہاں سات آٹھ سو طلباء کے اِنٹرویو کے بعد ستر لڑکوں میں سے کچھ کا ’’قاضی‘‘ کے لیے اِنتخاب ہُوا جس میں قاضی نیاز حسین، امیر حسین اور حسن رضا غدیری وغیرہ قاضی کورس میں گئے۔ ہمارا کورس آیت اللہ مصباح یزدی کی نگرانی میں تھا۔ ضلع میانوالی میں دینی مدرسہ نہیں تھا، چنانچہ فیصلہ ہُوا کہ امام خمینی رح کے نام سے یہاں ایک مدرسہ بننا چاہیئے۔ اگست 1982ء میں پنجاب کے اس پسماندہ ترین ضلع میانوالی کے پسماندہ ترین گاؤں ماڑی اِنڈس میں مدرسہ امام خمینی رح کا سنگِ بنیاد رکھا گیا، جہاں کوئی بھی سہولت (ٹیلی فون وغیرہ) میسر نہ تھی، ایک جنگل سا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ایسا انتظام کیا کہ 1983ء میں چار کمرے بنا کر پڑھائی شروع کر دی۔ 1984ء میں قائدِ مِلّتِ جعفریہ سیّد عارف الحسینی رح کا اِنتخاب ہُوا۔
 
دسمبر 1985ء میں I.S.O. کے سکاؤٹس ونگ کی بنیاد بھی وہیں ماڑی اِنڈس میں رکھی گئی، جس کا کوئی خیال، وہم و گمان بھی نہیں تھا۔ پہلے چیف سکاؤٹ ڈیرہ کے صفدر صاحب بنے۔ 1985ء سے لے کر دسمبر 1996ء تک اِس دس سالہ عرصے میں تقریباً چار پانچ سو جوان پورے پاکستان سے سال میں دو مرتبہ جون کی سخت ترین گرمی اور دسمبر کی سخت ترین سردی میں سکاؤٹنگ کے لئے یہاں آتے تھے۔ وہ ہماری زندگی کے بڑے درخشاں دِن ہیں۔
 
اِسلام ٹائمز:یہ بتائیے کہ آپ کو رفاہی کاموں کی تحریک کہاں سے مِلی؟
علامہ اِفتخار نقوی: اصل بات یہ ہے کہ جس نے خود غربت دیکھی ہو اور فقر میں زندگی گزاری ہو، اُس کو دوسروں کا بھی احساس ہوتا ہے۔ یہ خدائی انتخاب ہے، اللہ جسے چاہے اس کام میں ڈال دے۔ ہم نے چونکہ خود غربت دیکھی ہے، ہمارے گاؤں غربت زدہ ہیں۔ ہمارا سسٹم ایسا ہے کہ ہم نے دیہاتوں پر توجہ نہیں دی، ہماری بیشتر آبادی دیہات میں مقیم ہے۔ دیہات کی شیعہ آبادی کا احوال یہ تھا کہ بڑے بڑے جاگیردار شیعہ تھے۔ اُن کے مزارعے بھی اُن کی وجہ سے خود کو شیعہ کہلواتے تھے۔ اُن کے نزدیک شیعیت کیا تھی؟ یہ کہ ماتمِ حسین ع کرنا ہے، غازی ع کا علَم نکالنا ہے اور مجلس سننی ہے اور ایک اِمام باڑہ ہونا ہے، بس۔ لیکن جو ایک عقیدتی شیعہ ہے، جس میں باقاعدہ نماز ہے، روزہ ہے، توحید ہے، رسالت ہے، یہ چیز اُن میں نہیں تھی۔ اگر اُن زمینداروں میں کچھ پڑھے لکھے تھے تو وہ اُن کی اپنی حد تک تھا۔ پہلے تو علماء تھے ہی نہیں، جب آئے تو اُن کی تعداد بہت کم تھی۔ اِنقلاب سے پیشتر بیس پچیس مدرسے تھے، جن میں پڑھانے والوں کی تعداد کل ملا کر تین سو بھی نہیں بنتی تھی جبکہ ذاکر ہر بستی میں موجود تھے۔
 
مسجدوں کا تصور تھا نہیں، اِمام باڑے کا تصور تھا اور اِمام باڑہ ہر جگہ موجود تھا۔ ہمارا علمی مرکز چونکہ لکھنؤ تھا، وہاں سے خطباء آتے تھے، وہ خطابت کر کے اور محرم پڑھ کے چلے جایا کرتے تھے۔ یا مناظرہ کرنے والے آتے۔ بہت تھوڑے ایسے تھے جو علمی طور پر آ کر بیٹھ گئے، یہ بہت ہی قلیل تعداد میں تھے، انگلیوں پر گنے جا سکتے تھے۔ مثلاً مولانا ثمر حسن صاحب حیدرآباد میں آ کر بیٹھ گئے یا مولانا قاسم صاحب خیرپور میرس میں آ بیٹھے، جواد صاحب ہنگو میں خطابت کے لیے آ کر بیٹھ گئے یا مرزا یوسف صاحب اور مولانا عارف صاحب وغیرہ زیادہ تر خطابت تک محدود رہے، ٹھوس علمی کام نہیں ہُوا۔ ٹھوس علمی کام قبلہ مولانا محمد باقر اعلی اللہ مقامہ نے کیا۔ انہوں نے چک 38 میں مدرسہ قائم کیا، پھر جھنگ میں قائم کیا، پھر اُنہی کی خواہش اور کہنے پر کوٹلہ جام میں مدرسہ بنا۔ پھر اُن کے شاگردوں نے آگے مدرسے قائم کئے۔ مخزن العلوم جعفریہ قبلہ گلاب علی شاہ صاحب نے قائم کیا۔ باب العلوم ملتان والا قائم ہُوا۔ دارالعلوم محمدیہ جلالپور ننگیانہ اُن کے شاگردوں نے قائم کیا۔ پھر یہ سرگودھے والا۔۔۔ بن گیا، پھر جامعۃالمنتظر بنا۔ یہ سارا سلسلہ اُنہی کی طرف سے شروع ہُوا۔

انقلاب سے پہلے ان کی تعداد محض تین ساڑھے تین سو کے لگ بھگ تھی، جبکہ شیعہ ہر دور میں موجود رہے ہیں۔ میں اُن کو شیعہ نہیں کہتا، وہ حسینی ع (اِمام عالی مقام ع کے ساتھ فقط عقیدت تک محدود) ہیں۔ اگر ہم یہ فرق کر لیں تو پریشان بھی نہ ہوں۔ ہمارے بہت سارے علماء بھی پریشان ہو جاتے ہیں کہ آج شیعہ کے عقائد خراب ہو گئے ہیں، بھئی یہ شیعہ ہیں ہی نہیں، ان کو آپ نے شیعہ بنانا ہے، یہ حسینی ع ہیں، اور یہاں پر سارے حسینی تھے ۔ ہم نے کچھ کو حسین ع سے دُور کر دیا ہے، ورنہ اہلِ سُنّت بھی سارے حسینی ع تھے۔ اب یہاں مُلتان میں دیکھ لیں، ایک سو پچیس تعزیوں میں سو تعزیے اہلِ سُنّت نکالتے ہیں۔ حسین ع کا ماتم تو ہندو بھی کرتے تھے لیکن ان سب کو حسین ع کے پلیٹ فارم سے شیعیت کی طرف لانا علماء کا کام ہے۔ 

یہ تحریک کب شروع ہوئی ہے؟ یہ انقلابِ اِسلامی ایران کے بعد سے باقاعدہ یہ تحریک عملی طور پر شروع ہُوئی ہے کہ یہ شیعہ ہوتا ہے۔ اِس سے پہلے شیعیت کا تعارف ہی کچھ اور انداز سے تھا۔ زیادہ سے زیادہ یہی کہ تبریٰ کیا جائے۔ یہ سازش برطانیہ کی تھی۔ بڑے بڑے زمینداروں کے ڈیروں پہ بیٹھ گئے، اُنہی کے مزارعوں نے آ کے تبریٰٰ کرنا، یعنی گالی دینا، جس میں کسی صحابی کا نام ہوتا تھا یا اہلِ سُنّت کے کسی محترم کا نام ہوتا تھا۔ لیکن جیسے جیسے معلومات بڑھیں اور علم کی رونقیں یہاں آئی تو اس طرزِ عمل میں کمی واقع ہُوئی۔ خاص پہلو یہ ہے کہ زمینداروں کے ہاں جو مزارعے تھے، اُنہی کے بچوں میں یہ ردِ عمل پیدا ہُوا، جو سپاہِ صحابہ کی شکل میں سامنے آیا۔ اُنہوں نے اپنے باپ دادا کو دیکھا تھا کہ کس طرح یہ اُن کی خدمتیں کرتے ہیں اور کس طرح وہ ان کو گالیاں دیتے ہیں۔ یہ جو جھنگ کی سرزمین سے جماعت اُٹھی، اسی حوالے سے اُٹھی، مذہب سے اس کا کوئی تعلق نہیں تھا۔

اب الحمدُللہ صورتِحال بالکل برعکس ہے۔ دیکھیں کہ اب پانچ سو کے قریب مدرسے قائم ہو چکے ہیں۔ خواتین کے مدرسے کا تو تصور ہی نہیں تھا، پاکستان میں خواتین کے پہلے مدرسہ جامعہ خدیجۃ الکبریٰ کی بنیاد پکی شاہ مردان میں، میں نے رکھی۔ اسی کے ساتھ ایران کے تعاون سے جامعۃ الزہرہ س یہاں اِسلام آباد میں قائم ہُوا۔ اس وقت کچھ لوگوں نے کہا کہ بھلا خواتین کو بھی دینی تعلیم دی جاتی ہے۔ اب الحمدللہ ہر عالم نے یہ کوشش کی ہے کہ اُن کے مدرسے کے ساتھ ایک خواتین کا بھی مدرسہ ہو۔ اب خواتین کے ساٹھ ستر مدارس ہیں جن میں ہزاروں کی تعداد میں بچیاں پڑھ کر گئی ہیں۔ اب حالات میں بہت بڑی تبدیلی کا رُجحان ہے اور اس کے کافی ثمرات ہم دیکھ رہے ہیں۔

خبر کا کوڈ : 107449
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش