2
0
Saturday 3 Sep 2011 19:58

پاراچنار اور کوئٹہ میں شیعہ نسل کشی جاری ہے، ریاست بے بس، حکومت لاچار اور ملک جنگل بن چکا ہے، علامہ ساجد نقوی

پاراچنار اور کوئٹہ میں شیعہ نسل کشی جاری ہے، ریاست بے بس، حکومت لاچار اور ملک جنگل بن چکا ہے، علامہ ساجد نقوی
 علامہ سید ساجد علی نقوی پاکستان کے مذہبی سیاسی حلقوں میں اہم مقام رکھتے ہیں، 1988ء سے تحریک جعفریہ پاکستان کی قیادت کے منصب پر فائز ہیں۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن سے سیاسی اتحاد بھی کئے، مگر دونوں بڑی پارٹیوں سے مایوس ہوئے۔ ملک سے فرقہ واریت کے خاتمے کیلئے علامہ طاہر القادری کے ساتھ اعلامیہ وحدت اور ملی یکجہتی کونسل کے ضابطہ اخلاق کی تشکیل میں اہم کردار ادا کر کے ملک سے فرقہ واریت کے خاتمے کی داغ بیل ڈالی۔ شہید عارف الحسینی کے قاتل فضل حق اور کالعدم دہشتگرد تنظیم کے سربراہ مولانا اعظم طارق کے قتل کے الزامات بھی ان پر لگے، مگر وہ ڈٹے رہے، قید تنہائی کو بھی جھیل چکے ہیں، مگر ایجنسیوں کے فارمولے پر عمل کرنے سے انکاری ہو کر تشیع کے عقائد پر سمجھوتے کو مسترد کر دیا۔ اسلام ٹائمز نے حالات حاضرہ پر ان سے خصوصی گفتگو کی ہے۔ جو قارئین کی نذر کی جا رہی ہے۔


اسلام ٹائمز:علامہ صاحب! سانحہ کوئٹہ کے محرکات کیا ہیں؟ علیحدگی پسند یا مذہبی جنونی؟
علامہ ساجد علی نقوی: یہ ایسا سلسلہ ہے جس کے بارے میں ہم مطالبہ کر رہے ہیں کہ حقائق منظر عام پر لائے جائیں، بڑی مدت سے شیعہ عوام دہشت گردوں کے نشانے پر ہیں، لوگوں کو بتایا جائے کہ ان کی جانوں کے ساتھ کون کھیل رہا ہے۔ کون ہے جو پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کر رہا ہے۔ بلوچستان میں علیحدگی پسند بھی ہیں اور فرقہ وارانہ دہشت گرد بھی، مگر ان کا ہدف شیعہ ہی بن رہے ہیں۔ ہائی کورٹ نے ازخود نوٹس بھی لیا مگر حقائق سے پردہ نہیں اٹھایا جا سکا۔ ریاست کا فرض ہے کہ حقائق واضح کرے۔ میں اگر بات کروں گا تو یہ میری بات سمجھی جائے گی۔ سابق وزیر داخلہ سندھ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا نے بھی اپنی پریس کانفرنس میں کراچی میں رونما ہونے والے سانحہ عاشورہ پر بات کی ہے،ان کے بیان کے صحیح یا غلط ہونے پر میں کچھ نہیں کہتا، مگر اس بیان کو پرکھا جائے، تحقیقات کی جائیں۔ اور حقائق عوام کے سامنے لائے جائیں۔
اسلام ٹائمز: کیا ریاست شہریوں کے تحفظ کی ذمہ داری نبھانے میں ناکام ہو چکی ہے؟ اس کے نتائج کیا برآمد ہوں گے۔؟
علامہ ساجد علی نقوی: ریاست تو کچھ بتا ہی نہیں رہی، اس کی طرف سے کوئی اقدام نہیں، نہ پردہ اٹھانے میں، نہ ہی دہشت گردی روکنے میں۔ لوگ مر رہے ہیں ریاست اپنی ذمہ داریاں ادا نہیں کر رہی۔ پاراچنار اور کوئٹہ میں شیعہ نسل کشی کی جا رہی ہے،پارا چنار میں لوگوں کو محصو ر کرکے ان پر عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا ہے۔ کوئٹہ میں پے در پے دہشت گردی کے واقعات پر ریاستی ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں، ریاست بے بس اور حکومت لاچار نظر آتی ہے، ملک جنگل بن چکا ہے۔ جس کے پاس قوت اور طاقت ہے، وہ زندہ رہ سکتا ہے۔ جس کے پاس کچھ نہیں، اس کا جینا محال ہے۔ ایسا مہذب معاشرے میں نہیں ہوتا۔
اسلام ٹائمز:جب ریاست اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کر رہی تو کیا آپ شیعہ عوام کو خود اپنی حفاظت کرنے کی ہدایت کریں گے۔؟
علامہ ساجد علی نقوی:ہم تو شیعہ عوام کو مسلسل کہہ رہے ہیں کہ احتیاط کریں۔ کسی شرپسند کو موقع نہ دیں، جس سے انہیں فساد کا بہانہ مل سکے، پاکستان میں فرقہ واریت ناکام ہو چکی مگر پالے گئے کچھ فرقہ پرست گروہ معصوم لوگوں کو نشانہ بنا سکتے ہیں لیکن فرقہ واریت عوام میں نہیں لا سکتے۔ ہم نے معاشرے سے فرقہ واریت نکال کر امت کے اتحاد اور وحدت کو فروغ دیا ہے۔ یہ حالات کا تقاضا ہے البتہ اس کے ساتھ ہمیں اپنی حفاظت سے بھی غافل نہیں ہونا چاہیے۔ حکومتوں سے توقع نہیں، یہ تحفظ فراہم کرنے میں بے بس ہے۔ حکومتی ذمہ داریوں کی طرف ان کا دھیان ہی نہیں۔
اسلام ٹائمز:ان حالات میں کیا آپ ضروری نہیں سمجھتے کہ قوم کے تمام گروہوں کو اکٹھے ہونے کی دعوت دی جائے۔؟
علامہ ساجد علی نقوی:کون سے شیعہ گروہ۔؟ مجھے کسی گروہ کا معلوم نہیں اور نہ ہی میں کسی کا تذکرہ کرتا ہوں، نہ کسی کے راستے میں رکاوٹ کھڑی کرتے ہیں، یہ کون لوگ ہیں؟ ہمیں نہیں معلوم۔ ان کو ہم نے کبھی موضوع بحث نہیں بنایا، وہ اچھا کام کرتے ہیں تو ہم سراہتے ہیں، منفی کرتے ہیں تو خاموشی اختیار کر لیتے ہیں۔ جس اتحاد کی بات آپ کر رہے ہیں کیا ان کو سمجھ نہیں آ رہی کہ یہ ضروری ہے یا نہیں۔؟ ہم نے تو اہل سنت سے اتحاد کر کے مثال قائم کر دی ہے۔
اسلام ٹائمز:شہید علامہ عارف الحسینی کے جانشین کے طور پر آپ کی قیادت کو تقریباً 23 سال ہو چکے ہیں؟ قوم کو آپ مضبوط بنا سکے اور نہ ہی فلاحی اور تعلیمی منصوبوں پر کام کر سکے۔؟
علامہ ساجد علی نقوی:آپ کا اندازہ درست نہیں، ہم نے عوامی جدوجہد کے ذریعے قومی حقوق کی بات کی، قوم کو مضبوط کیا اور اس کی عظمت کو بلند کیا۔ ملت کی حیثیت سے علمی، مذہبی اور سیاسی حوالے سے پہچان کروائی اور اس میں کردار ادا کیا۔ پاکستانی اور بین الاقوامی سیاست میں ایک نام بنایا، ابھی چند ماہ پہلے کی مثال لے لیں۔ ڈیرہ غازی خان میں سابق صدر فاروق لغاری مرحوم کی خالی ہونے والی نشست پر وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے وسائل کے بے دریغ استعمال کے باوجود ہمارے کارکنوں کی حمایت سے ہی مسلم لیگ ق کے امیدوار سردار اویس لغاری کامیاب ہوئے۔ ہم نے تحریک جعفریہ کو سینٹ میں پہنچا کر پارلیمانی پارٹی بنایا۔ ملت تشیع پر آنچ نہیں آنے دی۔ (اپنی رہائی کے بدلے) کبھی سودے بازی نہیں کی۔ تشیع کے خلاف ہونے والی سازشوں کو ناکام بنایا۔ امت مسلمہ میں اتحاد کو فروغ دیا۔ تمام مکاتب فکر کی جماعتوں کے ساتھ مل کر متحدہ مجلس عمل تشکیل دی اور بدزبانی کرنے والوں کو گندگی کے ڈھیر پر کھڑا کر دیا۔ ہم نے فلاحی اور تعلیمی کام شروع کئے، مگر وسائل کی کمی آڑے آئی اور یہ جاری نہ رہ سکے۔ ایسے پروگراموں کے لئے درکار حالات، امکانات اور وسائل ہمیں میسر نہیں آ سکے۔
اسلام ٹائمز:ایک ماہ قبل ایک دہشتگرد کو عدالتی حکم پر رہا کیا گیا ہے، کیا اس کے بعد فرقہ وارانہ کشیدگی کا خدشہ محسوس کیا جا رہا ہے۔؟
علامہ ساجد علی نقوی: دہشت گرد گروہ اب کچھ نہیں کر پائیں گے، یہ شرپسند فرقہ واریت کو عوام میں نہیں لا سکتے۔ پاکستان کے عوام متوجہ نہیں ہوں گے، البتہ شرپسندی ان سے ممکن ہے۔ مذکورہ دہشتگرد کی جیل سے رہائی کے بعد اس گروہ کی منفی سرگرمیوں کے ثبوت اکٹھے کر لئے ہیں، جو سرکاری اداروں کو پیش کریں گے۔
اسلام ٹائمز:تحریک جعفریہ پاکستان کو کالعدم قرار دیئے آ ٹھ سال ہو چکے ہیں۔ اسلامی تحریک پاکستان پر بھی پابندی لگا دی گئی۔ یہ آپ کی ناکامی نہیں کہ ابھی تک ریاستی اداروں اور حکومت کو اپنی پرامن تحریک کا یقین نہیں دلا سکے۔؟
علامہ ساجد علی نقوی:تحریک جعفریہ پاکستان پر حکومت نے پابندی لگائی اور نہ ہی یہ اٹھا سکتی ہے۔ حتٰی کہ فوجی آمر جنرل پرویز مشرف نے اعلان کیا تھا۔ پابندی اس نے بھی نہیں لگائی تھی۔ پابندی لگانے والے غیر مرئی عناصر ہیں۔ جن تک کسی کی رسائی نہیں۔ آپ کہتے ہیں حکومت سے پابندی اٹھانے کی بات نہیں کی؟ مجھے تو یہاں کہیں حکومت نظر نہیں آتی، جس سے بات کی جائے۔ پاکستان کے لئے میں تو حکومت کا لفظ اپنی ڈکشنری سے نکالنے پر تلا ہوا ہوں، یہاں قانون کی حکمرانی ہے اور نہ آئین پر عمل ہوتا ہے۔ ناانصافی، بدامنی، دہشت گردی اور معصوم شہریوں کا قتل عام جاری ہے ۔ وزراء صرف میڈیا پر آ کر مٹی پاؤ پروگرام کے تحت عوام کو بیوقوف بناتے ہیں، کراچی میں تسلسل سے قتل عام جاری ہے، مگر کسی مقتول کے ورثا کو انصاف نہیں ملا۔
اسلام ٹائمز:پاکستان میں مذہبی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل کے اچھے اثرات مرتب ہوئے تھے، ایم ایم اے کی بحالی میں رکاوٹ کیا ہے۔؟
علامہ ساجد علی نقوی:متحدہ مجلس عمل نے پاکستان میں مسلکی اتحاد کے عملی مظاہرے کا بڑا کارنامہ سرانجام دیا ہے، ایم ایم اے کی بحالی کی کوششیں جاری ہیں، اس کی بحالی میں رکاوٹ طریقہ کار کا اختلاف ہے، جسے دور کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔
اسلام ٹائمز:کیا موجودہ حکومت ملک کو درپیش مسائل حل کرتی نظر آ رہی ہے۔؟
علامہ ساجد علی نقوی:حکومت بے بس ہے، مسائل حل کرنے کی طرف اس کا دھیان ہی نہیں۔ اس کی توجہ صرف مال بٹورنے کی طرف ہے۔ حکمرانوں کی کرپشن کی باتیں زبان زدعام ہیں، اس کے حوالے سے بھی حقائق منظر عام پر لائے جانے چاہیں۔
اسلام ٹائمز:تو کیا آپ فوری نئے انتخابات کا مطالبہ کرتے ہیں۔؟
علامہ ساجد علی نقوی:فوری انتخابات سے انکار نہیں، لیکن پہلے کی طرح کے انتخابات ہوئے تو کوئی فائدہ ہے اور نہ ہی تبدیلی ممکن۔ منصفانہ اور غیرجانبدارانہ انتخابات صرف 1970ء میں ہوئے تھے۔ اس کے بعد آنے والے انتخابات بوگس تھے۔ 2008ء کے انتخابات میں تو دھاندلی کے گذشتہ ریکارڈ بھی توڑ دیئے گئے تھے۔
خبر کا کوڈ : 96232
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
اسلام ٹائمز:ان حالات میں کیا آپ ضروری نہیں سمجھتے کہ قوم کے تمام گروہوں کو اکٹھے ہونے کی دعوت دی جائے۔؟
علامہ ساجد علی نقوی:کون سے شیعہ گروہ۔؟ مجھے کسی گروہ کا معلوم نہیں اور نہ ہی میں کسی کا تذکرہ کرتا ہوں، نہ کسی کے راستے میں رکاوٹ کھڑی کرتے ہیں، یہ کون لوگ ہیں؟ ہمیں نہیں معلوم۔ ان کو ہم نے کبھی موضوع بحث نہیں بنایا، وہ اچھا کام کرتے ہیں تو ہم سراہتے ہیں، منفی کرتے ہیں تو خاموشی اختیار کر لیتے ہیں۔ جس اتحاد کی بات آپ کر رہے ہیں کیا ان کو سمجھ نہیں آ رہی کہ یہ ضروری ہے یا نہیں۔؟ ہم نے تو اہل سنت سے اتحاد کر کے مثال قائم کر دی ہے۔
۔۔۔۔۔۔
علامہ صاحب اب ابھی آپ ان حقیقتوں سے انکار کرتے ہیں ؟ رسی جلی پر بل نہیں گیے مجھے افسوس ہے کہ آپ وھی کے وھی ہیں حقیقتوں کا انکار کرنا ،ہٹ دھرمی دیکھانا،اور خوابوں کی دنیا میں رہنا علامہ صاحب شیعوں کے کم ازکم آٹھ بڑی جماعتیں ہیں جو آپ کو نظر نہیں آتییں اور یہ سب کے سب آپ سے زیادہ عوام اثر و رسوخ رکھتیں ہیں اور آپ ان کے پیچھے ہے آپ ھر موقع پر اتحاد سے بھاگے ہیں آپ کو اتحاد کی بات سے خوف آتا ہے اس کا اعتراف کر لیں ورنہ سب کو اکھٹا کرنے کی کال دیں
meri rae mein jab tak ham mutahid nahi hoty ksi tarh in mushkelat o hal nahi ka ja sakt
ہماری پیشکش