0
Tuesday 1 May 2012 21:54

شہید محنت کش صحافی کو اسکا حق دیا جائے، عظمت بنگش کے بھائی کا مطالبہ

شہید محنت کش صحافی کو اسکا حق دیا جائے، عظمت بنگش کے بھائی کا مطالبہ
دہشتگردی کے خلاف جاری نام نہاد جنگ کے دوران ملک کے  قبائلی علاقہ جات اور خیبر پختونخوا میں کئی کارکن صحافی فرائض کی انجام دہی کے دوران جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ ان میں سے ایک ہنگو کے علاقے ابراہیم زئی سے تعلق رکھنے والے عظمت علی بنگش بھی ہیں، جو دو سال قبل یعنی اپریل 2010ء کو اورکزئی ایجنسی کے متاثرین کے کیمپ میں صحافتی سرگرمیاں ادا کرتے ہوئے یکے بعد دیگرے ہونے والے دو بم دھماکے میں جام شہادت نوش کر گئے۔ اسلام ٹائمز نے یوم مزدور کی مناسبت سے کارکن اور شہید صحافی عظمت علی بنگش کے بھائی نوید علی بنگش سے انٹرویو کا اہتمام کیا، جو قارئین کے لئے پیش خدمت ہے۔
(نوٹ:انٹرویو میں تصویر شہید عظمت علی بنگش کی ہے دی گئی جو نوید علی بنگش کی خواہش پر دی گئی ہے)

اسلام ٹائمز: آپ ہمیں شہید عظمت علی بنگش کی صحافتی اور سماجی زندگی کے حوالے سے آگاہ کیجئے۔؟
نوید علی بنگش: شہید عظمت علی سکول و کالج کے زمانے ہی سے سماجی خدمات میں پیش پیش رہتے تھے۔ دوران طالب علمی ہنگو کالج میں طلباء کی فلاح و بہبود کے لئے سرگرم تھے اور آئی ایس او کے یونٹ صدر رہے، اس کے علاوہ ہنگو ابراہیم زئی سے جنرل کونسلر بھی منتخب ہوئے۔ اس کے بعد پشاو یونیورسٹی سے پولیٹیکل سائنس میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد صحافت سے وابستہ ہو  کر کارکن صحافی کے طور پر دشوار گزار قبائلی علاقے اورکزئی ایجنسی، ہنگو اور کوہاٹ میں صحافتی سرگرمیوں کا اغاز کیا، قومی چینل پی ٹی وی اور نیوز ایجنسی اے پی پی کے علاوہ پرائیوٹ چینل سماء ٹی وی اور بین الاقوامی ٹی وی چینل الجزیرہ کے ساتھ ساتھ کراچی سے شائع ہونے والے اخبار نوائے اسلام کے ساتھ منسلک رہتے ہوئے معاشرے اور عوامی مسائل کو اجاگر کرتے رہے۔

اسلام ٹائمز: عظمت شہید کے پسماندگان میں کون کون شامل ہے۔؟
نوید علی بنگش: شہید عظمت کے بہن بھائیوں کے علاوہ پسماندگان میں بزرگ ماں باپ جو عظمت کی شہادت کے صدمے کے بعد سے بستر بیماری پر پڑے ہوئے  ہیں، جب کہ شہید عظمت کی ایک بیوہ، ایک بیٹا اور دو بیٹیاں شامل ہیں۔

اسلام ٹائمز: کیا عظمت شہید کے بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں، اور ان کے اخراجات کون برداشت کر رہا ہے۔؟
نوید علی بنگش: شہید عظمت کا آٹھ سالہ بیٹا علی عظمت تیسری کلاس کا طالب علم ہے، جب کہ پانچ سال کی بیٹی علینا زھرا نرسری میں پڑھ رہی ہے اور سب سے چھوٹی بیٹی ایلیا زھرا جو تین سال کی ہے سکول نہیں جاتی۔ ان کے اخراجات شہید عظمت کے والد اور ہم بھائی اپنی طرف سے نامساعد مالی حالات کے باوجود برداشت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہمارے والد سرور علی بنگش پی آئی اے کے شعبہ کیٹرنگ میں ملازمت سے ریٹائر ہو گئے ہیں، جن کی پنشن کی معمولی رقم سے گزر اوقات ہوتے ہیں۔ پی آئی اے سے ریٹائرمنٹ کے وقت میرے والد اور میں نے حکام بالا کو کئی درخواستیں لکھیں کہ والد ریٹائرمنٹ کے بعد مجھے یا میرے بھائی کو بھرتی کیا جائے کیونکہ پی آئی اے میں اس طرح کا مروجہ اصول موجود ہے، لیکن ظلم کی انتہاء دیکھئے کہ ہمارے ساتھ حکام بالا نے کوئی تعاون نہیں کیا۔

اسلام ٹائمز: عظمت علی کی شہادت کے بعد کیا حکام نے کوئی امداد نہیں کی، کچھ تفصیل بتائیے۔؟
نوید علی بنگش: شہید صحافت عظمت علی بنگش جس نے جان کو ہتھیلی پر رکھ کر دور دراز و دشوار گزار قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کی دھمکیوں کے باوجود رپورٹنگ کی، شہادت کے بعد حکومتی اور اپوزیشن دونوں کے ارکان نے اپنی سیاسی دکان چمکانے کے لئے بیانات دئیے حتی کہ شہید عظمت کے گھرانے کے لئے امدادی پیکج کے اخباری بیانات و اعلانات تک کیے، جن کی نقول بھی ہم نے بارہا ان ہی اعلی حکام تک بھجوائیں لیکن اب تک ایک بھی وعدے پر عمل نہ ہوا۔ تفصیل اس طرح سے ہے کہ ماروی میمن تو ہمارے گھر ابراہیم زئی تک چلی آئیں اور شہید عظمت کے بچوں کی تعلیم کے حوالے سے اپنے تعاون کا یقین دلایا لیکن دو سال گزرنے کے بعد پھر نظر نہ آئیں۔ 

اسی طرح اس وقت کے وفاقی وزیر و نشریات قمر الزمان کائرہ جو آج کل دوبارہ اس عہدے پر آگئے ہے، نے ایم ڈی پی ٹی وی کے ہمراہ شہید عظمت کے متاثرہ گھرانے کے لئے پانچ لاکھ روپے مالی امداد، اسلام آباد میں تین مرلے کے ایک پلاٹ کےعلاوہ شہید عظمت کے ایک بھائی کے لئے سرکاری نوکری اور شہید عظمت کے بچوں کے ایک سال تک تعلیمی اخراجات کے اعلانات کئیے لیکن وفاقی حکومت اور پی ٹی وی کی طرف سے اب تک ایک بھی وعدہ پورا نہ ہوا۔ وفاقی حکومت کےساتھ ساتھ صوبائی حکومت کے سنئیر وزیر بشیر بلور نے بھی پانچ لاکھ کی گرانٹ کا خیبر پختونخوا حکومت کی طرف اعلان کیا لیکن دو سال گزرنے کے باوجود ایک بھی وعدے اور اعلان پر عمل درآمد نہ ہو سکا۔

اسلام ٹائمز: آج جب کہ پوری دنیا یوم مزدور منا رہی ہے، اس سلسلے میں آپ حکومت اور صحافتی تنظیموں سے کیا مطالبہ کرتے ہیں۔؟
نوید علی بنگش: میرے خیال میں یوم مزدور پر بھی صرف زبانی جمع خرچ اخباری بیانات و سیاسی پوائنٹ سکورنگ ہوتی ہے، جب کہ مزدوروں اور محنت کشوں کے حقوق تو کیا ان کے ساتھ ہونے والے وعدوں سے بھی حکومت بھاگ جاتی ہے۔ ہم نے دو سال تک مختلف سرکاری دفاتر بشمول پی ٹی وی اور وزارت اطلاعات کو بہت سے درخواستیں بھیجیں، لیکن اب تک ایک پر بھی عمل نہیں ہوا۔ مطالبات سے تو ہم تھک چکے ہیں، یوم مزدور کی مناسبت سے یہی کہوں گا کہ ایک مقتول محنت کش اور کارکن صحافی کو اس کا حق دیا جائے۔ جب کہ اس سلسلے میں صحافیوں کے حقوق کے لئے سرگرم صحافتی تنظیموں اور صحافیوں کو بھی اپنے ساتھی کے حق کے لئے کردار ادا کرنا چاہئیے، کیونکہ ایک دن انہیں بھی مرنا ہے، آج اگر انہوں نے شہید عظمت کے متاثرہ خانوادے اور کمسن بچوں کا حق حکومت سے نہ لیا تو خدانخواستہ کل ان کے گھرانے کے ساتھ بھی ایسا ہو سکتا ہے۔ اسلئے یوم مزدور پر کارکن اور مقتول صحافی کو حق دیا جائے۔
خبر کا کوڈ : 158167
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش