0
Sunday 22 Jul 2012 23:33
اتحاد کے ذریعے تکفیریوں کو ناکام بنائیں گے

جماعت اسلامی ملک اور شیعہ دشمنوں کو گلے لگا کر اپنے اہداف حاصل نہیں کرسکتی، علامہ ناصر عباس جعفری

جماعت اسلامی ملک اور شیعہ دشمنوں کو گلے لگا کر اپنے اہداف حاصل نہیں کرسکتی، علامہ ناصر عباس جعفری
علامہ ناصر عباس جعفری مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی سیکرٹری جنرل ہیں، آپ نے بہت ہی کم عرصہ میں قیام کر کے پاکستان میں ملت تشیع کے حقوق کی بازیابی کیلئے آواز بلند کی اور کافی عرصہ سے ملت میں پائی جانیوالی عدم فعالیت اور سکوت کو توڑا ہے، جس کا ثبوت ملک بھر میں قرآن و اہلبیت (ع) کانفرنسز کا احیاء اور یکم جولائی کو مینار پاکستان کے سائے تلے قرآن و سنت کا انعقاد ہے۔ یکم جولائی کو ہونے والی کانفرنس کے بعد علامہ ناصر عباس جعفری کا کسی بھی پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا پر یہ پہلا انٹرویو ہے، جو اسلام ٹائمز پر پیش کیا جا رہا ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: سب سے پہلے تو اسلام ٹائمز کی جانب سے قرآن و سنت کانفرنس کی کامبابی پر مبارک باد پیش کرتے ہیں، کانفرنس سے یقیناً قوم کو اُمید ملی اور سب نے اپنے وجود کو محسوس کیا ہے، سوال یہ ہے کہ مستقبل میں اس پروگرام کے کیا اثرات رونما ہوتے دیکھ رہے ہیں۔؟

علامہ ناصر عباس جعفری: جن حالات میں پروگرام ہوا، اس سے آپ بخوبی آگاہ ہیں، شدید گرمی، ملک کے اندر ناامنی، امریکہ کا پاکستان پر پریشر، خطے کے اندر بدلتے ہوئے حالات، گزشتہ دو دہائیوں سے زیادہ عرصہ سے پیروانِ خدا، قرآن اور اہلبیت (ع) یعنی اہل تشیع کو دیوار سے لگانے کی کوششیں کی گئیں، سازشیں کی گئیں، ہم کو بانٹنے کی کوشش کی گئی، کمزور کیا گیا، قتل و غارت کی گئی اور یہ سلسلہ آج بھی جاری و ساری ہے۔ ان حالات میں اس کانفرنس کا ہونا اور شہید قائد عارف الحسینی (رہ) کے پیروکاروں کی شرکت یقیناً بہت بڑی کامیابی ہے۔ بالخصوص جب پاکستان کے اندر تمام جماعتیں، تمام مکتب فکر، متحرک ہیں اور اپنی طاقت کا مظاہرہ کر رہے ہیں تو ہم پر لازم تھا کہ ہم اپنی قوت کا اظہار کرتے، یہ پروگرام پاکستان میں بسنے والے پیروانِ قرآن و اہلبیت (ع) کہ جن کے آباؤ اجداد نے پاکستان بنایا اُن کی طاقت کا مظہر تھا۔

ان بدترین حالات کے باوجود تشیع پاکستان نے اپنی تاریخ کا سب سے بڑا پروگرام منعقد کرکے دشمن کو بتا دیا ہے کہ ہم بیدار ہیں، یہ پروگرام قوم کی وحدت کا بہترین نمونہ عمل تھا، پوری قوم نے اس بات کا اعلان کیا کہ ہمیں دیوار سے نہیں لگایا جاسکتا، ہمیں ٹکڑوں میں نہیں بانٹا جاسکتا، ہم آج بھی اکٹھے ہیں اور کل بھی اکٹھے تھے، تم نے ہمیں تقسیم کرنے کی سازشیں کیں، لیکن یہ ہماری مینارِ پاکستان کے سائے تلے موجودگی اس بات کی عکاس ہے کہ شہید کے پروانے، شہید کے افکار پر عمل پیرا ہیں اور اُن کی فکر کو آگے بڑھا رہے ہیں۔

یہ پروگرام ان مختلف حوالوں سے بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ شرکت کے حوالے سے دیکھیں تو میرے خیال میں پاکستان میں مختلف مکاتب فکر اور جماعتوں کے جتنے بڑے بڑے اجتماعات ہوئے ہیں، اُن میں بڑا شمار ہوتا ہے۔ ان حالات میں کہ جب گرمی، ناامنی، دہشتگردی کے خطرات اور تمام ریشہ دوانیوں کے باوجود اہل تشیع کی شرکت اور صبر و استقامت حقیقت میں لائق تحسین ہے۔ مختلف لوگوں اور قوتوں کی خواہش تھی کہ یہ پروگرام نہ ہونے پائے، اس میں اندرونی لوگ بھی تھے اور خارجہ یعنی بیرونی قوتیں بھی براہ راست ملوث تھیں، وہ نہیں چاہتے تھے کہ تشیع کا اتنا بڑا پروگرام ہو اور یہاں بیداری کا سلسلہ چل نکلے، لیکن ہماری قوم اور ملت نے بیداری کا ثبوت دیا اور اپنی بھرپور طاقت کا مظاہرہ کیا۔

یہ شرکت شعوری تھی نہ کہ جذبات کی بنیاد پر لوگوں نے شرکت کی۔ لہٰذا اس پروگرم سے اُنہیں حوصلہ ملا، ہمت ملی اور طاقت میں اضافہ ہوا، وحدت میں اضافہ ہوا اور دنیا والوں کو پیغام دیا، اُن قوتوں کو بھی یہ پیغام گیا جو ریشہ دوانیاں کر رہی تھیں، جو بدامنی پھیلا رہی ہیں، قرآن و سنت کانفرنس کے کامیاب انعقاد سے سال ہا سال سے اُن کی تمام کی تمام انوسٹمنٹ ضائع ہو گئی ہے اور وہ ناکام ہو گئے ہیں۔ ملت نے یہ پیغام دیا کہ یہاں تشیع بیدار ہے، بابصیرت ہے، شجاع ہے، بہادر ہے اور حوصلے والی قوم ہے، جو اپنے عقیدے اور مکتب سے عشق کرتی ہے۔ جو ہر قربانی دینے کیلئے تیار ہے۔ ملت نے بتایا دیا کہ ہمیں اس ملک کی سلامتی، امن وامان، علاقائی اور عالمی سطح پر ہونے والے تغیرات پر تحفظات ہیں، جن کا اظہار کرنے آج ہم یہاں جمع ہیں۔

اسلام ٹائمز: کانفرنس کے کامیاب انعقاد کے بعد مستقبل میں کیا اہم اقدامات اٹھائیں گے۔؟

علامہ ناصر عباس جعفری: آئندہ کے حوالے اس پروگرام نے ہمیں بڑا حوصلہ دیا ہے اور عوامی تائید حاصل ہوئی ہے، جس کی بنا پر ہم اقدامات اٹھائیں گے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ عوامی تائید کے بغیر کوئی بھی قدم نہیں اٹھایا جاسکتا اور کوئی بھی تحریک کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکتی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ قرآن و سنت کانفرنس ہمارا پہلا قدم تھا نہ کہ آخری قدم۔ اب ہم اہم ایشوز کی طرف جائیں گے۔ جو لوگ یہ سمجھتے تھے کہ مجلس وحدت مسلمین ایک گروہ کی جماعت ہے تو اس اجتماع نے ثابت کر دیا کہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان میں ملکی سطح پر اہل تشیع کی واحد نمائندہ جماعت ہے۔
 
ہم وسعت قلبی کے ساتھ کہتے ہیں کہ اور بھی جماعتیں ہیں جو کام کر رہی ہیں، لیکن ملت تشیع کی ملکی سطح پر سب سے بڑی واحد نمائندہ جماعت مجلس وحدت مسلمین ہے۔ ممکن ہے کہ یہ بات بعض افراد کو ناگوار گزرے۔ یہ بات عوامی طاقت اور ملک بھر میں ہونے پرگرواموں نے ثابت کر دی ہے۔ اب ہم پر اہم ذمہ داریاں عائد ہوگئی ہیں، ہم ملک کے اندر وحدت کی بات کرتے ہیں، ملک کی سالمیت کی بات کرتے ہیں، ہم امریکہ کے نفوذ کے مقابلے میں اسٹینڈ لیں گے اور طاقت کے ساتھ، عالمی طاقتوں کے مقابلے میں اٹھ کھڑے ہوں گے، اُن طاقتوں کیخلاف کھڑے ہونگے، جنہوں نے پاکستان میں ریاست کے اندر ریاست بنا رکھی ہے، جنہیں مضبوط کیا جا رہا ہے۔

میں یہاں واضح کر دوں کہ بعض نام نہاد اسلامی ممالک، بالخصوص بعض عرب ممالک جو امریکہ کے فرنٹ مین کے طور پر ہمارے ملک میں دہشتگردی کو سپورٹ کرتے ہیں، دہشتگردوں اور انتہاپسندوں کو ہر ممکن تعاون فراہم کر رہے ہیں، اب ہم اُن کا مقابلہ کریں گے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جتنی بھی دشمن طاقتیں ہیں جو اس ملک اور اسلام کا امیج خراب کر رہی ہیں، اُن کیخلاف اسٹینڈ لیں گے اور اس حوالے سے اپنا بھرپور کردار ادا کریں گے۔ ہم پاکستان کو ایک مضبوط وطن بنائیں گے اور پاکستان میں بسنے والے جتنے بھی طبقات ہیں اُن کے درمیان بہترین برادرانہ روابط برقرار کرنے کے لئے اپنا بھرپور کردار ادا کریں گے۔ 

ہم دینی جماعتوں کے اندر رابطون کو مضبوط تر کریں گے، اسی طرح سیاسی جماعتوں کے اندر اپنے رابطوں کو قوی کریں گے۔ اب کوئی ہمیں رد نہیں کرسکتا۔ کیونکہ اب ہم کروڑوں پر مشتمل شیعہ قوم کی آواز ہیں، ایک ایسی آواز جس میں محبت، دوستی، امن اور بھائی چارہ موجود ہے۔ جو وطن کے استقلال کیلئے اٹھ کھڑی ہوئی ہے، جو وطن کی سالمیت کی آواز ہے۔

اسلام ٹائمز: یہ امر انتہائی خوش آئند ہے کہ علمائے کرام، ذاکرین، خطباء، شعراء اور ماتمی سنگتوں کے نمائندے اور اہم شخصیات سمیت سب قرآن وسنت کانفرنس میں شریک تھے، اب انہیں آگے ملانے اور ساتھ لے کر چلنے کیلئے کیا پالیسی ہوگی۔؟

علامہ ناصر عباس جعفری: دیکھئے! گزشتہ کئی دہائیوں سے شیعہ قوم کو ٹکڑوں میں بانٹ دیا گیا، محراب اور ممبر جدا ہوگئے، انہیں تقسیم کرکے جدا کر دیا گیا، اس پر باقاعدہ پیسوں کی ریل پیل ہوئی۔ اسلام دشمن قوتوں نے شیعہ دشمنی میں ہر وہ کام کیا جس سے شیعہ قوم تقسیم ہو سکے، ہماری وحدت کو پارہ پارہ کرنے کیلئے ممبر و محراب پر علماء اور ذاکرین کے درمیان فاصلے پیدا کئے گئے، دوریاں پیدا کی گئیں، غلط فہمیاں پیدا کی گئیں۔ 

شہید عارف الحسینی (رہ)، امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ اور رہبر کے ان معنوی فرزندوں اور بیٹوں کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے استعماری قوتوں کی گزشتہ کئی سالوں کی انوسٹمنٹ کو ناصرف ناکام بنا دیا ہے بلکہ دوبارہ شہید عارف الحسینی (رہ) کے خون کے صدقہ میں تمام گروہ، انجمنیں، ماتمی سنگتیں، علماء، خطباء، ذاکراین سب ایک ہوگئے ہیں، یکم جولائی کو سب ایک آواز تھے اور اپنی وحدت کا ثبوت دیا۔ اس اقدام کو ہم شہید کی امنگ اور آرزو سمجھتے ہیں، شہید کے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد یہ تھا کہ قوم اور ملت کو وحدت کی لڑی میں پرویا جائے۔ ان کے درمیان فاصلے کم ہوں، یقیناً شہید کی روح خوش ہوگی۔ یقیناً اس وحدت سے اہل وطن خوش ہوئے ہیں۔

اب آئندہ کے حوالے سے ہمیں تمام خطرات، مشکلات، ریشہ دوانیوں سمیت تمام ان چیزوں کا احساس ہے، جس سے یہ لوگ ہمیں کمزور اور تقسیم کرنے کی ناکام کوشش کریں گے، انشاءاللہ اس قوم نے اپنے سفر کا آغا کر دیا ہے اور اپنی منزل پا کر رہے گی، ہم شیعہ علماء، خطباء و ذاکرین سے باہمی رابطوں کو مزید وسعت دیں گے، ابھی ماہ رمضان کے پہلے ہفتے میں ہمارے ذاکرین کی طرف سے ہمیں افطار کی دعوت ہے، جس میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس میں ذاکرین اور علماء کی بڑی تعداد موجود ہوگی، جس میں آئندہ کے حوالے سے مل بیٹھ کر لائحہ عمل ترتیب دیں گے۔
 
اس کانفرنس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ جو لوگ ذاکرین کو یہ الزام دیتے تھے کہ یہ علماء دشمن ہیں، واضح ہوا کہ یہ علماء دشمن نہیں ہیں، علماء نے اِن سے محبت کا اظہار کیا تو وہ علماء کے ساتھ آگئے، اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ شہید کے ساتھ آگئے، وہ امام خمینی کے ساتھ آگئے، وہ رہبر کے ساتھ آگئے۔ وہ کتنا خوبصورت ترین منظر تھا جب اتنا عظیم اجتماع مینار پاکستان میں لبیک خامنہ ای کا ترانہ پڑھ رہا تھا، کیا کوئی اس چیز کو درک کرسکتا ہے۔

دشمن نے کتنی کوششیں کی تھیں کہ مرجعیت سے، رہبریت سے لوگوں کو دور کیا جائے، فاصلے پیدا کیے جائیں۔ ذاکرین نے شرکت کرکے بتا دیا کہ وہ باشعور ہیں، وہ جگہ جگہ گئے اُنہوں نے مجالس میں اعلانات کئے کہ کانفرنس میں جانا ہے۔ الحمد للہ آئندہ ہم مختلف فورم بنا رہے ہیں جن کے ذریعے سے باہمی رابطوں کو تقویت دی جائے گی۔ اس فورم کے ذریعہ دوریاں ختم ہونگی اور ایک دوسرے کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔ انشاءااللہ ہم قوم کی خدمت کیلئے نکلے ہیں اور قوم کو مایوس نہیں کریں گے۔

اسلام ٹائمز: علامہ ناصر عباس جعفری نے نشتر پارک اور پارلیمنٹ کے سامنے جمعہ کی نماز کے اجتماع میں اعلان کیا تھا کہ وہ اپنے برزگ علماء کو لے کر آئیں گے، پھر کیا وجہ بنی کہ وہ شخصیات اور بزرگ علماء قرآن و سنت کانفرنس میں شریک نہ ہوئے۔؟

علامہ ناصر عباس جعفری: ہم نے اپنی طرف سے تمام بزرگوں کو دعوت دی، بعض بزرگوں کے پاس میں خود گیا، ہمارا کام دعوت دینا اور بلانا ہے۔ ہمیں اُمید ہے کہ اگر وہ آج نہیں آئے تو کل آجائیں گے، بالاخر اُن کو آنا پڑے گا۔ قوم اور ملت سے الگ تھلگ نہیں رہا جاسکتا۔ ہمیں اُمید ہے کہ ہمارے بزرگان حالات اور اس کی نزاکت کو سمجھتے ہیں، وحدت کی طرف رخ کریں گے اور ہم سب مل کر اپنی قوم اور ملت کو اس کی منزل کی طرف لے جائیں گے، اور انشاءاللہ وحدت کا سمندر سب کو اپنی طرف جذب کرے گا۔

اسلام ٹائمز: آپ نے جو سیاسی لائحہ عمل بیان کیا اس کی عمل داری کا کیا طریقہ کار ہوگا، مطلب یہ کہ پورے پاکستان میں یکساں پالیسی اختیار کی جائے گی یا پھر علاقہ اور حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلے کئے جائیں گے۔؟

علامہ ناصر عباس جعفری: انشاءاللہ جو پالیسی دی گئی ہے اس کے مطابق اس پر پورے ملک میں عمل کریں گے، اور پاکستان میں بسنے والے باشعور شیعہ اپنا رول پلے کریں گے اور پارلیمنٹ کے اندر وطن دوست، اسلام دوست، مظلوموں کی حمایت کرنے والے اور امریکہ مخالف افراد کو پارلیمنٹ پہنچانے میں مرکزی کردار ادا کریں گے، ایسے لوگوں کو لے کر جائیں گے جو شیعہ اور سنی اتحاد پر ایمان رکھتے ہیں۔
 
جو پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوں، جو پاکستانی عوام کی صحیح ترجمانی کرتے ہوں، ان کو سپورٹ کریں گے اور انہیں کامیاب کرانے میں مرکزی کردار ادا کریں گے۔ ہم ان افراد کو پارلیمنٹ پہنچائیں گے جو عالمی قوتوں کے پریشر کے آگے سرنڈر نہ کرسکیں، جن کا ماضی بے باک ہو، جو اس حوالے سے اپنا بھرپور رول ادا کریں کرسکیں اور قوم کو بھی انشاءاللہ اس طرف دعوت دیں گے کہ وہ بھی ساتھ دیں، تاکہ بڑے اور عظیم کام میں شیعہ خصوصی طور پر کردار ادا کرتے ہوئے نظر آئیں۔

اسلام ٹائمز: پروگرام کی کامیابی کے بعد ایم ڈبلیو ایم کا اگلا لائحہ عمل کیا ہے۔؟

علامہ ناصر عباس جعفری: اس وقت ہمارے دینی جماعتوں سے رابطے شروع ہوئے ہیں، ملکی سطح کے اُوپر ادارے بنا رہے ہیں، تھنک ٹینکس بنا رہے ہیں، جن میں ماہرین تعلیم، ماہرین اقتصادیات، اور دیگر اہم ایشوز پر تھنک ٹینکس اپنا کام کریں گے اور انکی رائے کے مطابق اپنے کاموں کو آگے بڑھائیں گے۔ اسوقت ہماری کوشش اداروں کو مضبوط بنانے کی ہے، اور اس پر تیزی سے کام جاری ہے، تاکہ ہمارا سسٹم تیزی سے مضبوط ہوجائے اور جو قوم نے ہم سے توقعات رکھی ہیں، اُن پر پورا اتر سکیں۔

اسلام ٹائمز: آپ نے اپنے خطاب میں ایک بات کہی تھی کہ ہم سنیوں کو بھی مضبوط بنائیں گے، اس حوالے سے کیا حکمت عملی ہے اور اُن سے رابطوں کی صورتحال کیا ہے۔؟

علامہ ناصر عباس جعفری: یہ ایک حقیقت کہ پاکستان شیعہ سنی دونوں نے ملکر بنایا تھا اور ہم سمجھتے ہیں کہ دونوں مل کر ہی اس ملک کو بچا سکتے ہیں، اسے مشکلات سے نکالنے میں اہم رول ادا کرسکتے ہیں۔ تفرقہ اس ملک کیلئے دیمک کی طرح ہے، جو کسی صورت کسی کیلئے بھی فائدہ مند نہیں، ہم وحدت مسلمین کے پلیٹ فارم سے معتدل شیعہ سنی افراد کو پارلیمنٹ میں بھجوانے میں اہم کردار ادا کریں گے۔ ہم نے اپنے روڈ میپ میں اعلان کیا ہے کہ ہم معتدل سنیوں اور شیعہ افراد کو پارلیمنٹ میں لائیں گے۔

جب ہم نے یہ کہہ دیا ہے کہ معتدل سنیوں کو سپورٹ کریں گے تو یہ سنیوں کو مضبوط کرنا ہی ہے۔ اب لوگوں کو فرقہ پرستی اور دیگر مسائل سے نکلنا ہوگا۔ ہماری کوشش ہے کہ یہی رویہ دوسری طرف بھی پروان چڑھ سکے اور ہم اس مادر وطن کو مضبوط بنا سکیں۔ ہم وطن میں بسنے والے تمام طبقات خواہ وہ شیعہ ہیں، سنی ہیں، عیسائی ہیں، سکھ ہیں، ہندو ہیں، جو بھی پاکستان میں ہیں ان کے درمیان برادرانہ روابط کو پروان چڑھائیں، تاکہ ملک کے اندر استحکام پیدا ہو، ملک ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہوسکے۔ اس وقت وطن عزیز میں بھائی چارے اور امن کی ضرورت ہے، ہم اپنے اتحاد کے ذریعہ تکفیریوں کو ناکام بنائیں گے۔ ہم انہیں مجبور کریں گے کہ وہ اعتدال کی سوچ اپنائیں۔

اسلام ٹائمز: قرآن و سنت کانفرنس میں آپ نے سید منور حسن کو مخاطب کیا تھا، آج اسلام ٹائمز کے توسل سے کوئی خاص پیغام دینا چاہیں گے۔؟

علامہ ناصر عباس جعفری: جماعت اسلامی ایک اسلامی جماعت ہے۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ جماعت اسلامی فرقہ وارانہ سوچ کی حامل نہ بنے۔ جب ہم اسلام کی بات کرتے ہیں تو پھر ہمیں عدل کے لئے کام کرنا چاہیے، مظلوموں کے لئے کام کرنا چاہیے، ظلم کے خلاف ہونا چاہیے۔ جماعت اسلامی کو نہیں چاہیے کہ وہ دہشتگردوں کو اپنے ساتھ رکھے۔ وہ گروہ اور افراد جو شیعہ قتل و غارت میں ملوث ہیں انہیں ساتھ بیٹھائے، یا انہیں گراؤنڈ فراہم کرے۔ قاضی حسین احمد صاحب نے جماعت کو جس راستے پر لگایا تھا۔ اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ موجودہ قیادت نے جماعت کو اس راستے سے ہٹا دیا ہے۔

قاضی حسین احمد جماعت اسلامی کو معتدل قوتوں کی طرف لے کر آئے تھے اور جماعت اعتدال پسندوں کی طرف آگئی تھی، جو ملک میں امن و سکون کی حامی اور دہشتگردوں کیخلاف تھی۔ لیکن آج اُنہیں پروموٹ کیا جا رہا ہے جو دہشتگردی اور شیعہ کلنگ میں ناصرف مکمل ملوث ہیں، بلکہ اس کا اظہار بھی وہ کئی جگہوں پر کرچکے ہیں۔ اگرچہ جماعت اسلامی والے یہ کہتے ہیں کہ ہم عوامی جدوجہد پر ایمان رکھتے ہیں، ہم انتخابی عمل پر یقین رکھتے ہیں تو انہیں عوامی رائے عامہ کا خیال کرنا چاہیے، پاکستان کے عوام دہشتگردی اور انتہا پسندی کیخلاف ہیں۔ لہٰذا رائے عامہ کا خاص خیال رکھنا چاہیے۔ پاکستان کی رائے عامہ ان دہشتگردوں کو قبول نہیں کرتی ہے۔ ان دہشتگردوں نے پاکستان اور اسلام کا امیج خراب کیا ہے۔ آپ انتہا پسندوں کو ساتھ لگا کر کبھی اپنے اہداف حاصل نہیں کرسکتے۔

آج بھی جماعت اسلامی نے ان لوگوں کو اپنے ساتھ رکھا ہوا ہے جو شیعہ مخالف ہیں، جہاں شیعہ مخالف نعرے لگتے ہیں۔ کیا جواب ہے منور حسن صاحب کے پاس ان چیزوں کا۔؟ پاکستان میں اہل سنت بریلوی کے بعد سب سے بڑی Community پاکستان میں اہل تشیع کی ہے، جنہوں نے پاکستان بنایا، پاکستان چلانے میں رول پلے کیا۔ جن لوگوں نے اہل تشیع کا قتل عام کیا، امام بارگاہوں پر حملے کیے، عزاداری کے جلوسوں کو نشانہ بنایا، ہمیں مسلمان نہیں سمجھتے، ہماری مساجد پر حملے کرتے ہیں، جگہ جگہ شیعہ قوم کیلئے مشکلات کھڑی کرتے ہیں، اُن کا ساتھ دینا یا ان کی حوصلہ افزائی کرنے کے کیا معنی ہیں۔؟
 
لہٰذا میں منور حسن صاحب سے یہ عرض کروں گا کہ آپ قاضی حسین احمد صاحب والی پالیسی پر چلیں گے تو جماعت اسلامی بہتر نتائج دے گی، نہ اُس پالیسی پر جو ضیاءالحق کے زمانے میں جماعت اسلامی نے اپنائی تھی۔ میاں طفیل صاحب کے زمانے میں جماعت اسلامی کے اپنے لوگ Confuse ہوئے تھے، پریشان تھے کہ انہیں کیا کرنا چاہیے، ایک آمر کے ساتھ رہ کر اُنہوں نے بڑا نقصان اُٹھایا، ضیاءالحق کے زمانے میں اور اب ان دہشتگردوں کے ساتھ رہ کر اُس سے بڑا نقصان اُٹھائیں گئے۔ میں جماعت کے ان افراد سے گذارش کروں گا جو کہ جماعت کی بدلتی ہوئی پالیسی پر نظر رکھے ہوئے ہیں، کیونکہ جماعت اسلامی ملک کا سرمایہ ہے، اسے معتدل لوگوں کی طرف لائیں، نہ کہ انتہاپسندوں کی طرف جائیں۔
خبر کا کوڈ : 181233
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش