0
Wednesday 12 Sep 2012 08:45

بھیک مانگ کر آزاد خارجہ پالیسی نہیں بنائی جا سکتی، خورشید محمود قصوری

بھیک مانگ کر آزاد خارجہ پالیسی نہیں بنائی جا سکتی، خورشید محمود قصوری

خورشید محمود قصوری کا تعلق سیاسی خاندان سے ہے۔ ان کے واالد میاں محمود علی قصوری 1973ء کا متفقہ آئین تشکیل دینے والی کمیٹی کے ممبر تھے۔ خورشید قصوری تحریک استقلال، مسلم لیگ ن، مسلم لیگ ق اور اب تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے سیاست کر رہے ہیں۔ جب نائن الیون کا واقعہ ہوا تو پاکستان میں فوجی حکومت تھی۔ جس نے امریکہ کا ساتھ دیا۔ خورشید قصوری وزیر خارجہ بنے تو انہوں نے بھی وہی پالیسی اپنائی جو جنرل پرویز مشرف پہلے سے اختیار کر چکے تھے۔ اسلام ٹائمز نے نائن الیون کے گیارہ سال بعد پاکستان کی صورت حال پر ان سے انٹرویو کیا ہے۔ جو قارئین کی نذر کیا جا رہا ہے۔

اسلام ٹائمز: 9/11 کے واقعہ کا ذمہ دار واقعی اسامہ بن لادن ہے یا یہ یہودیوں کی سازش ہے۔؟
خورشید محمود قصوری: بحیثیت وزیر خارجہ اور بین الاقوامی معاملات کا مشاہدہ کرنے والے کے طور پر میرے نزدیک یہ بحث فضول ہے کہ 11/9 کا واقعہ درست ہے بھی یا نہیں۔ اہم بات نو یہ ہے کہ اس واقعہ کے بعد تو دنیا ہی بدل گئی ہے۔ اس لئے ہمیں فوکس کرنا چاہئے کہ اس سے کیا نقصان ہوا۔ اگر conspiracy theory میں جائیں گے تو اس کی کوئی حد نہیں، اس پر لامحدود مباحثے ہوچکے ہیں۔ ہمیں فرض یہی کرنا چاہئے کہ تمام بین الاقوامی برادری نے امریکہ کی حمایت کی تھی۔ 11 ستمبر کے بعد اقوام متحدہ میں ایک نہیں، کئی قراردادیں پیش کی گئیں۔ ایسے ممالک جو امریکہ کے مخالف تصور ہونے والے ممالک میں شمار کیے جاتے تھے، وہ بھی اس کی حمایت میں تھے اور ہمدردی کا اظہار کر رہے تھے۔ اس لئے فضول ہوگا کہ اس بحث میں پڑا جائے۔ البتہ ہمارے لئے یہ بات اہم کہ دنیا کے اس پر نتائج کیا ہونگے، اس پر زیادہ سیر حاصل بات ہوسکتی ہے۔

اسلام ٹائمز: اس واقعہ سے پاکستان کس حد تک متاثر ہوا۔؟
خورشید محمود قصوری: خوشی سے پاکستان اس جنگ میں نہیں گیا تھا۔ اس میں انگریزی کہاوت it found itself between hot and rock place کی کیفیت تھی، بہت مشکل صورتحال تھی۔ سامنے ایک طرف پاکستان کے ساتھ طالبان تھے۔ جب افغانستان میں سول وار کے نتیجے میں طالبان نے اقتدار حاصل کیا تو اس کے پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات تھے۔ دنیا کے صرف تین ممالک نے طالبان کی حکومت کو تسلیم کیا تھا۔ ایک پاکستان، دوسرا سعودی عرب اور تیسرا متحدہ عرب امارات۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے سفیر افغانستان میں نہیں تھے۔ صرف پاکستان کا سفیر کابل میں تھا۔ مزید یہ کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات ان کی مالی امداد تو کرسکتے تھے اور کر رہے تھے۔

مگر سیاسی طور پر اس کا دارومدار پاکستان کی امداد پر تھا۔ اگر پاکستان اس کو سپورٹ نہ کرتا تو طالبان حکومت قائم نہیں رہ سکتی تھی، چونکہ جو دوسرے راستے بعد میں امریکہ نے استعمال کئے جو ناردرن روڈ ورک ان کا ہے۔ وہ ان کے لئے میسر نہیں تھا، تو ان کی ہمدردیاں ناردرن الائنس کے ساتھ تھیں۔ جو ازبکستان یا تاجکستان کے ذریعے راستہ میں یا سابقہ سویت یونین میں ان کی جو سپورٹ تھی وہ تو ناردرن الائنس کے ساتھ تھی۔

پاکستان پر نزلہ اس لے گر رہا تھا کہ مغرب اور خاص طور پر امریکی یہ سمجھتے تھے کہ ان پر امریکہ میں جو حملہ ہوا ہے اس میں پاکستان کا ڈائریکٹ تو ہاتھ نہیں، لیکن حملہ چونکہ طالبان کے دور میں ہوا ہے اور طالبان حکومت پاکستان کے بغیر قائم نہیں رہ سکتی تھی۔ اس لئے پاکستان کو اس مشکل کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا اور واقعی ایک بہت مشکل صورتحال تھی۔ 

اسلام ٹائمز: اس صورتحال سے پاکستان نے کیا سبق سیکھا۔؟
خورشید محمود قصوری: اس واقعہ کا سبق تو ایک ہے، جو ہم نے سیکھا نہیں۔ اور اب سیکھ لینا چاہئے۔ وہ یہ ہے کہ کوئی خوددار قوم خودداری کے صرف نعرے نہیں لگا سکتی۔ ہر وقت صرف نعرے لگاتے ہیں، ٹیکس ہم نے دینا کوئی نہیں، خودداری کے ہم نعرے لگاتے ہیں۔ کہتے ہیں آزاد خارجہ پالیسی ہونی چاہیئے تو آزاد خارجہ پالیسی ہم کیا خاک بنائیں گے کہ آپ کا وزیر خارجہ اور وزیر خزانہ بھیک منگتے بن چکے ہیں۔ کبھی ورلڈ بینک کے چکر لگا رہے ہیں اور کبھی مغرب کی اس حکومت کے پیچھے جا رہے ہیں۔ جس کے پاس ورلڈ بینک میں ووٹنگ کے حقوق ہیں۔

آئی ایم ایف کا جہاں تک تعلق ہے۔ ہم آئی ایم ایف پر کافی dependent ہو جاتے ہیں، جیسے موجودہ حکومت ہوگئی ہے تو آزاد خارجہ پالیسی آپ کیا چلا سکتے ہیں۔ اس لئے سبق بڑا سادہ ہے اور وہ قوم کو من حیث القوم فیصلہ کرنا پڑے گا اور تمام سیاسی پارٹیوں کو مل کر کرنا پڑے گا۔ البتہ صرف دعوے کرنے ہیں تو اور بات ہے۔ چونکہ دعوے میں تو صرف زبان ہلتی ہے۔ ہمارے ہاں کوئی ٹیکس دینے کو تیار نہیں۔ آٹھ فیصد جی ڈی پی کا ہمارا ٹیکس ہے، دنیا میں تو جی ڈی پی کا بہت اونچی سطح کا شرح ٹیکس ہے 25 سے 30 فیصد والے ممالک بھی ہیں۔ آپ اپنے علاقے میں ہندوستان کی مثال دیکھ لیں جہاں 15 سے 16 فیصد جی ڈی پی پر چل رہا ہے۔

اس لئے آپ کی تعلیم اور صحت کا نظام تباہ ہو گیا ہے۔ چونکہ ٹیکس کولیکشن کی بدترین صورتحال ہے تو خارجہ پالیسی کے ساتھ ہمارا سوشل سیکٹر بھی تباہ ہو رہا ہے۔ اس لئے میں کہتا ہوں کہ آپ کا اشارہ اگر تھا کہ ہم 9/11 کے بعد امریکہ کے پریشر میں آگئے تھے۔ اگر خود کو پریشر سے آزاد کروانا ہے تو آپ کو پھر خود انحصار ہونا پڑے گا۔ خود انحصاری کی پالیسی اپنانی پڑے گی، جس کا میں نے کہا کہ ٹیکس کی شرح اتنی تو ہو کہ ہم آزاد خارجہ پالیسی بنا سکیں۔

اس کے علاوہ یہ بات کہ پاکستان کی گورننس کو بہتر کرنا ہوگا۔ کیونکہ اس کی وجہ سے ہم ٹیکس نہیں دیتے جبکہ یہ حقیقت ہے کہ پاکستانی قوم صدقہ اور خیرات دینے میں پہلے نمبر پر ہے۔ لیکن حکومت کو ٹیکس نہیں دیتے، کیونکہ انہیں حکومت پر اعتماد نہیں ہے۔ اگر حکومت پر اعتماد ہو تو جو لوگ غیر سرکاری تنظیموں کو پیسہ دے رہے ہیں تو حکومت کو بھی ٹیکس دیں تو حکومت کو اپنی گورننس بہتر کرنا ہوگی۔ جب تک حکومت کا نظام شفاف نہیں ہو جاتا، لوگ آپ پر اعتماد نہیں کریں گے۔ تو ٹیکس اکھٹا کرنے کے لئے آپ کو گورننس کو بہتر بنانا ہوگی۔

اسلام ٹائمز: جب نائن الیون کا واقعہ ہوا تو آپ پاکستان کے وزیر خارجہ نہیں تھے۔ اور 2002ء کے انتخابات کے بعد بنے اور جو کچھ بعد میں امریکہ کی حمایت اور طالبان کے خلاف ہوا، آپ اس کا حصہ ضرور تھے۔ اب آپ تحریک انصاف میں ہیں، جس کے لیڈر امریکہ کی مخالفت اور طالبان کی حمایت کرتے ہیں، تو دونوں میں کچھ تضاد نہیں۔؟
خورشید محمود قصوری: میرے موقف میں کوئی تضاد ہے ہی نہیں۔ انٹرنیٹ پر میرے اس وقت کے بیانات دیکھ لیں۔ میں اس وقت بھی بیانات دیتا تھا کہ امریکہ کی ہر بات ہم نہیں مان سکتے۔ جب وزیرستان معاہدہ ہوا تھا تو میں وزیر خارجہ تھا۔ امریکہ ہم پر سخت تنقید کر رہا تھا اور آپ کو یاد ہوگا کہ جب معاہدہ ہوا تو نیک محمد کو انہوں نے میزائل سے مار دیا تھا۔ امریکہ چاہتا تھا کہ ہم ملٹری ایکشن لیں۔ لیکن حکومت کا یہ خیال تھا کہ یہ کہنا آسان نہیں ہے۔ پہلے آپشن پر ہر حال میں شدت پسندوں سے بات چیت ہونی چاہئے۔

بات چیت کے لئے ہی ہمارے دور میں معاہدے ہوئے تھے۔ یہ معاہدہ باجوڑ میں بھی ہوا اور وزیرستان میں بھی ہوا۔ پھر جب ہم معاہدے کرتے تھے تو امریکہ ہم پر الزام عائد کرتا تھا کہ ہم ڈبل گیم کر رہے ہیں کہ running with the hare hunting with the hound تو ہم نے اس وقت بھی کہا تھا۔ جب میں وزیر خارجہ تھا کہ پاکستان کوئی ڈبل گیم نہیں کر رہا اور نہ ہی running with the hare hunting with the hound کی پالیسی اپنائے ہوئے ہے۔ پاکستان ایک مصیبت میں پھنسا ہوا تھا، اور اس مصیبت سے نکلنے کی ہم بھرپور کوشش کر رہے تھے۔

جہان تک عمران خان کا تعلق ہے وہ طالبان کے حمایتی نہیں ہیں، بلکہ طالبان کے ان کے خلاف بیانات بھی اخبارات میں لگ چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستانی عوام پر فوج کشی نہیں کی جانی چاہئے ہے۔ میرا تو ہمیشہ سے یہ موقف رہا ہے کہ پہلے بات چیت کی جانی چاہئے۔ سوات ایک اچھی مثال آپ کے سامنے موجود ہے کہ سوات میں نظام عدل آرڈیننس کے موقع پر کئی لوگوں نے اس پر تنقید بھی کی تھی۔ لیکن جب نظام عدم آرڈیننس ہوگیا اور اس کے بعد طالبان نے اور مطالبات کئے کہ ہم آپ کی عدلیہ کو نہیں مانتے، پاکستان کے آئین کو نہیں مانتے، تو رائے عامہ ان کے خلاف ہوئی، تو جب رائے عامہ کی حمایت سے ملٹری آپریشن ہو تو اس میں کامیابی حاصل ہوئی۔ فوج وہیں بہتر طور پر لڑ سکتی ہے، جہاں اس کو عوام کی تائید حاصل ہو۔

اسلام ٹائمز: کچھ دانشوروں کا خیال ہے کہ القاعدہ نے اس خطے میں وہی کر دار ادا کیا جو لارنس آف عریبیہ نے اسرائیل بنانے میں کیا۔؟
خورشید محمود قصوری: کسی نے اگر کہا ہے تو اس کی اپنی رائے ہوگی۔ عام زبان میں بات کرنا چاہوں گا۔ اگر اس سے مراد آپ کا پاکستان اور مسلمانوں کو نقصان ہے تو وہ ضرور ہوا ہے۔ دوسرا یہ کہ جو عام خیال تھا طالبان کے بارے میں کہ وہ شدت پسند ہیں اور ایسی ایکٹیویٹیز کرتے ہیں جو پسند نہیں کی جاتیں۔ بدھا کے مجسمے بارود سے اڑا دیئے گئے۔ اس وقت کی حکومت میں، میں وزیر خارجہ نہیں تھا۔ انہوں نے پوری کوشش کی انہیں روکنے کی۔ چین سری لنکا اور پاکستان سے بھی کہا کہ ان کو روکا جائے، وہ رکنے کو تیار نہ تھے۔ تو اس سے پاکستان کا امیج خراب ہوا کہ ہمیں طالبان کا سپورٹر سمجھا جا رہا تھا۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس کا پاکستان کو نقصان ہوا ہے اور پھر پاکستان کی اندرونی سیاست دیکھیں یا ہماری اقدار دیکھیں تو اس میں شدت آئی ہے۔ اس سے پاکستان کو نقصان ہوا ہے فائدہ نہیں ہوا۔ کونکہ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے جو تصور پاکستان پیش کیا تھا وہ all inclusive پاکستان تھا، جس مین تمام مسلمان اور غیر مسلم پاکستانی برابر کے شہری ہوں گے۔ غیر مسلم کو تو چھوڑیں اب تو مسلمان بھی آپس میں دست و گریبان ہیں کہ مساجد، امام بارگاہوں پر حملے ہو رہے ہیں اور تو اور ہماری سکیورٹی فورسز پر بھی حملے ہو رہے ہیں، تو میں سمجھتا ہوں بہت نقصان ہوا ہے اس دہشت گردی کا۔

خبر کا کوڈ : 194493
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش