2
0
Sunday 30 Sep 2012 23:46
ملک میں جان بوجھ کر نفرتیں بوئی گئیں

معافی نہ مانگی تو مسلمان ایسا احتجاج کرینگے کہ امریکہ پر زمین تنگ پڑ جائیگی، مولانا عطاء الرحمان

معافی نہ مانگی تو مسلمان ایسا احتجاج کرینگے کہ امریکہ پر زمین تنگ پڑ جائیگی، مولانا عطاء الرحمان
مولانا عطاء الرحمان کا بنیادی تعلق ڈیرہ اسماعیل خان سے ہے، آپ جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کے بھائی ہونے کے علاوہ جمعیت علماء اسلام خیبر پختونخوا کے سینئر نائب امیر بھی ہیں، وفاقی وزیر سیاحت کی ذمہ داریاں بھی ادا کرچکے ہیں، لیکن جے یو آئی کی مرکزی حکومت سے علیحدگی کے بعد آپ نے وزارت سے استعفٰی دیدیا، اس وقت رکن قومی اسمبلی کی حیثیت سے ایوان زیریں میں موجود ہیں، مولانا صاحب نرم مزاج اور میڈیا دوست شخصیت بھی ہیں، ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے مولانا عطاء الرحمان سے ایک مختصر انٹرویو کا اہتمام کیا، جو قارئین کے پیش خدمت ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: مولانا صاحب اب جبکہ امریکی صدر نے جنرل اسمبلی سے خطاب کے دوران دوٹوک الفاظ میں توہین آمیز فلم پر معافی مانگنے سے انکار کر دیا ہے تو مسلم امہ کا آئندہ لائحہ عمل کیا ہونا چاہئے اور جے یو آئی احتجاجی سلسلے کو اب کیا رخ دے گی۔؟
مولانا عطاء الرحمان: نبی کریم (ص) تک جتنے بھی انبیاء (ع) آئے ہیں، ان کا احترام ہم سب پر واجب ہے، ہم اس وقت تک ایمان کو کامل نہیں سمجھتے جب تک ہم تمام انبیاء (ع) پر ایمان نہ لائیں، اسی قسم کے احترام کا مظاہرہ دیگر اقوام کو بھی کرنا چاہئے اور بین الاقوامی سطح پر ایک دوسرے کے بنیادی عقائد کا احترام نہیں ہوگا تو اس کا بہت بڑا نقصان ہوگا، اور دنیا میں فساد برپا ہوں گے، یہ یقیناً ان کی تنگ نظری ہے، بنیاد پرستی ہے، ان کے ان نظریات کا اظہار ہو رہا ہے، جس کے بارے میں ہم پہلے سے کہتے آرہے ہیں کہ یہ لوگ دہشتگرد ہیں، یقیناً عمل جو ہوتا ہے وہ دہشتگردی پر مبنی ہوتا اور ردعمل کبھی دہشتگردی نہیں ہوتا، مجبوراً ردعمل ظاہر کیا جاتا ہے، امریکہ کو چاہئے کہ وہ یقیناً مسلمانوں سے معافی مانگے اور اگر وہ مسلمانوں سے معافی نہیں مانگتا تو ممکن ہے کہ پوری دنیا کے مسلمان ایسے احتجاج پر اتر آئیں کہ امریکہ پر زمین تنگ پڑ جائے۔ 
 
اسلام ٹائمز: امریکہ کیخلاف جس قسم کی تحریک جماعت اسلامی نے گو امریکہ گو کے نام سے شروع کی تھی، ایسی کوئی تحریک جے یو آئی (ف) کی جانب سے سامنے کیوں نہیں آئی۔؟
مولانا عطاء الرحمان: جمعیت علماء اسلام نے یقیناً مظاہرے بھی کئے ہیں، احتجاج کی کالیں بھی دی ہیں اور ہفتے میں تقریباً دو، دو، تین، تین دن مظاہرے ہوئے ہیں اور مسلسل ہو رہے ہیں، گزشتہ جمعہ کو بھی جمعیت علماء اسلام نے مختلف اضلاع اور ڈویژنز میں مظاہرے کئے ہیں، اور جمعیت علماء اسلام اس پر یقین رکھتی ہے کہ امریکہ کو ہر صورت میں اس فعل پر مسلمانوں سے معافی مانگنی چاہئے۔

اسلام ٹائمز: خیبر پختونخوا کی سطح پر متحدہ مجلس عمل کی بحالی پر اتفاق کیا گیا ہے، جماعت اسلامی کی عدم موجودگی کی صورت میں کیا اس اتحاد کے وہ نتائج سامنے آسکیں گے، جو عوامی توقعات کے مطابق ہوں۔؟
مولانا عطاء الرحمان: دیکھیں، ہماری تو آخری وقت تک کوشش تھی کہ اس میں وہی تمام جماعتیں شامل رہیں، اور اسی صورت حال میں یہ بحال ہو، جس صورت حال میں غیر فعال ہوئی تھی، لیکن مسلسل رابطہ اور مسلسل کوششوں کے باوجود جب ایک چیز منڈھے نہیں چڑھ رہی تھی تو مجبوراً جمعیت علماء اسلام کو یہ کہنا پڑا کہ مائنس جماعت اسلامی کے تحت دوسری تنظیموں سے بات کر کے متحدہ مجلس عمل کو بحال کرنے کی کوشش کی جائے، جہاں تک صوبائی یا ضلع پشاور کی سطح کا تعلق ہے تو وہاں پر ان لوگوں سے بات ہوئی ہے، اور اس روز مولانا صاحب نے ایک انٹرویو میں بھی یہی کہا کہ سیٹ ٹو سیٹ ایڈجسٹمنٹ جو ہے اس کو اہم خارج از امکان نہیں سمجھتے، ہو سکتا ہے کہ کسی ضلع یا کسی جگہ پر ہماری سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہو جائے، لیکن جہاں تک متحدہ مجلس عمل کی بات ہے تو مولانا صاحب نے بھی اس دن کہا اور جمعیت علماء اسلام نے بھی فیصلہ کرلیا ہے کہ اب ہم مزید انتظار نہیں کرینگے، مائنس جماعت اسلامی کے تحت دوسری تنظیموں کے ساتھ بات کرنے کے بعد کوئی پلیٹ فارم متحدہ مجلس عمل کا بنتا ہے تو اسے بنانے کی کوشش کریں گے۔

اسلام ٹائمز: آپ لوگ جماعت اسلامی کے وہ مطالبات کیوں نہیں مان لیتے جن میں کہا گیا ہے کہ ایم ایم اے کے غیر فعال ہونے کی وجوہات کا تعین کیا جائے، حکومت کیساتھ کسی قسم کے روابط نہ رکھے جائیں۔ جمعیت علماء اسلام حکومت کا حصہ رہی ہے۔ کیا آپ کی جماعت بھی اس کی ذمہ دار نہیں ہے۔؟
مولانا عطاء الرحمان: آپ کی اطلاع غلط ہے، ان کے مطالبات یہ نہیں ہیں، ان کا مطالبہ ہے کہ صوبہ خیبر پختونخوا میں 50 فیصد سیٹوں کی تقسیم ہو، متحدہ مجلس عمل کی امارت ہمیں دی جائے، اور صوبہ خیبر پختونخوا میں آئندہ وزیراعلٰی ہمیں دیا جائے، دوسری بات یہ کہ جمعیت علماء اسلام تو دو سال پہلے حکومت کو چھوڑ چکی ہے، اور اگر ذاتی روابط یا کسی کے ساتھ ذاتی طور پر اٹھنے بیٹھنے کی بات ہے تو یہ سیاسی عمل ہے اور سیاسی میدان میں ہم نے حکومت کی مخالفت کی ہے، بلکہ بھرپور مخالفت کی ہے اور ان کے ہر اس اقدام کو غلط کہا ہے جو غلط ہے، باقی اس قسم کے روابط اور تعلقات کس کے کیساتھ نہیں ہوتے۔

اسلام ٹائمز: سننے میں آرہا ہے کہ حکومت انتخابات کو ملتوی کرنا چاہتی ہے، اگر ایسا ممکن ہوا تو آپ کی جماعت کا لائحہ عمل کیا ہو گا۔؟
مولانا عطاء الرحمان: ایسی صورتحال تو فی الحال سامنے نہیں آئی ہے، اگر ایسا کچھ ہوتا ہے تو جمعیت علماء اسلام دوسری سیاسی پارٹیوں کیساتھ ملکر اس کی ڈٹ کر مخالفت کرے گی۔

اسلام ٹائمز: آپ کا تعلق چونکہ ڈیرہ اسماعیل خان سے ہے اور یہ علاقہ دہشتگردی کا شدید شکار رہا ہے، یہاں ساڑھے چار سو سے زائد اہل تشیع کو قتل کیا گیا، ڈیرہ سمیت ملک بھر میں فرقہ وارانہ بنیاد پر ہونے والی اس قتل و غارت گری کا ذمہ دار کون ہے۔؟
مولانا عطاء الرحمان: دیکھیں، ایک ڈیرہ اسماعیل خان ہی نہیں پورے ملک میں فرقہ وارانہ بنیاد پر جو قتل و غارت گری ہوتی رہی ہے یا ہو رہی ہے، اس کے بنیادی ذمہ دار وہ لوگ ہیں جو یہ چاہتے ہیں کہ اس ملک میں افراتفری رہے، اس میں یقیناً خفیہ ہاتھ ملوث ہیں، اس میں وہ نوجوان اور لوگ استعمال ہوتے ہیں، جو ملک کے حالات پر نظر نہیں رکھتے، ان کے صرف اپنے ذاتی مقاصد ہوتے ہیں، ان کی نظر اسی پر ہوتی ہے۔
باقی ڈیرہ اسماعیل خان میں جمعیت علماء اسلام نے سپاہ صحابہ تھی یا سپاہ محمد، ان کے درمیان ہمیشہ ایک پل کا رول ادا کیا، اور کوشش کی ہے کہ دین کے نام پر جو نفرت پھیلائی جا رہی ہے اس کا کوئی سدباب کیا جا سکے، یقیناً نقصان ہوا ہے، اس میں کوئی شک نہیں ہے، لیکن جمعیت علماء اسلام کی جانب سے فیصلہ کرانے کے بعد گزشتہ کئی ماہ سے اب وہ صورتحال نہیں ہے، ہاں اکا دکا واقعات تو اب پورے ملک میں ہی ہو رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: مولانا صاحب گلگت بلتستان میں بے گناہ لوگوں کو بسوں سے اتار کر گولیوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، کوئٹہ میں آئے روز ہزارہ قبیلہ کے افراد نشانہ بن رہے ہیں، آپ نے ذکر کیا کہ اس میں خفیہ ہاتھ ملوث ہے، یہ خفیہ ہاتھ کس کا ہے۔؟
مولانا عطاء الرحمان: ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے ملک میں اس قسم کی نفرتیں بوئی جاتی ہیں نہ کہ یہ نفرتیں پیدا ہوں، ان کو بویا گیا ہے اور مسلسل بویا جا رہا ہے، اسی وجہ سے یہ منافرت پھیل رہی ہے، قوم کو اس کی طرف توجہ نہیں دینی چاہئے، اگر قوم اس طرف متوجہ ہوئی تو ہمار ملک اس چیز کا متحمل نہیں ہو سکتا کہ اس کو برداشت کرسکے۔

اسلام ٹائمز: اس حوالے سے قاضی حسین احمد صاحب کی سربراہی میں جو ملی یکجہتی کونسل کا قیام عمل میں لایا گیا ہے، جس کے سیکرٹری جنرل آپ کی جماعت کے حافظ حسین احمد صاحب ہیں، آپ کے خیال میں اس پلیٹ فارم سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے فروغ میں کس حد تک مدد مل پائے گی۔؟
مولانا عطاء الرحمان: میرے خیال میں جمعیت علماء اسلام ہو یا دیگر مذہبی جماعتیں ہوں، انہوں نے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ مذہب کی بنیاد پر جو منافرت پھیلائی جا رہی ہے، اس کو کسی نہ کسی طریقہ سے کم کیا جاسکے، اور روکا جا سکے۔ جہاں تک ملک کے اندر فسادات اور افراتفری ہے، اس کے حوالے سے ہمیں دوسرے رخ پر بھی سوچنے کی ضرورت ہے، قومیت کی بنیاد پر، لسانیت کی بنیاد پر، اس طرف ہم نہیں دیکھ رہے، آپ کی تاریخ پر نظر ہو تو بتاتا چلوں کہ فرقہ واریت سے ہٹ کر قومیت کی بنیاد پر آج تک آپ نے کوئی اتحاد نہیں دیکھا ہوگا، لسانیت اور علاقائیت کی بنیاد پر کوئی اتحاد آپ نے نہیں دیکھا ہوگا۔
وہ تنظیمیں دن بدن بڑھتی جا رہی ہیں، ان کی قوت میں اضافہ ہو رہا ہے، جبکہ مذہبی جماعتیں اور مذہبی لوگ جو ہیں وہ ہمیشہ اس بات کو مدنظر رکھتے ہیں کہ مذہب کی بنیاد پر منافرت نہیں ہونی چاہئے، اور مذہب کی بنیاد پر قوم کو نہیں لڑانا چاہئے، ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمیں قومیت، لسانیت، علاقائیت اور مذہب سمیت تمام چیزوں کے متعلق سوچنا چاہئے، کیونکہ جب کسی بھی علاقہ میں کوئی فساد ہوتا ہے تو لازماً اس کو یہ رنگ دیا جاتا ہے کہ یہ مذہب کی بنیاد پر ہوا ہے، حالانکہ اس میں دوسرے عناصر کا عمل دخل بھی ہوسکتا ہے۔

اسلام ٹائمز: مولانا صاحب عرب ممالک میں انقلابات اور بیداری کی جو لہر چلی، اس کو جے یو آئی کس نظر سے دیکھتی ہے۔؟
مولانا عطاء الرحمان: ایک وقت تھا کہ جب یہ لوگ عرب ممالک میں سربراہیاں کر رہے تھے، کوئی ان کو کچھ کہنے والا نہیں تھا، لیکن جب سے افغانستان اور عراق کے بعد ایک جہادی کلچر سامنے آیا ہے تو بین الاقوامی طور پر وہ قوتیں جو دنیا پر حکومت کرنے یا اپنی طاقت کے بل بوتے پر اپنے آپ کو قائم رکھنا چاہتی ہیں، ان کو یہ خطرہ لاحق ہوا کہ کل کلاں یہ جہادی قوتیں آگے آئیں اور ان ممالک میں کوئی تبدیلی لائیں، جس سے پھر امریکہ کو یہاں براجمان رہنے کا موقع نہ ملے، لہٰذا کیوں نہ اس سے پہلے ایسی مصنوعی تبدیلی لائی جائے یا ایسے لوگوں کو سامنے لایا جائے جو آئندہ آنے والی نسلوں میں بھی امریکی اور دیگر قوتوں کے سامنے گھٹنے ٹیکے رکھیں، ہم سمجھتے ہیں کہ جو کچھ ہو رہا ہے، ان کی ایماء پر ہو رہا ہے، اب دیکھیں لیبیا میں جو کچھ ہوا یا دوسرے علاقوں میں جو کچھ ہوا تو اس میں وہی لوگ شامل ہیں، عجیب بات ہے کہ یہاں پر تو اسے دہشتگردی کہا جاتا ہے اور وہاں پر دہشتگردی نہیں کہا جاتا، اس کی وجہ کیا ہے؟ ان کی ہر علاقہ اور لوگوں کیلئے اپنی حکمت عملی ہوتی ہے، جس سے انقلاب کی ایک شکل دیکر اپنے لوگوں کو لایا جا رہا ہے۔

اسلام ٹائمز: آپ سے آخری سوال کہ کیا آپ پاکستان میں کسی قسم کی مثبت تبدیلی یا اسلامی حکومت کا چانس دیکھتے ہیں۔؟
مولانا عطاء الرحمان: یقیناً، اگر مذہبی جماعتیں اور مذہبی قوتیں جو اس وقت پاکستان میں ایک سیاسی رول ادا کر رہی ہیں، وہ اپنے اندر ایک ترتیب اور نظم پیدا کرلیں اور صرف اس بات پر اکٹھی ہو جائیں کہ ہم نے اس ملک کو اسلامی نظام دینا ہے اور اللہ کے نظام کو اس خطہ پر نافذ کرنا ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ مشکل نہیں ہے، قوم ہمیشہ مذہبی جماعتوں کا ساتھ دیتی ہے، لیکن اگر ہم متحد ہو جائیں تو۔
خبر کا کوڈ : 199878
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
good
good intrve howi
ہماری پیشکش