0
Wednesday 9 Jan 2013 23:07

امریکی دفاعی تجزیہ نگار اس بات پر متفق ہیں کہ ایران پر حملہ امریکی نابودی کا سبب بنے گا، یافث نوید ہاشمی

امریکی دفاعی تجزیہ نگار اس بات پر متفق ہیں کہ ایران پر حملہ امریکی نابودی کا سبب بنے گا، یافث نوید ہاشمی

 محمد یافث نوید ہاشمی 1983ء میں ساہیوال میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم ملتان میں حاصل کی۔ قائد اعظم یونیوسٹی سے کامرس میں ایم اے کیا۔ انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی سے ایل ایل بی آنرز کیا اور بہائوالدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے ایل ایل ایم کیا۔ آج کل وکالت کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ بار میں پریکٹس کرتے ہیں۔ قائد اعظم یونیورسٹی میں دوران تعلیم آپ 2002ء میں امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان میں شامل ہوئے اور یونیورسٹی میں مختلف ذمہ داریوں پر رہے اور بعد ازاں مرکز میں ڈپٹی جنرل سیکرٹری اور جنرل سیکرٹری رہے۔ 2006ء سے 2007ء تک امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے مرکزی صدر رہے۔ صدارت کے بعد سے اب تک آئی ایس او کی مرکزی نظارت کے رُکن ہونے کے ساتھ ساتھ مجلس وحدت مسلمین کی تاسیس کے حوالے سے جو بنیادی کمیٹی آئی ایس او، آئی او اور مجلس وحدت مسلمین پر مشتمل بنائی گئی تھی اُس کے کوارڈینیٹر کے طور پر کام کیا اور اس وقت مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی سیکرٹری تعلیم کی ذمہ داری انجام دے رہے ہیں۔ آپ نے اپنے صدارتی دور میں مختلف ممالک میں انٹرنیشل کانفرنسز میں آئی ایس او پاکستان کی نمائندگی کی۔ یافث نوید ہاشمی اسلامی تحریکوں اور اسلامی ممالک کے حالات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے گذشتہ روز ان سے اسلامی تحریکوں اور اُن کے کردار کے حوالے سے انٹرویو کیا جو کہ قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ انٹرویو طویل ہونے کے باعث دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے، انٹرویو کا دوسرا حصہ جو کہ بحرین، یمن، لبنان، شام اور پاکستان پر مشتمل ہے بہت جلد پبلش کیا جائے گا۔ ادارہ 


اسلام ٹائمز: مصر میں ہونے والے ریفرنڈم اور اُس میں ایک بار پھر محمد مرسی کی کامیابی کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں؟
یافث نوید ہاشمی: مصر کے انقلاب کو ابھی بہت سے مراحل طے کرنا باقی ہیں، انقلاب لانا اتنا اہم اور مشکل نہیں ہوتا جتنا اُس کو بچانا، دوام بخشنا اور اُس انقلاب کے مقاصد کو لے کر آگے چلنا اہم ہوتا ہے۔ مصر میں عوامی طاقت نے اخوان المسلمین کی قیادت میں مرکزی کردار ادا کیا اور حسنی مبارک جیسے بُت کو زیر کردیا لیکن اخوان المسلمین کو اس انقلاب کو کامیاب بنانے کے لیے بہت سی کوششیں کرنے کی ضرورت ہے، لیکن یہ بات بھی واضح ہے کہ اس وقت اخوان المسلمین بہت سی مشکلات کا شکار ہے، جس کی وجہ یہ بھی ہے کہ اخوان المسلمین کو ماضی میں حکومت کا کوئی خاص تجربہ نہیں رہا، اپنی تاسیس سے لے کر اب تک اس طرح ہولی سولی حکومت میں نہیں آئی جیسا کہ اس وقت موجود ہے۔ دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ اخوان المسلمین اپنی بنیادی تعلیمات جو کہ سید حسن البناء اور شہید قطب کی تھیں اُن سے کسی حد تک ہٹ چکی ہے، اسی وجہ سے خود اخوان المسلمین کو مصر کے اندر بہت سی مشکلات دیکھنے میں آئیں یعنی مصر کی عوام کا اخوان المسلمین کے خلاف احتجاجی مظاہرے کرنا، ریفرنڈم کا مطالبہ کرنا اور ریفرنڈم کے بعد محمد مُرسی کے نائب صدر کا استعفی دینا، ان سارے واقعات کے بعد ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ اخوان المسلمین اس انقلاب کو باقی رکھ سکتی ہے یا نہیں اس حوالے سے ابھی دوسال بہت اہم ہیں۔ بہرحال ان باتوں کا تعین مستقبل میں ہو سکتا ہے کہ اگر اخوان المسلمین اپنے بنیادی نظریات پر عمل پیرا ہوتی ہے تو مشکلات میں کسی حد تک کمی واقع ہو سکتی ہے۔ 

اسلام ٹائمز: محمد مُرسی کی جانب سے اسرائیلی وزیراعظم کو بھائی کہنا کس بات کا اشارہ ہے؟
یافث نوید ہاشمی: اس وقت اخوان المسلمین اور محمد مُرسی جس تنقید کا شکار ہے وہ یہ ہے کہ ابھی تک مصر نے اسرائیل سے اپنے سفارتی تعلقات منقطع نہیں کئے۔ وہ کیمپ ڈیوڈ معاہدہ جو حسنی مبارک کے دور میں ہوا تھا وہ ابھی تک بھی برقرار ہے، محمد مُرسی کی طرف سے یا کسی بھی حکومتی سطح پر اس کو کالعدم قرار نہیں دیا گیا۔ اسی وجہ سے محمد مُرسی نے اقتدار سنبھالنے کے بعد اسرائیل میں جو اپنا سفیر تعینات کیا تھا اُسے جو خط دیا گیا تھا اُس میں اس طرح کے الفاظ استعمال کیے گئے تھے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ اگر ہم دوسرے تناظر میں دیکھین تو مصر کی حکومت نے پوری دنیا میں اپنے تعلقات کو بڑھانا شروع کیا ہے اور حالیہ غزہ پر جو جارحیت رہی اُس میں کردار پچھلی حکومت کے کردار سے بہت بہتر رہا ہے لیکن اخوان المسلمین جیسی ایک عالمی اسلامی تحریک کے طور پر یہ کردار بہت کم تھا اخوان المسلمین سے اس سے زیادہ اسلامی ممالک کی توقعات وابستہ تھیں۔
 
اسلام ٹائمز: مصر میں آنے والا انقلاب کیا مصری عوام کے لیے نجات دہندہ ثابت ہو گا؟
یافث نوید ہاشمی: اگر یہ انقلاب اپنے تمام تر مقاصد اور نظریات کو آگے لے کر چلتا ہے تو یقینا مصری عوام کے لیے نجات دہندہ ثابت ہو سکتا ہے۔ اگر صحیح اسلامی حکومت قائم ہوتی ہے اور وہ حکومت سید حسن البناء اور شہید قطب کے افکار کی پیروی میں آگے چلتی ہے تو یہ انقلاب فائدہ مند ثابت ہوسکتا ہے، لیکن اگر ان میں کوئی کمی واقع ہوتی ہے تو پھر مصر کی عوام اور اس انقلاب کے لیے سوالیہ نشان پیدا ہو گا کہ آیا یہ انقلاب کس انداز میں مصر کی عوام کے لیے نجات دہندہ ثابت ہو سکتا ہے، کیونکہ انقلاب لانے کے بعد یہ تصور کیا جاتا ہے کہ لوگوں کو فوری طور پر روزگار، بھوک و افلاس کا خاتمہ اور ملک میں روپیہ پیسہ آنا شروع ہو جائے۔ دراصل انقلاب کا مقصد ہوتا ہے کہ اس معاشرے کی اسلامی اقدار زندہ ہو جائیں جس طرح کہ اخوان المسلمین نے نعرہ لگایا ہے کہ یہ اسلامی انقلاب ہے اور اگر حکمران جماعت ان اقدار کو زندہ کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو یہ مصری عوام کے لیے مفید ہو گا۔ 

اسلام ٹائمز: حالیہ ایرانی خارجہ پالیسی کی کامیابی کہ جسکو دشمن بھی تسلیم کر رہا ہے کو کس تناظر میں دیکھتے ہیں؟ اور بالخصوص غیر وابستہ ممالک کا کامیاب اجلاس جس کی امریکہ اور عرب ممالک نے شدید مخالفت کی لیکن اس کے باوجود کامیابی؟
یافث نوید ہاشمی: تاریخ نے اس بات کو ثابت کیا ہے کہ ایران اس وقت ایک کامیاب خارجہ پالیسی کی راہ پر گامزن ہے، جس طرح کی اقتصادی پابندیاں ایران کے اوپر موجود ہیں، جس طرح کا عالمی طاقتوں کا دبائو موجود ہے، امریکہ، اسرائیل اور برطانیہ سمیت تمام عالمی اداروں کا دبائو موجود ہے، جن میں اقوام متحدہ اور یو اے ای کی جانب سے معائنہ کمیشن و دیگر معامالات موجود ہیں جو کہ ایک عام ملک کے لیے اس طرح کے دبائو برداشت کرنا ممکن نہیں ہے لیکن ابھی تک ایران کی کامیاب خارجہ پالیسی کا نتیجہ رہا ہے کہ نہ صرف اُس نے ان مشکلات سے اپنے ملک کو نکالا ہے بلکہ ان مشکلات کو اپنے دشمنوں پر منتقل کیا ہے۔ مثال کے طور پر حالیہ اسرائیلی وزیراعظم کے بیانات جو کہ ایران پر حملے کے عنوان سے آ رہے تھے، خلیج کے اندر مختلف مقامات پر بحری مشقیں اور امریکی بحری بیڑوں کی آمد جیسے سخت تنائو کے دور میں ایران کی جانب سے غیر وابستہ اسلامی ممالک کا اجلاس ایک بہت بڑی کامیابی ہے کہ جس میں بہت سے ممالک کے سربراہان کی ایران آمد اور ایران کے موقف کی تائید اور اس تنظیم کی صدارت دینا ہے۔ 

اس سے پہلے ایک اجلاس ایران میں منعقد ہوا جس کا مقصد دنیا کو ایٹمی طاقت سے پاک کرنا تھا جس میں سو سے زائد ممالک کے نمائندگان نے شرکت کی تھی۔ جو کہ ایک بہت بڑی کامیابی تھی۔ ایران کی خارجہ پالیسی نے دشمنوں کو سخت مایوس کیا ہے، امریکہ اس وقت اسرائیل کے بھرپور اصرار کے باوجود بھی ایران پر حملہ کرنے کا تصور ہی نہیں کرسکتا۔ امریکہ کے جتنے بھی دفاعی تجزیہ نگار ہیں وہ اس بات کا اعلان کرچکے ہیں کہ امریکہ کی جانب سے ایران پر حملہ خود امریکہ کی نابودی کا باعث بنے گا۔ اس کے علاوہ ایران دفاعی طور اس وقت ناقابل شکست بن چکا ہے جس کی واضح مثالیں موجود ہیں، جنداللہ کے سربراہ عبدالمالک ریگی کا طیارہ اپنے ملک میں اُتارنا اور امریکی ڈرون کو باحفاظت اپنے قبضے میں لینا شامل ہیں۔
 
اسلام ٹائمز: عراق میں ایک منظم سازش کے تحت مزارات مقدسہ اور وہاں کے شیعہ مراجعین کو ٹارگٹ کئے جانے کی خبروں کے پیچھے کون سے عوامل پوشیدہ ہیں؟
یافث نوید ہاشمی: عراق میں امریکہ کو بہت بڑی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے، کیونکہ وہاں پر ایک ایسی معتدل حکومت قائم ہوئی ہے کہ جس نے امریکی خواہشات کے برعکس وہاں کی عوام کی خواہشات کو ترجیح دی، جو کہ ایک عوامی حکومت کا وطیرہ خاص ہوتا ہے۔ اس معتدل حکومت نے اپنے قیام کے بعد مسلسل یہ کوشش کی کہ عراقی حکومت کی باگ ڈور عراقی عوام کے ہاتھو ں میں ہونی چاہیئے، عراق کی قسمت کا فیصلہ عراق کی عوام کو کرنا چاہیئے نہ کہ کسی اور کو، اور انہی ترجیحات کو آگے لے کر وہاں کی حکومت چل رہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ عراقی حکومت نے اپنے ہمسایہ ممالک سے اپنے روابط بڑھائے، ایران کے ساتھ ان کے تعلقات بڑے اچھے انداز میں آگے بڑھے جن میں وہاں کی مرجعیت اور بالخصوص آغا سیستانی کا کردار قابل لائق و تحسین ہے۔ جنہوں نے مختلف مسائل میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا، جس وقت نجف پر امریکی محاصرہ تھا اُس دور میں بھی اور نئی حکومت میں کی جانیوالی اصلاحات میں بھی اُنہوں نے عراقی حکومت کی رہنمائی کی۔ 

یقینا امریکہ یہ چاہتا ہے کہ عراق کے اندر فرقہ واریت کا بیج بوئے اس کے لیے اُس نے القاعدہ کو استعمال کیا۔ ماضی میں بھی اس طرح کے واقعات نجف، بغداد اور فلوجا میں رونما ہوتے رہے، جب تک امریکی فوج عراق میں موجود ہے اُس وقت تک اس طرح کے واقعات کے خدشات مستقبل میں باقی رہیں گے، کیونکہ عراقی حکومت ابھی اُس طرح سے کامیاب نہیں ہو سکی کہ جس طرح ایک حکومت کو منظم اور طاقتور ہونا چاہیئے، اور وہاں پر امریکی فوج کی موجودگی کسی نہ کسی طرح تخریبی اور منفی کارروائیوں کو آگے بڑھانے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ اس بات کے مکانات ہیں کہ امریکہ اپنے اتحادیوں کے ذریعے سے عراق میں فرقہ واریت کی آگ کو بھڑکائے گا، اس کام کے لیے وہ القاعدہ کا استعمال بھی کرسکتا ہے اور دیگر عناصر کے ذریعے سے بھی یہ کام کرایا جا سکتا ہے۔
(جاری ہے)

خبر کا کوڈ : 229420
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش