0
Tuesday 8 Jan 2013 00:02
13جنوری کا اجتماع شہداء کے ساتھ عہد کا دن ہے

حکمران عوام کے جان و مال کی حفاظت کرنے میں مکمل ناکام ہو چکے ہیں، علامہ ناصر عباس جعفری

حکمران عوام کے جان و مال کی حفاظت کرنے میں مکمل ناکام ہو چکے ہیں، علامہ ناصر عباس جعفری
علامہ ناصر عباس جعفری مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی سیکرٹری جنرل ہیں اور اس وقت ملت تشیع کی سربلندی اور سرفرازی کیلئے کوشاں ہیں۔ علامہ ناصر عباس جعفری چاہتے ہیں کہ ملت کو مسائل کے گرداب سے نکال کر اسے اس قابل بنا دیا جائے کہ یہ عظیم ملت عالمی سطح پر اپنا رول ادا کر سکے۔ اسلام ٹائمز نے ان سے سانحہ مستونگ اور تیرہ جنوری کو لیاقت باغ میں ہونے والے اجتماع سے متعلق ایک انٹرویو کیا ہے جو قارئیں کی خدمت میں حاضر ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: مستونگ میں ایک بار پھر زائرین کو خون میں نہلا دیا گیا، پے در پے واقعات پر کیا کہیں گے؟۔
علامہ ناصر عباس جعفری: یہ دہشت گردی کا پہلا واقعہ نہیں، اس طرح کے واقعات مسلسل ہو رہے ہیں، زائرین، عزاداروں اور وطن عزیز سے محبت کرنے والوں پر آئے روز حملے ہو رہے ہیں، انہیں ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اگرچہ ہم یہ کہتے ہیں کہ اس میں بیرونی قوتیں ملوث ہیں لیکن اس میں ہمارے قومی اداروں کی نالائقی بھی شامل ہے، یہ انتہائی افسوسناک ہے، ہمارے حکمران جن کی ذمہ داری ہے کہ عوام الناس کی جان و ناموس اور مال کی حفاظت کریں لیکن حکمران اس میں مسلسل ناکام نظر آ رہے ہیں۔ حکمران اپنی ذمہ داری ادا نہیں کر رہے، لہٰذا حکمران اپنا حق حکمرانی کھو چکے ہیں اور انہیں اب
کوئی حق نہیں کہ ہمارے اوپر حکمرانی کریں۔ ہم تمام ریاستی اداروں کے سربراہوں کو قصوروار سمجھتے ہیں۔ پاکستان کے صدر محترم اور وزیراعظم و پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل کیانی، اسی طرح گورنر، وزیراعلیٰ اور وزیرداخلہ رحمان ملک یہ تمام لوگ جو اپنی ذمہ داری ادا نہیں کر رہے اور ایسے واقعات سے چشم پوشی کئے ہوئے ہیں اور دہشت گردوں کو کھلی چھوٹ دی ہوئی ہے۔ دہشت گرد پورے ملک میں دندناتے پھر رہے ہیں، یہ سب حکمران اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ یہ سب شہداء کے مجرم ہیں اور ہم ان کو قصور وار ٹھہراتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اگر مومنین کچھ عرصہ کیلئے زیارات پر نہ جائیں تو ان کی معیشت بالکل ختم ہو جائیگی اور یہ لوگ ہمارے پیروں میں بیٹھ جائیں گے، آپ اس رائے سے کس حد تک متفق ہیں۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری: معاشی مسئلہ کوئی نہیں۔ کراچی میں بھی تو مسلسل حملے ہو رہے ہیں، بظاہر تو کراچی میں بھی کوئی معاشی مسئلہ نہیں۔ اسی طرح گلگت بلتستان میں بھی آئے روز ٹارگٹ کلنگ اور بسوں پر حملے ہو رہے ہیں۔ پس یہ معاشی مسئلہ نہیں بلکہ یہ ہمارے ملک اور ہمارے پیارے پاکستان کیخلاف ان قوتوں کی طرف سے جو ہمارے ملک کو تباہ و برباد کرنا چاہتی ہیں، ایک بہت بڑی سازش ہے۔ اس جرم میں ہمارے وہ ریاستی
ادارے بھی مجرم ہیں جنہوں نے گذشتہ عرصہ میں دہشت گردوں کے ٹولے بنائے اور انہیں باقاعدہ تربیت دی اور آج وہی دہشت گرد دندناتے پھرتے ہیں اور پورے ملک کے اندر مذموم کارروائیاں کر رہے ہیں۔

پاکستان اس وقت خطرناک ملک بن چکا ہے بلکہ پاکستان جنگل بن چکا ہے، جس میں بھیڑیئے اور درندے دندناتے پھر رہے ہیں۔ اس جنگل کے اندر دہشت گرد اور خودکش حملہ آور بکتے ہوں اور جس جنگل جیسے ملک میں لگاتار اغواء کے کیسز ہوتے ہوں اور اس ملک کو مسلسل تباہی کی طرف لے جا رہے ہوں، میں سمجھتا ہوں کہ یہ کوئی معاشی مسئلہ نہیں بلکہ اس ملک کی سالمیت پر حملہ ہے، اس ملک کے محب وطن عوام پر حملہ ہے۔ ہمیں اس کا صبر و ہمت سے بھرپور مقابلہ کرنا چاہیئے۔

اسلام ٹائمز:اس مسئلہ کا حل کیا ہے، لوگوں میں مایوسی بڑھ رہی ہے۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری۔ واقعی آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں اس وقت پاکستان کے عوام میں مایوسی کی فضا بنی ہوئی ہے۔ اگر یہ سلسلہ یونہی جاری رہا تو یقیناً ایک دن اس ملک میں خانہ جنگی شروع ہو جائے گی جو کہ ہمارے ملک کیلئے انتہائی نقصان دہ ہو گی، جب حکمران اس ملک اور اس میں بسنے والوں کی جان و مال کی حفاظت نہیں کریں گے، قاتلوں کو نہیں پکڑیں گے، مجرموں کو سزاء نہیں دیں گے، ان پر قانون نافذ نہیں کریں گے تو بالآخر لوگ
خود اپنی حفاظت کے لیے اٹھیں گے۔ پاکستان میں اہل تشیع اور اہل تسنن جن پر حملے ہو رہے ہیں، ان کی تعداد کم نہیں بلکہ پاکستان کی بہت بڑی اکثریت اہل تشیع اور اہل تسنن پر مشتمل ہے اور جس دن انہوں نے ہاتھوں میں اسلحہ اٹھا لیا اور اٹھ کھڑے ہوئے تو خدا نہ کرے کہ وہ دن آئے کہ ملک میں خانہ جنگی شروع ہو۔ میرے خیال میں عوام کو بیدار ہونا چاہیئے، اس میں تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کو اپنا رول پلے کرنا چاہیئے۔ ان دہشت گردوں کو آئیسولیٹ کر کے فوج، حکمرانوں اور سیاستدانوں کو مجبور کرنا چاہیئے کہ ان کے خلاف آپریشن کریں اور بھرپور طریقے سے ان کو کچلیں۔

اسلام ٹائمز: ایم ڈبلیو ایم نے تیرہ جنوری کو شہدائے محرم کے چہلم کا اعلان کیا ہے، کس طرح کا اجتماع ہوگا اور کیا لائحہ عمل ترتیب دیا جائے گا۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری: 13جنوری مظلوموں اور شہداء کے ساتھ وفا کا دن ہے، ان شہیدوں کے ساتھ جو بےگناہ مارے گئے، جن کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ وطن سے محبت کرتے تھے، جن کا قصور یہ تھا کہ وہ نواسہ رسول (ع) اور اہل بیت علیہم السلام اور اللہ کے آخری نبی کریم (ص) سے محبت کرتے ہیں، جن کا قصور یہ تھا کہ وہ دہشت گردوں سے نہیں ڈرتے تھے، ظالموں سے نہیں ڈرتے تھے، قاتلوں سے نہیں ڈرتے تھے لہٰذا پاکستان سے محبت کرنے والا
ہر فرد اور رسول (ص) و اہلبیت رسول (ع) سے محبت کرنے والوں کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ 13 جنوری کو لیاقت باغ میں منعقد ہونیوالے شہدائے عزاداری کے چہلم کے اجتماع میں شریک ہوں تاکہ شہیدوں کے ساتھ عہد وفا کیا جائے، شہداء کی یاد منائی جائے، شہداء کیلئے اکٹھے ہو کر دہشت گردوں و قاتلوں کیخلاف بیزاری کا اعلان کیا جائے اور پوری دنیا کو یہ واضح پیغام دیں کہ ہم کسی سے ڈرے نہیں، مایوس نہیں ہوئے، ہم ہر وقت میدان میں حاضر ہیں اور انشاءاللہ اپنی زندگی کی آخری سانس تک اس میدان میں حاضر رہیں گے۔

اسلام ٹائمز: کہا جا رہا ہے کہ طالبان مذاکرات کیلئے تیار ہیں اور بعض افراد کا خیال ہے کہ ان سے مذاکرات کئے جائیں، اس پر آپ کیا کہیں گے۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری: میرے خیال میں قاتلوں کیساتھ مذاکرات نہیں ہوا کرتے، قاتلوں کے ساتھ قانون کے مطابق چارہ جوئی کی جاتی ہے۔ ایک طرف سے حملے کرتے ہیں جبکہ دوسری جانب مذاکرات کی بات کرتے ہیں، کچھ دن قبل لیویز کے اہلکاروں کو اغواء کیا گیا اور بعد ازاں انہیں قتل کر دیا گیا، دہشت گرد پاکستان کے عوام کو کنفیوز کرنا چاہتے ہیں، دہشت گرد پاکستان کے عوام کی سوچ میں ان کے خلاف پیدا ہونے والی یکسوئی کو ختم کرنے کی سازش کو کامیاب بنانے کیلئے مذاکرات کی بات کرتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 228433
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش