0
Monday 11 Feb 2013 21:07
حکمران امریکی غلامی چھوڑ کر رسول عربی (ص) کی غلامی میں آجائیں

مسلمانوں کے تمام مسائل کی جڑ امریکہ ہے، حاجی حنیف طیب

پنجاب حکومت صرف ووٹوں کیلئے ایک کالعدم تنظیم کی سرپرستی کر رہی ہے
مسلمانوں کے تمام مسائل کی جڑ امریکہ ہے، حاجی حنیف طیب
حاجی حنیف طیب سنی اتحاد کونسل کے سیکرٹری جنرل ہیں، سابق وفاقی وزیر بھی ہیں، کراچی کے علاقے کھارادر کے مدرسہ الاسلام سے ابتدائی تعلیم حاصل کی، قریشی ہائی سکول سے میٹرک کیا، کراچی یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات کی ڈگری حاصل کی، اردو لا کالج سے ایل ایل بی بھی کیا لیکن وکالت کو پروفیشن نہیں بنایا۔ زمانہ طالب علمی میں انجمن طلباء اسلام کی بنیاد رکھی اور چار سال تک اے ٹی آئی کے مرکزی صدر رہے۔ بعدازاں 1974ء میں جمعیت علماء پاکستان میں شامل ہوگئے، یوں سیاسی میدان میں قدم رکھا، جمعیت علمائے پاکستان کراچی کے جنرل سیکرٹری بھی رہے۔ آج کل سنی اتحاد کونسل کے سیکرٹری جنرل اور نظام مصطفٰی پارٹی کے سربراہ ہیں، ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے لاہور میں ان سے ایک مختصر نشست کی، جس کا احوال قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ (ادارہ)
 
اسلام ٹائمز: آپ کی نظر میں دہشت گردی کے اسباب کیا ہیں۔؟
حاجی حنیف طیب: بیرونی قوتیں پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کیلئے دہشت گردی اور فرقہ واریت کو ہوا دیتی ہیں، پیسہ خرچ کرکے یہاں آلہ کار تلاش کئے جاتے ہیں اور ان کے ذریعے ملک میں دہشت گردانہ کارروائیاں کرکے ملک کو غیر مستحکم کیا جاتا ہے اور بدقسمتی سے ہمارے ملک میں یہی کچھ ہو رہا ہے۔ ایسے لوگ ہر قسم کی کارروائیوں میں ملوث ہوتے ہیں۔ ان کا کوئی دین یا مذہب نہیں ہوتا، یہ صرف دولت کے لئے آلہ کار بن جاتے ہیں اور ملک میں بے گناہ لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارتے ہیں اور تخریب کاری کے دیگر واقعات میں یہی لوگ استعمال ہوتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: کیا مذہبی جماعتیں دہشت گردی اور فرقہ واریت کے خاتمہ کیلئے کوئی مثبت کردار ادا کرسکتی ہیں۔؟

حاجی حنیف طیب: خودکش حملوں اور دہشت گردی کو حرام قرار دینے کا فتویٰ مذہبی جماعتوں نے ہی دیا۔ لاہور میں 53 علماء نے دہشت گردی کے خلاف فتویٰ دیا، اس کے بعد حکومت کا کام تھا کہ اس فتویٰ کی سی ڈی بار بار ٹی وی چینلز پر چلائی جاتی، تاکہ لوگوں میں شعور اجاگر ہوتا، حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے فرائض پورے کرے حکومت کے پاس مذہبی امور کی ایک باقاعدہ وزارت ہے، اس کے علاوہ صوبوں میں بھی ہیں، یہ لوگ کیا کر رہے ہیں۔ جن کو وزیر مذہبی امور بنایا گیا ہے ان کا کام کیا ہے، آیا صرف مراعات لینا اور پولیس کی سکیورٹی میں ہوٹر والی گاڑی میں سوار ہو کر خود کو ’’چوہدری‘‘ سمجھ کر عوام پر رعب ڈالنا ان کا کام ہے۔؟ یقیناً نہیں، یہ انتہائی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کر رہے ہیں، کسی کام میں دلچسپی نہیں لیتے، حکومت خود فرقہ واریت کے خاتمے میں سنجیدہ نہیں، یہاں میں ایک بات کا ذکر ضرور کروں گا، محرم میں تمام جلوس امن و امان سے گزر گئے، آپ حیران ہوں گے کراچی میں صوبائی حکومت نے کوئی اجلاس نہیں بلایا، یہ تو مذہبی جماعتوں کے آپس کے روابط کی وجہ سے ہوا کہ امن رہا اور محرم اور بارہ ربیع الاول کے جلوس پرامن طریقے سے گزر گئے، ورنہ حکومت کی جانب سے تو کوئی کارکردگی نہیں دکھائی گئی۔

اسلام ٹائمز: میلاد کے جلوس کی آپ نے بات کی، سانحہ نشتر پارک میں آپ بھی موجود تھے، کیا دیکھا تھا آپ نے۔؟

حاجی حنیف طیب: سانحہ نشتر پارک کے وقت میں اسٹیج پر تھا، اتفاق سے میں نیچے نماز مغرب کی ادائیگی کے لئے گیا، تیسری رکعت میں تھا کہ زور دار دھماکہ ہوا، جس کے نتیجہ میں جماعت اہلسنت اور دیگر جماعتوں کے عہدیدار اور علماء و مشائخ شہید ہوگئے۔ اس حوالے سے تحقیقاتی اداروں نے کام کیا، اور اپنی تحقیقاتی رپورٹس بھی پیش کیں، ایک خفیہ ادارے نے بتایا کہ ایک شدت پسند تنظیم اس واقعہ میں ملوث ہے اور اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ دھماکے سے قبل ایک گھر میں بیٹھ کر دھماکے کی منصوبہ بندی کی گئی اور اس دھماکے کی کامیابی کے لئے دعا بھی مانگی گئی، اس کی سی ڈی بھی خفیہ ایجنسوں کے پاس موجود ہے۔ پھر کہا گیا دھماکے سے متعلق ہونے والے مزید تحقیقات سے آگاہ کریں گے، دھماکے کے چند ماہ بعد تک تو ہم سے رابطے کئے گئے اور تحقیقات سے بھی آگاہ کیا جاتا رہا۔ شروع میں اس واقعہ کے ذمہ داران کو پکڑنے کیلئے سنجیدہ کوششیں بھی کی گئیں اور پرویز مشرف صاحب بھی دلچسپی لے رہے تھے، لمحہ بہ لمحہ بریفننگ بھی دی جاتی تھی، پھر ایک مرحلے پر کہا گیا کہ اب ہمارا مرحلہ ہے، دہشت گردوں کو ہم خود انجام تک پہنچائیں گے۔ اس کے بعد پھر ہمیں مزید کسی پیش رفت سے آگاہ نہیں کیا گیا۔ سانحہ کی تحقیقات کا جائزہ لینے کیلئے ٹربیونل بھی بنایا گیا تھا، جس کا جماعت اہلسنت نے بائیکاٹ کیا تھا، کیونکہ ہمارا موقف تھا کہ پاکستان میں جب بھی ٹربیونل بنتے ہیں تو 90 فیصد کا خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلتا، ٹربیونل کو چاہئے تھا کہ جماعت اہلسنت کو آگاہ کرتا، لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔

اسلام ٹائمز: سانحہ سے متعلق ہونے والی تحقیقات سے آپ مطمئن تھے۔؟

حاجی حنیف طیب: ہم ٹربیونل سے مطمئن نہیں تھے، اس لئے ٹربیونل کی کارروائی سے ہم نے لاتعلقی کا اعلان کیا تھا، سانحے کی خفیہ اداروں نے تحقیقات کیں اور جب تک ہمیں رپورٹ دی جاتی رہی، ہم یہ سمجھتے رہے کہ تحقیقات صیح سمت جا رہی ہیں۔ ٹربیونل وزیراعلٰی سندھ نے بنایا تھا، وزیراعلٰی سندھ کی صدارت میں ربیع الاول کی تیاریوں کا جائزہ لینے کے لئے اجلاس ہوتا تھا، لیکن چند برسوں سے اجلاس نہیں ہو رہے تھے۔ اس بار بھی وزیراعلٰی سندھ نے کوئی اجلاس نہیں بلایا۔

اسلام ٹائمز: اجلاس نہ بلانے کی وجہ آپ کیا سمجھتے ہیں، سندھ حکومت نے اجلاس کیوں نہیں بلایا۔؟

حاجی حنیف طیب: میں سمجھتا ہوں کہ جب بھی اجلاس بلایا جاتا ہے تو اس میں سانحہ نشتر پارک سے متعلق سوال اٹھائے جاتے ہیں، جن کا ان کے پاس سوائے خاموشی کے کوئی جواب نہیں ہوتا۔ ہمارا پہلے دن سے ہی یہ مطالبہ رہا ہے اور اب بھی ہے کہ سانحہ نشتر پارک کے مجرموں کو گرفتار کرکے کیفر کردار تک پہنچایا جائے، اور ان کے خلاف کارروائی نہیں کی جاتی تو مجرموں کو عوام کے سامنے لایا جائے۔

اسلام ٹائمز: کراچی اور کوئٹہ میں دہشت گردی کے واقعات تواتر کیساتھ جاری ہیں، کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ مذہبی جماعتیں فرقہ واریت روکنے میں ناکام ہوچکی ہیں۔؟

حاجی حنیف طیب: اصل بات یہ ہے کہ ہماری حکومت میں شامل سیاسی جماعتیں، پولیس اور انتظامیہ فرقہ واریت روکنے میں ناکام ہیں، دینی جماعتیں تو یہ کرسکتی ہیں کہ جو فرقہ واریت پھیلا رہا ہے اس کی نشاندہی کریں، فرقہ واریت کو ہوا دینے والے کو روکنا تو حکومت، انتظامیہ اور حکومت میں شامل سیاسی جماعتوں کا کام ہے۔ حکومت میں شامل سیاسی جماعتیں ووٹوں کے حصول کے لئے مصلحت کا شکار ہوجائیں تو دہشت گردی کون روکے گا۔ جھنگ کی مثال لے لیں، پنجاب حکومت ایک کالعدم تنظیم کی سرپرستی صرف ووٹوں کے لئے کر رہی ہے، تو دہشت گردی کیسے رکے گی؟ یقیناً نہیں رکے گی، اس سے دہشت گردوں کے حوصلے بلند ہوں گے۔ جماعت اہلسنت کسی ایک فرد پر فرقہ واریت کا الزام نہیں لگاتی، نہ ہی ہم نے کسی کے سر کی قیمت کا اشتہار دیا ہے، ہم پرامن لوگ ہیں۔

اسلام ٹائمز: آپ مذہب میں سیاست کے قائل ہیں۔؟

حاجی حنیف طیب: جی بالکل مذہب میں سیاست کا قائل ہوں، اور اسی لئے میری پہلی جماعت جے یو پی ہے، آل انڈیا مسلم لیگ کو جب پاکستان بنانے میں دشواری محسوس ہوئی تو قائداعظم محمد علی جناح کی صدارت میں غیر منقسم ہندوستان میں اجلاس ہوا، جس میں غور کیا گیا کہ ہمارے ساتھ عوام کیوں نہیں اٹھ رہے، تو فیصلہ کیا گیا کہ جب تک علماء ومشائخ کی خدمات حاصل نہیں کی جائیں گی، عوام باہر نہیں نکلیں گے۔ اس اجلاس کے بعد نوابزادہ لیاقت علی خان کی سربراہی میں کمیٹی بنائی گئی، جو مولانا شاہ عبدالعلیم، مولانا عبدالحامد بدایونی کے پاس گئے، جس کے بعد علماء نے پاکستان بنانے میں اپنا کردار ادا کیا۔ یہاں میں یہ بات بتاتا چلوں کہ چند علماء کی جانب سے پاکستان کی مخالفت کی کی گئی تھی۔ میری درخواست ہے اخبارات ان علماء کی نشاندہی کریں کہ کس نے پاکستان کے خلاف آوازیں بلند کی تھیں اور قیام پاکستان کی شدید مخالفت کی تھی۔

اسلام ٹائمز: موجودہ ملکی صورتحال میں علماء کیا کردار ادا کرسکتے ہیں۔؟

حاجی حنیف طیب: میں چار وزارتوں پر وزیر رہا ہوں اور مجھ پر ایک روپے کی کرپشن حکومت ثابت نہیں کرسکا۔ مولانا شاہ احمد نورانی، مولانا عبدالمصطفٰی الازہری اور مولانا شاہ تراب الحق سیاست میں رہے، ان پر کسی قسم کی کوئی کرپشن ثابت نہیں ہوئی، نہ کوئی الزام لگا، اور ان کی کارکردگی بھی سب پر عیاں ہے۔ قادیانیوں کو غیر مسلم اور اقلیت قرار دینے والی قرارداد مولانا شاہ احمد نورانی نے پیش کی تھی۔ مسلمان کی تعریف جو آئین میں شامل ہے، وہ کراچی کے رکن قومی اسمبلی علامہ عبدالمصطفٰی الازہری نے پیش کی تھی۔

اسلام ٹائمز:گذشتہ چند سال کے دوران مذہبی جماعتوں کے ووٹ بینک میں کمی واقع ہوئی ہے، آپ کیا کہتے ہیں۔؟

حاجی حنیف طیب: اس میں کوئی شک نہیں کہ مذہبی جماعتوں کا ووٹ بینک کم ہوا ہے، اس کے لئے بیرونی قوتیں بھی سرگرم عمل ہیں کہ پاکستان کے لوگوں کو دین سے دور کر دیا جائے۔ پاکستانی قوم کو بے راہ روی کی طرف لے جایا جائے، چند برس قبل بسنت اور ویلنٹائن ڈے کے تہوار ہمارے ملک میں نہیں منائے جاتے تھے۔ یہ بیرونی قوتوں کا ایجنڈا ہے اور اس کے لئے مقامی لوگوں کو ایجنٹ کے طور پر استعمال کرکے ان سے کام لیا جا رہا ہے۔ مذہبی جماعتوں کو چاہئے کہ وہ اس سازش کو سمجھیں اور لوگوں کے مسائل حل کریں، آپ ٹی وی پر ہی دیکھ لیں، ہمارے ہی ایک مسلمان ملک کے نام پر چند بے ہودہ ڈرامے چلائے جا رہے ہیں، ان کے ذریعے ہمارے بچوں کے ذہنوں کو خراب کیا جا رہا ہے کہ وہ ترکی والے بھی تو مسلمان ہیں، وہ تو ایسا کرتے ہیں، تو ہم بھی ویسا کرسکتے ہیں، ہمیں ان سازشوں کا نہ صرف ادراک کرنا ہوگا بلکہ ان کے سامنے بند بھی باندھنا ہوگا، ورنہ ہماری نسل بے راہ روی کے سیلاب میں بہہ جائے گی اور ہمارے ہاتھ سوائے پچھتاوے کے کچھ نہیں بچے گا۔

اسلام ٹائمز: ملک میں تبدیلی کیسے لائی جائے، احتجاج کا راستہ اپنایا جائے یا علماء اسمبلیوں کے ذریعے ملک کی تقدیر بدلیں۔؟

حاجی حنیف طیب: علماء متحرک اور فعال تو ہیں، لیکن خرابی ہمارے سیاسی نظام میں ہے۔ ہمارا انتخابی نظام قابل اصلاح ہے۔ بہت سے ہارے ہوئے لوگ اس وقت اسمبلیوں میں موجود ہیں، کیونکہ انہوں نے پولنگ سٹیشنوں پر قبضے کرکے نتائج تبدیل کروا دیئے تھے۔ اس لئے اس انتخابی نظام کی اصلاح کے لئے علماء کو کردار ادا کرنا چاہئے۔ آئین کی دفعہ 62 اور 63 ہمیں انتخاب میں حصہ لینے والے امیدوار کی اہلیت بتاتی ہے، لیکن کوئی اس کی پاسداری نہیں کرتا۔ ہمارا الیکشن کمیشن ہمیشہ غیر موثر رہا ہے، اور اس کا کوئی قابل ذکر کردار ہی نہیں، اب فخرالدین جی ابراہیم آئے ہیں تو کچھ بہتری کی توقع تو ہے۔

اسلام ٹائمز: علامہ طاہرالقادری صاحب کی اچانک آمد کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔؟

حاجی حنیف طیب: طاہرالقادری پڑھی لکھی شخصیت ہیں، ان کے اور میرے پرانے مراسم ہیں، بہتر تو یہ ہوتا کہ وہ ملک میں رہ کر اصلاح کرتے، لیکن یوں ان کی اچانک آمد ٹھیک نہیں تھی۔

اسلام ٹائمز: ہمارے ہاں رواج ہے ہم ہر الزام امریکہ پر دھر دیتے ہیں، امریکی مداخلت کس حد تک ہے۔؟
حاجی حنیف طیب: یہ نہ رواج ہے اور نہ الزام، یہ زمینی حقائق ہیں، ڈرون حملے کون کر رہا ہے؟ امریکہ، دہشت گردی کون کروا رہا ہے؟ امریکہ، فرقہ واریت کے لئے پاکستان میں آگ کون لگا رہا ہے۔؟ امریکہ، یہاں مسلمانوں کے تمام مسائل کی جڑ امریکہ ہے، امریکہ نہیں چاہتا پاکستان ترقی کرے، اس میں مذہبی لوگ ہوں، وہ چاہتا ہے ہماری نسل بے راہ روی کا شکار ہوجائے اور ہم دین سے اتنے دور ہوجائیں جتنے ترکی والے یورپی یونین کی رکنیت کے لئے ہوچکے ہیں، تو بابا ایسا ممکن نہیں، ہم نے پاکستان لاالہ الااللہ کے لئے بنایا تھا، اس وقت ہر زبان پر یہی نعرے تھا کہ پاکستان اسلام کا قلعہ ہوگا، تو امریکہ ہمیں کیسے اسلام سے دور کرسکتا ہے۔ امریکہ، بھارت اور اسرائیل یہ ثلاثہ پاکستان کی جڑوں میں بیٹھ گیا ہے اور اس میں ہمارے جو حکمران ان کے آلہ کار بن کر ان کی ایجنٹی کر رہے ہیں، آپ دیکھنا ایک دن آئے گا عوام ان امریکی غلاموں کو چوراہوں پر پھانسیاں دیں گے، ان حکمرانوں کو اپنے انجام کی خبر ہی نہیں، یہ سمجھتے ہیں کہ ایسا وقت آیا تو یہ امریکہ فرار ہوجائیں گے تو ایسا نہیں ہوگا، اس وقت امریکہ نے کہنا ہے کہ ہمارا جہاز آ رہا ہے آپ کو لینے اور وہ جہاز کبھی نہیں آئے گا، تو اب بھی موقع ہے ان حکمرانوں کے لئے کہ یہ امریکی غلامی چھوڑ دیں اور رسول عربی (ص) کی غلامی میں آجائیں پوری دنیا ان کے قدموں میں ہوگی۔
خبر کا کوڈ : 238808
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش