0
Wednesday 22 May 2013 19:15

ایم ڈبلیو ایم کی سیاسی فعالیت سے کراچی میں تکفیری اور لسانی سیاسی مافیا شدید بوکھلاہٹ کا شکار ہے، حسن جعفر رضوی

ایم ڈبلیو ایم کی سیاسی فعالیت سے کراچی میں تکفیری اور لسانی سیاسی مافیا شدید بوکھلاہٹ کا شکار ہے، حسن جعفر رضوی
کراچی کے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 257 سے مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے ٹکٹ پر عام انتخابات میں حصہ لینے والے امیدوار اور بزرگ شخصیت سید حسن جعفر رضوی کا تعلق شعبہ تعلیم سے ہے۔ آپ تقریبا پچھلے بیالیس (42) سالوں سے مختلف سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں میں تعلیمی حوالے سے خدمات سرانجام دیتے چلے آ رہے ہیں اور علم و شعور و آگاہی پھیلانے کا یہ سلسلہ تا حال جاری و ساری ہے۔ شہید قائد علامہ سید عارف حسین الحسینی (رہ) کی قیادت میں کراچی کے علاقے کھوکھرا پار ملیر میں تحریک جعفریہ کے ایک یونٹ کے مسئول کی حیثیت سے بھی ذمہ داریاں انجام دے چکے ہیں۔ حال ہی میں آپ نے پاکستانی عام انتخابات میں ایم ڈبلیو ایم پاکستان کے ٹکٹ پر انتخابات میں حصہ لیا۔ گو کہ اس میں آپ کو کامیابی حاصل نہیں ہو سکی جس کی سب سے بڑی وجہ شہر قائد میں ہونے والی ملکی تاریخ کی سب سے بدترین ھاندلی ہے مگر آپ نے سن رسیدہ ہونے کے باوجود مختصر عرصہ میں اپنے وسیع حلقہ انتخاب کے دور و نزدیک علاقوں کے ہنگامی بنیادوں پر دورہ جات کرکے مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے انتخابی منشور اور اتحاد بین المسلمین و مومنین کے پیغام کو عوام تک پہنچانے کی بھرپور کوشش کی۔ اسلام ٹائمز نے انتخابی مہم کے دوران درپیش مسائل و مشکلات، انتخابات کے روز دھاندلی اور مرد و خوتین کارکنوں و پولنگ ایجنٹوں کو دی جانے والی قتل کی دھمکیوں اور اس کے بعد کی صورتحال کے حوالے سے سید حسن جعفر رضوی کے ساتھ ایک خصوصی نشست کی۔ اس موقع پر آپ سے کیا گیا ایک مختصر انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: انتخابی مہم کے دوران کس حد تک ایم ڈبلیو ایم کے انتخابی منشور و پیغام کو عوام تک پہنچانے میں کامیاب رہے؟
سید حسن جعفر رضوی: بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔۔۔۔۔ سب سے پہلے تو آپ کی تشریف آوری کا بہت شکریہ۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہونا تو یہ چاہیئے کہ انتخابات کے حوالے سے آپ ایم ڈبلیو ایم کراچی کے ذمہ داران کا انٹرویو کرتے تاکہ وہ آپ کو بہتر اور جامع معلومات فراہم کرتے۔ بہرحال یہ دعویٰ تو ہم نہیں کر سکتے کہ ہم پورے حلقے کے دورہ جات کرنے میں کامیاب رہے۔ جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ قومی اسمبلی کا حلقہ بہت بڑا ہوتا ہے لیکن انتہائی مختصر وقت، دستیاب انتہائی قلیل وسائل اور سب سے بڑھ کر کراچی پر قابض سیاسی مافیا کی جانب سے کھڑی کی گئیں بےانتہاء رکاوٹوں کے باوجود مجلس کے کارکنان و ذمہ داران نے بساط سے بڑھ کر کوشش کی اور ایم ڈبلیو ایم انتخابی منشور کو عوام خصوصا اہل تشیع مسلمانوں تک پہنچایا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ وقت اور وسائل کی مناسبت سے ہم کافی حد تک پیغام رسانی کی ذمہ داریوں کو انجام دینے میں کامیاب رہے ہیں۔ یقینا اس سلسلے میں کچھ کوتاہیاں بھی ہوئی ہونگی لہٰذا امید ہے کہ خداوند عالم درگزر فرمائیں گے۔

اسلام ٹائمز: ایم ڈبلیو ایم نے پہلی بار عام انتخابات میں حصہ لیا، انتخابی مہم کے دوران عوامی رسپانس کیسا رہا؟
سید حسن جعفر رضوی: پروردگار عالم کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ انتخابی مہم کے دوران ہمیں توقعات سے بڑھ کر عوام کی جانب سے سراہا گیا، ہماری حوصلہ افزائی کی گئی، ہماری بھرپور حمایت کی۔ انتخابات میں کامیابی و ناکامی سے صرف نظر کرتے ہوئے یہ کہوں گا کہ عوام کی جانب سے ہر حوالے سے کی گئی بھرپور اخلاقی حمایت ہی ہماری اصل کامیابی ہے۔ انشاءاللہ ہم شروع دن سے عوام کے درمیان تھے، ان کے ساتھ ہیں اور ہر خوشی و غم کے موقع پر ان کے ساتھ رہینگے۔ انہیں کبھی بھی تنہا نہیں چھوڑیں گے۔ جتنا بھی ممکن ہوا عوامی مسائل کے حل کیلئے اپنا کردار ادا کرنے کی ہر ممکن کوشش کرینگے۔

اسلام ٹائمز: ایم ڈبلیو ایم نے انتخابی مہم کے دوران اہل تشیع اکثریتی علاقوں کے دورہ جات پر زیادہ توجہ دی، اس کی کوئی خاص وجہ تھی؟
سید حسن جعفر رضوی: جیسا کہ ہم نے پہلے ذکر کیا کہ انتخابی مہم چلانے کیلئے ہمارے پاس وقت اور دستیاب وسائل انتہائی قلیل تھے۔ لہٰذا ہم نے اپنی انتخابی مہم کے دوران شیعہ اکثریتی علاقوں کے دورہ جات پہلے کئے کیونکہ ہمیں انتخابی مہم کے دوران اہلسنت و اہل تشیع مسلمانوں کو غلام بنا کر رکھنے اور کراچی کو اپنی جاگیر سمجھنے والی ایک لسانی سیاسی جماعت کی جانب سے بے انتہاء مسائل اور دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔ کیونکہ یہ لسانی جماعت اہل تشیع مسلمانوں میں اپنی ساکھ کھو چکی ہے تو اس لئے بھی ہم نے شیعہ اکثریتی علاقوں پر پہلے توجہ دی۔ شیعہ علاقوں پر زیادہ توجہ دینے کی وجہ یہ نہیں ہے کہ ہم بنیادی طور پر مکتب تشیع سے تعلق رکھتے ہیں بلکہ شیعہ اکثریتی علاقوں میں کام کرنے کی اس لئے بھی زیادہ ضرورت تھی کہ بعض سیاسی جماعتیں جو کراچی کو اپنی ملکیت سمجھتی ہیں جن میں سرفہرست کراچی کی لسانی جماعت ایم کیو ایم ہے۔ یہ جماعتیں سمجھتی ہیں کہ اہل تشیع کے پاس ہمیں ووٹ دینے اور ہماری حمایت کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔

کوئی شیعہ جماعت ایسی نہیں ہے کہ جو اہل تشیع کے مسائل کے حل کیلئے حقیقی آواز بن سکے۔ مگر خدا کا شکر ہے کہ مجلس وحدت مسلمین نے اپنے قیام سے لیکر اب تک کی قلیل مدت میں نہ صرف کراچی بلکہ پاکستان بھر میں اس قسم کی تمام جماعتوں کی اس غلط فہمی کو دور کرتے ہوئے مکتب تشیع کی نمائندہ جماعت کے طور پر اپنے آپ کو منوا لیا ہے۔ تو اس حالیہ ہونے والے انتخابات میں کیونکہ کراچی میں اہل تشیع مکتب فکر نے ایم ڈبلیو ایم سے جو امیدیں وابستہ کیں، ان کے اس اعتماد پر پورا اترنے کیلئے بھی ضروری تھا کہ انہیں ان نام نہاد سیاتمداروں اور شہر پر قابض لسانی سیاسی مافیا کے رحم و کرم پر نہ چھوڑا جائے بلکہ انہیں ان دھوکہ بازوں سے نجات دلائی جا سکے۔ جس میں ہم کامیاب رہے اور قوم نے بھی ہر مشکل وقت پر ہماری پشت پناہی کی۔ 

اس کے ساتھ ساتھ ہم نے اہلسنت برادران و تنظیموں کے ساتھ بھی بھرپور رابطے کئے۔ حتیٰ کہ گوٹھوں اور شہر کے مضافاتی علاقوں کے بھی دورہ جات کئے جہاں ہمیں برادران اہلسنت کی جانب سے بھرپور سراہا گیا۔ گوٹھوں میں دورہ جات کے دوران ہمارے بلوچی، سندھی و دیگر قومیتوں سے تعلق رکھنے والے بھائیوں نے ہمارا بھرپور انداز میں استقبال کیا، ہماری حمایت کی، ہمارے حوصلوں کو بڑھایا اور مجلس کے انتخابی منشور اور خصوصا اتحاد بین المسلمین کے جامع پیغام کو بے انتہا سراہا اور اس عزم کا اعادہ کیا کہ اتحاد و وحدت کی ہر کوشش میں ہم ایم ڈبلیو ایم کے ساتھ شانہ بشانہ کام کرینگے تا کہ پاکستان میں فرقہ واریت پھیلانے کی امریکی و اسرائیلی سازشوں کو ماضی کی طرح اب بھی ناکام بنائیں گے۔ جس پر ہم ان تمام اہلسنت برادران و تنظیموں کے تہہ دل سے ممنون و مشکور ہیں۔

اسلام ٹائمز: جیسا کہ آپ نے بتایا کہ وقت و وسائل کی کمی کے باعث آپ نے انتخابی مہم کے دوران شیعہ اکثریتی و شیعہ مسلمانوں سے ابتداء کی۔ تو کیا ایم ڈبلیو ایم شیعہ ووٹرز کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب رہی؟
سید حسن جعفر رضوی: مستند اطلاعات کے مطابق شیعہ اکثریتی علاقوں اور دیگر علاقوں میں رہنے والے شیعہ ووٹر کی اکثریت نے جہاں جہاں ایم ڈبلیو ایم کے امیدواران کھڑے ہوئے تھے ان کو ووٹ دیا۔ محتاط اندازے کے مطابق 80 فیصد سے زیادہ شیعہ ووٹرز نے مجلس وحدت مسلمین کے امیدواروں پر اعتماد کرتے ہوئے اس بات سے قطع نظر کہ وہ کامیاب ہونگے یا نہیں انہیں ووٹ دیا جبکہ اصل تعداد 80 فیصد سے یقینا کہیں زیادہ ہے۔ جو اس بات کا ثبوت ہے کہ شہر کراچی میں بھی مکتب تشیع نے مجلس وحدت مسلمین کو اپنی سیاسی طاقت و نمائندہ قرار دے دیا ہے اور لسانی سیاست کرنے والےنام نہاد سیاستمداروں کو یکسر مسترد کر دیا ہے کہ جو یہ سمجھتے ہیں کہ شیعہ ووٹ تو ان کی جیب میں ہے اور شیعہ قوم سیاسی حوالے سے انکی غلام ہے۔ 

یہاں پر میں اس بات کی طرف بھی اشارہ کر دوں کہ ہمیں شیعہ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ برادران اہلسنت کی جانب سے بھی ووٹ ڈالے گئے جو یقینا ایم ڈبلیو ایم کے پیغام اتحاد و وحدت پر برادران اہلسنت کے اعتماد کا ناقابل انکار ثبوت ہے۔ اس حوالے سے ہم اہلسنت تنظیموں کے بھی انتہائی شکر گزار ہیں جنہوں نے اتحاد بین المسلمین کے فروغ اور مملکت عزیز پاکستان میں فرقہ واریت پھیلانے کی امریکی و اسرائیلی سازش کو ماضی کی طرح اب بھی ناکام بنانے کے لئے مل جل کر ماضی کے مقابلے میں اور زیادہ منظم انداز میں کوششیں کرنے کا عزم کیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ انتخابات کا نتیجہ جو بھی ہو ہمارا آپکا رابطہ مضبوط بنیادوں پر قائم رہنا چاہیئے جو کہ انتہائی خوش آئند بات ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہی مجلس وحدت مسلمین کے قیام کے بنیادی مقاصد کا حصہ ہے اور عالم اسلام کی آواز و خواہش کے عین مطابق ہے۔

اسلام ٹائمز: انتخابی مہم اور الیکشن کے روز کن مسائل کا سامنا رہا؟
سید حسن جعفر رضوی: انتخابی مہم اور الیکشن کے روز کے مسائل سے تو پورا شہر بخوبی آگاہ ہے اور ہر خاص و عام اس حوالے سے تمام معلومات رکھتا ہے۔ مختصراً یہ کہ ہماری انتخابی مہم کو ناکام بنانے کیلئے ایم کیو ایم نے ہر ہتھکنڈا استعمال کیا گیا۔ کارکنان اور عام مومنین کو ڈرایا دھمکایا گیا، ہراساں کیا گیا تا کہ یا تو کارنر میٹنگز ہی منعقد نہ ہو سکیں یا پھر اگر ہو تو اس میں لوگ شرکت نہ کریں۔ کارکنان کو روک روک کر جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی دی گئیں، گھر والوں کو ہراساں کیا گیا، فائرنگ کر کے ڈرانے کی کوشش کی گئی، بینرز اتارے گئے، پوسٹرز پھاڑے گئے، ہماری انتخابی چاکنگ مٹائی گئی۔ مگر ان تمام حربوں کے باوجود ہمارے کارکنان و مومنین نے اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر تمام سرگرمیوں کو جاری رکھا۔ 
انتخابات کے روز ہمیں انتہائی مسائل کا سامنا کرنا پڑا جیسا کہ آپ کراچی میں تمام سیاسی جماعتوں کے احتجاج سے اندازہ لگا سکتے ہیں۔ 

ایم کیو ایم کی جاننب سے ہمارے مرد و خواتین پولنگ ایجنٹس کو بلاامتیاز کے شدید ہراساں کیا گیا۔ بعض علاقوں میں ان کی جانوں کو خطرہ ہو گیا تھا لہٰذا ہمیں انہیں فی الفور واپس بلانا پڑا۔ انہیں جان سے مارنے کی دھمکیاں دی گئیں، ان کے موبائل و انتخابی فہرستیں و دیگر اشیاء چھین لی گئیں، انہیں پولنگ اسٹیشنز سے باہر نکال دیا گیا۔ ان سے کہا گیا کہ گھر سے باہر نہیں نکلنا ورنہ مار دیئے جاﺅ گے۔ اس کے علاوہ انتہائی افسوسناک اور قابل مذمت بات یہ کہ ایم کیو ایم نے ہماری خواتین پولنگ ایجنٹس کے ساتھ بھی دست درازی کی، خواتین کے ساتھ بھی بدسلوکی کی۔ ہماری خواتین پولنگ ایجنٹس کے ہاتھ تک پکڑ کر انتہائی بدسلوکی کے ساتھ پیش آئے اور انہیں پولنگ اسٹیشنز سے بیدخل کر دیا اور دھمکیاں دیں کہ تم چلی جاﺅ اور اپنے بھائیوں سے کہنا کہ اگر زندگی چاہتے ہیں تو گھر سے باہر نہیں نکلیں۔ 

اگلے روز ہمارے کارکنان اور ذمہ داران کے گھروں کے باہر شدید فائرنگ کی جبکہ ہمارے تنظیمی دفاتر کا گھیراﺅ کرکے بھی فائرنگ کر کے ہمیں ڈرانے دھمکانے اور ہراساں کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ رینجرز کے آنے کے بعد ان دہشت گرد عناصر کو وہاں سے فرار ہونا پڑا۔ باقی جہاں تک بات ہے دھاندلی کی، جعلی ووٹ ڈالنا، ہمارے ووٹ ضائع کرنا وغیرہ وغیرہ یہ تمام باتیں میڈیا خصوصا سوشل میڈیا پر عام ہو چکی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ جو جو دھاندلی کا تصور آپ کے ذہن میں آ سکتا ہے ان سب کا مظاہرہ سیاسی مافیا کی جانب سے انتخابات کے روز کیا گیا۔

اسلام ٹائمز: جیسا کہ آپ نے کہا کہ ایم ڈبلیو ایم کو دھمکیاں دینے کا سلسلہ مسلسل جاری ہے۔ کارکنان و مومنین چاہے وہ مرد ہوں یا خواتین، ان کے حوصلوں کو آپ کیسا محسوس کر رہے ہیں؟
سید حسن جعفر رضوی: الحمدللہ ان کارکنان کو چاہے وہ خواتین ہوں یا مرد، ہماے بچے ہوں یا بچیاں جنہیں بلواسطہ یا بلا واسطہ جان سے مارنے کی یا دیگر دھمکیاں دی گئی ہیں، ان پر ان دھمکیوں کا منفی کی بجائے مثبت اثر ہوا ہے۔ میں آپ کو مجلس کے کارکنان اور دیگر حامی مومنین و مومنات کے جذبات اور احساسات کے عکاس ان کے  خود اپنے الفاظ بتا دوں کہ وہ کہتے ہیں کہ کچھ بھی ہو جائے ہم جب میدان میں اترے ہیں تو ہمیں اپنی جان و مال کی پرواہ نہیں ہے، ہمیں صرف اللہ کی رضا چاہیئے، ہمیں حضرت محمد (ص) و آل محمد علیہم السلام کی خوشنودی چاہیئے۔ وہ کہتے ہیں کہ موت تو ایک دن آنی ہی ہے تو راہ خدا اور راہ کربلا میں کچھ کر کے شہادت کی موت کو کیوں نہ گلے لگایا جائے۔ مجلس کے مرد و خواتین کارکنان کا کہنا ہے کہ ہم خدا کے انتہائی شکرگزار ہیں کہ اس نے ہمیں یہ توفیق دی ہے کہ ہم کراچی پر قابض تکفیری اور لسانی دہشت گرد عناصر کے چنگل سے شہر کی تمام سنی شیعہ و دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے پاکستانی شہریوں کو آزاد کرانے کی کوششیں میں ہراول دستے کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ یقیناً مکتب تشیع سے وابستگی کے ناتے یہ ہماری قومی، ملی و دینی ذمہ داری بھی بنتی ہے کہ ہم ہر ظالم کے خلاف مظلوموں کی مدد و نصرت کیلئے قیام کریں اور یہی پیغام سید الشہداء مولا امام حسین علیہ السلام اور فلسفہ قیام کربلا بھی ہے۔ لہٰذا ہم سمجھتے ہیں کہ دہشت گردں کی جانب سے دی گئی دھمکیوں سے ان کے مورال میں مزید اضافہ ہوا ہے اور وہ بالکل خوف و ہراس کی کیفیت کا شکار نہیں ہوئے ہیں۔

اسلام ٹائمز: انتخابی مہم کے دوران پیش آنے والے کسی خوشگوار لمحے کے بارے میں بتائیں۔
سید حسن جعفر رضوی: اپنا ہو یا مخالف، اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ کراچی میں مجلس وحدت مسلمین کی شاندار اور خوشگوار سیاسی فعالیت کی وجہ سے جہاں تکفیری قوتیں شدید خائف نظر آ رہی ہیں وہیں کراچی پر قابض لسانی سیاسی مافیا بھی شدید ترین بوکھلاہٹ کا شکار ہو چکا ہے اور مذکورہ لسانی جماعت کی نیندیں حرام ہو چکی ہیں جیسا کہ آجکل میڈیا میں بھی نظر آ رہا ہے۔ سب ہی سیاسی ناقدین اس بات کے قائل ہو چکے ہیں چاہے وہ اس کا اظہار کھلے الفاظ میں نہیں کر رہے ہوں کہ جس طرح سے کراچی میں ایم ڈبلیو ایم نے دہشت گرد سیاسی مافیا کو چیلنج کیا ہے اس سے ان تمام چھوٹی بڑی سیاسی و مذہبی جماعتوں کو حوصلہ ملا ہے جو اس سیاسی مافیا کی دھونس دھمکیوں کا شکار ہیں۔ 
کئی بار انہوں نے ایم ڈبلیو ایم کے حوصلوں کی تعریف کرتے ہوئے الیکشن کے بعد بھی اپنے بھرپور تعاون کا یقین دلایا ہے۔ صرف ایک بات کا تذکرہ کرنا چاہوں گا کہ الیکشن مہم کی آخری شب ہم نے سیاسی مافیا کی تمام تر دھمکیوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے ایک موٹر سائیکل ریلی نکالی۔ جب یہ ریلی مختلف علاقوں سے گزری تو ہمیں مختلف سیاسی و مذہبی جماعتوں کے مقامی ذمہ داران کی کالز آنی شروع ہو گئیں کہ صاحب ایم ڈبلیو ایم نے جس دلیری، ہمت و جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے اور خوف و ہراس کی فضاء کو توڑتے ہوئے یہ شاندار ریلی نکالی ہے، ہمیں آپ سے زیادہ خوشی محسوس ہو رہی ہے اور ہم آپ کیلئے خدا سے بہت زیادہ دعاگو ہیں کہ وہ آپ لوگوں کی حفاظت فرمائے اور کامیابی عطا فرمائے۔

اسلام ٹائمز: آخر میں یہ بتا دیں کہ مشاہدے میں آیا ہے کہ انتخابی مہم کے دوران خواتین نے مردوں سے بڑھ کر ذمہ داریوں کو انجام دیا ہے۔ اس سلسلے میں آپ کیا کہنا چاہیں گے؟
سید حسن جعفر رضوی: دیکھیں سب سے پہلے تو میں آپ کو بتا دوں کہ انتخابات کو ہم نے اپنی زندگی موت کا مسئلہ نہیں بنایا ہوا تھا۔ تمام تر دھمکیوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ہمارے کارکنان اپنی انتخابی مہم کو جاری رکھے ہوئے تھے اور کسی بھی قیمت پر پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں تھے۔ ہمارے لئے انتخابی مہم کا چلانا بہت ضروری تھا مگر اس سے ساتھ ساتھ کارکنان کا تحفظ بھی ہمارے پیش نظر ایک اہم ترین مسئلہ تھا کیونکہ ہمارا ایک ایک کارکن ہمیں اپنی جان سے زیادہ عزیز تھا اور ہے۔ لہٰذا کراچی خصوصاً ہمارے ملیر کے حلقے کے نامساعد حالات کے باعث خود ہم نے کارکنان کے نہ چاہتے ہوئے بھی انہیں کئی مواقعوں پر پیچھے ہٹا دیا۔ تو اس صورتحال کے پیش نظر ہماری خواتین کارکنان اور ہماری بچیوں نے اپنی گھریلو ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ انتخابی مہم جیسی اس اہم ترین اور حساس ذمہ داری کو بھی اپنے نحیف کندھوں پر اٹھایا اور اس مشکل ترین ذمہ داری کو جان جوکھوں میں ڈال کر احسن ترین انداز میں انجام دے کر کار زینبی (ع) کی یاد تازہ کر دی اور بتا دیا کہ وہ پیروان راہ زینب و ام کلثوم (ع) ہیں۔ دوسری جانب دیکھا جائے تو خواتین ملکی آبادی کا نصف حصہ ہیں اور خواتین تک پیغام رسانی ہمارے لئے انتہائی مشکل کام تھا، مگر جس طرح خواتین کارکنان نے بلاخوف و خطر پیغام رسانی کا کام کیا اور گھر گھر جا کر خواتین سے ملیں ان تک ایم ڈبلیو ایم کے پیغام کو پہنچایا ہے، انہیں قائل کیا۔ ان کی انہیں کاوشوں و محنتوں سے ایم ڈبلیو ایم کو خاصی تقویت ملی ہے۔ لہٰذا میں مجلس کی تمام خواتین کارکنان اور اپنی عزیز بیٹیوں کو انتہائی خراج تحسین پیش کرتا ہوں، ان کی کوششیں یقیناً انتہائی قابل ستائش ہیں اور ہم ان کے بےحد شکر گزار ہیں۔ خدا سے دعا ہے کہ تمام کارکنان و مومینین خصوصا خواتین کارکنان اور دیگر حامی مومنات کی ان زحمات کو اپنی بارگاہ میں شرف قبولیت بخشے اور اجر عظیم عطا فرمائے، توفیقات میں مزید اضافہ فرمائے۔ خدا ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ شکریہ۔
خبر کا کوڈ : 266397
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش