7
0
Saturday 18 May 2013 16:44

الیکشن میں سب سے بڑی کامیابی 50 لاکھ لوگوں سے رابطہ اور شیعہ سنی اتحاد کو عملی شکل دینا ہے، ناصر عباس شیرازی

الیکشن میں سب سے بڑی کامیابی 50 لاکھ لوگوں سے رابطہ اور شیعہ سنی اتحاد کو عملی شکل دینا ہے، ناصر عباس شیرازی
سید ناصر عباس شیرازی مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری سیاسیات ہیں، حالیہ الیکشن میں ملک بھر میں اپنے امیدوار کھڑے کرنے اور تمام شہروں کے دورہ جات کرکے لوگوں کے مورال کو بلند کرنے میں انہوں نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ ایم ڈبلیو ایم حالیہ الیکشن میں کوئٹہ سے ایک صوبائی سیٹ جیتنے میں بھی کامیاب ہوئی ہے۔ اسلام ٹائمز نے ناصر عباس شیرازی سے حالیہ الیکشن میں ایم ڈبلیو ایم کی پالیسی، کیا کامیابی سمیٹی، کہاں کہاں غلطیاں کیں اور اس الیکشن سے ایم ڈبلیو ایم نے کیا حاصل کیا، سمیت کئی اہم چبھتے ہوئے سوالوں پر مشمتل انٹرویو کیا ہے، جو قارئین کیلئے پیش خدمت ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: ایم ڈبلیو ایم نے وطن عزیز میں وحدت کے حوالے سے اپنا تعارف کرایا اور کام بھی کیا۔ میرا آپ سے سوال یہ ہے کہ الیکشن کے حوالے سے پالیسی بناتے وقت بھی کیا وحدت کو سامنے رکھا گیا اور متفقہ طور پر انتخابی پالیسی بنانے کی کوشش کی گئی۔؟

ناصر عباس شیرازی: سب سے پہلے تو آپ لوگوں کا بے حد شکریہ، مجلس وحدت مسلمین پہلی بھی وحدت کے لیے کام کرتی رہی ہے اور انشاءاللہ اب آگے بھی وحدت مسلمین کے لیے کام کرے گی، بالخصوص سب سے پہلے وحدت بین المومنین کے لیے مسلسل جدوجہد جاری رکھے گی۔ اگر آپ ہماری ساری سیاسی پالیسی کا جائزہ لیں تو آپ کو بخوبی معلوم ہوگا کہ ہم نے اس پالیسی میں وحدت بین المومنین کو بھی مدنظر رکھا ہے اور وحدت المسلمین کو بھی۔ مثلاً وہ علاقے جہاں پر ہماری سیاسی ورکنگ بھی بہت زیادہ تھی، ہمارے پاس افرادی قوت بھی تھی، یعنی اگر ہم وہاں الیکشن خود لڑتے تو کامیاب بھی ہو جاتے لیکن اس کے باوجود ہم نے وحدت بین المومنین کا مظاہرہ کیا اور اپنے امیدوار ان علاقوں سے کھڑے نہیں کئے۔ جھنگ اور لیہ میں ہمیں آزاد امیدوار صرف اس لیے کھڑے کرنے پڑے تاکہ وحدت بین المومین کے حوالے سے مسئلہ پیدا نہ ہو۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں ایم این اے کے امیدوار انجینئر خادم حسین ہماری شوریٰ عالی کے رکن ہیں اور ہم نے انہیں صرف اس لیے آزاد امیدوار کے طور پر کھڑا کیا کہ اگر کوئی فرد ہم سے ہم آہنگ نہیں ہے تو وہ ہماری وجہ سے اس امیدوار کیخلاف نہ ہو جائے، اس وجہ سے ہم وحدت بین المومنین اور وحدت بین المسلمین کا عملی مظاہرہ کیا۔ آپ نے دیکھ لیا ہوگا کہ پورے ملک میں مکتب اہل بیت (ع) سے تعلق رکھنے والا کوئی بھی شخص ہماری وجہ سے شکست سے دوچار نہیں ہوا۔

دوسری آپ کی یہ بات کہ باقی شیعہ سیاسی پارٹیوں کے ساتھ ہماری بات چیت ضرور ہوئی۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگر شیعہ علماء کونسل کی بات کی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کے اور ہمارے درمیان تھیسز کا فرق ہے اور بہت واضح فرق ہے۔ اب ظاہر ہے کہ ہم نے اپنی آرگنائزیشن کے مطابق ہی اپنی پالیسی بنانی تھی۔ مجلس وحدت مسلمین وہ واحد شیعہ سیاسی جماعت ہے کہ جس کی تائید 2 اہل سنت جماعتوں نے کی کہ جس میں جمعیت علمائے پاکستان اور سنی تحریک شامل ہیں اور اس طرح شیعہ سنی عملی اتحاد سامنے آیا۔ دونوں سنی جماعتوں کی طرف سے باقاعدہ پریس کانفرنسز میں اعلان کیا گیا کہ مجلس وحدت مسلمین کے امیدوار ہمارے امیدوار ہیں اور ہم انہیں بھرپور سپورٹ کریں گے۔ شیعہ سنی وحدت جو پہلے پاکستان میں کبھی نظر نہیں آئی تو ہم نے اس کی بنیاد رکھی اور انشاءاللہ اس سلسلہ کو مزید آگے بڑھائیں گے۔

اسلام ٹائمز: ایم ڈبلیو ایم نے کہا تھا کہ وہ ملک بھر میں معتدل افراد کو سپورٹ کریگی، پھر اچانک پالیسی چینج دیکھنے کو ملا، اس کی وجہ کیا ہے۔؟

ناصر عباس شیرازی: جی ہاں، اس کی عملی صورتحال کی ایک مثال دوں گا کہ بھکر میں ہمارا ایک امیدوار کھڑا ہوا، جبکہ وہاں دس ایسے مقامات تھے جہاں ہم اپنے امیدوار کھڑے کرسکتے تھے لیکن ایسا نہیں کیا۔ ان جگہوں پر ہم نے معتدل افراد کو سپورٹ کیا، خواہ وہ شیعہ تھے یا سنی۔ رہی بات پالیسی شفٹ کی تو ایسی صورتحال نہیں تھی، جب تک ہمارے ادارے ایک بات کو فائنل نہ کریں، تب تک اس ایشو پر بات نہیں کی جاتی۔ شوریٰ عالی سے اجازت لی گئی تب الیکشن میں وارد ہونے کا اعلان کیا گیا، ایسے نہیں کہ اچاک الیکشن میں وارد ہوگئے۔ دوسرا پاکستان میں یہ ایک حقیقت ہے کہ شیعہ قوم کی مثال ایسی ہے کہ جس کو ایک ٹھوکر مارتا تھا تو وہ دوسری پارٹی میں چلا جاتا تھا اور دوسرا ٹھوکر مارتا تو اگلی پارٹی میں چلا جاتا تھا۔ یعنی شیعہ قوم کی اپنی کوئی پارٹی اور کوئی شناخت ہی نہیں تھی، لہٰذا اسی لیے ہم نے یہ منصوبہ بندی کی کہ جہاں پر اور جس حلقے میں ہم اپنی اکثریت رکھتے ہیں اور سیاسی ورک کرسکتے ہیں، وہاں پر ایم ڈبلیو ایم کی طرف سے امیدوار کو نامزد کریں اور اپنے طور پر الیکشن لڑیں۔

اسلام ٹائمز: آپ کسی دوسرے امیدوار کو سپورٹ کرتے تو اس کے لیے زیادہ ہوم ورک کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی، جبکہ یہ بھی ایک حیقیقت ہے کہ دیگر شیعہ جماعتیں بھی آپ کے ساتھ نہیں تھیں۔ کیا آپ نہیں سمجھتے کہ کامیاب دھرنوں کے بعد الیکشن کے نتیجے سے ایم ڈبلیو ایم کی ساکھ پر اس کا اثر ہوا ہوگا۔؟

ناصر عباس شیرازی: دیکھئے، کوئی بھی سیاسی پارٹی یہ نہیں سمجھتی کہ جس پارٹی کی طرف سے احتجاجی دھرنے دئیے جائیں اور عوام کی بڑی تعداد اس کے ساتھ ہو تو اتنے ہی ووٹرز بھی ان کے ساتھ ہوں، ایسی بات ہرگز نہیں۔ ہم نے کبھی دھرنوں کو اپنے لئے معیار قرار نہیں دیا، اگر ہزار سال بعد بھی آپ سیاسی پراسس میں وارد ہونا چاہیں تو آپ کا پہلا قدم یہی بنے گا جو ہم نے اٹھایا۔ ہم نے ایم ڈبلیو ایم کے پلیٹ فارم سے اپنے امیدوار کھڑے کیے، یہ ہمارا پہلا قدم تھا۔ پہلے مرحلے پر درخت کی توقع نہیں رکھی جاسکتی۔ ہم نے پودا لگایا ہے اور عوام کو بھی ہم سے پودے کی توقع ہی رکھنی چاہیے۔ اس مختصر عرصے میں ہمارے پاس سیاسی و نظریاتی لوگ نہیں تھے اور نہ ہی وہ اتنا شعور رکھتے تھے کہ الیکشن کس طرح لڑا جاتا ہے اور اس میں کیا کیا پیچیدگیاں ہوتی ہیں۔

لازمی سی بات ہے یہ سب تب پتہ لگ سکتا ہے جب آپ اس پراسس میں وارد ہوں، دوسری بات یہ کہ جس طرح آپ نے اپنے سوال میں کہا کہ تمام شیعہ ایم ڈبلیو ایم کیساتھ نہیں تھے۔ اگر شیعہ علماء کونسل کی بات کی جائے تو انہوں نے پہلے ہی ایک سیاسی پارٹی سے الحاق کر لیا تھا اور اس میں ضم ہوچکی تھی۔ باقی مکتب جعفریہ کی پارٹیاں بھی اپنی جگہ اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔ ایم ڈبلیو ایم نے سیاسی حوالے سے خود مختار ہو کر پہلا قدم اٹھایا ہے اور یہ ہمارا سیکھنے کا مرحلہ ہے اور ہم نے اس میں مزید کام کرنا ہے اور انشاءاللہ دنیا دیکھے گی کہ اگلا قدم ہمارا دوسرا قدم تصور ہوگا، جس کے اثرات سب دیکھیں گے۔

اسلام ٹائمز: آپ نے خود اعتراف کیا کہ آپ کے پاس سیاسی ٹیم موجود نہیں تھی اور الیکشن لڑنے کا بھی تجربہ نہیں تھا، ایم ڈبلیو ایم نے پاکستان میں ملت جعفریہ کی نمائندہ جماعت کی حیثیت سے الیکشن لڑا، تو کیا اس سے ملت جعفریہ کو ووٹ بینک کی حیثیت سے نقصان نہیں پہنچا۔؟

ناصر عباس شیرازی: پیپلز پارٹی والوں کے ساتھ شیعہ علماء کونسل نے الحاق کیا اور اسے بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا، حالانکہ اس سے پہلے ان کی اچھی پوزیشن تھی، تو کیا اس کا الزام شیعہ علماء کونسل پر عائد کر دیا جائے، یقیناً ایسا نہیں ہے، اس کے ہارنے کے کئی اسباب ہیں۔ مجلس وحدت مسلمین بھی الیکشن لڑی اور اس کے ہارنے سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اس کا کوئی کردار نظر نہیں آ رہا۔ سیاست کو آپ دھرنوں کے ساتھ متصل نہ کریں کیونکہ دھرنوں میں تو سیاسی پارٹیاں بھی شریک ہوئیں اور غیر مسلم بھی شریک ہوئے۔ میرا آپ سے ایک سوال ہے کہ کیا اگر ہمارے پاس سیاسی ٹیم موجود نہیں تو کیا سیاسی ٹیم کنارے پر بیٹھ کر تیار ہوتی ہے۔ بالکل بھی نہیں، سیاسی ٹیم تیار کرنے کے لیے دریا میں اترنا پڑتا ہے اور ہم دریا میں اترے ہیں اور اب ہمیں اندازہ ہوگیا کہ دریا کی کتنی گہرائی ہے۔ اگر الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر بھروسہ کیا جائے تو وہاں اختر شیرازی کے صرف 12 ووٹ درج ہیں جبکہ عملی طور پر ان کے 9000 سے بھی اوپر ووٹ ہیں جو کہ انہوں نے حاصل کئے ہیں۔

میں آپ کو بتاتا ہوں کہ کس طرح اپنے آپ کو دوسروں سے تقابل کرنا چاہیے۔ ایم ڈبلیو ایم نے 50 فیصد پی پی پی سے زیادہ ووٹ لیے ہیں اور پنجاب میں پی پی پی سے بھی بڑی جماعت ایم ڈبلیو ایم کی ہے۔ اگر سندھ کی بات کی جائے تو چند ایک حلقوں کو چھوڑ کر تحریک انصاف سے بھی بڑی جماعت کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ اگر جماعت اسلامی کے چند حلقوں کو نکال دیں تو معلوم ہوگا کہ پورے پاکستان میں ایم ڈبلیو ایم جماعت اسلامی سے بھی آگے ہے۔ ہمیں بخوبی معلوم ہے کہ اس الیکشن میں کیا کچھ ہوا ہے لیکن ہم نے پھر بھی پنجہ آزمائی کی ہے اور بہت اچھا لڑے ہیں۔ اگر کراچی میں دھونس اور دھاندلی نہ ہوئی ہوتی تو یقیناً کراچی سے ایم ڈبلیو ایم کی دو سیٹیں پکی تھیں۔ جو بھی وہاں ریگنگ اور دھاندلی ہوئی ساری دنیا نے دیکھا، کس سے ڈھکا چھپا ہے۔؟ اس الیکشن سے ایم ڈبلیو ایم کو کوئی نقصان نہیں ہوا بلکہ اس وقت بھی ایم ڈبلیو ایم ایک بھرپور سیاسی جماعت ہے۔ لاہور میں ہمارے امیدواروں نے پیپلزپارٹی کے امیدواروں سے بھی زیادہ ووٹ حاصل کئے ہیں۔

اگر ہم اپنے آپ کو تحریک انصاف کے ساتھ مقابلہ کرکے دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ ہم نے صرف سیاسیات پر دو ماہ کام کیا ہے۔ جبکہ تحریک انصاف نے پہلی بار الیکشن لڑا تو ایک لاکھ اور چند ہزار ووٹ حاصل کئے تھے اور پورے پاکستان سے کوئی سیٹ نہیں لے سکی تھی۔ آپ چیک کر دیکھ لیں کہ ایم ڈبلیو ایم کے تحریک انصاف کے پہلے الیکشن کے حاصل کردہ ووٹوں سے ہمارے ووٹ زیادہ ہیں اور اس کے علاوہ انہوں نے تو کوئی سیٹ نہیں لی تھی، جبکہ ہم نے صوبائی اسمبلی میں ایک سیٹ بھی حاصل کرلی۔ عمران خان کا شوکت خانم ہسپتال، کرکٹر اور بہت کچھ ہوتے ہوئے بھی وہ اتنے ووٹ نہ لے سکا کہ جتنے ہم نے دو ماہ میں کام کرکے حاصل کئے ہیں۔ تحریک انصاف آج 17 سال بعد اس مقام پر کھڑی ہے جبکہ آپ ہم سے دو ماہ میں وہ مقام حاصل کرنے کی توقع رکھ رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: الیکشن میں ہونیوالی دھاندلی کے حوالے سے کیا کہیں گے، بہت سی جماعتیں اس پر احتجاج کر رہی ہیں۔؟
ناصر عباس شیرازی: میرے خیال میں الیکشن کے فوراً بعد لوگوں کو صورتحال کی سمجھ نہیں آ رہی، ایک عرصے میں جب اس پر تبصرے اور تجزئیے ہوں گے تو پھر لوگوں کو معلوم ہوگا کہ کتنی بدترین دھونس اور دھاندلی کی گئی ہے۔ جھنگ کی بات کی جائے تو وہاں قومی اسمبلی کی سیٹ پر مولویوں نے اتنا ووٹ آج تک نہیں لیا جتنا اس دفعہ انہوں نے لیا ہے یا بتایا گیا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مولویوں کے حامیوں میں بتدریج کمی آ رہی ہے۔ اس کے باوجود بھی ان کا ووٹ بہت زیادہ بتایا جا رہا ہے۔ اسی طرح ان کے دوسرے شہروں اور حلقوں میں دیکھیں کہ گذشتہ الیکشن کے مقابلے میں ان کے کتنے ووٹ بڑھ گئے ہیں، آج تک تاریخ کے اندر ایسا نہیں ہوا۔ کچھ نہ کچھ تو دال میں کالا ضرور ہے کہ ووٹوں کی اتنی ساری تعداد بیان کرکے چند لوگوں کو پروموٹ کیا گیا اور انہیں کامیاب بنایا گیا۔ یہ تاریخ کی بدترین دھونس اور دھاندلی تھی جو کہ اس دفعہ کے الیکشن میں ہوئی۔ فی الوقت اس کو ثابت کرنا اتنا آسان نہیں، لیکن کچھ عرصے کے بعد جب تجزیہ نگار اپنا تجریہ پیش کریں گے تو دھاندلی خوب ثابت ہو جائے گی۔ اس دھاندلی میں ایک مخصوص پارٹی کو نوازا گیا ہے اور اس پارٹی کو جتنا مارجن دیا جا رہا ہے، یہ بالکل ناممکن سی بات ہے۔ رانا ثناء اللہ ایک لاکھ کچھ ووٹوں سے جیتا ہے جبکہ پورے حلقے میں ووٹرز کی تعداد ہی اتنی نہیں۔

اگر ثابت ہو جائے کہ کسی ایک جگہ پر دھاندلی ہوئی ہے اور الیکشن کمیشن نے اس پر ایکشن نہ لیا ہو تو اس پر آپ کیا کہیں گے، کراچی اور سندھ کے اندر دھاندلی کی گئی۔ اسی طرح جنوبی پنجاب کے اندر دھاندلی کی گئی اور ان تمام کی ویڈیوز موجود ہیں۔ اس کے علاوہ ہم نے مطالبہ کیا تھا کہ الیکشن فوج کی نگرانی میں کرائیں جائیں، یعنی اگر ایک آدمی ووٹ کاسٹ کرتا ہے تو آزادانہ طور پر وہ ووٹ کاسٹ کرے اور اگر گھر واپس آئے تو بھی آزادانہ طور پر آئے اور اس کے اوپر دہشت گردی کا خوف نہ ہو۔ لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ حالانکہ سب جانتے ہیں کہ جھگڑے سے پہلے جھگڑے کا سدباب کرنا ہوتا ہے، لیکن اس حوالے سے آپ کو کوئی اقدامات نہیں ملیں گے۔ دہشت گردی کے ماحول میں کبھی بھی شفاف الیکشن نہیں ہوتے، اگر یہ خوف موجود ہو تو کوئی بھی انسان اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر ووٹ کاسٹ کرنے نہیں آتا، اسی لیے تمام جماعتوں سنی تحریک، پی ایم ایل، جماعت اسلامی، ایم ڈبلیو ایم سمیت دیگر نے الیکشن کا بائیکاٹ کیا اور نتائج کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ آپ اگر پوری ویڈیو دیکھیں تو آپ کو کہیں بھی فوج یا رینجرز نظر نہیں آئے گی۔

اسلام ٹائمز: الیکشن میں ایم ڈبلیو ایم نے 60 سے زائد امیدوار کھڑے کئے کیا یہ ممکن تھا کہ انہیں مینج کیا جائے اور وہ بھی پہلے مرحلے میں۔؟
ناصر عباس شیرازی: دیکھیں شروع میں جب ہم نے ڈونرز کانفرنس منعقد کی اور اپنے ڈونرز کو بریف کیا اور ان کی طرف سے یقین دہانی ہوئی تو ہمیں یقین ہوگیا تھا کہ جتنے وعدے ہوئے ہیں اس سے ہمارا کام چل جائیگا۔ اس وقت ہم اس پوزیشن میں تھے اور ہمیں یقین تھا کہ اس سے ہم فنانشل ضروریات پوری کر لیں گے۔ آپ جانتے ہیں کہ ہمارے امیدوار جو کھڑے ہوئے وہ خود مستضعف اور درمیانے طبقے کے لوگ تھے اور سرمایہ کاروں کیخلاف جنگ لڑ رہے تھے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہم نے پورے پاکستان میں الیکشن کے حوالے سے جتنا خرچ کیا وہ ایک ایم پی اے کے اخراجات سے بھی کم تھا۔ یہ ہمارا پہلا مرحلہ تھا اور ہم نے غلیلوں کے ذریعے سے ٹینکوں سے جنگ لڑی۔ گیارہ مئی ہمارا نقطۂ اختتام نہیں بلکہ نقطۂ آغاز تھا۔ کبھی آپ نے دیکھا ہے کہ جس کے پاس کار تک نہ ہو اور وہ امیدوار موٹر سائیکل پر اپنی الیکشن کمپین چلا رہا ہو۔

بھکر میں ہمارے امیدوار نے 18 ہزار سے زائد ووٹ حاصل کیے، کیا یہ معجزہ سے کم ہے۔؟ ایم ڈبلیو ایم کے اس دفعہ کے الیکشن کو اگر اس طرح دیکھا جائے کہ انتہائی کم وسائل اور کم وقت میں جس طرح بھرپور مقابلہ کیا ہے، وہ قابل ستائش ہے۔ ہمارے امام اوّل امیرالمومنین علی علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ ہمیشہ ظالموں کے خلاف رہو اور مظلوموں کے حامی بنو۔ امام خمینی رہ نے بھی یہی درس دیا کہ ہم ہر ظالم کے خلاف ہیں چاہے وہ شیعہ ہی کیوں نہ ہو اور ہر مظلوم کے حامی ہیں چاہے وہ کافر ہی کیوں نہ ہو۔ پس ہم مظلومین کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ مظلومین کے اندر ہمارے سکھ بھائی، ہندو بھائی اور عیسائی بھائی بھی شامل ہیں جو کہ پاکستان کے باسی ہیں۔ ہم امام علی (ع) کی سیرت پر چلتے ہوئے ظالموں کیخلاف مظلومین کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ اب اگر کوئی شیعہ امیدوار ہے اور وہ ظالم ہے تو ہم اس کی کبھی بھی حمایت نہیں کریں گے۔ ہاں اگر کوئی مظلوم ہوا چاہے وہ کسی بھی مکتب فکر سے تعلق رکھتا ہو تو ہم اس کا ہاتھ پکڑ کر اس کی حمایت کریں گے۔

نثار کھوڑو کے مقابلے میں تیسری پوزیشن پر آنا اور مسلم لیگ فنکشنل کو پیچھے چھوڑ دینا آسان بات نہیں۔ مجلس وحدت مسلمین ایسی جماعت ہے کہ جس کے ذریعے ان ظالموں اور وڈیروں کے خلاف الیکشن لڑا جاسکتا ہے۔ ہم نے پہلے قدم پر یہی کام کیا ہے اور مظلوموں کو آگے لے کر آئے ہیں۔ شیعہ سنی بھائیوں پر روز بروز حملے ہو رہے ہیں، داتا دربار و دیگر اولیائے خدا کے مزاروں پر آئے روز خودکش دھماکے اور ہمارے سنی و شیعہ بھائیوں کی اہم شخصیات کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ایم ڈبلیو ایم نے ان مظلوموں کو ایک سیاسی پلیٹ فارم دیا ہے کہ جس کے ذریعے ہم ان ظالموں کے ہاتھوں کو کاٹ سکتے ہیں۔ کربلا میں بھی چونکہ امام حسین (ع) کے ساتھیوں کے تعداد بہت ہی کم تھی، اس کے باوجود انہوں نے جنگ لڑی، لہٰذا ہم بھی کثیر تعداد سے نہیں گھبرائے اور سیرت امام حسین (ع) پر چلتے ہوئے الیکشن لڑا۔

اسلام ٹائمز: مجلس وحدت مسلمین سنی جماعتوں یا دیگر جماعتوں کے ساتھ اپنی کارکردگی کا موازنہ کیسے کرسکتی ہے۔؟
ناصر عباس شیرازی: دیکھیں پاکستان لا الہ الا اللہ کی بنیاد پر بنا۔ لیکن افسوس کہ دشمن نے اس بائنڈنگ فورس کو توڑا اور اس کیلئے انہوں نے مسلمانوں کو فرقوں و گروہوں میں تقسیم در تقسیم کرنا شروع کر دیا۔ علاقائیت، لسانیت کے طور پر گروہ بندیاں شروع کر دیں۔ ہماری بائنڈنگ فورس جو ایک کلمے کے تحت جمع ہے، جنہیں لڑانے کیلئے دشمن مسلسل تاک لگائے بیٹھا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ آپس میں متحد ہوں۔ اسی کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے مجلس وحدت مسلمین نے اسٹینڈ لیا اور مسلمانوں کی وحدت کا بیڑہ اٹھایا۔ ہم نے قومیت، لسانیت کو شکست دی ہے اور ہم نے ایک کلمے پر دوبارہ اس امت کو زندہ و بیدار کیا ہے۔ پاکستان میں دو قوتیں ہیں، جن میں سے ایک ایسی ہے کہ جو معتدل ہے جبکہ دوسری ایسی قوت ہے جو اپنی رائے کے علاوہ کسی دوسری کی رائے کو پسند نہیں کرتی اور اگر کوئی ان کے خلاف رائے رکھتا ہو تو اس کے خلاف ہر طرح کا انداز اپنانا اپنا حق تصور کرتے ہیں۔

ایم ڈبلیو ایم نے پاکستان میں سب سے اکثریتی مکتب یعنی بریلوی سنی بھائیوں سے اپنی پارٹنر شپ قائم کی ہے۔ اگر یہ پارٹنرشپ طویل چلی گی تو دوسرے قدم میں مزید اضافہ ہوگا۔ ہم انشاءاللہ آپس میں مل کر پاکستان کو بھی بچائیں گے اور ایک بڑی سیاسی قوت بھی بن کر ابھریں گے۔ پورے پاکستان میں مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے حمایت یافتہ لوگ سنی تحریک، سنی اتحاد کونسل کے لوگ تھے۔ پس ہم نے تکفیریوں کو الگ کر دیا ہے اور یہی ہمارا حاصل تھا۔ ہم نے اس الیکشن میں 50 لاکھ لوگوں سے رابطہ کیا ہے جو ہماری سب سے بڑی کامیابی ہے۔ ہم نے ان کے مسائل سے آشنائی حاصل کی، جو الیکشن مہم کے بغیر نہ ممکن سی بات تھی۔ ہم چھوٹے چھوٹے دیہاتوں میں گئے، لوگوں کے مسائل سنے اور دیکھے، انہیں قریب سے جاکر دیکھا، تب ہمیں پتہ چلا کہ غربت کیا ہے اور لوگوں کے اصل مسائل کیا ہیں۔؟ یہ سب اسی الیکشن مہم کے نتیجے میں ممکن ہوا۔ اب ہمارے لیئے پالیسی بنانا اور لوگوں کی خدمت میں نکلنا مشکل نہیں رہا۔ اب ہم لوگوں کے مسائل کیلئے صحیح اور مؤثر آواز بلند کرسکتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: پاکستان میں مسلم لیگ نون اپنی حکومت بنانے جا رہی ہے اور اس جماعت کو طالبان کی بھی حمایت حاصل ہے۔ مجلس وحدت مسلمین نے کھل کر اس کیخلاف اپنے تحفظات کا اظہار بھی کیا ہے، اب ایم ڈبلیو ایم نون لیگ کو کیسے ڈیل کریگی۔؟
ناصر عباس شیرازی: دیکھیں، جہاں تک ڈیل کرنے کا معاملہ ہے تو ہم نے ضیاءالحق کو بھی ڈیل کیا ہے تو لہٰذا انہیں بھی ڈیل کر لینگے، چونکہ ہم نے طے کیا ہے کہ ہم نے ہمیشہ میدان میں حاضر رہنا ہے۔ ہم میدان میں برقرار رہیں گے اور ہمیشہ غلط کو غلط کہتے رہیں گے۔ مجلس وحدت مسلمین نے اپنی سیاسی موومنٹ شروع کی اور اس کے نتیجے میں مسلم لیگ نون کو اپنے رویے پر نظرثانی کرنی پڑی ہے۔ یہ فائدہ مند ثابت ہوا ہے۔ سانحہ عباس ٹاؤن کراچی کے حوالے سے تعزیت کے لیے مسلم لیگ نون کا ایک وفد ایم ڈبلیو ایم کے صوبائی دفتر لاہور میں آیا۔ جس نے بعد میں طویل سیاسی گفتگو بھی کی۔ میں نے کافی غور و فکر کیا اور مجھے معلوم ہوا کہ نون لیگ نے بہت زیادہ اپنے رویے میں تبدیلی لائی ہے۔ جھنگ کا حلقہ تکفیریوں کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے، لیکن آپ نے دیکھا کہ نون لیگ نے وہاں کس کو ٹکٹ دیا۔ ایک چیز واضح کروں کہ ہم کسی کو بھی بند گلی میں نہیں دھکیلیں گے بلکہ انہیں کھلا موقع دیں گے کہ وہ اپنی روش میں تبدیلی لائیں، ہم سمجھتے ہیں کہ نون لیگ کو اپنے رویے میں ضرور تبدیلی لانی ہوگی۔ نون لیگ نے اگر کسی بھی طرح پاکستان کے خلاف کوئی قدم اٹھایا تو ہم انہیں نہیں چھوڑیں گے، مثلاً پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ اور اس طرح سے دہشت گردوں کی پشت پناہی اور انہیں مدد دینا سرفہرست ایشوز ہیں، پھر ہم یہ بھی نہیں دیکھیں گے کہ حکومت میں کون ہے یا کون نہیں، ہم اس کے خلاف میدان میں ہوں گے۔

اسلام ٹائمز: مجلس وحدت مسلمین کی پاکستان تحریک انصاف سے کئی بار ملاقاتیں ہوئیں، کیا وجہ بنی کہ ایم ڈبلیو ایم کی تحریک انصاف سے سیٹ ایڈجسمنٹ نہ ہوسکی۔ سنا ہے کہ اس کے پیچھے آپ لوگوں کے مطالبات تھے جو ان کیلئے قابل عمل نہ تھے۔؟
ناصر عباس شیرازی: مینجمنٹ کے مسئلے کی وجہ سے پی ٹی آئی کے ساتھ سیٹ ایڈجسمنٹ نہ ہوسکی۔ پی ٹی آئی کے اندر ٹکٹ کے حوالے سے معاملات بہت زیادہ گھمبیر تھے۔ ہم نے تحریک انصاف کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی بات کی تھی۔ اب اگر وہ ہمارے ساتھ چند سیٹوں پر ہی سیٹ ایڈجسٹمنٹ کر لیتے تو اس کا مطلب یہ ہوتا کہ ایک نئی لڑائی سامنے آجاتی۔ پس یہ تحریک انصاف کا اندرونی مسئلہ تھا جس کی وجہ سے ایم ڈبلیو ایم کا تحریک انصاف کے ساتھ الحاق نہ ہوسکا۔ اس کے باوجود بھی ہمارے تحریک انصاف کے ساتھ روابط برقرار ہیں۔ جہاں تک آپ کا یہ کہنا ہے کہ ہم نے ایسی ڈیمانڈز کیں، جس کی وجہ سے الحاق نہ ہوسکا تو ایسی بات نہیں ہے، اگر ڈیمانڈ زیادہ تھی تو اس پر بات چیت ہوسکتی تھی اور دوبارہ نظرثانی کی جاسکتی تھی، لیکن عرض کیا کہ یہ مسئلہ درپیش نہیں تھا بلکہ اصل مسئلہ ان کا اندرونی تھا، میرے خیال میں اس وقت کوئی بھی اپنے قد کاٹھ کا صحیح اندازہ نہیں کر پا رہا تھا۔ اگر اس طرح سے دیکھا جائے تو پاکستان میں کہیں بھی سیٹ ایڈجسٹمنٹ نہیں ہوئی ہے۔ یہ صرف ہمارا ہی مسئلہ نہیں بلکہ پورے پاکستان میں کہیں بھی اور کسی کی بھی سیٹ ایڈجسٹمنٹ نہیں ہوسکی۔

اسلام ٹائمز: اس کی کیا وجہ ہوسکتی ہے کسی بھی جماعت کا دوسری جماعت کے ساتھ الحاق نہ ہوسکا۔؟
ناصر عباس شیرازی: اگر میں جماعت اسلامی کی بات کروں تو وہ اپنے آپ کو تحریک انصاف کے لیول کی پارٹی سمجھتی ہے۔ تحریک انصاف اپنے آپ کو مسلم لیگ نون جتنا سمجھتی ہے۔ یہ بنیادی مسائل بنے ہیں کہ جس کی وجہ سے آپس میں اپنے شیئر کا سمجھوتہ نہیں کرسکے۔ اس کے علاوہ وقت کی بھی بہت ساری قلت تھی۔

اسلام ٹائمز: جھنگ کے حوالے سے کیا کہیں گے جبکہ پورے پاکستان کے برعکس یہاں پر آپ کی پالیسی ہی الگ تھی، باالفاظ دیگر اختر شیرازی کو الیکشن میں کھڑا کرکے کیا ثابت کیا گیا ہے۔؟
ناصر عباس شیرازی: جھنگ کا فیصلہ اسٹیٹکس (شماریات) کی بنیاد پر کیا گیا، جھنگ کی یہ سیٹ ہمیشہ سے یا تو مولوی کے پاس رہی یا پھر جسے مولوی نے سپورٹ کیا اس نے جیتی ہے۔ پچھلا الیکشن دیکھ لیں کہ ووٹ جھنگوی دا کے نام پر لڑا گیا۔ ہمارے اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ الیکشن میں 24 ہزار ووٹ مولوی کے تھے، 40 ہزار سنی بریلیوں کے تھے، اسی طرح شیعوں کے ووٹ 17 ہزار تھے، جن میں سے بارہ ہزار کاسٹنگ ووٹ تھے۔ دوسرا یہ کہ اختر شیرازی گیارہ ماہ سے الیکشن کی تیاری کر رہا تھا، آپ نے دیکھا کہ ہم نے اسے ٹکٹ نہیں دیا، وہ آزاد امیدوار کی حیثیت سے کھڑا ہوا، ایسے میں ہم نے یہ فیصلہ جھنگ کے عوام کی رائے لیکر کیا، ہم نے تین امام بارگاہوں کی حمایت کے بعد اس کی حمایت کا اعلان کیا۔

ہم نے 3 امام بارگاہوں میں اجلاس کئے اور وہاں موجود عمائدین سے ان کی رائے لی، جس کے بعد اس کی حمایت کا فیصلہ کیا گیا۔ ان تمام اجلاسوں کی ویڈیوز بھی موجود ہے۔ جس میں سے 90 فی صد لوگوں نے کہا کہ بڑی سیٹ پر شیخ اکرم کو سپورٹ کیا جائے اور چھوٹی پر اختر شیرازی کے ساتھ تعاون کیا جائے، ہم نے اس فیصلے میں وہاں کے لوگوں کو شامل کیا۔ لہٰذا یہ وہ فیصلہ نہیں تھا کہ جو ڈرائینگ روم میں بیٹھ کر کیا گیا۔ یہی وہ صورتحال بنی کہ ہم نے الیکشن سے صرف پانچ دن پہلے اختر شیرازی کی پریس کانفرنس کے دوران حمایت کا اعلان کیا۔ اختر شیرازی نے 9 ہزار اور چند ووٹ لیے ہیں، یہ ووٹ اگر اختر شیرازی کو پڑے ہیں تو ظاہر سی بات ہے کہ اوپر والی سیٹ پر یعنی شیخ اکرم کو بھی پڑے ہیں، یعنی شیخ اکرم کی فتح اور مولوی شکست میں ایم ڈبلیو ایم کا بھی کلیدی رول ہے۔ آپ نے دیکھا ہے کہ مولوی فقط چند ہزار ووٹوں سے ہارا ہے۔ اس کے باوجود بھی اگر کچھ دوست ہماری مدد کرتے تو اختر شیرازی یہ چھوٹی سیٹ آسانی سے جیت سکتا تھا۔ بہرحال پھر بھی خدا کا لطف ہوا ہے۔ مولویوں کو دونوں نشستوں پر شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

اسلام ٹائمز: نئی حکومت کے آنے سے قومی سطح پر کیا چیلنجز دیکھ رہے ہیں۔؟
ناصر عباس شیرازی: ہم ایران، چین، بھارت اور افغانستان جیسے اہم ممالک کے بارڈر کے قریب ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم مڈل ایشاء میں ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارا ملک بہت ہی اہمیت کا حامل ہے۔ اگر طالبان کہتے ہیں کہ ہم تین پارٹیوں کے علاوہ کسی کو کچھ نہیں کہتے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ مسلم لیگ نون کو سپورٹ کر رہے ہیں۔ بہرحال پاکستان اس وقت انرجی، معاشی و اقتصادی جیسے بحرانوں سے دوچار ہے اور بدترین بدامنی پائی جاتی ہے۔ امن تب ہی قائم ہوسکتا ہے کہ جب قانون کی گرفت مضبوط ہو اور طالبائزیشن سوچ کو کم کیا جائے۔ اسی طرح پاکستان کی اقتصادی مشکلات بھی حل ہوسکتی ہیں۔ اگر نئے حکمران طالبان کی پشت پناہی کریں گے تو بری طرح ناکام ہوں گے اور پاکستان کو مزید بحرانوں کی دلدل پھنسا دیں گے۔
خبر کا کوڈ : 264809
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

السلام علیکم
پورے پاکستان سے ایم ڈبلیو ایم نے صرف اڑتالیس ہزار ووٹ حاصل کئے ہیں۔
کروڑوں خرچ کرکے اتنے ووٹ لینے تھے تو کیا ضرورت تھی ایسی جلد بازی اور بچگانہ فیصلوں کی۔
Germany
BOHAT KHOOOB
السلام علیکم
سید ناصر عباس شیرازی مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری سیاسیات کے مطابق اختر شیرازی نے 9 ہزار اور چند ووٹ لیے ہیں جبکہ الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر اختر شیرازی کے صرف 12 ووٹ درج ہیں تو مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری سیاسیات نے ابھی تک کیوں یہ اقدام نہیں کیا کہ الیکشن کمیشن صحیح اعداد کو اپنی ویب سایٹ پر درج کرے ۔ نیز این اے 24 ڈیرہ اسماعیل خان کے نتائج میں انجینئر خادم حسین کا نام نہیں ہے ۔ اسی طرح مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری سیاسیات کے مطابق بھکر میں ان کے امیدوار نے 18 ہزار سے زائد ووٹ حاصل کیے ہیں جبکہ الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر دس ہزار کے نزدیک درج ہیں اگر ان کی بات صحیح ہے تو صحیح اعداد درج کر واکے دکھائیں پھر واقعا آپ کی کامیابی کا اعتراف نہ کرنا زیادتی ہو گی۔ اس کے علاوہ بھی جہاں اعداد نادرست درج ہیں وہاں درست کروائیں تاکہ حقیقت واضح ہو۔
اسلام ٹایمز سے گزارش ہے اس گزارش کو پبلش ضرور کریں
Pakistan
ناصر شیرازی نے انٹرویو میں واضح بیان کیا ہے الیکشن میں ایک ایم پی اے کے برابر بھی اخراجات نہیں کیے گئے اور فنانس مینیج نہیں ہو سکا۔۔۔۔ تو پھر کروڑوں اور اربوں کہاں سے ہوگئے۔۔
United States
السلام علیکم
جس برادر محترم نے یہ فرمایا ہے (پورے پاکستان سے ایم ڈبلیو ایم نے صرف اڑتالیس ہزار ووٹ حاصل کئے ہیں۔کروڑوں خرچ کرکے اتنے ووٹ لینے تھے تو کیا ضرورت تھی ایسی جلد بازی اور بچگانہ فیصلوں کی۔)
ان کی خدمت میں عرض ہے ۔
1: جن حلقوں میں ووٹ 5000 سے زیادہ پڑے ہیں ان کی اہمیت کوئی سیاسی آدمی ہی سمجھ سکتا ہے۔
2: جن حلقوں میں ووٹ 2000 سے زیادہ پڑے ہیں ان میں محنت، خدمت، لوگوں سے مسلسل رابطے میں رہ کر اضافہ کیا جاسکتا ہے، نیز بعض امیدوار 300 سے 1000 کے ووٹوں کی برتری کی برتری سے جیتے ہیں۔ لہذا 1000 ووٹوں کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہے۔
3: ایم ڈبلیو ایم کا مقایسہ سو سالہ پارٹی مسلم لیگ، اسی سالہ جماعت اسلامی ،اسی سالہ جے یو آئی، اسی سالہ اے این پی، تقریباً پچاس سالہ پی پی پی سے کرنا نادرست ہے جبکہ ان پارٹیوں میں مختلف صدر، وزرائے اعظم، وزرائے اعلٰی، وزراء اور بڑے بڑے وڈیرے گزرنے کے ساتھ ملکی و غیر ملکی حمایت حاصل رہی ہے اور اب بھی حاصل ہے۔
ماشاءاللہ
انشاءاللہ ایم ڈبلیو ایم آگے اور بھی اچھا رزلٹ دیگی۔ میرے بھائیوں سے گزارش ہے کہ سیعہ مینڈیٹ کسی کو بھی قبول نہیں، الیکشن کمیشن جانبدار ہے، اس سے کوئی اچھائی کی امید نہیں رکھ سکتے۔ ناصر بھائی نے بہت مختصر عرصے میں جو کام کیا ہے وہ قابل ستائش ہے۔ ہم اس تاریخی کامیابی پر ایم ڈبلیو ایم حصوصاٰ راجہ صاحب کو مبارک باد دیتے ہے۔
United Kingdom
Very nice interview
ہماری پیشکش