0
Monday 17 Feb 2014 09:54
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے پر حکومت نے مایوس کیا ہے

ایک طرف حملے اور دوسری جانب مذاکرات، ریاست دفاع کا حق استعمال کرتی ہے تو حق بجانب ہے، آصف لقمان قاضی

ایک طرف حملے اور دوسری جانب مذاکرات، ریاست دفاع کا حق استعمال کرتی ہے تو حق بجانب ہے، آصف لقمان قاضی
آصف لقمان قاضی پاکستان کے معروف سیاستدان، سابق امیر جماعت اسلامی اور ملی یکجہتی کونسل کے مرحوم سربراہ قاضی حسین احمد کے بڑے فرزند ہیں۔ آپ نے بوسٹن یونیورسٹی سے ماسٹرز کیا۔ 1994ء میں تعلیم کی تکمیل کے بعد پاکستان تشریف لائے۔ اس وقت آپ جماعت اسلامی نوشہرہ کے امیر اور جماعت کے شعبہ امور خارجہ کے ڈپٹی ڈائریکٹر ہیں۔ قاضی حسین احمد مرحوم کی زندگی میں آپ ان کے شانہ بشانہ کام کرتے رہے، ملی یکجہتی کونسل کے قیام اور اس کی فعالیت میں آپ کا کردار کلیدی حیثیت کا حامل تھا۔ محترم آصف لقمان قاضی، مرحوم قاضی حسین احمد کی زندگی میں ان کے مشیر خاص کی حیثیت سے کام کرتے رہے جبکہ قاضی حسین احمد مرحوم کی رحلت کے بعد کونسل کے لیے آپ کی خدمات کے صلے میں آپ کو کثرت رائے سے نائب صدر نامزد کیا گیا۔ آصف لقمان قاضی ایک معروف تعلیمی ادارے کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہیں۔ اس تعلیمی ادارے کی مختلف برانچیں پورے پاکستان میں پھیلی ہوئی ہیں۔ ملی یکجہتی کونسل کے زیراہتمام منعقدہ ’’عالمی اتحاد امت کانفرنس‘‘ آصف لقمان قاضی کی انتظامی اور فنی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اسلام ٹائمز نے ان سے طالبان سے مذاکرات اور ملکی و غیر ملکی صورتحال پر ایک انٹرویو کیا ہے، جو قارئین کیلئے پیش خدمت ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: میاں صاحب کی حکومت کا قیام، سب سے پہلے ملک میں امن و امان کی صورتحال بہتر بنانے کیلئے طالبان کے ساتھ مذاکرات شروع کرنا، مذاکراتی کمیٹیوں کا قیام، لیکن اس کے باوجود طالبان کی جانب سے دہشتگردی کی کارروائیوں کا ہونا، آپ کی نگاہ میں یہ صورتحال کیسے رک پائے گی۔؟

آصف لقمان قاضی: صورتحال کی بہتری کیلئے ضروری ہے کہ جن کے پاس اختیار ہے ان کی ہم آہنگی ہو، چاہے وہ حکومت ہے یا مختلف ادارے ہیں، ان کی آپس میں ہم آہنگی ہو، ایک کمٹمنٹ کے ساتھ کام کیا جائے، اس لحاظ سے کام نہ کیا جائے کہ ہم نے اتمام حجت کرنا ہے، بلکہ کمٹمنٹ ہو کہ ہم نے مسئلہ حل کرنا ہے، جب ہم مذاکرات کی بات کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ریاست شہریوں کے دفاع اور تحفظ کی ذمہ داری سے دستبردار ہو جائے گی۔ اگر شہریوں پر حملے ہوتے ہیں، ریاست پر حملے ہوتے ہیں تو ریاست کو مکمل حق حاصل ہے بلکہ اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں اور ریاست کے تحفظ کیلئے ہر ممکنہ اقدامات کرے، یہ کسی صورت بھی قابل قبول نہیں کہ ایک طرف مذاکرات ہوں اور دوسری جانب حملے بھی ہوں، اس کے جواب میں ریاست اپنے دفاع کا حق استعمال کرتی تو وہ حق بجانب ہے، لیکن ہم اس کے ساتھ ساتھ یہ سمجھتے ہیں کہ بہت سارے لوگ ہونگے جو ان مذاکرات کو ناکام بنانا چاہتے ہوں گے، حکومت کو مکمل یکسوئی کے ساتھ کوشش کرنی چاہیے کہ امن قائم ہو، اس میں بنیادی رول مذاکرات کا ہے، اگرچہ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر ضرورت پڑے تو حکومت کے پاس طاقت کے استعمال کا آپشن موجود ہے، بہرحال مسئلہ پھر بھی مذاکرات کے ذریعہ سے ہی حل ہوگا۔

اسلام ٹائمز: گذشتہ دنوں لاہور میں مولانا سمیع الحق کی سربراہی میں علماء کا اجلاس ہوا، جس میں طالبان سے مذاکرات کرنے پر زور دیا گیا، خود مولانا سمیع الحق طالبان کمیٹی کے رکن ہیں، ایسا لگ رہا ہے کہ انہیں مذاکرات کی کامیابی کا یقین کم ہے، اس لیے حکومت پر زور دیا جا رہا ہے۔۔
آصف لقمان قاضی: دیکھیں کہ مذاکرات ہونگے، بنیادی فریق جو عملاً جنگ کے میدان ہیں، ایک طالبان ہیں، دوسری پاک فوج ہے۔ اس وقت ان کے درمیان براہ راست مذاکرات نہیں ہو رہے، مذاکرات دوسرے لوگوں کے درمیان ہو رہے ہیں، کامیابی تب حاصل ہوگی جب براہ راست جو لوگ ملوث ہیں، ان کی ہر طرح سے ان لوگوں کو تائید حاصل ہو، جو طالبان کی جانب سے کمیٹی تجویز کی گئی ہے، وہ طالبان نہیں ہے، انہوں نے تو سیاسی جماعتوں کے لوگوں کو تجویز کیا ہے، عملاً مسئلہ تب حل ہوگا جو اس جھگڑے کے فریق ہیں، ان کی براہ راست بات چیت ہو، اس تک پہنچنے کیلئے یہ دونوں کمیٹیاں بنائی گئی ہیں، ان کمیٹیوں کا رول یہ ہے کہ کسی طریقے سے اختلاف اس تک کم کردیں کہ براہ راست مذاکرات ہوسکیں۔

اسلام ٹائمز: کراچی میں پولیس پر حملے کے بعد کیا اس مذاکراتی عمل میں خلا بڑھا نہیں۔؟

آصف لقمان قاضی: جی بالکل خلا بڑھا ہے، یہ قابل قبول نہیں کہ ایک طرف سے مذاکرات ہوں تو دوسری جانب حملے جاری رہیں، اگر اس طرح سے حملے جاری رہے تو مذاکرات کا ماحول خراب ہو جائیگا اور یقینی طور پر اس سلسلہ کو ختم کرنا پڑ جائیگا۔

اسلام ٹائمز: سید منور حسن نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ اگر مذاکرات سو بار بھی ناکام ہوں تو بھی یہ فوجی آپریشن کا متبادل نہیں ہوسکتا، انہوں نے مذاکرات پر ہی ضرور دیا ہے تو اگر یہ حملے اسی طرح جاری رہتے ہیں تو کیسے ممکن ہے کہ مذاکراتی عمل کو جاری رکھا جاسکے۔ دوسرا خود جماعت اس حوالے سے کیا پالیسی رکھتی ہے۔؟

آصف لقمان قاضی: ہم یہ سمجھتے ہیں کہ بالآخر چاہے ہم ایک سوسال تک لڑتے رہیں، یہ مسئلہ طاقت سے حل نہیں ہوگا، یہ ہماری سوچی سمجھی رائے ہے، ہم نے مشاہدہ کی بنیاد پر دیکھا ہے کہ یہ مسئلہ طاقت کے ذریعہ حل نہیں ہوگا، ہم چاہے دس سال لڑیں یا بیس سال، اب یہ دونوں فریقوں کی مرضی ہے، اس سے قوم اور ملک کو کتنا نقصان ہوتا، اگر ہم بیس سال بعد بیٹھے تو مذاکرات کے ذریعے سے ہی حال ہوگا۔ یہ اسٹیج کسی صورت نظر نہیں آتی کہ آپ اس چیز کو طاقت کے ذریعے سے ختم کرسکیں، یہ چیز ختم نہیں ہوگی۔ وقتی طور پر یہ مسئلہ سال دو سال دب جائیگا، لیکن دوبارہ کسی اور شکل میں نکل آئیگا، لانگ ٹرم اس مسئلہ کا حل مذاکرات ہی ہوگا۔

اسلام ٹائمز: میاں صاحب کا پارلیمنٹ میں خطاب، امن مذاکرات اور امن کو آخری موقع دینے کیلئے کمیٹیوں کا قیام، پھر ان کمیٹیوں کے اجلاس ہونا، کیا کہیں آپ کو شک پڑتا ہے کہ کہیں کوئی مسئلہ درپیش ہے یا میاں صاحب اس معاملے میں سنجیدہ نہیں۔؟

آصف لقمان قاضی: نہیں، ہم فی الحال شکوک کا اظہار نہیں کرنا چاہتے، ہماری دعا ہے، ہم دل سے چاہتے ہیں کہ ملک میں امن قائم ہوسکے، معیشت بحال، لوگوں کی پریشانیاں ختم ہوں، ہماری دعا ہے کہ یہ مسئلہ کسی طریقے حل ہوجائے، اس لیے ہمارے پروفیسر ابراہیم صاحب اس کمیٹی کے رکن ہیں، ہمارے کسی صورت طالبان سے خیالات نہیں ملتے، ان کے خیالات اور نظریات جماعت اسلامی کے خیالات سے مختلف ہیں، ہم آئین کے دائرہ میں رہ کر جدوجہد کرنے پر یقین رکھتے ہیں، لیکن وہ اسلحہ کے زور پر جہدوجہد کررہے ہیں، اگر ہم نے یہ کوشش کی ہے تو فقط امن قائم کرنے کیلئے کی ہے۔

اسلام ٹائمز: حال ہی میں عالمی میڈیا میں کچھ خبریں چھپی ہیں، اس کی دفتر خارجہ نے بھی تردید کی ہے اور اس پر وضاحت دی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں امن و امان کا مسئلہ اتنا سنگین ہوگیا ہے کہ کسی بھی وقت غیر ریاستی عناصر پاکستان کے ایٹمی اثاثوں پر قابض ہوسکتے ہیں، کیا سمجھتے ہیں کہیں یہ ایک سوچی سمجھی سازش تو نہیں اور خود طالبان اس کا حصہ تو نہیں بن رہے۔؟

آصف لقمان قاضی: یہ درست ہے کہ اگر حالات خراب ہوئے تو دشمن ممالک کو موقع ملے گا کہ اور وہ بہانہ بنا کر اقوام متحدہ کے ذریعے سے دخل اندازی کی کوشش کریں۔ اسی لئے ہم طالبان اور حکومت دونوں سے گذارش کرتے ہیں کہ اپنے پاوں پر کیوں کلہاڑا مارتے ہیں، کیوں اپنے وطن کو تباہ کرتے ہیں، یہ وطن اسلام کے قلعے کیلئے بنایا گیا ہے، اگر آج ہم سمجھتے ہیں کہ اسلام نہیں ہے تو جہدوجہد کے ذریعے سے ہم دس بیس سال بعد یہاں اسلام کا نظام عدل قائم کرسکتے ہیں، اگر اہم ملک ہی تباہ کر دیں گے اور اس کا بیڑہ غرق کر دیں گے تو پھر قصہ ہی ختم ہوجائیگا۔

اسلام ٹائمز: نفاذ شریعت کی باتیں کی جا رہی ہیں اور کچھ شخصیات آئین پاکستان کو متنازعہ بنا رہی ہیں کہ یہ غیر شرعی آئین ہے۔ اس پر کیا کہیں گے۔؟

آصف لقمان قاضی: جی نہیں، پاکستان کے آئین میں گنجائش موجود ہے کہ قانون سازی ہو تو وہ قرآن و سنت کی روشنی میں ہو، اور اس میں بنیادی اصول یہ ہے کہ اگر کوئی قانون قرآن و سنت کے خلاف نہیں ہے تو وہ اسلامی قانون ہے، یہ فقہ کا بھی مسئلہ ہے کہ اگر کوئی چیز مباح ہے تو وہ اسلامی ہے۔ ضروری نہیں کہ کمپنی آرڈینیشن میں ہم آیات اور احادیث کا تذکرہ کریں، ظاہر ہے وہ قانون ہے، اگر اس میں کوئی چیز خلاف شریعت نہیں ہے تو ٹھیک اور اسلامی سمجھتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: یہ چیز مشاہدہ میں آئی ہے کہ جب عالمی طاقتیں اس خطے سے نکلی ہیں کوئی نہ کوئی مسئلہ چھوڑ کر گئی ہیں، جیسے برطانیہ اس خطے سے نکلا تو وہ کشمیر کا مسئلہ چھوڑ کر گیا، اس طرح روس کیخلاف جنگ کے بعد امریکہ یہاں سے گیا تو کلاشنکوف اور ہیروئن کلچر چھوڑ کر گیا، آج دوبارہ امریکہ اس خطے سے جا رہا ہے تو کہیں کوئی ایسا مسئلہ نہ چھوڑ دے کہ ہم صدیوں تک اس کو بھگتتے رہیں۔ حکومت کو کیا ایسا کرنا چاہیے کہ اس چیز سے بجا جاسکے۔

آصف لقمان قاضی: وہ لوگ تو جنگ کو جاری رکھنے کی پلاننگ کر رہے ہیں، نیٹو اور امریکہ کی جتنی بھی پلانگ ہے وہ افغانستان میں خانہ جنگی کرانا چاہتے ہیں، وہ خود تو نکل جائیں گے، لیکن افغانستان کو خانہ جنگی کی صورتحال میں چھوڑ دیں گے، افغانستان میں خانہ جنگی کے اثرات پاکستان پر بھی پڑیں گے۔ لیکن ان کو یہ سوچنا چاہیے کہ اگر وہ افغانستان اور پاکستان کو خانہ جنگی کی آگ میں جلانا چاہتے ہیں تو یہ آگ رکے گی نہیں، اس کے شعلے ان کے گھروں تک بھی منتقل ہونگے۔ لہٰذا ایسی پلاننگ کرکے نکلیں کہ ان چیزوں سے بجا جاسکے، وہ مفاہمت اور امن کی منصوبہ بندی کرکے نکلیں۔ دو ہزار چودہ میں ایسی پلاننگ کرکے نکلیں کہ تمام گروہوں اور فریقین کو بیٹھا کر ایسی عبوری حکومت بناکر جائیں جو سب کیلئے قابل قبول ہو۔

اسلام ٹائمز: ابھی حال ہی میں حامد کرزئی نے امریکہ کیساتھ معاہدہ پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا ہے، اس عمل کو کیسے دیکھتے ہیں۔؟
آصف لقمان قاضی: یہ ان کا قابل تحسین اقدام ہے، امریکہ کو یہاں رہنے کا کوئی حق نہیں، ہم کہتے ہیں کرزئی صاحب کا یہ اقدام افغان عوام کے دل کی آواز ہے۔ جو انہوں نے یہ اقدام اٹھایا ہے، امریکہ کو اس خطے سے نکلنا چاہیے، اور افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ خود افغان عوام کو کرنا چاہیے۔

اسلام ٹائمز: ایران گیس پائپ لائن دسمبر دو ہزار چودہ میں مکمل ہونی چاہیئے تھی، لیکن تاحال میاں صاحب کی طرف سے ایسے اقدامات نظر نہیں آ رہے کہ یہ منصوبہ اپنی مقررہ مدت کے اندر مکمل ہوسکے، ایسا لگتا ہے میاں صاحب اس پر کنفیوژ ہیں یا مبہم ہیں، کیا کہیں گے۔؟

آصف لقمان قاضی: میاں صاحب سے قوم کو جو قائدانہ توقع تھی کہ وہ قائدانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کریں گے اور عالمی دباؤ کو خاطر میں نہیں لائیں گے۔ پاکستان کے مفاد میں فیصلے کریں گے۔ اگر انہیں پائپ لائن کی تکمیل کیلئے کوئی فنانشنل مسئلہ ہے تو انہیں اپنے دوست ممالک کے پاس جانا چاہیے، کیونکہ ہماری اقتصادی صورتحال کا دار و مدار اس پائپ لائن سے جڑا ہوا ہے، اس منصوبے کی تکمیل کیلئے وسائل کا انتظام کرنا اس حکومت کا کام ہے۔ فی الحال جو حکومت کی کارکردگی ہے اس سے عوام کو مایوسی ہوئی ہے۔
خبر کا کوڈ : 352431
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش