0
Tuesday 25 Feb 2014 08:06

اسلام میں حکومت اور عدالت سے ماوراء قدم اٹھانیکی اجازت نہیں، علامہ عابد حسینی

اسلام میں حکومت اور عدالت سے ماوراء قدم اٹھانیکی اجازت نہیں، علامہ عابد حسینی
علامہ سید عابد حسین الحسینی کسی تعارف کے محتاج نہیں، سابق تحریک جعفریہ کے سینئر نائب صدر رہے ہیں۔ آئی ایس او کی مجلس نظارت میں بھی تھے۔ 1997ء میں سینیٹر منتخب ہوئے اور پاراچنار میں تین مدارس دینیہ کے مہتمم ہیں۔ تحریک حسینی کے نام سے فعال سیاسی تنظیم کے سرپرست اعلیٰ ہیں۔ جو علاقائی مسائل کے حل کی بروقت کوشش کرتی ہے۔

اسلام ٹائمز: علامہ صاحب! طالبان کے خلاف آپریشن اور مذاکرات کی باتیں زوروں پر ہیں۔ آپ کی کیا رائے ہے، مذاکرات یا آپریشن؟

علامہ سید عابد حسینی: دہشتگرد کوئی بھی ہوں، انکے ساتھ مذاکرات کرنا انکے موقف پر مہر تصدیق لگانا ہے۔ میرے خیال میں یہ آئین پاکستان کے خلاف ہے۔

اسلام ٹائمز: متعدد جماعتیں مذکرات کی حق میں ہیں۔ تو کیا وہ آئین پاکستان کے مخالف ہیں؟
علامہ عابد حسینی:
انہی میں سے ایک جماعت اسلامی بھی ہے وہ تو قیام پاکستان کے وقت قائداعظم کو کافر اعظم کہا کرتی تھی۔ باقی جو جماعتیں ہیں۔ ان کا طالبان سے ہمدردی پر مبنی یہ موقف پاکستان اور اسلام کے مخالف ہے۔ جو ڈرون کو بہانہ بنا کر امریکیوں کی بجائے بےگناہ عوام، بچوں اور خواتین کو بے دردی سے قتل کر رہے ہیں جبکہ دین اسلام باقاعدہ حکومت کی موجودگی میں کسی کو بھی حکومت و عدالت سے ماوراء قدم اٹھانے کی اجازت نہیں دیتا۔ افسوس ہے ان مولویوں پر، اگر خود انکے بچے قتل ہوتے تب انکے موقف کا صحیح اندازہ ہو جاتا۔ اسلام کی رو سے بغیر کسی نفس کے کسی مسلمان کے قتل کی سزا جھنم ہے، اور اسلامی حکومت کی موجودگی میں قاتل کی سزا قتل ہی ہے اور اسکی سزا معاف کرنے کا اختیار صرف مقتول کے ولی کو ہی حاصل ہے۔ اب ان مولویوں سے پوچھا جائے کہ کیا تمہارے بچے قتل ہوئے ہیں، اور تم مقتول کے وارث ہو یا تم طالبان  یا انکے سرپرست ہو جو ایسی جسارت کررہے ہو۔

اسلام ٹائمز: پاکستانی حکومت بھی تو امریکیوں کو ڈرون حملوں سے نہیں روکتی؟ کیا طالبان کا ڈرون رکوانے کا مطالبہ درست نہیں؟
علامہ عابد حسینی:
اگرچہ کسی کے خلاف پاکستان کی سرزمین استعمال کرنے کا امریکہ سمیت کسی کو بھی حق حاصل نہیں۔ تاہم اس کا یہ مطلب کہاں بنتا ہے کہ مارے ایک شخص آپ اس کی جگہ دوسرے کو مار ڈالیں۔ یہ تو ایسے ہے، ہمارے علاقے میں ایک معذور شخص تھا جو دماغی توازن کھو بیٹھا تھا، اسے کوئی بھی اذیت دیتا، یا پیچھے سے بچے مارتے تو وہ پیچھے مڑنے کی بجائے اپنے سامنے موجود شخص پر وار کرتا۔ اسکے علاوہ قبائل میں ایک روایت چلتی ہے کہ دشمنی کے دوران جب کسی کا کوئی قریبی رشتہ دار قتل ہوتا ہے تو قاتل نہ ملنے کی صورت میں اسکے بھائی، بیٹے یا کسی بھی قریبی رشتہ دار کو قتل کیا جاتا ہے۔ چنانچہ طالبان کی یہ کاروائیاں دیوانوں یا قبائلی روایات پر مبنی تو ہو سکتی ہیں مگر اس کا اسلام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ اسلام میں قاتل کے بھائی کو قتل کرنا بھی جھنم کا باعث ہے۔ کیا ان پر حملہ مہمند ایجنسی کے ان بےگناہ سرکاری اہلکاروں نے کیا تھا۔ اگر اس بات کو تسلیم بھی کیا جائے کہ امریکہ کے ساتھ ڈرون حملوں میں پاکستانی گورنمنٹ شریک ہے، تو شریک ہی کو مارنا چاہیئے، یعنی امریکہ کے ساتھ ہم راز تو ہمارے حکام بالا ہونگے۔ چیف آف آرمی سٹاف یا وزیراعظم ہوگا۔ اس میں ایک عام اہلکار کا کیا گناہ ہے۔

اسلام ٹائمز: پاکستانی حکومت نے مذاکرات کے دوران ہی طالبان کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا ہے۔ اس حوالے سے جناب عالی کا موقف کیا ہے؟
علامہ عابد حسینی:
اندرونی طور پر پاکستان کی پالیسی کچھ بھی ہو، پریس کانفرنس کے دوران چوہدری نثار کی بات معقول تھی۔ جس نے کہا کہ تم ایک بار بات کرو گے ہم دوبار بات کریں گے۔ تم ایک بار حملہ کرو گے ہم دو بار حملہ کریں گے جبکہ حملے میں پہل اس دفعہ حکومت نے نہیں بلکہ پہل طالبان نے کی اور وہ بھی اس انداز سے کہ میرے خیال میں حکومت نے اب بھی بڑے تحمل کا مظاہرہ کیا ہے۔

اسلام ٹائمز: مذاکرات کے دوران طالبان کی طرف سے حکومت پر حملہ اور اسکی ویڈیو جاری کرنے کا مقصد کیا ہو سکتا ہے؟
علامہ عابد حسینی
: سرکاری اہلکاروں کو بے دردی سے قتل کرکے اسکی ویڈیو مذاکرات کے دوران جاری کرنے کا انکا مقصد یہ ہو سکتا ہے کہ وہ حکومت پر اپنی بالادستی قائم رکھیں۔ تاکہ حکومت دفاعی حالت میں جاکر طالبان کے تمام مطالبات کے سامنے گھٹنے ٹیک دے۔ کیونکہ مذاکرات کے دوران اس فریق کو سبقت حاصل  ہوتی ہے، جو نسبتا طاقتور ہو۔ طالبان بھی یہی چاہتے تھے، تاہم انکی اپنی چال ہی الٹی ہوگئی۔
خبر کا کوڈ : 355205
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش