0
Wednesday 26 Nov 2014 18:30
آمریت کے غلط فیصلوں کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑا

غیر آئینی طریقوں سے حکومتوں کی برطرفی، بڑی سیاسی جماعتوں کی عوامی پذیرائی کا باعث بنی

فوجی آپریشنز میں ہونے والے فائدہ نقصان کا حتمی اندازہ آپریشنز کے بعد ہی ہوگا
غیر آئینی طریقوں سے حکومتوں کی برطرفی، بڑی سیاسی جماعتوں کی عوامی پذیرائی کا باعث بنی

اسلم اعوان ڈیرہ اسماعیل خان کی ایک جانی پہچانی صحافتی، ادبی شخصیت ہیں۔ ایک طویل عرصہ سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ روزنامہ مشرق اور دنیا نیوز کے ڈی آئی خان میں بیورو چیف ہونے کے ساتھ ساتھ متعدد سماجی اور فلاحی تنظیموں کے ساتھ وابستہ ہیں۔ ڈی آئی خان کے سیاسی، سماجی اور مذہبی حالات سے متعلق پرنٹ و الیکڑانک میڈیا میں ان کی آراء اور تجزیات کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ خطے میں رونما ہونیوالی عالمی تبدیلیوں، خیبر پختونخوا اور ڈی آئی خان کے حالات و واقعات سے متعلق ان کے آرٹیکل روزنامہ مشرق اور روزنامہ دنیا کی زینت بن رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے صوبے میں ممکنہ بلدیاتی انتخابات، سیاسی تبدیلیوں اور ڈی آئی خان کے حالات و واقعات سے متعلق ان سے گفتگو کی ہے، جو کہ قارئین کی دلچسپی کیلئے پیش خدمت ہے۔ 
  
اسلام ٹائمز: سب سے پہلے تو آپ یہ بتائیں کہ ڈی آئی خان میں زیادہ ووٹ مذہبی ہے یا سیاسی ہے، کیونکہ کبھی تو یہاں مذہبی پلیٹ فارم سے سامنے آنیوالا امیدوار کامیاب ہوا ہے اور کبھی سیاسی۔؟
اسلم اعوان:
ڈیرہ اسماعیل خان میں زیادہ تر ووٹ سیاسی ہے اور مذہبی ووٹ کی تعداد انتہائی کم ہے۔ جہاں تک آپ مذہبی پلیٹ فارم کا حوالہ دے رہے ہیں تو شائد آپ کا اشارہ مولانا فضل الرحمٰن کی جانب ہے۔ میرے خیال میں ان کی جماعت کا چہرہ جتنا مذہبی ہے اتنا ہی سیاسی ہے۔ ڈی آئی خان میں ان کو ملنے والے ووٹ میں مذہبی فیکٹر کی جگہ سیاسی فیکٹر کار فرما ہے۔

اسلام ٹائمز: مجلس وحدت مسلمین، سنی اتحاد کونسل اور پاکستان عوامی تحریک کا ایک مشترکہ پلیٹ فارم وجود میں آ رہا ہے، آپ کے خیال میں آئندہ انتخابات میں کیا اثرات مرتب کرے گا۔؟
اسلم اعوان:
جن جماعتوں کے مشترکہ پلیٹ فارم کا آپ نے ذکر ہے، میرا نہیں خیال کہ یہ اتحاد کوئی بڑا اپ سیٹ کرے گا، البتہ نواز لیگ کے ووٹ بینک کو صرف ٹھیس پہنچے گی۔ جس طرح ماضی میں علماء کا اتحاد پیپلز پارٹی کی جیت کا سبب بنتا رہا۔ پاکستان میں جمہوری عمل کا تسلسل قائم رہنا ضروری ہے۔ میرے ذاتی خیال میں اگر ہر مرتبہ جیتنے والی بڑی جماعتوں کو حکومت کرنے کے لیے وقت مکمل کرنے دیا جاتا تو برسوں پہلے تبدیلی واقع ہو چکی ہوتی۔ نواز لیگ، یا پیپلز پارٹی جیسی جماعتیں اپنی سیاسی موت مر چکیں ہوتیں۔ ہر مرتبہ غیر آئینی طریقے سے ان کی حکومتوں کے خاتمے نے ان جماعتوں کی عوامی پذیرائی میں اضافہ کیا ہے۔ سابق دور حکومت میں پیپلز پارٹی نے پانچ سال مکمل کئے ہیں، آپ مستقبل میں دیکھ لیں گے، پیپلز پارٹی پاکستان کے سیاسی افق پر پہلے کی طرح دوبارہ نمودار نہیں ہو پائے گی۔

اسلام ٹائمز: خیبرپختونخوا میں تبدیلی کا نعرہ لگانے والی پی ٹی آئی کی حکومت ہے، عوام کو کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی، آپ کیا کہتے ہیں۔؟
اسلم اعوان:
صوبے میں سابق حکومتوں اور موجودہ حکومت کا آپس میں موازنہ کیا جائے تو یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں کہ پہلے کی حکومتوں کی نسبت پی ٹی آئی حکومت بہت زیادہ بہتر ہے۔ جو اقدامات کئے جارہے ہیں اور جو پالیسیاں بنائی جارہی ہیں۔ یقینی طور پر اس کے مثبت اثرات مرتب ہونگے بھی سہی اور ہو بھی رہے ہیں۔ اس کے باوجود کہ میں تحریک انصاف کے احتجاجی جلسوں، دھرنوں کا سب سے بڑا ناقد ہوں، مگر یہ حقیقت ہے کہ پچھلی حکومتوں کی نسبت پی ٹی آئی حکومت موثر پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ دوسری جانب کرپشن ایسی چیز نہیں جو کسی ایک حکومتی بیان یا عمل سے مکمل طور پر ختم ہو جائے۔ تعلیم، صحت اور دیگر شعبوں میں مثبت پیشرفت جاری ہے۔ اس کے علاوہ عمران خان کو چاہیئے تھا کہ صوبائی وزراء اور عہدیدران کو احتجاج، دھرنوں میں شامل کرنے کے بجائے انہیں صوبے میں کام کرنے کا مکمل طور پر موقع دیتے اور پنجاب یا دوسرے صوبے میں جلسے، مظاہروں کیلئے وہاں کے افراد کو متحرک کرتے۔ اس کے علاوہ اگر اے این پی کا دور حکومت دیکھیں تو واضح طور پر آپ کو تعصب پر مبنی رویہ نظر آئے گا۔ اگر ڈی آئی خان میں خرچ ہونیوالے فنڈز اور مردان کے ترقیاتی فنڈز کا جائزہ لیں تو دونوں میں اربوں روپے کا فرق نظر آئے گا۔

اسلام ٹائمز: تو آپ کیا سمجھتے ہیں کہ آئندہ انتخابات میں پی ٹی آئی زیادہ بڑی قوت کے ساتھ ابھرے گی۔؟
اسلم اعوان:
بالکل، میرے خیال میں صوبے میں جو اقدامات پی ٹی آئی حکومت کررہی ہے، اس کے اثرات آئندہ انتخابات میں ضرور سامنے آئیں گے اور پہلے کی نسبت زیادہ ووٹ پی ٹی آئی کو مل سکتے ہیں۔ لیکن یہ بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ کامیاب جلسے جلوس اور دھرنے دینا الگ عمل ہے اور انتخابات میں عوام سے ووٹ حاصل کرنا ایک الگ عمل ہے۔ سید عطاء اللہ شاہ بخاری کو ہی دیکھ لیں، عوام کے دلوں میں ان کا بے پناہ احترام تھا، انہوں نے تمام انتخابات میں حصہ لیا مگر جیت نہیں پائے۔ اب یہ عمران خان کی بصیرت پر درومدار ہے کہ وہ عوامی وابستگی کو ووٹ حاصل کرنے میں کیسے بدلتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: ایک طویل دہشت گردی اور بدامنی دیکھنے کے بعد ڈی آئی خان میں حالات کچھ بہتر ہوئے ہیں، کریڈٹ کس کو دیں گے۔؟
اسلم اعوان:
ایک مرتبہ پھر اپنی بات دوہراؤں گا کہ اگر ملک میں جمہوری عمل مسلسل رہے تو بدامنی، دہشتگردی جیسے مسائل خود بخود ختم ہوجائیں گے۔ ڈر یا خوف کی فضا میں عوام کو قانون کا پاسدار نہیں بنایا جاسکتا۔ ویسے بھی اگر دہشتگردی یا بدامنی کی جڑیں تلاش کریں تو بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر آمرانہ فیصلے، اقدامات نظر آئیں گے۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں افغانستان جنگ لڑنے کا فیصلہ ہوا۔ جنگوں کے فیصلے کوئی آسان نہیں ہوتے۔ ہر شہری اس سے متاثر ہوتا ہے۔ اتنا وقت گزر جانے کے باوجود بھی اس جنگ کی مصیبت سے نہیں نکل پائے اور ابھی تک خراج ادا کر رہے ہیں۔ صرف ڈی آئی خان میں ہی نہیں پورے پاکستان میں پہلے کی نسبت حالات بہتر ہوئے ہیں۔ جہاں تک دہشتگردوں کے خلاف جاری فوجی آپریشن کا تعلق ہے تو اس بارے میں کوئی حتمی رپورٹس سامنے نہیں آئیں، جو قلیل معلومات دستیاب ہوتی ہیں تو عسکری ذرائع سے ہی ہوتی ہیں۔ ان آپریشنز میں کیا کچھ حاصل ہوا، یہ فوجی آپریشنز کے خاتمے کے بعد معلوم ہو پائے گا۔

اسلام ٹائمز: پہلے طالبان کی دہشتگردی جاری تھی، ان کے خلاف آپریشن ہوا تو اب داعش کے چرچے ہیں۔؟
اسلم اعوان:
داعش کے حوالے سے خبریں ہم بھی سن رہے ہیں، اور پاکستان میں اس کے وجود کے بارے میں حتمی طور پر کچھ کہنا مشکل ہے۔ ڈی آئی خان میں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ پاکستان طالبان یا دیگر گروپوں کی دہشتگردی کا نشانہ کیونکر بنا، بات وہی ہے کہ آمریت کے غلط فیصلوں کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑا۔ میرے خیال میں جمہوری عمل جاری رہنا چاہیے اور منتخب حکومتوں کو مسلسل کام کرنے کا موقع دیا جائے، حالات جیسے بھی ہوں، سیاسی حل تلاش کرنا چاہیے، اس سے رفتہ رفتہ شدت پسندی، دہشتگردی، انتہاپسندی، بدامنی کی حوصلہ شکنی ہوگی، اور قیام امن کی راہ ہموار ہوگی۔ انشاءاللہ

صحافی : عمران خان خان
خبر کا کوڈ : 421492
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش