1
0
Thursday 4 Dec 2014 21:47
موجودہ سیٹ اپ مسلم لیگ قاف کا کارنامہ تھا

گلگت بلتستان کے آئندہ انتخابات میں پیپلز پارٹی بدترین شکست سے دوچار ہوگی، آمنہ انصاری

گلگت بلتستان کے آئندہ انتخابات میں پیپلز پارٹی بدترین شکست سے دوچار ہوگی، آمنہ انصاری
آمنہ انصاری کا تعلق بلتستان ڈویژن کے ضلع گنگچھے سے ہے۔ انہوں نے نوجوانی سے ہی عورتوں کے حقوق کے لیے جدوجہد کا آغاز کیا ہے۔ ان کا شمار گلگت بلتستان کی اہم سیاسی خواتین میں ہوتا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ قاف کی سئنیر نائب صدر کی حیثت سے پارٹی کی مسئول ہیں۔ اس وقت آپ گلگت بلتستان اسمبلی کی ممبر ہیں اور ٹیکنو کریٹ کی حیثیت سے اپنی خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔ اسلام ٹائمز نے ان سے گلگت بلتستان کے حالات کے حوالے سے انٹرویو کیا ہے جو اپنے محترم قارئیں کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: آپ گلگت بلتستان کے ایوان اقتدار میں پانچ سال کا عرصہ گزار چکی ہے آپ نے اس سیٹ اپ کو کیا عوامی امنگوں کے مطابق مسائل حل کرنے والا پایا یا وقت گزاری ہی تھا۔؟
آمنہ انصاری: میں آپ کا بھی تہہ دل سے شکریہ ادا کرتی ہوں کہ آپ اہم قومی ایشوز پر انٹرویو کرنے تشریف لائے۔ آپ جانتے ہیں کہ حالیہ سیٹ اپ کے حوالے سے یہاں کی عوام کنفیوژن کا شکار ہے کہ یہ سیٹ اپ درست تھا یا غلط۔ ایسا ہے کہ مسلم لیگ قاف کے دور میں جب جنرل پرویز مشرف صدر پاکستان تھے تو انہوں نے اس دور میں صوبائی حکومت کے حوالے سے ایک پروپوزل فارورڈ کیا اور اس پر عمل درآمد کا آغاز ہوا ہی تھا کہ اس دوران حکومت ختم ہوئی اور پیپلز پارٹی کی حکومت آئی۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے دور میں اس پروپوزل پر عمل ہوا اور صوبائی سیٹ اپ ملا تو ظاہر ہے کہ کریڈٹ پی پی پی کو ہی جائے گا لیکن اصل کارنامہ قاف لیگ کا ہے۔ جہاں تک آپکے سوال کا تعلق ہے تو میں سمجھتی ہوں کہ سیٹ اپ تو ہمیں بہت اچھا ملا ہے۔ اس پیکج میں بہت ساری خوبیاں ہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس سیٹ اپ سے ہم کوئی فائدہ حاصل نہیں کر سکے۔ دوسری طرف جب میں بین الاقوامی اور قومی سطح پر وزیراعلٰی اور گورنر کے متعلق بات کرتی ہیں تو لوگ ہمارا مذاق اڑاتے ہیں اسے تسلیم نہیں کرتے۔ سارا بجٹ کا معاملہ اور فنانس وفاق کے پاس موجود رہا اور ہم ڈمی رہے۔ اسمبلی میں ہم زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے کوئی قانون سازی کر سکے ہیں اور نہ انسانوں کے لیے کوئی قانون پاس کر سکے ہیں البتہ ایسا ہوا ہے کہ ہم حیوانوں کے لیے ہی قانون پاس کرنے کے لیے تھے۔ مختصر یہ ہے کرپٹ مافیا نے سیٹ اپ کو یرغمال بنا کے رکھا اور عوام کو اس ثمرات نہیں مل سکے۔

اسلام ٹائمز: اگر سیٹ اپ یرغمال رہا تو ذمہ دار آپ سمیت اراکین اسمبلی تو ہیں کیوں اس کے ثمرات کے فوائد حاصل نہیں کر سکے۔؟
جی ہاں! اس میں کوئی شک نہیں کہ اس سلسلے میں اس سسٹم کا حصہ رہی ہوں اور میں خود بھی قصوروار ہوں۔ اگرچہ میں نے اپنے تئیں پوری کوشش کی، اسمبلی میں جب گلگت بلتستان میں مختلف سرکاری محکموں میں وزراء کی سرپرستی میں کرپشن کا بازار گرم ہوا تو میں نے اسمبلی کے کوریڈور میں کھڑے ہو کر کرپشن کے خلاف آواز بلند کی تو کسی نے میرا ساتھ نہیں دیا بلکہ بہت سوں نے بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کی کوشش کی۔ آپ تو جانتے ہیں کہ اس نام نہاد حکومت نے عوام کو کیا دیا۔ جب میں نے عوامی مفاد کی بات کی، عوامی حقوق کی بات کی اور کرپشن کے خلاف آواز بلند کی اس حکومت نے مجھے یہ صلہ دیا کہ اس مدت میں کسی بھی کمیٹی کی ممبر نہ رہ سکی ہوں باوجودیکہ ہماری پارٹی حکومت کی کولیشن میں تھی۔ اس حکومت میں آمرانہ طرز حکمرانی تھی۔ ابھی حالات یہ ہیں کہ عوام کے سامنے حقائق پہنچ گئے ہیں اب انہیں ہشیاری کے ساتھ انتخابات میں صحیح نمائندوں کو سامنے لانے کی ضرورت ہے۔

اسلام ٹائمز: اگر میں کہوں کہ گلگت بلتستان اسمبلی، اسمبلی کم اور مچھلی منڈی کا منظر اکثر و بیشتر پیش کرتی رہی یہاں وہ اسمبلی والی سنجیدگی نظر نہیں آئی اس کی وجہ کیا تھی۔؟

آمنہ انصاری: بات یہ ہے اسمبلی فلور پر مفاد عامہ کی جب بھی بات کی گئی تو مہدی شاہ کی جانب سے ذاتی لیا گیا۔ تو ایسے میں مچھلی منڈی کہیں یا آپ کچھ اور البتہ اسمبلی میں سنجیدگی تھی ہی نہیں۔ ہر کوئی اپنے ذاتی مفاد کی خاطر بات کرتا رہا۔ آپ دیکھیں تو واضح ہو جائے گا کہ اس اسمبلی کے اندر کتنے وژنری لوگ تھے۔ یہ بتاتا چلوں کہ اسمبلی میں زیادہ پڑھے لکھے افراد کی ضرورت نہیں بلکہ وژنری لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ضروری نہیں کہ کہ وہاں ڈاکٹریٹ کئے ہوئے لوگ بیٹھے ہوں۔ آپ نے دیکھا کہ گلگت بلتستان میں جنگ آزادی کے موقع کتنے پڑھے لوگ تھے، کتنے جنرل تھے، بلکہ بابصیرت اور شجاع لوگ تھے جنہوں نے آزادی دلا دی۔ ابھی ہماری اسمبلی میں کتنے وژنری لوگ تھے سالانہ پاس ہونے والی قراردادوں سے آپ کو اندازہ ہو جائے گا۔

اسلام ٹائمز: سید مہدی شاہ کا کہنا ہے گلگت بلتستان میں معیار تعلیم کو بہتر بنانے کے لیے حالیہ حکومت نے بہت اہم کردار کیا ہے، اس میں کس حد تک صداقت ہے۔؟
آمنہ انصاری: دیکھیں! مہدی شاہ کہتے ہیں تو کونسا درست کہتے ہیں۔ گلگت بلتستان میں تو تعلیم کا جنازہ نکلا ہوا ہے۔ آپ بھی جانتے ہیں کہ مہدی شاہ حکومت کی جانب سے کتنے اچھے ٹیچرز تقرر ہوئے۔ گلگت بلتستان میں محکمہ تعلیم میں اس دور حکومت میں جتنی کرپشن ہوئی تاریخ میں کبھی نہیں ہوئی ہے۔
 
اسلام ٹائمز: مہدی شاہ سرکار کا نجی محفل میں کہنا ہے کہ ملٹری انٹیلی جنس نے انہیں کام کرنے نہیں دیا کیا یہ افسوسناک مرحلہ نہیں کہ عوامی مینڈیٹ کے تحت ایوان میں جائے اور ملٹری ایجنسیوں کے اشاروں پر چلے، اس سے بہتر یہ نہیں کہ یہاں مارشل لاء نافذ ہو۔؟
 آمنہ انصاری: ایسی کوئی بات نہیں کہ ہمیں ملٹری ایجنسیاں چلاتی ہوں بلکہ ہم تو عوامی نمائندے ہیں اور ملٹری اینٹیلیجنس کا ہم سے کوئی تعلق نہیں۔ اگر مہدی شاہ کیساتھ ایسا ہوتا ہے تو نہیں معلوم کہ وہ ایسا کیوں کہتے ہیں۔ میں حقیقت بتاوں کہ مہدی شاہ اپنی کمزوریاں چھپانے کے بہانے بنا رہے ہیں اور یہ ثابت کرنا چاہ رہے ہیں کہ آرمی ایجنسیوں نے انہیں کام کرنے نہیں دیا۔ وہ اپنی نااہلی چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: گلگت اسکردو روڈ کی تعمیر کا کام کیوں نہ ہو سکا اور حالیہ دنوں مہدی شاہ نے آرمی چیف سے اس کی تعمیر کے حوالے سے مطالبہ کیا ہے، اسے آپ کس نظر سے دیکھتی ہیں۔؟

آمنہ انصاری: گلگت بلتستان روڈ کی تعمیر کا کام شروع ہونے والا تھا، منظور شدہ منصوبہ ہے لیکن مہدی شاہ کی نااہلی کے سبب وہ کام معطل رہا۔ اس شہر کی اہمیت کے پیش نظر آرمی کے سامنے مطالبات رکھنا بین الاقوامی اہمیت کے پیش نظر کوئی قباحت نہیں۔

اسلام ٹائمز: بعض لوگ کہتے ہیں کہ مہدی شاہ اہل آدمی تھے تو پانچ سال کی مدت پوری کی ہے آپ انہیں نااہل کہہ رہی ہیں۔؟

آمنہ انصاری: مہدی شاہ کے نااہل اور نکما ہونے کے سبب ہمیں سیٹ اپ تو اچھا ملا لیکن ہم گین نہیں کر سکے۔ ان کے نااہل ہونے کیلئے یہی ثبوت کافی نہیں ہے کہ وہ بلاول سے ملاقات کرنے کے بعد ان سے تحفے میں ایک پین لے کر خوش و خرم واپس آ جاتے ہیں یہ انکی ذہنی سطح ہے لیکن اس کی بجائے اگر وہ ذرداری اور بلاول سے اہم منصوبے لے آتے تو کیا ہی بات تھی۔ ہمارے پانچ سال اسی طرح گزرے ہیں کوئی عوامی فلاحی کام ہم نہیں کر سکے ہیں کوئی میگا پروجیکٹ لانچ نہیں کر سکے ہیں، ابھی آخری وقت پہ آکے یہی نمائندے دوبارہ کہیں گے کہ آئندہ کریں گے۔ جب انکی حکومت تھی تو کیا دیا ہے قوم کو کرپشن کے سوا۔

اسلام ٹائمز: ان پانچ سالوں میں کونسا تجربہ آپکے لیے تلخ رہا ہے۔؟

آمنہ انصاری: اس پانچ سال میں جو واقعات پیش آئے میں زندگی بھر نہیں بھول سکتی لیکن میرے لیے سب سے اہم بات یہ تھی جسے میں انوکھا سمجھوں گی جو کہ میرے لیے تلخ بھی اور شیریں بھی تھی وہ یہ کہ میری پارٹی موجودہ حکومت کی اتحادی تھی اور میں مسلسل اپوزیشن کا کام کرنے پر مجبور تھی۔

اسلام ٹائمز: مہدی شاہ اگلے سال الیکشن میں فتح حاصل کر کے دوبارہ حکومت بنانے کا دعوی کر رہا ہے، کیا ایسا ممکن ہے۔؟

آمنہ انصاری: دعویٰ کرنے میں کیا ہے، میں بھی ایسا کہہ سکتی ہوں لیکن موجودہ حالت یہ ہے کہ گلگت بلتستان میں پاکستان پیپلز پارٹی ملک کے عام انتخابات کی طرح شکست فاش سے دوچار ہوگی۔ خپلو میں یہ حالت تھی کہ انکی حکومت میں ہی جب ضمنی انتخابات ہوئے تو پی پی پی حلقے میں پی پی امیدوار کھڑا نہیں کر سکی۔
خبر کا کوڈ : 422887
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
muhtarma ki baat drst he
ہماری پیشکش