0
Sunday 28 Dec 2014 14:52

طالبان کو کچلنے کیلئے پاک فوج کے ہر فیصلے کی حمایت کرتے ہیں، صاحبزادہ حامد رضا

طالبان کو کچلنے کیلئے پاک فوج کے ہر فیصلے کی حمایت کرتے ہیں، صاحبزادہ حامد رضا
صاحبزادہ حامد رضا سنی اتحاد کونسل پاکستان کے چیئرمین ہیں، آپ سنی اتحاد کونسل کے بانی چیئرمین صاحبزادہ فضل کریم کے فرزند ہیں، صاحبزادہ فضل کریم کی وفات کے بعد انہیں قائم مقام چیئرمین منتخب کیا گیا، تاہم بعد ازاں مجلس شوریٰ کے فیصلے کے بعد انہیں باقاعدہ چیئرمین سنی اتحاد کونسل بنا دیا گیا۔ تاحال سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین کے منصب پر فائز ہیں۔ اتحاد بین المسلمین کے داعی ہیں، امریکی سازشوں کے خلاف عوامی بیداری کے لئے آواز اٹھاتے رہتے ہیں۔ عالم اسلام کے مسائل پر ہمیشہ غم زدہ رہتے ہیں، پوری امت کو ایک لڑی میں دیکھنا چاہتے ہیں، شیعہ سنی کی تفریق سے ہٹ کر امت کو مسلمان بن کر رہنے کی تلقین کرتے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے ان سے حالیہ اے پی سی کے فیصلوں اور عمل داری کے حوالے سے ایک انٹرویو کیا ہے جو پیش خدمت ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: حالیہ پارلیمانی جماعتوں کے اجلاس میں ہونیوالے فیصلوں کو آپ کیسے دیکھ رہے ہیں، آیا یہ فیصلہ پاک فوج کا ہے یا سیاسی قیادت نے خود کیا ہے۔ دوسرا وہ مطالبات جو آپ اور آپکی اتحادی جماعتیں برسوں سے دہرا رہی تھیں اب وہ آہستہ آہستہ سب مکمل ہوتے دکھائی دے رہیں۔ کیا کہیں گے۔؟
صاحبزادہ حامد رضا: ہم سمجھتے ہیں کہ اس سارے معاملے پر پاکستان کی سیاسی جماعتوں کا کوئی کردار نہیں ہے، افواج پاکستان، ملٹری فورسز اور جنرل راحیل شریف نے ایک واضح اور بڑا مضبوط اسٹنڈ لیا ہے، جس کی وجہ سے یہ فیصلے ہوئے ہیں، ورنہ جس طرح پہلے سانحات ہوتے رہے اور نشست برائے نشستیں یعنی کل جماعتی کانفرنسز ہوتی رہیں، اسی طرح یہ اے پی سی بھی ہوجاتی، کوئی نتیجہ سامنے نہ آتا۔ لیکن کیونکہ اس بار افواج پاکستان نے عوام کی آواز کو سمجھا ہے تو ایک بڑا اسٹینڈ لیا گیا اور یہ فیصلے ہوئے ہیں۔ ہم اس اقدام کو خوش آئند سمجھتے ہیں، موجودہ حکومت کی فقط اس فیصلے کو تائید حاصل ہے۔

اسلام ٹائمز: آپ لوگوں نے پہلے طالبان کو خوارج قرار دیا اور آپریشن کا مطالبہ کیا، اسی طرح پورے ملک میں آپریشن ضرب عضب کی بات کی۔ آج وہ تمام چیزیں اسی طرف جا رہی ہیں، کیا آپ سمجھتے ہیں یہ سیاسی حکومت کی ناکامی ہے جو ملکی معاملات کے حوالے سے کوئی ویژن پیش نہ کرسکی۔؟
صاحبزادہ حامد رضا: جی بالکل یہ مکمل طور پر سیاسی ناکامی ہے، اس میں کوئی اشتباہ نہیں ہے۔ یہ وہی سیاسی جماعت ہے کہ جو چند ماہ قبل طالبان سے مذاکرات کی بات کیا کرتی تھی اور کہتی تھی کہ اچھے اور برے طالبان ہیں، آپ کو چوہدری نثار کی حکیم اللہ محسود کی ہلاکت پر پارلیمنٹ کی اندر کی جانے والی تقریر بھی یاد ہوگی۔ میں اب بھی یہی کہوں گا کہ اس سیاسی جماعت کے اندر دو عوامل موجود ہیں، جس طرح لال مسجد کے خطیب مولانا عبدالعزیز صاحب جس طرح کی حرکات کر رہے ہیں اور حکومت خاموش ہے تو سمجھ جائیں کہ حکومت کے اندر ان کے ہمدرد موجود ہیں۔ ورنہ ابتک کارروائی ہوجاتی اور گرفتاری بھی عمل میں آچکی ہوتی۔ اس سارے معاملے پر وزارت داخلہ اور وزارت دفاع مکمل طور پر خاموش ہے اور لوکل انتظامیہ نے کوئی کارروائی نہیں کی۔ میں دوبارہ یہی کہوں گا کہ طالبان کے خلاف یہ ساری فضاء بنانے میں حکومت پاکستان کا کوئی کردار نہیں ہے۔ عوام پاکستان نے سانحہ پشاور کے بعد آواز بلند کی اور انہیں مجبور کیا کہ وہ ان دہشتگردوں کے خلاف فیصلے کریں اور اب آپریشن ہو رہا ہے، ورنہ اس سیاسی جماعت میں ایسی کوئی ول نہ تھی اور نہ ہے۔

اسلام ٹائمز: پہلے بھی کئی کل جماعتی کانفرنسز ہوچکی ہیں اور اب یہ اے پی سی ہوئی ہے، فرق کیا ہے۔؟ خاص طور پر عمل داری کے حوالے سے کیا فرق دیکھتے ہیں۔؟
صاحبزادہ حامد رضا: جی سابقہ اے پی سی کی عملداری حکومت نے کرنا تھی اور اب کی اے پی سی کے فیصلوں پر عمل درآمد فوج نے کرانا ہے، دونوں میں فرق یہی ہے، پہلے فیصلے ہوتے رہے لیکن حکومت نے عملدرآمد کے حوالے سے کوئی اقدام نہیں کیا، لیکن اب کیونکہ افواج پاکستان نے یہ ذمہ داری لی ہے تو آپ کو عملدراری نظر آئیگی۔ جہاں تک سزاوں کا تعلق ہے اور ملٹری کورٹس کا قیام اور فیصلے ہیں، وہ آپ کو نظر آئیں گے، جہاں تک سول سیٹ اپ بنانا ہے تو ہم ابھی بھی خدشات کا شکار ہیں۔

اسلام ٹائمز: کیا وجہ ہے کہ اس اے پی سی میں اہل سنت اور اہل تشیع کا کوئی بھی نمائندہ موجود نہیں تھا۔ ایسا کیوں کیا گیا ہے۔؟
صاحبزادہ حامد رضا: جی آپ صحیح فرما رہے ہیں کہ دہشتگردی کے اصل شکار ملت تشیع اور اہل سنت ہیں، جن کے نمائندے اس کل جماعتی کانفرنس میں شریک نہیں تھے، انہیں مدعو نہیں کیا گیا، حالانکہ یہ وہ دو طبقات ہیں جو دہشتگردی کا شکار بھی رہے اور اس کی مذمت اور اس کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرتے رہے ہیں، جبکہ دوسری طرف وہ تمام مذہبی جماعتیں اور شخصیات شریک تھیں جو دہشتگردی کو سپورٹ بھی کرتی رہیں اور ان کیساتھ ہر لحاظ سے تعاون بھی کرتی رہیں۔ انہی جماعتوں کو وزیراعظم نے اپنے دائیں بائیں بٹھا کر دہشگردی کے خلاف کل جماعتی کانفرنس کرائی اور ایک فارمولا دیا ہے، اللہ کرے کہ یہ کام ہوجائے، ویسے امکان نظر نہیں آتا۔

اسلام ٹائمز: 12 ربیع الاول کے حوالے سے اسلام ٹائمز کے ذریعے کیا پیغام دینا چاہیں گے۔؟
صاحبزادہ حامد رضا: بارہ ربیع الاول کے حوالے سے اتنا کہوں گا کہ تمام جہان اسلام کو نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہِ وسلم کی ولادت کی مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ پاکستان میں سب سے کہوں گا کہ جشن ولادت سرکار ﷺ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اور امن، رواداری، محبت اور اخلاص کا پیغام دیں۔ حقیقی اسلامی پیغام کو اجاگر کریں۔ اس طرح قوم کو دہشتگردی کے خلاف ملکر کھڑے ہونے کی کوئی جہت مل جائے گی اور دہشتگردوں کو بھی پیغام جائیگا کہ یہ قوم ڈری نہیں ہے، باوجود دہشتگردی خدشات کہ ہم بھرپور انداز میں عید میلاد النبی منائیں گے۔
خبر کا کوڈ : 428702
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش