0
Saturday 17 Jan 2015 01:48
نگران وزیراعلٰی کالعدم جماعتوں کی معاونت کرتا رہا ہے

مسلم لیگ (ن) کے رہنماء کی چیف الیکشن کمشنر تعیناتی انتخابات میں دھاندلی کی کوشش ہے، غلام شہزاد آغا

گلگت بلتستان میں نگران حکومت سے شفاف الیکشن کی توقع رکھنا عبث ہے
مسلم لیگ (ن) کے رہنماء کی چیف الیکشن کمشنر تعیناتی انتخابات میں دھاندلی کی کوشش ہے، غلام شہزاد آغا
غلام شہزاد آغا کا تعلق اسکردو خاص الڈینگ سے ہے۔ آپ کا شمار گلگت بلتستان کے نوجوان اور متحرک قوم پرست رہنماوں میں ہوتا ہے۔ آپ بلتستان کی قوم پرست طلباء تنظیم بلتستان اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے مرکزی صدر بھی رہ چکے ہیں۔ دور طالب علمی سے گلگت بلتستان کے حقوق کی جنگ لڑنے میں مصروف ہیں۔ آپ پر عوامی حقوق اور آئینی حقوق کے حوالے سے آواز بلند کرنے کی پاداش میں مختلف پرچے کئے گئے ہیں۔ ان دنوں گلگت بلتستان کے عوام میں شعور بیدار کرنے اور آئینی حقوق کے حصول کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ آپ اسکردو حلقہ نمبر ایک یعنی سید مہدی شاہ سابق وزیراعلٰی گلگت بلتستان کے حلقے سے گلگت بلتستان صوبائی اسمبلی کے امیدوار بھی ہیں۔ اسلام ٹائمز نے ان سے قومی اور علاقائی مسائل کے حوالے سے ایک اہم انٹرویو کیا ہے جو اپنے محترم قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: گلگت بلتستان میں پیپلز پارٹی پانچ سال حکومت کرچکی ہے اور سید مہدی شاہ اپنی وزارت سے الگ ہوتے وقت کہہ رہے تھے کہ انہوں نے پانچ سالہ جمہوری دور مستحسن طریقے سے گزارا، علاقہ کی خدمت کی اور وہ مطمئن جا رہے ہیں آپکی اس بارے میں کیا رائے ہے۔؟

غلام شہزاد آغا: پاکستان پیپلزپارٹی نے گلگت بلتستان میں جو پانچ سال حکومت کا وہ بدترین دور تھا امن و امان کا جنازہ نکلا ہوا تھا، تعلیم کا بیڑا غرق ہوگیا، انفراسٹرکچر اور ترقیاتی کام بالکل نہیں ہوئے۔ اقربا پروری، رشوت ستانی اور چور بازاری کا بازار گرم تھا۔ شاید مہدی شاہ کی ڈکشنری میں یہی مستحسن طریقہ ہوگا۔ ان ادوار میں ایسے افسوسناک دہشتگردی کے واقعات پیش آئے جو کہ گلگت بلتستان کی تاریخ میں پیش نہیں آئے۔ جہاں تک مطمئن کا تعلق ہے ظاہر ہے مہدی شاہ نے ان پانچ سالوں کو علاقے کی بہتری کے لیے صرف نہیں کیا بلکہ پیسے کمانے اور اپنے جیالوں میں قوم کی دولت بانٹنے کے لیے صرف کیا ہے، یقیناً اس میں وہ کامیاب رہا ہے اور شاید مطمئن بھی۔ وہ خود مطمئن ہونگے لیکن گلگت بلتستان کے عوام ہرگز ان سے مطمئن نہیں۔ ان پانچ سالوں میں اہم مسائل جنکی کی طرف عوام نے انکو متوجہ کی لیکن انہوں نے کوئی کام نہیں کیا۔ گلگت اسکردو روڈ کی تعمیر، کرگل لداخ روڈ کی واگزاری، اسکردو ائیرپورٹ کو آل ویدر بنانا، شاتونگ نالے کی ڈائیورژن وغیرہ شامل تھا لیکن کسی ایک مسئلہ پر عملی اقدام نہیں اٹھایا گیا۔ آپ مجھے دکھا دیں کہ ان پانچ سالوں میں اگر پچاس فٹ سڑک کی تعمیر بھی کہیں ہوئی ہو۔ انہوں نے محکمہ تعلیم اور محکمہ تعمیرات سمیت تمام اداروں کو پانچ سالوں میں مل بانٹ کے کھا گیا ہے۔ ادارے کھوکھلے ہو چکے ہیں۔ پورا نظام مفلوج کر کے چلا گیا ہے۔ نہیں معلوم کس منہ سے وہ کہہ رہے کہ مطمئن ہو کر جا رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: نگران وزیراعلٰی شیر جہاں میر کی تعیناتی سے کیا آپ مطمئن ہیں کہ وہ شفاف الیکشن کرا سکے گا۔؟
غلام شہزاد آغا: دیکھیں! شیر جہاں میر نہ کوئی سیاسی شخصیت تھی اور نہ انکی گلگت بلتستان میں کوئی سیاسی اور سماجی خدمات ہیں البتہ یہ اچھا بنکار ضرور ہے بنک اچھے طریقے سے چلا سکتا ہے کوئی انتظامی تجربہ اور صلاحیت ان میں نہیں۔ انتظامی طور پر نابلد شخصیت کو سامنے لانے کا مطلب واضح ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ انکو سامنے لانے کی سمجھ نہیں آئی۔ انکا نگران وزیراعلٰی کے طور پر انتخاب واضح ہے۔ سیاسی عاقبت نااندیش لوگوں نے سودا بازی کے ذریعے ان کو لایا ہے۔ نگران حکومت کے لیے باقاعدہ بولی لگی ہے اور اس کی بولی سب سے بڑھ گئی تھی لہٰذا شیر جہاں میر کو وزیراعلٰی بنایا گیا۔ ہمیں توقع بھی نہیں کہ یہ کوئی اچھا کام کرے گا۔ جن مقاصد کے لیے باقاعدہ سازش کے تحت آگے لایا گیا ہے وہ مقاصد یہ کسی صورت حاصل کر لے گا اور غائب ہو جائے گا۔ جہاں تک انکے سربراہ ہونے کے حوالے سے تحفظات ہیں وہ شدید قسم کے تحفظات ہیں بلکہ یوں کہوں کہ شدید خدشات ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ دوبارہ لسانی، مسلکی اور علاقائی اختلافات کو ہوا دے کر علاقہ کا امن و امان برباد کر دے۔ یہ کام ان سے بعید بھی نہیں ہے، کیونکہ گلگت بلتستان میں کام کرنے والی کالعدم تنظیموں سے انکے ٹھوس روابط ہیں۔ یہ اپنی طرح کی سوچ رکھنے والے افراد کو کابینہ میں شامل کرے گا اور خطہ میں فساد برپا ہوگا۔ ماضی میں بھی انہوں نے کالعدم تنظیموں کی بڑھ چڑھ کے معاونت کی ہے اور اب بھی کر رہا ہے۔ فرقہ وارنہ تنظمیوں کی پشت پناہی ایسے افراد فراہم کر رہے ہیں۔ آپ نے دیکھا کہ دہشتگردوں کے ٹھکانوں سے انکے بنک کا چیک بک ملنا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ معاون ہے۔ پہلے بھی میری معلومات میں یہ چیزیں پہلے سے تھی کہ شیر جہاں کی پشت پر کس نظریئے کے حامل لوگ ہیں۔ جہاں تک شفاف الیکشن کا تعلق ہے تو ان سے خیر کی توقع رکھنا عبث ہے ان کی موجودگی میں کسی قسم کے شفاف الیکشن کا انعقاد ممکن نہیں۔

اسلام ٹائمز: گلگت بلتستان کے آئندہ انتخابات کے حوالے کیا چیف الیکشن کمشنر کا چناو قانونی طریقے سے ہوا اور ان سے آپ کیا توقعات رکھتے۔؟
غلام شہزاد آغا: آپ کس اصول اور قانون کی بات کرتے ہیں۔ یہاں کونسا اصول اور قانون ہے۔ اگر کوئی قانون ہوتا تو حکومتوں میں موجود لوگ زندانوں میں نہیں ہوتے؟ چیف الیکشن کمشنر سید طاہر علی شاہ کا انتخاب پاکستان مسلم لیگ نون کی گلگت بلتستان میں آئندہ حکومت کی تیاری کی راہ میں اہم قدم ہے۔ آپ خود بتائیں کیا طاہر علی شاہ پاکستان مسلم لیگ نون کے رہنما نہیں ہیں؟ اگر ہیں تو کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ وہ غیرجانبدار اور اہلیت پر پورا اترنے والی شخصیت ہیں۔ انکو بحیثیت چیف الیکشن کمشنر گلگت بلتستان تقرر کرتے وقت کسی بھی سیاسی و مذہبی پارٹی کو اعتماد نہیں لیا گیا کیونکہ وفاقی حکومت کی بادشاہت ہے گلگت بلتستان میں۔ انہوں نے اپنی آمرانہ سوچ کے تحت اپنے کسی رہنما کو چیف الیکشن کمشنر بنایا اور کابینہ میں انکے ہم نظر افراد کو شامل کیا جائے گا اور ملک کے عام انتخابات کی مانند یہاں بھی بھرپور دھاندلی ہوگی۔

اسلام ٹائمز: آپ سمیت دیگر سیاسی پارٹیاں جو الیکشن کمشنر اور نگران حکومت کے مخالف ہیں ابھی خاموش ہیں کیا انکی حکومت بننے کا انتظار کر رہے ہیں کہ حکومت بننے کے بعد دھاندلی کا رونا روتے رہیں۔؟
غلام شہزاد آغا: اس وقت نہ ہمارے پاس طاقت ہے اور نہ اختیار اور نہ بادشاہت۔ ہمارے پاس جمہوری جدوجہد اور عوامی طاقت کے جس کے ذریعے مسلم لیگ نون کے عزائم کو خاک میں ملا سکتے ہیں۔ ہم پہلے تو عوام میں شعور بلند کر رہے ہیں اس کے بعد عوام کو بیدار کر کے انکو سڑکوں پر لے آئیں گے احتجاج کریں گے اور عوامی طاقت کے ذریعے تمام اوچھے ہتھکنڈوں کا مقابلہ کریں گے۔

اسلام ٹائمز: نگران وزیراعلٰی اور چیف الیکشن کمشنر کے حوالے سے آپ نے عوامی طاقت کا ذکر کیا لیکن آپ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا سکتے ہیں اس کا ذکر نہیں کیا۔؟
غلام شہزاد آغا: مجھے آپ یہ بتائیں کہ اس حکومت میں کیا عدالتیں آزاد ہیں۔ کیا گلگت بلتستان میں اب تک کسی قاتل اور دہشتگرد کو پھانسی پہ لٹکایا گیا۔ سابقہ ادروار میں کتنے خونیں واقعات ہوئے کتنی دہشتگردوں کی کاروائیاں ہوئیں کسی ایک دہشتگرد کو عدالت نے سزا دی نہیں نا؟ اس سے واضح نہیں ہو رہا ہے کہ عدالتیں انصاف فراہم کرنے میں ناکام ہیں؟ ہماری خواہش ہے کہ عدلیہ آزاد ہو لیکن نواز شریف کی حکومت میں کہاں کی آزادی۔ لہذٰا اس وجہ سے ہم نے عدالت جانے کا نہیں سوچا۔ اگر عدالتوں سے فوری اور سستا انصاف مہیا ہوتا تو کبھی دیر نہیں کرتا۔

اسلام ٹائمز: آئندہ انتخابات میں کیا عوامی الیکشن کمیٹی کا اتحاد برقرار رہ سکے گا اور روایتی حریفوں کو شکست دینے میں کامیابی ملے گی۔؟

غلام شہزاد آغا: جہاں تک عوامی ایکشن کمیٹی گلگت کا تعلق ہے وہاں کے زمینی حقائق کے مطابق کوئی امکان نظر نہیں آ رہا اور ہر سیاسی پارٹی اپنی ترجیحات کے مطابق آگے بڑھے گی لیکن اس کے برعکس بلتستان میں عوامی ایکشن کمیٹی کی چھتری تلے تمام سیاسی تنظیمیں جمع ہو سکتی ہیں اور امکانات بھی موجود ہے۔ عوامی ایکشن کمیٹی اپنے روایتی حریف کو بلتستان کے تمام حلقوں میں شکست میں دینے کی پوزیشن میں ہے اور آپ دیکھیں گے کہ آئندہ انتخابات میں ان تمام نمائندوں کا دورازہ بند ہے جنہوں نے قوم کے ساتھ غداری کی بالخصوص پیپلز پارٹی بدترین شکست سے دوچار ہوگی۔
خبر کا کوڈ : 433032
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش