0
Saturday 30 May 2015 00:45
میرے لئے پیپلز پارٹی میں رہتے ہوئے ہارنا ایم ڈبلیو ایم میں جاکر جیتنے سے اچھا ہے

تحریک جعفریہ نے حکومت میں رہتے ہوئے بھی گلگت بلتستان کے آئینی حقوق کی کبھی بات نہیں کی، مہدی شاہ

تحریک جعفریہ نے حکومت میں رہتے ہوئے بھی گلگت بلتستان کے آئینی حقوق کی کبھی بات نہیں کی، مہدی شاہ
سید مہدی شاہ کا نام گلگت بلتستان کی سیاست میں کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے، وہ پیپلز پارٹی جی بی کے صدر ہونے کے ساتھ ساتھ وزیراعلٰی گلگت بلتستان کے عہدے پر بھی فائز رہ چکے ہیں، وہ زمانہ طالب علمی میں امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان بلتستان ڈویژن کے صدر بھی رہے، پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے حالیہ انتخابات میں اسکردو حلقہ1 سے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ ”اسلام ٹائمز“ نے گلگت بلتستان الیکشن سمیت مختلف موضوعات کے حوالے سے سید مہدی شاہ کے ساتھ ان کے گھر میں ایک مختصر نشست کی، اس حوالے سے ان سے سے کیا گیا خصوصی انٹرویو قارئین کیلئے پیش ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے انتخابات میں پیپلزپارٹی کی کامیابی کے حوالے سے آپکی کیا توقعات ہیں؟
مہدی شاہ:
پیپلز پارٹی کی بنیاد شہید ذوالفقار علی بھٹو نے رکھی ہے، بھٹو کی اصلاحات کی وجہ سے آج بھی عوام نے بھٹو کو یاد رکھا ہوا ہے، گلگت بلتستان نے خود آزادی حاصل کی ہے، اس میں پاکستان نے کوئی مدد نہیں کی تھی، ہم نے خود آزادی حاصل کی اور پاکستان میں شامل ہوئے اور اس کی سزا ہمیں یہ ملی کہ جب ہم پاکستان میں شامل ہوئے تو ہمارے یہاں انہوں نے پولیٹیکل ایجنٹ کو بھیجا، فرنٹیئر کرائمز ریگولیشنز (F.C.R) کا نظام چلایا، آپ خود بھی بہتر سمجھتے ہونگے کہ پولیٹیکل ایجنٹ کیا ہوتا ہے، شہید ذوالفقار علی بھٹو نے آتے ہی ایف سی آر کا خاتمہ کیا، جاگیردارانہ نظام کو ختم کیا، بیگار سسٹم ختم کیا، پہلے دو اضلاع تھے، انہوں نے پانچ اضلاع بنائے، لوگوں کو بے انتہا ملازمتیں فراہم کیں، میٹرک پاس کرکے بھرتی ہونے والے ڈی آئی جی سطح پر جاکر ریٹائرڈ ہوئے، پیٹرول کی فراہمی ملک کے دیگر علاقوں کی قیمت میں یقینی بنائی، یہ بھی بھٹو صاحب کا کارنامہ ہے، گندم آپ حیران ہونگے کہ یہاں گیارہ روپے کلو ہے، یہ بھٹو صاحب کا کارنامہ ہے، لیکن بدقسمتی ہے کہ یہاں ضیاءالحق کا مارشل لاء لگا، پھر یہاں لوگوں کو کوڑے مارے گئے، میں خود گرفتار ہوا، یہ سب صرف اور صرف لوگوں کی پیپلز پارٹی سے محبت کی وجہ سے ہوا، لیکن گلگت بلتستان کو صوبہ نہیں بنایا گیا، یہ سب میں اس لئے بتا رہا ہوں کہ آج تمام جماعتیں دعوے کر رہی ہیں کہ وہ کرینگی، لیکن ہم نے یہ سب پہلے سے کیا ہوا ہے، یہی فرق ہے ہم میں اور باقی جماعتوں میں، شہید بھٹو کے بعد پھر شہید بے نظیر بھٹو کا دور آیا، انہوں نے سب سے بڑا کمال یہ کیا کہ یہاں جماعتی بنیادوں پر انتخابات کرائے، آج تک یہ سلسلہ جاری ہے، پھر آصف زرداری صاحب نے صدارتی آرڈیننس کے ذریعے ایک نظام دیا، جسے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے اعلان کیا 29 دسمبر 2009ء کو، کہ ہمیں صوبے کا درجہ دیا جائے گا، یہ پہلا قدم تھا، ہم اسی پارٹی میں رہتے ہوئے مکمل خود مختار صوبہ بننے تک جدوجہد کرتے رہیں گے، یہ بات خوش آئند ہے کہ ابھی تمام جماعتیں گلگت بلتستان کو خود مختار صوبہ بنانے کی بات کرتی ہیں۔ جب سے جماعتی بنیادوں پر الیکشن ہوئے ہیں، پیپلز پارٹی کو سادہ اکثریت حاصل رہی ہے، پیپلز پارٹی پہلے بھی کمزور نہیں تھی، اب بھی ہم اکثر سیٹیں جیتیں گے۔

اسلام ٹائمز: پیپلز پارٹی وفاق میں اپنی حکومت ہونے کے باوجود بھی گلگت بلتستان کو آئینی صوبہ نہیں بنا پائی، کیا کہیں گے اس حوالے سے۔؟
مہدی شاہ:
1975ء میں میں شہید بھٹو سے ملا تھا، آج تک اسی پارٹی کا حصہ ہوں، ہم آئینی صوبے کے قیام کیلئے پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے تھے، یہی ہماری منزل ہے، لیکن کچھ نہ ہونے سے یہ بہتر ہے، ہمارے یہاں اصلاحات ہونے اور نظام بننے سے تمام اختیارات ہمارے پاس آگئے ہیں، ہم نے خود فیصلے کئے، ہم نے خود لوگوں کو ترقیاں دیں، ہم نے بہت کچھ کیا، یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ انتخابات میں حصہ لینے والی سیاسی و مذہبی جماعتیں کیا کردار ادا کرتی ہیں، پیپلز پارٹی، مجلس وحدت مسلمین، اسلامی تحریک، نواز لیگ، فضل الرحمان گروپ ہے، ایم کیو ایم، تحریک انصاف وغیرہ میں تمام جماعتوں کو یہ پیغام دونگا کہ تمام جماعتیں ایک ایجنڈا یعنی آئینی صوبے کے تحت انتخابات میں حصہ لیں، انتخابات میں تو سب نعرے بازی کرکے چلے جاتے ہیں، لیکن عملی طور پر سوائے پیپلز پارٹی کے کسی جماعت نے کچھ نہیں کیا۔

اسلام ٹائمز: ایک تاثر عام ہے کہ جسکی حکومت وفاق میں موجود ہوتی ہے، گلگت بلتستان کی عوام اسے ووٹ دیتی ہے، کیا یہ تاثر صحیح ہے۔؟
مہدی شاہ:
1994ء سے یہاں انتخابات ہو رہے ہیں، پیپلز پارٹی نے ہمیشہ سادہ اکثریت حاصل کی، لیکن اس بار مسلم لیگ (ن) نے دھاندلی کرنے کی منصوبہ بندی کی ہوئی ہے، جس طرح انہوں نے پنجاب میں دھاندلی کی، یہاں بھی وہی کرنا چاہ رہے ہیں، لیکن چونکہ گلگت بلتستان ایک انتہائی حساس علاقہ، یہاں یہ غلطی نہ کی جائے تو اچھا ہے، اگر دھاندلی کی کوشش کی گئی تو تمام جماعتیں ایک طرف اور نواز لیگ دوسری طرف ہوگی۔

اسلام ٹائمز: یعنی آپ نواز لیگ کے مقابلے میں پیپلز پارٹی کو کمزور پوزیشن پر دیکھ رہے ہیں۔؟
مہدی شاہ:
نواز لیگ کی پوزیشن تو یہاں کبھی بھی کچھ نہیں رہی ہے، جبکہ ماضی میں بھی وفاقی حکومت نواز لیگ کی رہ چکی ہے، مگر اس وقت بھی انکی کوئی پوزیشن نہیں تھی، اگر اس بار نواز لیگ نے تین سے زائد سیٹیں لیں تو سمجھیں کہ انہوں نے دھاندلی کی ہے، کیونکہ انہیں کبھی بھی تین سے زائد سیٹیں ملی ہی نہیں ہیں، تو ہمیں ان سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔

اسلام ٹائمز: مذہبی جماعتوں کی پوزیشن بہت اچھی نظر آرہی ہے، خصوصاً مجلس وحدت مسلمین بھرپور انداز میں سامنے آئی ہے، اس صورتحال کے حوالے سے کیا کہنا چاہیں گے؟
مہدی شاہ:
میں مذہبی جماعتوں کے انتخابات میں حصہ لینے کا بہت سخت مخالف ہوں، انہیں انتخابات نہیں لڑنا چاہیئے، 1994ء میں تحریک جعفریہ نے انتخابات لڑا اور اس الیکشن میں ان کے منشور میں لکھا ہوا تھا کہ جہاں بھی کوئی دو شیعہ امیدوار الیکشن آپس میں لڑیں گے، یہ وہاں حصہ نہیں لیں گے، لیکن انہوں نے اس پر عمل نہیں کیا، بلکہ اپنے حق میں تو یہ بھی کہا کہ تحریک جعفریہ کو ووٹ دینا واجب ہے، پھر ان کا منشور تھا ”پانچواں صوبہ“ لیکن انہوں نے اس پورے پانچ سال میں ایک بار بھی گلگت بلتستان کو پانچواں صوبہ بنانے کیلئے ایک بات بھی نہیں کی۔

اسلام ٹائمز: گلگت بلتستان میں شیعہ سنی اختلافات کو بہت زیادہ ہوا دینے کی کوشش کی گئی، بڑے بڑے واقعات بھی رونما ہوئے، کیا کہیں گے اس حوالے سے۔؟
مہدی شاہ:
کچھ واقعات ضرور ہوئے، لیکن میں انہیں شیعہ سنی اختلافات نہیں کہوں گا، وہ اس لئے کہ اختلافات ہوتے تو پورا گلگت بلتستان اس کی لپیٹ میں آتا، یہ جو دہشتگرد ہیں، یہ مخصوص شیعہ یا سنی کے خلاف نہیں، انہوں نے انگریزوں کو، غیر ملکیوں سیاحوں کو ٹارگٹ کیا، خود افواج پاکستان اور پولیس کو دہشتگردی کا نشانہ بنایا۔

اسلام ٹائمز: آپکا اپنے حلقے میں راجہ جلال صاحب سے سخت مقابلہ متوقع نظر آتا ہے، کیا کہنا چاہیں گے۔؟
مہدی شاہ:
یہاں انہوں نے ایک رائل فیملی، رائل تنظیم بنائی ہوئی ہے، لیکن ان کا خود آپس میں اتفاق نہیں ہے، آپ کو بتاوں کہ راجہ میرا سمدھی ہے، وہ نواز لیگ میں چلا گیا ہے، یہاں کا راجہ تحریک انصاف میں ہے، اور شگر کے راجہ کا ایک داماد ایم ڈبلیو ایم میں ہے، انہوں نے مذاق بنایا ہوا ہے، کبھی اِدھر، کبھی اُدھر، اگر مجھے یہ پتہ چلے کہ میں پیپلز پارٹی میں ہار رہا ہوں اور ایم ڈبلیو ایم میں جاؤں گا تو جیت جاونگا، میں کبھی ایم ڈبلیو ایم میں شمولیت اختیار نہیں کرونگا، میرے لئے پیپلز پارٹی میں رہتے ہوئے ہارنا، ایم ڈبلیو ایم میں جاکر جیتنے سے اچھا ہے، کیونکہ میں لفظ لوٹا پسند نہیں کرتا، ابھی دوسری تمام جماعتوں میں آپ کو لوٹے نظر آئیں گے، تحریک انصاف میں لوٹے جمع ہوگئے، نواز لیگ وغیرہ میں بھی۔

اسلام ٹائمز: گلگت بلتستان کی سطح پر پیپلز پارٹی میں اندرونی اختلافات کی عام ہوتی ہوئی خبروں کے حوالے سے آپ کا کیا موقف ہے۔؟
مہدی شاہ:
پیپلز پارٹی بہت بڑی جماعت ہے، جماعتوں میں اختلافات بھی ہوتے ہیں، آپ کو ایک مثال دوں، آپ نے فدا محمد نوشاد کا نام سنا ہوگا، وہ حلقہ 3 سے نواز لیگ کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہا ہے، ان کا پیش امام ایم ڈبلیو ایم کا عہدیدار ہے، وہ بھاگ کر اسلام آباد گیا ہے، تاکہ نوشاد کے ساتھ اس کی ٹسل نہ ہو۔ اب میں ہوں، مجھے پتہ ہے کہ اس حلقے میں ہمارا امیدوار کمزور ہے، کل میں اس کے ساتھ انتخابی مہم کی ریلی میں آگے مہدی آباد تک جا رہا ہوں، خواہ ہمیں دس ووٹ ملیں، یا بیس ووٹ ملیں۔ مذہبی جماعتوں کی وجہ سے علاقے کو سیاسی طور پر کوئی فائدہ نہیں ہو رہا ہے، اس پر میں مناظرہ بھی کرسکتا ہوں، ایک وقت ایسا آیا تھا کہ میں نے خود آفر کی تھی کہ آپ امیدوار دیں، وہ ہمارے ٹکٹ پر الیکشن لڑ کر جیت جائے، پھر آپ کو جو بہتر کرنا ہو کریں۔ ہمارے پیش امام شیخ حسن جعفری کا آج بہت اچھا نام ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ نہ ایم ڈبلیو ایم کے ساتھ ہے، نہ وہ اسلامی تحریک کے ساتھ ہیں، نہ ہمارے ساتھ ہیں، وہ واضح طور پر غیر جانبدار ہیں، اس سے انکی شخصیت میں اضافہ ہوا ہے۔

اسلام ٹائمز: ہمارے ادارے کے توسط سے عوام و خواص کو کیا پیغام دینا چاہیں گے۔؟
مہدی شاہ:
رسول اکرم (ص) نے وہ راستہ اپنایا جہاں نقصان کم ہو، میں خصوصاً مذہبی جماعتوں سے یہ کہوں گا کہ وہ قوم و ملت پر، ملت جعفریہ پر، اسے مزید ٹکڑوں میں تقسیم نہیں کریں، کوئی خمینی و خامنہ ای جیسا لیڈر آئے جو قوم و ملت کو ایک پلیٹ فارم پر متحد و منظم رکھے، تاکہ ملت جعفریہ کو جو نقصان ہو رہا ہے، اس سے بچ سکیں۔ ہر کسی کو اپنا مثبت کردار ادا کرنا چاہیئے، اپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجدیں بنا کر ہم کچھ حاصل نہیں کرسکتے۔ میں جوانوں سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہمیں اچھا انسان بن کر عالم انسانیت کی خدمت کرنی چاہیئے، پھر ہمیں مسلمان بن کر سوچنا ہے، اس کے بعد پھر ہمیں قوم و ملت کے بارے میں سوچنا ہے۔
خبر کا کوڈ : 463888
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش