0
Tuesday 27 Oct 2015 18:27

پاراچنار میں انصاف طوری بنگش قبائل کیلئے نہیں دیگر کیلئے ہے، علامہ عابد حسینی

پاراچنار میں انصاف طوری بنگش قبائل کیلئے نہیں دیگر کیلئے ہے، علامہ عابد حسینی
علامہ سید عابد حسین الحسینی کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ 1968ء کو گورنمنٹ کالج پاراچنار سے نمایاں پوزیشن کے ساتھ ایف ایس سی کرنے کے بعد علوم دینی کے حصول کی غرض سے نجف اشرف اور اسکے بعد قم چلے گئے۔ انقلاب اسلامی سے صرف ایک سال قبل پہلوی حکومت نے حکومت مخالف سرگرمیوں کی پاداش میں انہیں ایران سے نکال دیا۔ جسکے بعد انہوں نے مدرسہ جعفریہ پاراچنار میں تدریس کا آغاز کیا۔ اسی زمانے میں شہید علامہ عارف الحسینی بھی اسی مدرسے میں انکے ساتھ شامل تدریس تھے۔ 1980ء کے عشرے میں پاراچنار میں وقت کے مضبوط مرکزی نظام کی مثلث کے ایک اہم عنصر تھے۔ پاراچنار میں مرکزی انجمن حسینیہ اور علمدار فیڈریشن کی بنیاد میں علامہ شہید عارف حسینی اور مرحوم شیخ علی مدد کے ہمراہ تھے۔ اپنے ایران سفر کے دوران تہران کی نماز جمعہ سے متاثر ہوکر پاراچنار میں نماز جمعہ کی ابتداء سب سے پہلے 1982ء میں علامہ عابد الحسینی ہی نے کی اور 1990ء تک مرکزی جامع مسجد کے امام جمعہ کے فرائض بھی وہی انجام دیتے رہے۔ تحریک نفاذ فقہ جعفریہ اور اسکے بعد تحریک جعفریہ میں صوبائی صدر اور سینیئر نائب صدر کے عہدوں پر فائز رہنے کے علاوہ ایک طویل مدت تک تحریک کی سپریم کونسل اور آئی ایس او کی مجلس نظارت کے رکن بھی رہے۔ 1997ء میں پاکستان کے ایوان بالا (سینیٹ) کے رکن منتخب ہوئے، جبکہ آج کل علاقائی سطح پر تین مدارس دینیہ کی نظارت کے علاوہ تحریک حسینی کے سرپرست اعلٰی کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔ ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے محرم انتظامات، واقعات خصوصا پاراچنار کی موجودہ صورتحال کے حوالے سے علامہ عابد الحسینی کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا ہے، جسے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: کرم ایجسنی میں اس وقت امن وامان کی کیا صورتحال ہے؟
علامہ سید عابد الحسینی:  کرم ایجنسی میں شیعہ علاقوں میں داخلی طور پر تو ہمیشہ سے امن رہا ہے۔ تاہم باہر سے طالبان یا دیگر ناموں کے ساتھ موجود ایسے ہی دیگر دہشتگردوں کی جانب سے خودکش حملے کئی بار ہوچکے ہیں۔ تاہم مقامی لوگوں کی جانب سے نہ کبھی حکومت کے خلاف کوئی کارروائی ہوئی ہے، اور نہ ہی مقامی قبائل کے خلاف کوئی اقدام ہوا ہے۔ 

اسلام ٹائمز: حکومت کی جانب سے عوام کے ساتھ سلوک کیسا ہے؟ کیا عوام حکومت سے مطمئن اور راضی ہیں؟
علامہ سید عابد الحسینی: جہاں تک مجھے علم ہے، کرم ایجنسی میں مقامی قبائل کے ساتھ حکومت کا رویہ اکثر معاندانہ اور غیر منصفانہ رہا ہے۔ اب یہ پتہ نہیں، کہ دوسرے علاقوں یا اضلاع میں بھی حکومت کی پالیسیاں ایسی ہی ہوتی ہیں یا انکی یہ پالیسی کرم ایجنسی تک محدود ہے، جبکہ آپکے دوسرے سوال کے جواب میں یہی عرض کریں گے کہ یہاں عوام کی اکثریت حکومت سے مطمئن نہیں۔ 

اسلام ٹائمز: کوئی مثال ہے آپکے پاس، جس سے ثابت ہو کہ پاراچنار میں سرکار کا رویہ معاندانہ ہے؟

علامہ سید عابد الحسینی: ایک نہیں، سینکڑوں مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ دیکھیں، قبائلی علاقوں میں کہیں بھی محصول لاگو نہیں، جبکہ صرف کرم ایجسنی میں صدہ اور پاراچنار میں کروڑوں روپے پر ایک سال کے لئے محصول کے ٹھیکے دیئے جاتے ہیں۔ پھر اپنا پیسہ پورا کرنے کے علاوہ ٹھیکیداروں کی منافع پر بھی نظر ہوتی ہے اور یوں ہر چیز پر وہ اپنی مرضی کے مطابق محصول وصول کرلیتے ہیں جسکا اثر ڈائریکٹ عوام پر پڑتا ہے۔ آٹا، گھی، چینی سے لیکر مرغیوں تک روزمرہ استعمال کی ہر چیز پر بھاری محصول وصول کیا جاتا ہے۔ اسکے علاوہ انتظامی امور میں بھی حکومت کا رویہ نہایت غیر منصفانہ ہے۔ وہ یوں کہ اگر طوری بنگش اقوام کے خلاف کوئی کارروائی ہوتی ہے تو مخالف فریق پر کوئی ہاتھ نہیں ڈالا جاتا، جبکہ دوسری اقوام کے خلاف کوئی جوابی کارروائی بھی ہوجائے تو طوری بنگش اقوام سے جیل بھر دی جاتی ہے اور پھر انہیں اس وقت تک رہائی نہیں ملتی جب تک ان سے بھاری جرمانہ وصول نہیں کیا جاتا۔ ہمارے قبائل اپنے علاقے میں آبادکاری کرنا چاہیں تو انکی پکڑ دھکڑ شروع ہوجاتی ہے۔ جرمانے لگنا شروع ہوجاتے ہیں، جبکہ دیگر لوگ ہماری ملکیتی زمینوں پر زبردستی قبضہ کریں، مکانات تعمیر کرنا شروع کریں تو بجائے اسکے کہ قابضین کو روکا جائے، اصل مالکان کو انکے ساتھ انکی منشاء کے مطابق اور من مانے مذاکرات پر مجبور کیا جاتا ہے۔   

اسلام ٹائمز: گذشتہ چند ماہ سے پاراچنار میں متاثرین کی دوبارہ بحالی کے قصے سننے میں آرہے ہیں۔ اسکی کیا حقیقت ہے۔ کیا حکومت اس مسئلے میں مخلص ہے؟
علامہ سید عابد الحسینی: کرم ایجنسی میں تو ہمیشہ سے الٹی گنگا بہتی ہے۔ جیسے پہلے عرض کیا کہ طوری بنگش قبائل کے ساتھ کوئی انصاف نہیں کیا جاتا۔ آبادکاری کے حوالے سے یہی عرض کرینگے کہ طوری قبائل کی آبادکاری نہیں ہورہی، دیگر قبائل کی ہو رہی ہے۔ طوری قبائل کو کہا جاتا ہے لیکن بات یہ ہے کہ انہیں سکیورٹی فراہم نہیں کی جاتی جبکہ دیگر قبائل کے لئے منظم طریقے سے سکیورٹی کا فل پروف بندوبست کیا جاتا ہے۔ انہیں ہر قسم کی سہولیات فراہم کی جاتیں ہیں۔ خوراک سے لیکر گھر بنانے کے لئے تمام ممکنہ میٹیریل بھی فراہم کیا جاتا ہے جبکہ طوری قبائل کو اللہ کے سہارے پر چھوڑدیا جاتا ہے۔

اسلام ٹائمز: طوری قبائل اپنے حقوق کیلئے احتجاج کیوں نہیں کرتے؟ کیا انکے عمائدین اور بااثر رہنما موجود نہیں ہیں؟
علامہ سید عابد الحسینی: بالکل یہ لوگ احتجاج کرتے ہیں، لیکن انکی فریاد کون سنتا ہے۔ سننا تو کیا، یہ قبائل اپنے حقوق کے بارے میں احتجاج کریں تو انہیں سزائیں ملتی ہیں۔ کچھ عرصہ قبل دوراوی سادات نے اپنے ملکی اراضی کے متعلق حکومت سے انصاف کا مطالبہ کیا۔ تو پولیٹیکل ایجنٹ نے انکی فریاد سننے کی بجائے منگل قبیلے کی ترجمانی شروع کی اور انہیں دھمکیاں دینا شروع کیں۔ انہوں نے جب دیکھا کہ حکومت سے انصاف مانگنا عبث ہے تو انہوں نے اپنے مکانات میں جاکر ڈیرے ڈال دیئے۔ اس پر دوراوی سادات کے تقریبا ستر افراد کو حراست میں لیا گیا اور شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کا اجراء روک دیا گیا، اور انہیں مجبور کر کے ان کے حقوق سے دستبردار کیا گیا۔ اسکے علاوہ بالش خیل قبیلہ بار بار انصاف کا مطالبہ کر رہا ہے۔ انہیں انصاف دینے کی بجائے دھمکیاں دی جاتی ہیں، انہیں گرفتار کیا جاتا ہے۔ دو ہفتے قبل صدہ کی جانب ایک میزائل فائر کیا گیا تھا اور وہ بھی صبح کے وقت یعنی دن کی روشنی میں ایسے علاقے سے فائر کیا گیا جہاں پاڑہ چمکنی قبیلہ نے قبضہ جمارکھا ہے جبکہ یہ علاقہ دراصل بالش خیل کا ہے لیکن حکومت نے بالش خیل کے دو درجن کے قریب لوگوں کو صرف اس بناء پر حراست میں لیا کہ تمہاری ملکیتی زمین سے میزائل فائر ہوا ہے جبکہ یہی بات بالش خیل دہراتے ہیں۔ تو اس وقت حکومت پاڑہ چمکنی کے حق میں رائے دیتی ہے، یہ ہے حکومت کا انصاف۔ چنانچہ یہاں انصاف اگر ہے تو وہ دیگر نان لوکل قبائل کے لئے ہے۔ طوری اور بنگش جوکہ مقامی قبیلے ہیں اور اصل پاکستانی اور محب وطن ہیں، انکے لئے کوئی انصاف نہیں۔ باقی رہی عمائدین کی بات، تو عرض یہ ہے کہ ہر قبیلے کے عمائدین ہوتے ہیں۔ عمائدین میں اچھے اور ہمدرد لوگ بھی پائے جاتے ہیں۔ تاہم قبائل میں طریقہ کار یہ ہے کہ عمائدین اکثر سرکاری مراعات یافتہ لوگ ہوتے ہیں۔ چنانچہ وہ اپنی مراعات کی خاطر وہ بات نہیں کرسکتے جو وقت کی ضرورت ہوتی ہے۔

اسلام ٹائمز: محرم کے دوران ہونے والے انتظامات اور واقعات پر اپنا نکتہ نظر پیش کریں۔ 
علامہ عابد حسینی: دوسرے سالوں کی نسبت اس پورے سال میں مجموعی طور پر قدرے سکون رہا اور محرم کے دوران بھی دو مقامات پر واقعات ہوگئے، جبکہ زیادہ علاقوں میں محرم آرام سے گزر گیا لیکن اس کا سہرا سول گورنمنٹ کو نہیں بلکہ پاک فوج خصوصاً جنرل راحیل شریف کو جاتا ہے، راحیل شریف کی پالیسیوں نے پاکستان کو نسبتا پرسکون بنایا ہے۔ ملک بھر میں جہاں کہیں اختیار سول انتظامیہ کے پاس ہے، وہاں تو اب بھی انارکی اور لاقانونیت ہے۔ خصوصا اسلام آباد، پنجاب اور کے پی کے میں تو دہشتگردوں کے حامیوں کی حکومتیں ہے۔ امن و امان کے لئے جو کوششیں ہو رہی ہیں، یہ سب بادل نخواستہ کر رہے ہیں، حالانکہ دل سے یہ لوگ نہیں چاہتے کہ پاکستان میں دہشتگرد اور دہشتگردی ختم ہو۔

اسلام ٹائمز: محرم کے دوران ہونے والے حادثات بارے اظہار خیال کرنا پسند کریں گے؟
علامہ سید عابد الحسینی: سندھ اور بلوچستان میں ہونے والے دھماکوں کی ہم پرزور مذمت کرتے ہیں اور متعلقہ حکومتوں، خصوصاً پاک فوج سے مطالبہ کرتے ہیں کہ دہشتگردوں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے۔ اس حوالے سے شہداء اور مجروحین کے لئے وزیر اعلٰی سندھ کو اس کے اعلان کردہ پیکج پر خراج تحسین پیش کرتے ہیں اور وفاقی حکومت اور حکومت بلوچستان سے بھی یہی امید رکھتے ہیں کہ اگر انکو یقینی طور پر وطن اور عوام سے محبت ہے اور وہ اہلیان وطن میں کوئی امتیاز نہیں کررہے تو وہ بھی اپنی ذمہ داری کا ثبوت پیش کرتے ہوئے اپنی طرف سے شہداء اور مجروحین کے لئے پیکج کا اعلان کریں۔
خبر کا کوڈ : 494052
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش