0
Wednesday 18 Nov 2015 08:00

ایرانی سائیڈ پر زائرین کو تمام سہولیات میسر، اس طرف جنگل کا سماں ہے، علامہ احمد علی روحانی

ایرانی سائیڈ پر زائرین کو تمام سہولیات میسر، اس طرف جنگل کا سماں ہے، علامہ احمد علی روحانی
قائد شہید علامہ عارف حسین الحسینی کے قریبی ساتھی اور شیعہ علماء کونسل صوبہ خیبر پختونخوا کے نائب صدر علامہ احمد علی روحانی کا تعلق پارا چنار سے ہے۔ وہ پچیس سال ایران میں گزارنے کے بعد پاکستان واپس آئے اور تحریک نفاذ فقہ جعفریہ میں اپنا فعال کردار ادا کیا، بعد ازاں مجلس علمائے اہل بیت پارا چنار کے صدر منتخب ہوئے اور چار سال تک یہ ذمہ داری بھی بطریق احسن ادا کی، گذشتہ روز زائرین کو درپیش مسائل پر علامہ احمد علی روحانی کے ساتھ گفتگو ہوئی، جس کا احوال پیش خدمت ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: ابتدا اپنے تعارف سے کیجئے۔؟
علامہ احمد علی روحانی:
قائد شہید کے شاگردوں میں سے ہوں، قم میں پچیس سال گزارے، جب پاکستان آیا تو اس زمانے میں پاکستان میں تحریک متحرک تھی، اس کے مختلف شعبوں میں اپنا کردار ادا کیا، بعد ازاں مجلس علمائے اہل بیت کے صدر کی حیثیت سے چار سال ذمہ داری ادا کی، آج کل نائب صدر شیعہ علماء کونسل صوبہ خیبر پختونخوا کی ذمہ داری بھی میرے پاس ہے، میں زائرین کو درپیش سخت صورتحال کے حوالہ سے بات کرنا چاہوں گا، گذشتہ کئی دنوں سے اربعین کے لئے جانے والے زائرین کو سردی میں سڑکوں پر بٹھا دیا گیا ہے، ان میں خواتین اور عمر رسیدہ افراد بھی شامل ہیں، حالانکہ غیر مسلم ہمارے ساتھ تعاون کر رہے ہیں، لیکن خود کو مسلمان کہلوانے والوں کا رویہ ہمارے ساتھ بہت ہی قابل مذمت ہے۔ یہ خود کو رسول (ص) کا امتی کہتے ہیں، رسول (ص) کے نواسے (ع) کو پرسہ دینے کے لئے جانے والے زائرین کے راستے میں یہ لوگ رکاوٹیں کھڑی کرکے انہیں ایذا پہنچا رہے ہیں، یہ انتہائی قابل مذمت اور غیر انسانی رویہ اور سلوک ہے۔ حکومت کو چاہیئے کہ زائرین کو بہترین سہولیات فراہم کرے، ان کی امنیت اور سہولت کے لئے اقدامات اٹھائے جائیں، ملک بھر سے جانے والے زائرین میں سے کچھ زائرین کو راستوں میں روک لیا گیا ہے اور کچھ کوئٹہ میں پڑے ہوئے ہیں۔

اسلام ٹائمز: زائرین کیلئے سب سے بڑا مسئلہ کوئٹہ اور تفتان میں قیام گاہوں کا نہ ہونا ہے، نوے نوے بسیں اکٹھی کی جاتی ہیں، جس میں کئی کئی روز زائرین کو انتظار کی زحمت اٹھانا پڑتی ہے، کیا حکومت بلوچستان اور دیگر سکیورٹی ادارے اس صورتحال کو سنجیدہ نہیں لے رہے، اس حوالہ سے کیا کہیں گے۔؟
علامہ احمد علی روحانی:
حکومت زائرین کو ایک جگہ اکٹھا کرکے دہشت گردی کا موقع خود فراہم کر رہی ہے، نوے نوے گاڑیوں کا دفاع کیسے کیا جاسکے گا، کانوائے بڑھایا جائے اور کم گاڑیوں کو نکالا جائے، کیا حکومت کے پاس فورسز کی کمی ہے؟ نوے نوے گاڑیاں پوری کرنے کے لئے کئی کئی دن لگائے جاتے ہیں، یہ سراسر زیادتی ہے، زائرین کے لئے رہنے کی سہولیات فراہم نہیں ہوتیں، جس کے باعث وہ مختلف بیماریوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں، حکومت کو چاہئے کہ جتنی بھی گاڑی پہنچیں انہیں سکیورٹی کے ساتھ روانہ کرتے جائیں، انہیں روکا نہ جائے، جس طرح پاراچنار سے پشاور تک شاہراہ کو محفوظ بنایا گیا ہے، کوئٹہ سے تفتان تک کی شاہراہ کو بھی محفوظ بنایا جاسکتا ہے، یہ روڈ تجارتی روڈ ہے اور زائرین کی شاہراہ ہے، افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ حجاج کے لئے تو حکومت الرٹ ہوتی ہے، لیکن لاکھوں زائرین کے لئے مناسب انتظامات نہیں کئے جا رہے، اب تک کوئی ڈائریکٹ فلائٹ شروع نہیں کی جاسکی، غیر ملکی فلائیٹوں پر زائرین زحمتیں اٹھا کر ڈبل پیسہ خرچ کرکے پہنچتے ہیں، لیکن حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔

اسلام ٹائمز: ایک طرف تو زائرین کو جاتے ہوئے کوئٹہ میں روکا جاتا ہے، واپسی پر اس سے بدتر صورتحال تفتان بارڈر پر ہوتی ہے، جہاں کسی قسم کی قیام گاہ موجود نہیں اور نہ ہی انتظامات تسلی بخش ہیں، اس حوالہ سے کیا تجاویز دینا چاہیں گے۔؟
علامہ احمد علی روحانی:
ہم گذشتہ بیس سال سے یہ معاملہ حکومت پر واضح کر رہے ہیں کہ تفتان میں ایک بہترین زائر سرا بنایا جائے، جہاں ہر طرح کی سہولیات دی جائیں، صرف دو کمرے موجود ہیں، جن میں ایک کمرے میں چند مرد اور دوسرے میں تھوڑی سی خواتین ٹھہر سکتی ہیں، حالانکہ بعض اوقات سینکڑوں خواتین و حضرات تفتان پہنچتے ہیں، اس جگہ پانی اور باتھ روم کی کوئی سہولت میسر نہیں، یہ سارے حکومتی اقدامات ظاہر کرتے ہیں کہ وہ زائرین کو روکنا چاہتے ہیں، یہ حکومت کی احمقانہ سوچ ہے، یہ زیارتی قافلے کسی دور میں نہیں رک سکے اور نہ ہی رکیں گے، پرانے زمانوں میں جانیں فدا کرکے اور اپنے ہاتھ پاوں کٹوا کر زائرین امام حسین علیہ السلام کی زیارت کیا کرتے تھے، آج بھی وہ سلسلہ جاری ہے۔ تفتان کے راستے جانے والے زائرین پر بموں سے حملے کئے گئے ہیں، بسیں اڑائی گئی ہیں، لیکن یہ سلسلہ کبھی نہیں رک سکتا، زائرین کا یہ سفر چلتا رہے گا، قیامت تک یہ رکنے والا نہیں ہے، حکومت کے لئے بہتر ہوگا کہ زائرین کو بہترین سہولیات فراہم کرے۔

اسلام ٹائمز: تفتان بارڈر پر پاکستانی سروسز اور دوسری سائیڈ میر جاوا ایرانی بارڈر کی زائرین کیلئے سروسز اور سہولیات کا موازنہ کیسے کریں گے۔؟
علامہ احمد علی روحانی:
دیکھیں یہ انتہائی شرمناک بات ہے کہ جب ہم تفتان سے ایک قدم اس طرف آہنی دروازے سے دوسرے ملک میں قدم رکھتے ہیں تو بہترین سہولیات دکھائی دیتی ہیں، دراصل پاکستانی حکام کو چاہیئے کہ اپنے شہریوں کے لئے ایسی سہولیات فراہم کریں، ایران کو نہیں چاہیئے، ایرانی سائیڈ پر تمام سہولیات زائرین کو فراہم ہیں، لیکن ایک قدم اس طرف آجائیں تو یوں لگتا ہے کہ جنگل میں داخل ہوگئے ہیں، نہ کوئی حکومتی اہلکار، نہ کوئی کسٹم، نہ ہی امیگریشن کی صحیح سہولیات، لیکن دوسری جانب جائیں تو یوں لگتا ہے کہ کسی انٹرنیشنل ایئر پورٹ پر پہنچ چکے ہیں، کہ بہترین سہولیات اور امیگریشن کا اعلٰی نظام میسر آتا ہے، پاکستانی سائیڈ پر حتٰی کہ مسجد تک موجود نہیں ہے، ہر ماہ لاکھوں زوار جاتے ہیں، حکومت اس معاملہ پر ہوش کے ناخن لے، میں تمام اہل فکر اور علماء سے بھی اپیل کرتا ہوں کہ اس معاملہ پر سنجیدگی سے غور کریں اور زائر حسین کو مشکلوں سے نکالیں۔

اسلام ٹائمز: ایک تجویز یہ بھی موجود ہے کہ زائرین کے روٹ پر اور تفتان کے مقام پر اہل خیر سہولیاتی مراکز قائم کریں، اس حوالے سے کیا کہیں گے۔؟
علامہ احمد علی روحانی:
اگر حکومت تفتان بارڈر اور زائرین کے اس روٹ پر زمین وقف کر دے، امنیت کی ضمانت دے تو اہل خیر اس راستے میں بھی خرچ کرنے کے لئے تیار ہیں، اگر ہم دوسری جگہوں پر زائر سرا بنا سکتے ہیں تو ان مقامات پر کیوں نہیں بنا سکتے، ایسے اہل خیر موجود ہیں، جو امام حسین (ع) پر اپنا جان و مال نچھاور کرنے کے لئے تیار ہیں، اس سلسلہ میں بلوچستان حکومت اقدام اٹھائے، زمین اور سکیورٹی فراہم کرے۔
خبر کا کوڈ : 498597
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش