0
Tuesday 19 Jan 2016 13:33
اتحاد میں ان ممالک کو شامل نہیں کیا گیا جو دہشتگردی کا شکار ہیں

34 ملکی سعودی اتحاد بے نقاب ہوگیا، حقیقت میں یہ اتحاد اسرائیل کیخلاف لڑنے والوں کیخلاف بنا ہے، ناصر عباس شیرازی

اس اتحاد کو سنی اتحاد کا نام دیا گیا ہے اور امریکہ نے اسکی تعریف کی ہے
34 ملکی سعودی اتحاد بے نقاب ہوگیا، حقیقت میں یہ اتحاد اسرائیل کیخلاف لڑنے والوں کیخلاف بنا ہے، ناصر عباس شیرازی
سید ناصر عباس شیرازی مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری سیاسیات ہیں، سرگودھا سے تعلق ہے، دو بار امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے مرکزی صدر رہ چکے ہیں۔ سیاسی موضوعات اور مشرق وسطٰی کے حالات پر خاص نگاہ رکھتے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے ایران سے پابندیاں ہٹنے، سعودی ایران تنازعہ اور پاکستان سے متعلق ایک تفصیلی انٹرویو کیا ہے، جو پیش خدمت ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے پر تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے، کیا آپکی نگاہ میں کچھ ایسے معاملات ہیں جن میں حکومت ڈنڈی مارنا چاہتی ہے۔؟
ناصر عباس شیرازی:
جی دیکھیں! یہ منصوبہ بنادی طور پر پاکستان کی شہ رگ ہے، یہ ایک سڑک نہیں ہے، ابتدائی طور پر 56 پروجیکٹس کا یہ مجموعہ ہے، جس میں توانائی، اقتصادی، گیس اور سکیورٹی زون ہیں، پاکستان بنیادی طور پر بحرہ ہند اور مشرق سطٰی تک چین کو رسائی دے گا، یوں کہہ سکتے ہیں کہ یہ چین اور پاکستان دونوں کی لائف لائن ہے، ان پروجیکٹس میں چاروں صوبے شامل ہیں، کشمیر کو ایک طرف رکھیں، لیکن آپ دیکھیں کہ جس علاقے یعنی گلگت بلتستان سے 600 کلومیٹر کا یہ راستہ ہے، اس علاقے کی آئینی حیثیت کو مشکوک رکھا ہوا ہے، اس پر کبھی بحث ہی نہیں کی گئی، وفاقی حکومت نے جو ڈنڈی مارنی تھی، اس کا تو صوبوں نے راستہ روک لیا ہے، بالخصوص کے پی کے، کے دباو پر انہوں نے فیصلہ کیا ہے کہ مغربی روٹ کو پہلے مکمل کیا جائے گا، یہ منصوبہ مکمل ہوگا تو اس سے تمام صوبے مستفید ہوں گے، اب ڈنڈی وفاق صوبوں کے ساتھ نہیں مار رہا ہے، بلکہ وفاقی اور چاروں صوبے ملکر گلگت بلتستان کے ساتھ ڈنڈی مار رہے ہیں اور اس کا استحصال کر رہے ہیں، سب سے لمبا روٹ گلگت بلتستان کا ہے کہ جہاں سے یہ منصوبہ داخل ہو کر پاکستان میں داخل ہوگا۔ اگر گلگت سے یہ منصوبہ نہ آئے تو آپ کے پاس کوئی بائی پاس نہیں ہے، کوئی متبادل روٹ نہیں ہے۔ پھر اسی علاقے کو آپ نظرانداز کر رہے ہیں۔ افسوس کا مقام ہے کہ وفاقی اور صوبے ملکر گلگت بلتستان کا استحصال کر رہے ہیں اور اسے اس کی شناخت نہیں دے رہے۔

اسلام ٹائمز: چین نے کہا تو ہے کہ اگر گلگت بلتستان کی قانونی حیثیت واضح ہوگی تو وہ کام شروع کرے گا۔؟
ناصر عباس شیرازی:
دیکھیں، چین نے یہ بات غیر سرکاری طور پر کی ہے، رسمی طور پر ابھی تک نہیں کہا گیا، چین نے کہا ہے کہ تمام پارٹیاں مل بیٹھ کر اتفاق رائے قائم کریں اور ابہام دور کریں، چین کو معلوم ہے کہ میگا پراجیکٹس بغیر قانونی حیثیت کے نہیں چلائے جاسکتے، تاہم آپ دیکھیں کہ اس سے پہلے بھی میگا پراجیکٹس چل رہے ہیں، مثال کے طور پر دیامر بھاشا ڈیم ہے، اس کے علاوہ انرجی ریسورسز پر کام جاری ہے لیکن کیوںکہ ان منصوبوں پر حکومت تھی تو اس لئے ان کی اہمیت نہیں تھی، اب کیونکہ چین شامل ہے تو وہ اس کی بات کر رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: حکومتی سطح پر باتیں ہو رہی ہیں کہ گلگت بلتستان کو دو حصوں میں تقسیم کیا جائے، کچھ کو قانونی حیثیت دے دی جائے اور کچھ کو نہیں۔؟
ناصر عباس شیرازی:
دیکھیں یہ استعماری سوچ کا عکاس ہے کہ تقسیم کرو اور حکومت کرو، ہر جگہ پر یہ سوچ کارفرما نظر آتی ہے۔ ان کی سوچ ہے کہ اگر گلگت اور کشمیر میں کوئی مسئلہ کھڑا ہو جاتا ہے، ہم ان علاقوں کو تقسیم کر دیتے ہیں، تقسیم کی بنیاد پر روٹ نکالنا چاہتے ہیں۔ الحمداللہ گلگت بلتستان کے عوام متحد ہیں اور انہوں نے حکومتی سازش کو ناکام بنا دیا ہے۔ چار روز قبل ٹیکس مخالف تحریک نے ثابت کر دیا ہے کہ عوام متحد ہیں، تاجر برادری نے عوامی طاقت سے شٹر ڈاون ہڑتال کی ہے، تمام علاقے بند تھے، ان کی سازش ہے کہ بلتستان اور استور اور گلگت اور دیامر کو تقسیم کر دیا جائے جو عوامی اتحاد کی بنا پر عملی نہیں ہوگا۔

اسلام ٹائمز: کیا گلگت بلتستان کو آئینی شناخت دینے سے کشمیر کاز کو کوئی نقصان پہنچے گا۔؟
ناصر عباس شیرازی:
اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، مسئلہ یہ ہے کہ ہم انڈیا کی پیچ پر کھیل رہے ہیں، انڈیا بھی یہی کہہ رہا ہے کہ یہ متنازعہ علاقہ ہے اور آپ بھی یہی کہہ رہے ہیں، دراصل آپ یہ باتیں کرکے انڈیا کے ایجنڈے کی تکمیل کر رہے ہیں۔ آزاد کشمیر اس لئے رکھا ہوا ہے کہ تاکہ بھارت بھی کشمیر کو استصواب رائے کا حق دے۔ وہ کشمیر ہے جس کیلئے آپ نے اسمبلی بنائی ہوئی ہے، سپریم کورٹ بنائی ہوئی ہے۔ گلگت بلتستان کے لوگوں نے اپنے زور بازو سے آزادی حاصل کی ہے۔ ایک آزاد حکومت قائم ہوئی اور ایک دستاویز کے تحت پاکستان کے ساتھ مل گئے، یہ ان کے خلاف ایک سازش ہے۔ میرا ایک سوال ہے کہ گلگت بلتستان کشمیر کاز کے ساتھ منسلک ہے تو پھر کشمیر اسمبلی میں ان کی نمائندگی کیوں نہیں ہے۔؟ کسی لحاظ سے کشمیر کا حصہ کیوں نہیں بنایا گیا، واضح ہے کہ گلگت بلتستان کشمیر کا حصہ نہیں ہے، جبکہ انڈیا نے اپنی پارلیمنٹ میں گلگت بلتستان کیلئے الگ سیٹس رکھیں ہوئی ہیں، یعنی وہ بھی گلگت بلتستان کے ساتھ الگ سلوک کرتے ہیں اور آپ بھی۔

اسلام ٹائمز: پٹھان کوٹ واقعہ پر پاکستان کی پوزیشن پر کیا کہیں گے، ایسا لگ رہا ہے پاکستان انڈیا کے آگے لیٹ گیا ہے۔؟
ناصر عباس شیرازی:
دیکھیں پاکستان لیٹ نہیں گیا بلکہ ایک سازش کا شکار ہوگیا ہے۔ عجیب ہے کہ پٹھان واقعہ ہوتا ہے اور اِدھر الزام پاکستان کی شدت پسند تنظیم پر آتا ہے اور ساتھ ہی ان کے خلاف کارروائی شروع کر دی جاتی ہے۔ ساتھ میں پاکستان سرنڈر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ہم ان کے دفاتر بند کر رہے ہیں اور کارروائی کر رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے عملاً تسلیم کر لیا ہے کہ شدت پسند یہاں سے کارروائی کیلئے گئے تھے اور آپ کی سرزمین استعمال ہوئی ہے۔ آپ نے تسلیم کرلیا ہے کہ آپ لوگ ان کارروائیوں میں ملوث ہیں۔ یہ میاں نواز شریف کی خیانت ہے، جس نے پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو عالمی سطح پر مشکوک بنا دیا ہے۔ مسلم لیگ نون اور نواز شریف نے ایک بہت بڑی خیانت کی ہے۔ یہ لوگ ملوث ہیں، یہ مودی اور نواز شریف کی ذاتی ملاقاتوں کا نتیجہ ہے، دنیا بھر میں واقعات ہوتے ہیں، ثبوت فراہم کئے جاتے ہیں، تحقیقاتی ٹیم بنائی جاتی ہیں، وہ تحیققات کرتی ہیں، لیکن یہاں واقعہ ہوتا ہے اور اس کے فوراً بعد ہی الزام عائد کر دیا جاتا ہے اور فوراً ہی پاکستان بھر میں کارروائیاں نظر آنا شروع ہوجاتی ہیں۔ یاد رہے کہ یہ کارروائی بھی امریکی حمایت کے بعد کی گئی ہے۔ اچھا جیش محمد تو کالعدم تھی پھر اس کے دفاتر کیوں کام کر رہے تھے، اس کی لیڈرشپ کیوں پھر رہی تھی، اس پورے ملک کو زیرسوال کر دیا گیا ہے۔ آپ نے اس بات پر مہر لگا دی ہے کہ پاکستانی ادارے کالعدم جماعتوں کی سرپرستی کرتے ہیں اور کر رہے تھے۔ نون لیگ نے خود کو بےنقاب کر دیا ہے اور ملک کو بھی خطرے سے دوچار کر دیا ہے۔ یہ ثابت کر دیا گیا ہے کہ پٹھان کوٹ میں پاکستان سے لوگ ملوث تھے اور یہاں کے اداروں نے انہیں مدد فراہم کی، یہ بہت خطرناک صورتحال ہے۔ اس کی سزا من حیث القوم بھگنتا پڑے گی۔

اسلام ٹائمز: شیخ نمر کی شہادت، ایران سعودیہ کشیدگی اور سفارتخانوں کا جلنا، مجموعی صورتحال کو کس تناظر میں دیکھتے ہیں۔؟
ناصر عباس شیرازی:
بدقسمتی سے میڈیا ان کے پاس ہے اور یہ ظاہر کر رہے ہیں کہ بنیادی مسئلہ ایران اور سعودیہ کے درمیان ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ بنیادی طور پر یہ مزاحمت بلاک کا عالمی استعمار کے ساتھ مقابلہ ہے۔ آسان لفظوں میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ مزاحمت بلاک کو ایران اور استعماری بلاک کو امریکہ لیڈ کر رہا ہے۔ اس استعماری بلاک میں اسرائیل اور سعودی عرب کی حمایت صف اول میں ہے۔ یہ نظریاتی جنگ ہے، یہ وہ پریشر ہے کہ جو اسرائیل کے مقابلہ میں تھا، ایک وقت تھا کہ اسرائیل کے مقابلے میں ایک دنیا حزب اللہ کے ساتھ کھڑی تھی، اب وہ ایران کے خلاف کھڑی ہوگئی ہے، مطلب یہ ہوا ہے کہ اس جنگ کا رخ موڑنے کیلئے سعودی عرب کو استعمال کیا گیا ہے، تاکہ اس مسئلہ کو اسرائیل مقابلہ کے بجائے شیعہ سنی مسئلہ بنا دیا جائے۔ اس معاملے میں سعودی عرب نے زمینہ سازی کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ عرب اور عجم معاملہ ہے، اب دیکھیں کہ عراق، شام، یمن اور لبنان عرب ہیں۔ یہ عربوں کا عرب کے ساتھ مسئلہ تو ہوسکتا ہے لیکن عجم اس میں کہیں بھی براہ راست جنگ میں نہیں ہیں۔ تو پھر یہ عرب عجم مسئلہ نہیں ہوسکتا۔ داعش کے مخالفین میں عجم ہیں، اور حمایت میں عرب ہیں۔ یہ بالکل ایک مختلف چیز ہے۔

شیخ نمر کی شہادت کی ٹائمنگ کا باقاعد انتخاب کیا گیا اور انہیں القاعدہ کے دہشتگردوں کے ہمراہ ایک سازش کے تحت پھانسی دی گئی۔ سعودی تاریخ میں یہ دوسری بار ایسا ہوا ہے، اس سے پہلے 60 سے زائد لوگوں کو اکٹھے پھانسی دی گئی۔ یا پھر ابھی 47 لوگوں کو پھانسی دی گئی، ان میں سے 43 القاعدہ کے لوگ تھے اور چار دیگر شیعہ لوگوں کو پھانسی دی گئی ہے۔ انہوں نے کوشش کی ہے کہ سیاسی مخالفوں کو مذہبی دہشتگردوں کے ساتھ ملاکر مزاحمت کاروں کا ہمیشہ کیلئے راستہ روکیں جو ممکن نہیں۔ شیخ نمر کی شہادت سے پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ جو ہماری مخالف میں جو آئے گا، اس کا جواب تلوار ہے، جب جواب تلوار ہے تو پھر ردعمل سامنے آتا ہے۔ جہاں تک سفارتخانے کے جلنے کی بات ہے تو یہ واضح کروں کہ سفارتخانہ جلا نہیں ہے، اس کے گیٹ پر آگ پھینکی گئی ہے۔ اس کے ساتھ اس کی مذمت کی گئی ہے، افراد گرفتار کئے گئے ہیں، اب ایک حکومت اتنا ہی کرتی ہے، یہ نہیں ہوتا ہے کہ آپ معاملہ عالمی سطح پر لے جائیں، سفارتکاری ختم کریں، دیگر مماملک پر پریشر ڈالیں کہ وہ بھی تعلقات ختم کر دیں۔ آپ نے ایک خاص فکر کے لوگوں کے ساتھ ملکر اتحاد بنایا اور ایران کے ساتھ تعلقات ختم کرنے کی بات کی۔ اس کو شیعہ سنی مسئلہ بنانے کی کوشش کی ہے۔ سعودی اپنے مشن میں ناکام ہوئے ہیں، آپ دیکھیں کہ سب سے پہلے سفارتی تعلقات پر عراق کھڑا ہوا ہے، لبنانی کھڑے ہوئے ہیں، انڈونیشیا تو اتحاد سے ہی الگ ہوگیا ہے، گلف کونسل کا ممبر عمان اس میں نہیں بیٹھا، کچھ ملکوں نے ایران دشمنی میں خاموشی ضرور اختیار کی ہے، انہوں نے جان بوجھ کر شیعہ سنی مسئلہ کھڑا کرنے کی کوشش کی ہے، تاکہ اسرائیل کو تحفظ دیا جاسکے۔ اس سے یہ خود بھی نقصان اٹھائیں گے اور عالم اسلام کو بھی کمزور کریں گے۔

اسلام ٹائمز: سعودی بار بار پاکستان کے دورے کر رہے ہیں اور مدد مانگ رہے ہیں۔ اس پر کیا کہیں گے۔؟
ناصر عباس شیرازی:
سعودی اس فکر سے تعلق رکھتے ہیں، جس میں غیر اللہ کی مدد مانگنا حرام ہے۔ یہ خود ان کا عقیدہ ہے اور یہ اپنے عقیدے کے مطابق مشرک ہوگئے ہیں۔ پاکستان خود تیرہ سال سے حالت جنگ میں ہے اور اس کے پاوں میں آکر بیٹھنا ان کے عقیدہ کی نفی اور ان کی کمزوری کی دلالت کرتا ہے۔ اس وقت اٹھارہ ملک ملکر یمن پر جنگ مسلط کئے ہوئے ہیں، اس وقت بلیک واٹر آفیشلی آن بورڈ ہے، یو کے، ساوتھ افریقا اور آسٹریلیا چیپٹر کا ہیڈ یمن میں مارا گیا ہے۔ کئی ممالک سے کرائے کے فوجی منگوائے گئے ہیں یمن میں جنگ لڑنے کیلئے، لیکن عوام کی تائید اور حمایت سے ان کی لاشیں واپس گئی ہیں۔ یہ خطے کے تمام ملک جن کو ملا سکتے تھے اور ملکر ایک چھوٹے سے ملک جو محاصرے میں گھرا ہوا ہے یعنی یمن کا مقابلہ نہیں کرسکے، اس کا ردعمل اب خود سعودی عرب کے اندر سے سامنے آرہا ہے۔ وہ پوچھ رہے ہیں کہ کیا آپ کی پالیسی ٹھیک تھی، کیا آپ نے صحیح منصوبہ بندی کی تھی۔ ان کا ٹارگٹ تھا کہ 33 روز میں یمن فتح کرلیں گے، لیکن آج دس ماہ گزر گئے لیکن یمن فتح نہیں ہوا، حتٰی ایک روٹ تک واپس نہیں لے سکے۔ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان ایک معاہدہ ہے جو حرمین شریفین کے دفاع سے متعلق ہے، انہوں نے اپنی بادشاہت کو درپیش خطرے کو حرمین کا خطرہ بناکر پیش کیا۔ ایک نکتہ بیان کرنا چاہتا ہوں کہ اگر حرمین کی مینجمنٹ اپنے ہاتھ میں لینے کا مطلب خادمین حرمین شریفین کا ٹیگ ملتا ہے تو کیا نیتن یاہو بھی کہہ سکتا ہے کہ قبلہ اول اور مسجد اقصٰی تو میرے قبضے میں ہے، کیا میں بھی خادمین حرمین شریفین ہوں، کیا کہہ سکتا ہوں۔؟؟ کیا وہ یہ دعویٰ کرسکتا ہے۔؟ قبلہ اول کی مینجمنٹ میں اپنے ہاتھ میں لیتا ہوں۔ میرے خیال میں یہ وہی انداز ہے۔ حرمین شریفین عالم اسلام سے متعلق ہے، اس کی مینجمنٹ عالم اسلام سے متعلق ہے۔ ان کی حمایت میں لوگ نہیں نکلے، فقط کالعدم جماعتیں اور کچھ تکفری نکلے ہیں۔ یہ ان کی ناکامی ہے۔ پاکستان کا فیصلہ ہے کہ وہ کسی دوسرے ملک میں اپنی فوج نہیں بھیجے گا، یہ اس کی پالیسی ہے اور بہت ہی عمدہ اور سمجھدار پالیسی ہے، باوجود اس کے نون لیگ چاہتی ہے کہ فوج جائے لیکن ایسا نہیں ہونے جا رہا۔

اسلام ٹائمز: ایران پر سے عالمی پابندیاں ہٹ گئی ہیں۔ کیا اب اقتصادی حالات بہتر ہوں گے، اس پر کیا کہیں گے۔؟
ناصر عباس شیرازی:
ایران کے اندر کیونکہ مستقل مزاجی ہے، 100 سال کی پالیسی ہے اور پلاننگ کرکے چل رہے ہیں، یہ نہیں ہوتا ہے کہ حکومت تبدیل ہونے سے پالیسی تبدیل ہو جائے، تیل کی قیمتیں 30 ڈالر فی بیرل سے بھی نیچے آگئی ہیں، جو یقیناً معیشت پر ایک برا اثر ہے، لیکن پابندیاں ہٹنے سے ایران کے 300 بلین ڈالرز جو فریز ہیں، وہ ایران کے پاس آجائیں گے۔ اس وقت یورپین، رشین اور عرب ممالک سرمایہ کاری کیلئے تیار بیٹھے ہیں۔ ایک مثبت مقابلہ شروع ہوگا اور تیزی سے بہتری آئے گی۔ ایران آئندہ بہتر اقصادی طاقت کے طور پر سامنے آئیگا اور مزاحمتی تحریکیں مزید مضبوط ہوں گی۔

اسلام ٹائمز: حالیہ دنوں میں سوال اٹھایا گیا کہ ایران نے پاکستان کے دشمن بھارت کو چاہ بہار کا انتظام دیا ہے۔ اس پر کیا کہتے ہیں، کیا یہ درست ہوگا۔؟
ناصر عباس شیرازی:
ایران چاہ بہار اور گوادر کو آپس میں ملا رہا ہے، بنیادی طور پر ایران اور پاکستان چاہ بہار کے ذریعے سے قریب آرہے ہیں، افغانستان تک ملنے کیلئے بھارت کے پاس دو روٹ ہیں، ایک چاہ بہار ہے، دوسرا پاکستان کا روٹ ہے۔ وہ پاکستان کے روٹ بھی استعمال کرتے ہیں اور چاہ بہار کا بھی، میں سوال کرتا ہوں کہ پاکستان اگر بھارت کو آموں کی پیٹیاں بھیجے، شادیوں میں ویلکم کہے، ان کیلئے اچھے تاثرات دیتے نہ تھکیں تو پاکستان پر کوئی انگلی نہیں اٹھاتا، ان حکمرانوں پر کوئی سوال نہیں اٹھاتا، اگر ایرانی عالمی قوانین کے مطابق انہیں روٹ فراہم کریں تو سب کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اس وقت بھارت کے سب سے زیادہ تعلقات عرب ممالک کے ساتھ ہیں، ان پر کوئی سوال کھڑا نہیں کرتا۔ بھارت کی سب زیادہ قربت یو اے ای اور سعودی عرب کے ساتھ ہے، وہاں پر سب زیادہ ورکز بھارت سے جاتے ہیں۔ ہیومن ریسورس بھارت مہیا کر رہا ہے۔ پاکستان کے مزدور اور کام کرنے والے نہیں جا رہے بلکہ انڈیا کے جا رہے ہیں۔ اصل بات تو بھارت اور عرب ممالک کے بڑھتے ہوئے تعلقات پر ہونی چاہیئے، اصل بات وزیراعظم نواز شریف اور مودی کے تعلقات پر ہونی چاہیئے، لیکن اس پر کوئی بات نہیں کرتا۔ اگر ہمارے حکمران اپنی بیٹیوں کی شادی میں بھارتی وزیراعظم کو بلائیں تو ٹھیک ہے جبکہ ایران عالمی قوانین کے مطابق تجارت کیلئے روٹ فراہم کرے تو غلط ہے، کیا یہ انصاف ہے۔؟ یہ فقط یکطرفہ میڈیا پروپگینڈا ہے اور کچھ نہیں۔ جان بوجھ ایران پاکستان کے درمیان غلط فہمیاں ایجاد کی جا رہی ہیں، میں خود اس معاملے کو کئی فورم پر اٹھا چکا ہوں، بھارت کی چاہ بہار میں بس اتنی شمولیت ہے کہ وہ افغانستان کیلئے ٹرانسپورٹیشن کا کام کرتے ہیں۔ ایران کئی بار کہہ چکا ہے کہ پاکستان چاہ بہار میں اپنا کام شروع کرے، چاہ بہار سے گوادر تک روٹ مکمل کرے۔ آپ یہ سوچیں کہ پاکستان کوئی تعاون نہ کرے، وہ آپ کے باڈر تک اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کرکے گیس پائپ لائن سرحد تک پہنچا دے تو آپ اپنا کام شروع ہی نہ کریں، سرے سے تعاون نہ کریں، ان کی اتنی بڑی سرمایہ کاری کو فریز کر دیں۔ یہ کہاں کا انصاف ہوسکتا ہے۔

اسلام ٹائمز: سعودی عرب کی سربراہی میں 34 ملکی اتحاد پر کیا کہیں گے۔؟
ناصر عباس شیرازی:
اس اتحاد میں ان ممالک کو شامل نہیں کیا گیا جو دہشتگردی کا شکار ہیں، اس میں پسند ناپسند شامل کی گئی ہے، یعنی جو آپ کے ساتھ چلتے ہیں، وہ اس اتحاد کا حصہ ہیں، جو ساتھ نہیں ہیں، وہ اس اتحاد کا حصہ بھی نہیں ہیں۔ اس اتحاد کی کوئی منزل واضح نہیں اور نہ ہی اس کا ٹارگٹ واضح ہے، یہ فقط نفسیاتی حربہ ہے، اس سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ اہم بات یہ کہ ابھی تک دہشتگردی کی تعریف ہی نہیں ہے، اگر داعش شام میں بشار الاسد کے خلاف اقدام کرے تو جہادی اور اگر سعودی عرب کے خلاف اقدام کرے تو دہشتگرد کہلاتے ہیں، یہ دہرا معیار ہے، جس دہشتگردی کے خلاف جنگ لڑنی ہے، اس کی کوئی تعریف ہی نہیں ہے۔ یہ ایسے ہی بات ہے کہ جن طالبان کو سعودی عرب نے پالا تھا، اب وہ دہشتگرد بن گئے ہیں، ماضی میں یہ جہادی تھے۔ کس کو یاد نہیں کہ سعودی حکومت نے طالبان حکومت کو تسلیم کیا تھا۔ یہ خود ایک سوال ہے کہ دہشتگرد کون ہے؟ جو دنیا کا بدترین دہشتگرد ہے، لیکن آپ کے حق میں بات کرے یا آپ کیلئے کام کرے وہ دہشتگرد نہیں ہے، جو نہ کرے وہ دہشتگرد ہے۔ حد تو یہ ہے کہ اس اتحاد کو سنی اتحاد کا نام دیا گیا ہے اور امریکہ نے اس کی تعریف کی ہے اور ویلکم کیا ہے۔ یہ فرقہ وارانہ مسئلہ ہے اور یہ افورڈ نہیں کیا جاسکتا۔ یہ اتحاد جسے سنی اتحاد کا نام دیا گیا ہے اور حقیقت میں ایک خاص فکر پر مبنی اتحاد ہے جو پاکستان میں آگ لگائے گا۔ اس اتحاد میں کسی صورت شامل نہیں ہونا چاہیئے۔ ایک سوال ہے کہ جو مسلمہ دہشتگرد ہیں، جیسے اسرائیل ہے، کیا یہ اتحاد اس کے خلاف جہاد کیلئے آمادہ ہے۔؟ اگر یہ آمادہ ہے تو تمام اسلامی ممالک اس میں شامل ہوں گے۔ پھر یہ 34 کے بجائے 56 اسلامی ممالک پر مبنی اتحاد ہوگا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل کے خلاف لڑنے والوں کیخلاف اتحاد بنا ہے۔ اس اتحاد کے بننے سے سعودی بےنقاب ہوئے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 513227
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش