0
Monday 18 Jul 2016 23:34
تحریک انصاف پر مفاد پرستوں کا قبضہ ہے، کپتان اپنے ویژن سے منحرف ہو رہے ہیں

داعش، القاعدہ اور طالبان یہ سب مغرب کی پروڈکٹ ہیں، جسٹس ریٹائرڈ وجیہ الدین

داعش، القاعدہ اور طالبان یہ سب مغرب کی پروڈکٹ ہیں، جسٹس ریٹائرڈ وجیہ الدین
جسٹس وجیہ الدین پاکستان کی جانی پہچانی شخصیت ہیں، وہ سندھ مسلم لیگ کالج میں پروفیسر رہے، سندھ ہائی کورٹ میں چیف جسٹس اور سپریم کورٹ میں سینیئر جج کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں، وکلاء تحریک میں کافی متحرک رہے، اس کے علاوہ سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے بھی بڑے ناقد سمجھے جاتے ہیں، 2011ء میں سیاسی جدوجہد کا آغاز کیا اور پاکستان تحریک انصاف جوائن کرلی۔ آج کل تحریک انصاف کے ناراض رہنماوں میں شمار ہوتے ہیں، اس کے علاوہ پی ٹی آئی نے آپ کی بنیادی رکنیت بھی معطل کر رکھی ہے۔ ملکی حالات پر گہری نظر رکھتے ہیں، "اسلام ٹائمز" نے جسٹس وجیہ الدین سے خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا ہے۔ اس موقع پر تحریک انصاف کے دیگر رہنماء پیر ارشد ہاشمی، ڈاکٹر محمد احسن شفیق، ڈاکٹر محمد حفیظ قیصر، محمد شہزاد ورک اور احمد رضا خان کررانی بھی موجود تھے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: جو کام آپ تحریک انصاف میں رہ کرسکتے تھے، وہ باہر رہ کر تو نہیں کرسکتے، کیا یہ بہتر نہ تھا کہ آپ اپنی جدوجہد پی ٹی آئی میں رہ کر ہی جاری رکھتے۔؟
جسٹس ریٹائرڈ وجیہ الدین:
اہم سوال یہ ہے کہ میں نے اپنی جدوجہد تحریک انصاف سے الگ کب کی؟، ایک سال قبل پی ٹی آئی نے بغیر شوکاز نوٹس کے میری پارٹی ممبر شپ معطل کر دی، یہ روائتی سیاستدان سال بھر کیا ایک ہفتہ میں ہی مچھلی بے آب بن کر ختم ہو جاتے ہیں، ایک سال سے میں اس صورتحال کا سامنا کر رہا ہوں، حالانکہ میرا پی ٹی آئی میں اب کوئی رول نہیں رہا، پھر بھی میں نے پی ٹی آئی سے رشتہ جوڑا ہوا ہے، لیکن کیونکہ میرا نکتہ نظر عرصہ دراز سے پاکستان کے مخدوش حال عوام کیلئے کچھ کرنا ہے تو اس کیلئے عام انسان کی حیثیت سے ہیومن رائٹس ایکٹیوسٹ کے طور پر کام کر رہا ہوں۔ میں نے جنوری 2012ء میں تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی تھی، عمران خان صاحب خود میرے گھر پر تشریف لائے تھے، میں نے اس وقت عمران خان سے کہا تھا کہ اس ملک میں صحیح قیادت کی نشاندہی کرنا چاہتا ہوں، میں چاہتا ہوں کہ اس ملک میں جگہ جگہ جا کر دیکھا جائے کہ کہاں پر سیاسی پوٹیشنل موجود ہے۔ کسان اتحاد ہو یا ٹریڈ یونین، میں ان پر کام کرنا چاہ رہا ہوں، گراس روٹ لیول پر جاکر کل کے لیڈران کی نشاندہی کرنا چاہتا ہوں۔ گو کہ میری بنیادی رکنیت معطل ہے لیکن اس کے باجود میں سماجی کارکن کے طور پر ان کے ساتھ ہوں۔

اسلام ٹائمز: کیا کسان اتحاد کوئی سیاسی جماعت ہے۔؟
جسٹس ریٹائرڈ وجیہ الدین:
کسان اتحاد کوئی سیاسی جماعت نہیں ہے، سوشل اکنامکس فارم ہے، ہم ان کی مدد سے ایسا سیاسی پوٹینشل متعارف کروا سکتے ہیں، جو ملک کو مشکل حالات میں لیڈ کرسکے۔ میں خود کو پی ٹی آئی کا حصہ سمجھتا ہوں، لیکن جس قسم کے عناصر پچھلے کئی سال سے تحریک انصاف میں شامل ہو رہے ہیں اور جن کی شمولیت میں مزید اضافہ ہی ہو رہا ہے، میں ان کے ساتھ بیٹھنا گوارہ نہیں کرتا، اگر کوئی کہے کہ ان کے ساتھ ایک ٹیبل پر بیٹھ جائو تو میں معذرت کر لوں گا، اب جو خلیج پیدا ہوگئی ہے، یہ ایک مشکل صورتحال ہے، تحریک انصاف کی لیڈر شپ مجھے چھوڑ سکتی ہے لیکن میں انہیں نہیں چھوڑ سکتا۔

اسلام ٹائمز: کیا یہ سچ ہے کہ چیئرمین تحریک انصاف کو کچھ لوگوں نے گھیرا ہوا ہے۔؟
جسٹس ریٹائرڈ وجیہ الدین:
جی بالکل! ان میں ایک قبضہ گروپ ہے، انکی خوبی یہ ہے کہ ان کے پاس پیسہ ہے، سیاست ان کیلئے تجارت ہے، اس طرح کی خوبیوں کے مالک الیکشن تو جیت سکتے ہیں لیکن لوگوں کے دل نہیں جیت سکتے۔ خان صاحب کے ساتھ جن خیالات کی وجہ سے پارٹی میں شامل ہوا تھا، جس کو پی ٹی آئی نے خان صاحب کا ویژن کہا تھا، اب اس پر میں یہ تو نہیں کہتا کہ وہ اپنے ویژن سے ہٹ گئے ہیں لیکن میں یہ ضرور کہوں گا کہ اس وقت پی ٹی آئی کی باگ ڈور اب جن کے ہاتھوں میں ہے، ان کی وجہ سے یہ خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔

اسلام ٹائمز: اگر ایسے عناصر اس جماعت سے منسلک ہوگئے ہیں تو آپ مکمل لاتعلق کیوں نہیں ہوجاتے۔؟
جسٹس ریٹائرڈ وجیہ الدین:
میں غیر فعال ضرور ہوں لیکن لاتعلق تو ایک سخت لفظ ہے۔

اسلام ٹائمز: آئندہ پاکستان کا سیاسی منظر نامہ کیا دیکھ رہے ہیں۔؟
جسٹس ریٹائرڈ وجیہ الدین:
اس وقت جس طرح ملک کے حالات چل رہے ہیں، ایسے یہ ملک زیادہ عرصہ چل نہیں سکتا، جو ملک کی بہبود کے بارے سوچ رہے ہیں، ان کو یقینی طور پر اس بات کا احساس ہے، لیکن اس کا حل مشکل ہے۔ جس طرح کی ہمارے ہاں سیاست ہے، سیاست دان معاملات کو ٹھیک نہیں کرنا چاہتے جبکہ دوسری طرف ملک میں مارشل لاء اتنی بار لگ چکا ہے اور اتنی بار ناکام ہوا ہے کہ افواج پاکستان اس طرف دیکھنے سے یقینی طور پر کتراتی ہوگی۔ اب کیا حل نکلتا ہے، کوئی ان ہائوس تبدیلی آتی ہے، کوئی اس طرح کا انتظام ہوتا ہے کہ جس کے ماتحت اسمبلیوں سے ہی مینڈیٹ لیا جائے، مطلب غیر متنازعہ شخصیت کو ملک کی باگ ڈور دیدی جائے، پارلیمان ایک ایسی تبدیلی لاسکتی ہے جس کے تحت ایک غیر متنازعہ سیٹ اپ سامنے آسکتا ہے۔ ایسے بدمعاشوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے جو ٹیکس چوری کرتے ہیں، غلط طریقوں سے اپنا کام چلاتے ہیں۔ اس کیلئے کوئی فارمولہ لانا ہوگا۔ میرے خیال میں جس طرح اس وقت معاملات چل رہے ہیں ایسے نہیں چلیں گے۔

اسلام ٹائمز: آپ کی مراد ٹیکنوکریٹ کی حکومت ہے۔؟
جسٹس ریٹائرڈ وجیہ الدین:
جی! جس طرح سے فوجی عدالتوں کی پاکستان کے قوانین میں گنجائش نہیں تھی، لیکن آئین میں ترمیم کرکے کورٹس کا قیام عمل میں لایا گیا تو اسی طرح سے اگر آئین بھی اپنی جگہ محفوظ رہے اور چور چکار بھی پکڑیں جائیں تو اس طرح کا نظام لایا جاسکتا ہے۔

اسلام ٹائمز: جنرل راحیل شریف کی توسیع سے متعلق کیا کہتے ہیں۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ انہیں توسیع ملنی چاہیے۔؟
جسٹس ریٹائرڈ وجیہ الدین:
چیف آف آرمی اسٹاف نے مدت ملازمت میں توسیع لینے سے انکار کر دیا ہے اور یہ انکار بنتا بھی ہے۔ لیکن ملک اس وقت حالت جنگ میں ہے اور ان کی ملازمت نومبر میں ختم ہونے والی ہے، مجھے نظر نہیں آتا کہ کراچی اور جنوبی وزیرستان میں جو آپریشن جاری ہے، یہ پایہ تکمیل کو پہنچ پائے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ ابتداء میں جیسے آرمی چیف کی مدت چار سال تھی، اس کو چار سال ہی کر دینا چاہیے۔ اس طرح سے ان کو اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کا موقع مل جائے گا اور ادھورا کام بھی مکمل ہو جائے گا، ہاں یہ ضرور کہتا ہوں کہ اگر ان کو ایک سال اور ملتا ہے تو ان کے نیچے عہدیدران کو بھی ایک سال مزید ملنا چاہئے۔

اسلام ٹائمز: بعض لوگوں کا خیال ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر اسکی روح کے مطابق عمل نہیں کیا جا رہا، اسکو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال میں لایا جا رہا ہے۔؟
جسٹس ریٹائرڈ وجیہ الدین:
جی یہاں پر بہترین چیزوں کو بدترین مقاصد کیلئے استعمال کیا جاتا رہا ہے، اس لئے ہمارے لئے یہ کوئی اچھنمبے والی بات نہیں ہے، اگر اس پر صحیح طرح عمل درآمد ہو تو بہتری کی طرف جایا جا سکتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ نیشنل ایکشن پلان کو کسی حد تک سیاسی مقصد کیلئے استعمال میں لایا گیا ہے، تاہم مکمل طور پر نہیں کہہ سکتے۔

اسلام ٹائمز: کیا آپ بھی پاک سرزمین پارٹی کو اسٹیبلیشمنٹ کا مہرہ سمجھتے ہیں۔؟
جسٹس ریٹائرڈ وجیہ الدین:
اس ملک میں بہت سی سیاسی جماعتیں اسٹیبلشمنٹ کی پروڈکٹ ہیں، میں نام لینا چاہوں تو کئی نام لے سکتا ہوں، جہاں تک آپ کے سوال کا تعلق ہے کہ تو میں سمجھتا ہوں کہ پاک سرزمین پارٹی کو غالباً اسٹیبلشمنٹ کی اسپورٹ حاصل ہے۔ جب ایم کیو ایم معرض وجود میں آئی تھی تو اس کو بھی اسٹیبلشمنٹ کی اسپورٹ حاصل تھی، جنرل ضیاء الحق نے ایم کیو ایم کو خلق کیا تھا، میرے خیال میں یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔

اسلام ٹائمز: اسٹیبلشمنٹ کی جماعت ہونے کا الزام تو تحریک انصاف پر بھی لگتا ہے۔ اس پر کیا کہتے ہیں۔؟
جسٹس ریٹائرڈ وجیہ الدین:
میں نہیں سمجھتا، لیکن مشرف کی آشیرباد تھوڑی بہت ملی، لیکن وہ بات زیادہ نہیں چلی، اس کے بعد وہ ایک محتسب پارٹی کے طور پر ابھری اور ملک کی دوسری پارٹی کے طور پر اس وقت سامنے ہے۔

اسلام ٹائمز: میاں نواز شریف کی خارجہ پالیسی پر کیا کہتے ہیں۔؟
جسٹس ریٹائرڈ وجیہ الدین:
پاکستان کی خارجہ پالیسی سالہا سال سے اسی طرح چلی آ رہی ہے، آپ مغربی بلاک کے ساتھ پہلے بھی تھے آج بھی ہیں، لیکن خطہ کی صورتحال ایسی بن گئی ہے کہ مغرب بھارت کو چین کے خلاف کھڑا کرنا چاہتا ہے، بھارت کو مغرب کی اسپورٹ حاصل ہے، جاپان کو مغرب کی اسپورٹ حاصل ہے، اس کے علاوہ بھارت کو ایک بڑا مقام دینے کیلئے مغرب یہ چاہتا ہے کہ بھارت کو کشمیر کے بعد افغانستان میں بھی اہم رول دیدیا جائے۔ کشمیر تو پہلے ہی آپ کی شہ رگ حیات تھا تو پھر افغانستان تو دماغ ہے، مغرب کے ایران کے ساتھ تعلقات اچھے ہوگئے ہیں، چین کے ساتھ راہداری کا سلسلہ شروع ہوا ہے تو انہوں نے چاہ بہار سے افغانستان کیلئے راستہ نکالا ہے، یہ انٹرنیشنل اسٹریٹیجیز چل رہی ہیں جس کے محرک ہم نہیں ہیں، البتہ ہم متاثر ضرور ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ نواز شریف کی یہ پالیسی کہ وہ سب کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنا چاہتے ہیں، ان حالات میں یہ اچھی پالیسی ہے اور اسی پالیسی پر چلنا چاہئے، کشمیر کے معاملے پر او آئی سی ممالک کے ضمیروں کو جگانا چاہیے، مغرب اور انڈیا پر اقتصادی پریشر ڈالنے کی ضرورت ہے، اس معاملے کو اقوام متحدہ میں بھی بھرپور انداز میں اٹھانا چاہیے۔ کشمیر کے بارے میں حکومت کو محتاط رویے سے آگے بڑھنا چاہئے، کشمیروں کے ساتھ کھڑا ہونا چاہئے۔

اسلام ٹائمز: آپ ایک سابق جج بھی رہے ہیں، پاکستان کے عدالتی نظام پر کیا کہتے ہیں، آخر کیا وجہ بنی کہ فوجی عدالتیں بنانا پڑیں۔؟
جسٹس ریٹائرڈ وجیہ الدین:
پاکستان میں کوئی ایسی حکومت نہیں آئی کہ جس کی ترجیحات میں عدلیہ شامل ہو، بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ یہاں پر عدلیہ ہو ہی نہیں، پاکستان کا جاگیردار، وڈیرہ، خان، سردار دو نمبر کام کرتا ہے، وہ تعلیمی ادارے ختم کرتا ہے، تھانیدار کو قابو کرتا ہے، اس کی حکمت عملی ہوتی ہے کہ عدالتوں میں وہ کبھی نہ جائے، اب آپ دیکھیں کہ ایک جج کے پاس سو سو کیس ہوتے ہیں، جج اور عدالتیں ہیں ہی نہیں، ماتحت عدالتیں کبوتر خانے بنی ہوئی ہیں، جب میں سندھ ہائی کورٹ کا چیف جسٹس تھا تو اس وقت میں سیشن کراچی جیسی چھوٹی عدالتوں میں بیٹھا کرتا تھا، جہاں ریکارڈ روم جیسی کوئی جگہ نہیں ہوتی تھی، عدالتوں کی اسٹاف کے بیٹھنے کی کوئی جگہ نہیں تھی، میں عمرہ کی ادائیگی کیلئے گیا تو وہاں ایک عمارت دیکھی، دریافت کرنے پر معلوم ہوا یہ اتنی بڑی عمارت عدالت کی ہے، لیکن یہاں نالائق حکمرانوں کو نہ انصاف چاہئے، نہ عدالتیں، بس طاقت کے زور پہ کام کرنا چاہتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: کیا وجہ ہے کہ اب داعش سعودی عرب میں بھی کارروائیاں کر رہی ہے۔؟
جسٹس ریٹائرڈ وجیہ الدین:
داعش، القاعدہ اور طالبان یہ سب مغرب کی پروڈکٹ ہیں، ہم دیکھتے ہیں کسی مسلمان نے پیرس میں لوگوں کو مارا دیا یا ائیر پورٹ پر دہشتگردی کی کارروائی کر دی، جبکہ اصل صورتحال یہ ہے کہ لوگوں کو خریدا جاتا ہے اور پھر ان سے کام لیا جاتا ہے، یہ طالبان وغیرہ ان کی اپنی تیار کردہ پراڈکٹ ہیں، جب آگ سے کھیلیں گے تو اپنے ہاتھ بھی جلیں گے۔

اسلام ٹائمز: یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ضیاءالحق کس کی پراڈکٹ ہے۔؟
جسٹس ریٹائرڈ وجیہ الدین:
جنرل ضیاء الحق تو خود مغرب کی پروڈکٹ تھا، اسے بھٹو کو فارغ کرکے افغانستان کیلئے لایا گیا، یہ ایک حقیقت ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا آپ بھی سمجھتے ہیں کہ داعش پاکستان میں قدم جما رہی ہے۔؟
جسٹس ریٹائرڈ وجیہ الدین:
داعش کوئی چیز نہیں ہے، بنگلہ دیش میں کیا ہوا؟، چالیس پچاس پرانے معاملات کو اٹھایا گیا، جماعت اسلامی کے خلاف بےبنیاد سزائیں دی گئیں، لوگوں کے سر قلم کئے گئے، اب اگر بلی کو ایک کمرہ میں بند کیا جائے تو بتایئے کیا ہوگا؟، درجنوں واقعات ہوئے بنگلہ دیش میں۔ یہ کام حکومتوں سے کروائے جاتے ہیں۔ 1970ء میں جماعت اسلامی پاکستان کا حصہ تھی، انہوں نے پاکستان کو اسپورٹ کیا، جس کی آج انہیں سزا دی جا رہی ہے، میں پوچھتا ہوں کہ چالیس سال بعد کونسی گواہی مل گئی کہ جس کی بنیاد پر سزا دی جا رہی ہے۔
خبر کا کوڈ : 553472
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش