0
Tuesday 26 Jul 2016 23:53
میڈیا معاشرے کو لاشعوری طور پر مذہب سے دور اور سیکولرازم کی جانب مائل کر رہا ہے

شہید قائد کے افکار آج بھی ظلمت کی تاریکیوں میں امید و آگاہی کی کرنیں بکھیر رہے ہیں، سرفراز نقوی

ایم ڈبلیو ایم کی احتجاجی تحریک پاکستان میں تشیع کیلئے ابرکرم ثابت ہوئی ہے
شہید قائد کے افکار آج بھی ظلمت کی تاریکیوں میں امید و آگاہی کی کرنیں بکھیر رہے ہیں، سرفراز نقوی
سید سرفراز نقوی امامیہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی نائب صدر ہیں۔ بنیادی طور پر گوجرانوالہ سے تعلق رکھتے ہیں اور فیصل آباد زرعی یونیورسٹی میں ایم فل کے طالب علم ہیں۔ 2009ء میں آئی ایس او میں شامل ہوئے، آئی ایس او میں آنے کا سہرا یونیورسٹی کے دوستوں کے سر سجاتے ہیں۔ آئی ایس او میں آنے کے بعد پہلے فیصل آباد یونیورسٹی میں یونٹ نائب صدر کی ذمہ داریاں سرانجام دیں، پھر یونٹ صدر، اس کے بعد فیصل آباد ڈویژن کے ڈویژنل نائب صدر اور اس کے بعد فیصل آباد ڈویژن میں بطور ڈویژنل صدر ذمہ داریاں سرانجام دیتے رہے۔ اس کے بعد آئی ایس او کے مرکزی نائب صدر کی ذمہ داریاں گذشتہ دو سال سے ادا کر رہے ہیں، اسلام ٹائمز نے سید سرفراز نقوی سے ملاقات کا اہتمام کیا، اس میں ہونیوالی گفتگو انٹرویو کی صورت میں پیش خدمت ہے۔

اسلام ٹائمز: عصر حاضر میں اسلامی معاشرے کے قیام کیلئے ایک نوجوان کو کیسا ہونا چاہیئے۔؟
سید سرفراز نقوی:
اسلامی معاشرے میں ایک نوجوان کو نظریاتی حوالے سے پختہ ہونا چاہیئے۔ انقلابی و اجتماعی فکر سے منسلک فرائض دین کا پابند ہونا چاہیے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ نوجوان ہی معاشرے میں بدلاؤ کی کنجی ہیں۔ چنانچہ ایک تو نوجوانوں کے اپنے اندر اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی گزارنے کا جذبہ ہونا چاہیئے، بلکہ اجتماعی، انقلابی سوچ و فکر کا حامل ہونا بھی لازم ہے۔ عصر حاضر میں دشمن اسلام کی سب سے زیادہ کوشش یہی ہے کہ وہ نوجوانوں کو دین سے دور کرے، دین سے بیزار کرے۔ دشمن معاشرے میں اس سوچ کو پروان چڑھانا چاہتا ہے کہ آج کا نوجوان دین کو ترقی کی راہ میں رکاوٹ خیال کرے، جتنے جدید طریقوں سے دشمن نوجوانوں کی فکر اور اذہان پر حملہ آور ہے، نوجوانوں کو چاہیے کہ نہ صرف اپنے دشمن، اس کے طریقہ واردات سے باخبر رہیں بلکہ انقلابی و اجتماعی سوچ کی ترویج سے اسے ناکام بنائیں۔ پاکستان جیسے ممالک میں اجتماعی سوچ کو پنپنے نہیں دیا جاتا بلکہ اجتماعی سوچ و فکر کی حوصلہ شکنی کرکے انفرادی سوچ و فکر کی ترویج وحوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔

اسلام ٹائمز: اسلامی معاشرے کی تشکیل میں کن مشکلات سے واسطہ پڑتا ہے۔؟
سید سرفراز نقوی:
سب سے بڑا چیلنج یہی ہے کہ دشمن چاہتا ہے کہ وہ نوجوان کو اسلام سے زیادہ
سے زیادہ دور کرے۔ اس سلسلے میں میڈیا انتہائی اہم کردار ادا کررہا ہے، میڈیا لاشعوری طور پر معاشرے کو دین سے دور اور سیکولرازم کی جانب مائل کرتا ہے۔ یہ حقائق آن دی ریکارڈ ہیں کہ ہالی، بالی یا لولی وڈ یکھنے والوں کے نظریات تبدیل ہوتے ہیں۔ پہلے وہ سیکولر ازم کے حامی اور پھر مذہب سے دور ہوکر رفتہ رفتہ مذہب کو ترقی کی راہ میں رکاوٹ خیال کرتے ہیں۔ میڈیا لاشعوری طور پر انہیں دین سے اتنا دور کرتا ہے کہ وہ نہ صرف مذہب کو مسائل کی وجہ سمجھتے ہیں بلکہ اقتصادی، معاشی مسائل کی وجہ بھی مذہب کو ہی خیال کرتے ہیں۔ حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے اگر صحیح معنوں میں دین پر عمل کیا جائے تو زندگی کے ہر شعبہ میں ترقی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ انقلاب اسلامی ایران کی مثا ل ہمارے سامنے ہے۔

اسلام ٹائمز: پاکستان میں کن مسائل کی وجہ سے تشیع کا قومی کردار ابھر کر سامنے نہیں آیا۔؟
سید سرفراز نقوی
:
دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی تشیع کو مسائل و چیلنجز کا سامنا ہے۔ یہ مسائل و چیلنجز وہی ہیں جو عالمی سامراج دنیا میں تشیع کے خلاف پیدا کررہا ہے۔ اس کا مقصد دیگر مقامات کی طرح یہاں بھی تشیع کے کردار کو سامنے آنے سے روکنا ہے، تاکہ اسلام حقیقی کو غلبہ حاصل نہ ہو، یہ حکومت کا حصہ نہ بنیں۔ اس کے علاوہ تشیع یعنی اسلام حقیقی کا راستہ روکنے کیلئے معاشرے میں ترقی پسندیا ترقی پذیر سوچ کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے اور متعصبانہ، تنگ نظر سوچ کی پذیرائی و ترویج جاری ہے۔ مقصد یہی ہے کہ اس تنگ نظر اور متعصبانہ روش کو تشیع کے خلاف ایک ٹول کے طور پر استعمال کیاجائے۔ ہم غور کریں تو ہمیں نظر آئے گا کہ اس متعصب سوچ و فکر کو محض تشیع کا راستہ روکنے کیلئے ہی فروغ بھی دیا جارہا ہے اور استعمال بھی کیا جارہا ہے۔ گرچہ یہ سوچ تشیع کی کھلی دشمن ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ چونکہ عالمی سطح پر پہلے سے ہی تشیع اس سوچ و فکر سے نبرد آزما ہے اور تشیع کیلئے یہ سوچ مشخص دشمن ہے ، چنانچہ اس سوچ و فکر سے جتنا نقصان تشیع کو پہنچ رہا ہے ، اس سے کہیں زیادہ وطن عزیز پاکستان کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ تعصب، تنگ نظری، عدم برداشت اور تکفیر پاکستان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں، پاکستان کے تشخص کو نقصان پہنچا رہے ہیں، قومی اداروں کے کردار پر ایک
بدنما داغ کی طرح ابھر کر سامنے آرہے ہیں۔ چنانچہ میری رائے میں تشیع سے زیادہ پاکستان کیلئے ضروری ہے کہ اس سوچ ، فکر اور رویے کے خلاف عملی اقدامات کرکے اس کا خاتمہ کرے۔

اسلام ٹائمز: پاکستان میں تشیع پر جو بیرونی مسائل مسلط کئے گئے ہیں، ان کی نشاندہی فرمائیں۔؟
سید سرفراز نقوی:
ایک تو ابھی جو بات جاری تھی کہ تنگ نظری، متعصبانہ روش، تکفیری سوچ و فکر بھی باہر ہی سے مسلط کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ میڈیا کے ذریعے فحاشی، عریانی اور غیر محسوس طریقے سے معاشرے سے اسلامی اقدار کے خاتمے کیلئے جاری مذموم کوششیں بیرونی ہیں۔ دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ جس میں تشیع سے تعلق رکھنے والے ان افراد کو خاص طور پر تسلسل کیساتھ نشانہ بنایا جارہا ہے۔ جو معاشرے میں دوسرے افراد کیلئے آئیڈیل ہیں یا پھر عملی طور پر اپنی قابلیت، کردار کے بل بوتے پہ معاشرے میں اثرو نفوذ رکھتے ہیں، یا اپنے شعبہ جات میں مہارت کے باعث ملک و قوم کی ترقی و شہرت کا باعث بن رہے ہیں۔ دشمن ان غیرانسانی حربوں سے اپنے مقاصد کے حصول کی کوشش کرتا ہے۔ دشمن پہلے دہشت گردی کے ذریعے کارآمد انسانوں کو نشانہ بناتا ہے، پھر اس سے قومی سطح پر مایوسی پیدا کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ اس کے بعد پائی جانے والی مایوسی کو تکفیری متعصبانہ روش کو معاشرے میں ایک کامیابی کے طور پر منوانا چاہتا ہے۔ فطرت انسانی ہے کہ جب کوئی بھی چیز کامیابی کے طور پر شہرت حاصل کرے تو معاشرے میں مقبول ہوتی ہے۔ ہمارے دشمن نے تکفیری روش کو نہ صرف ملک پر مسلط کیا بلکہ اسے کامیابی کے لبادہ بھی پہنانے کی کوشش کی، جس کے باعث معاشرے میں اس کا نفوذ شدت کے ساتھ اور جلدی ہوا۔ شہید قائد کے بعد تشیع کو مایوسی نے لپیٹ میں لیا، جس کا مناسب تدارک نہیں کیا جاسکا۔ ابھی ایسے افراد کی ضرورت ہے جو شہید قائد کی طرح قوم کو جذب کرکے مایوسی کے اندھیروں میں امید کا سورج ثابت ہو۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اتحاد بین المومنین کو زیادہ سے زیادہ فروغ دیا جائے۔ دشمن کا ایک اہم ہدف تشیع کی تقسیم در تقسیم ہے۔

اسلام ٹائمز: شہید قائد کو جو امیدیں آئی ایس او سے وابستہ تھیں، کیا وہ ان پر پورا اتری ہے۔؟
سید سرفراز نقوی:
اس میں کوئی دوسری رائے نہیں ہے کہ الحمداللہ جس مقصد کیلئے آئی ایس او کا قیام عمل
میں آیا تھا، آئی ایس او آج بھی اسی خط پر کاربند ہے، اور یہ وہی خط ہے جس پر شہید قائد بھی تھے۔ البتہ معاشرے پر میڈیا کی یلغار کی وجہ سے نوجوانوں کو دینی اور اجتماعی امور کی جانب لانا ایک چیلنج بن چکا ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ نوجوانوں میں زیادہ سے زیادہ اجتماعی امور کا شعور بھی بلند کریں۔ شہید قائد کے افکار سے جو ملا ہے، تنظیمی حلقے زیادہ سے زیادہ انہی اقدار کا احیاء کریں۔ آئی ایس او کے جوانوں کی جہت کی سمت آج بھی وہی ہے جس کی نشاندہی رہبر معظم نے فرمائی، یا شہید قائد جس کی تلقین کرگئے۔ آئی ایس او کے اداروں، مربیان کی کوشش ہوتی ہے کہ مسئولین و کارکنان میں الہی اقدار کو زندہ رکھا جائے۔

اسلام ٹائمز: آپ نے کہا کہ شہید قائد کے بعد قومی مایوسی کا سدباب نہیں ہوسکا، ایم ڈبلیو ایم کے سربراہ علامہ راجا ناصر کی بھوک ہڑتال اور احتجاجی تحریک سے متعلق کیا خیال ہے۔؟
سید سرفراز نقوی:
اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ ایم ڈبلیو ایم اور علامہ راجا ناصر عباس صاحب کی حالیہ تحریک سے مایوسی کی لہر کاخاتمہ ہوا ہے اور تشیع ایک نئے عزم اور ولولے کے ساتھ میدان میں حاضر ہوئی ہے۔ اگر پاکستان میں ہونے والے مظالم اور جانبدارانہ ریاستی اقدامات کے خلاف یہ احتجاجی تحریک نہ اٹھتی تو کچھ عرصے بعد ظلم میں مزید اضافہ ہونا تھا۔ علامہ راجا ناصر عباس کی بھوک ہڑتال اور احتجاجی تحریک کی بدولت ہی نہ صرف اہل تشیع بلکہ اہل سنت، بریلوی و دیگر مکاتب نے اپنے تحفظ کیلئے اور تکفیریت کے خلاف آواز بلند کرنے کا حوصلہ پایا ہے۔ آج شہر شہر میں حقوق کے حصول کیلئے ہونے والے مظاہرے، شیعہ کلنگ کے خلاف بلند ہوتی صدائے احتجاج اسی احتجاجی تحریک کا ایک ثمر ہے۔ جہاں تک شہید قائد کے بعد پیدا ہونے والے خلاء کی بات ہے تو شہید قائد سے والہانہ محبت اور عاشقانہ لگاؤ اس امر کا متقاضی ہے کہ ان کی عدم موجودگی کا خلاء ہمیشہ خلاء ہی بن کر محسوس ہوتا رہے، یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ بے مثال قائد تھے، ان کے افکار آج بھی ظلمتوں کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں امید و آگاہی کی کرنیں بکھیر رہے ہیں۔ ضروری ہے کہ شہید قائد عارف حسین الحسینی کے افکار سے بھرپور استفادہ کیا جائے۔

اسلام ٹائمز: ایم ڈبلیو ایم کی جو احتجاجی تحریک جاری ہے ، موجودہ
حالات کے تناظر میں کیا یہ اکلوتا آپشن تھا۔؟
سید سرفراز نقوی:
بات یہ ہے کہ جب بھی کسی قوم کے خلاف دہشت گردی، اہدافی قتل کا سلسلہ شروع ہوتا ہے تو عمومی طور پر ایک خوف کی فضا جنم لیتی ہے۔ اگر اس کا بروقت تدارک نہ کیا جائے تو یہی فضا قومی مایوسی میں تبدیل ہوکر بالآخر بے حسی میں بدل جاتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ چونکہ قوم نشانے پر ہوتی ہے لہذا عوامی جذبات کے اظہار کا سلسلہ بھی وقتی طور پر منقطع ہوجاتا ہے۔ اگر اس کا بھی بروقت تدارک نہ کیا جائے تو قوم سائلنس زون میں تبدیل ہوکر رہ جاتی ہے، جو مردہ ہونے کی علامت ہے۔ پاکستان میں ملت تشیع کے ساتھ عرصہ دراز سے جوگھناؤنا کھیل کھیلا جارہا ہے۔ اس پر مزید خاموشی پوری قوم کو مردہ کرنے کے مترادف تھی۔ اس کے علاوہ اتنے ظلم کے بعد بھی اگر قوم کی جانب سے کوئی ردعمل ظاہر نہ ہوتو دشمن سمجھتا ہے کہ اس نے قوم کو بے بس کرکے اپنے قابو میں کرلیا ہے۔ علاوہ ازیں قومی سطح پر پائی جانے والی خاموشی حکمرانوں کو بھی یہ حوصلہ فراہم کرتی ہے کہ وہ ظلم کی تائید میں شامل رہیں۔ چنانچہ اس تناظر میں شائد کہ یہ اکلوتا ایسا عمل تھا جس نے ملت کو مایوسی سے نکال کر جذبات کے اظہار کا موقع فراہم کیا ہے، جس سے نہ صرف اپنے پرائے ظلم سے برائیت کا اظہار کررہے ہیں بلکہ حکمران اور ریاستی ادارے بظاہر ہی سہی مگر ظالموں کے خلاف حرکت پر مجبور ہیں۔ میرے خیال میں یہ احتجاجی تحریک تشیع کیلئے ابر کرم ثابت ہوئی ہے۔

اسلام ٹائمز: دہشتگرد جتنا نقصان تشیع کو پہنچا رہے ہیں اس سے زیادہ پاکستان کو پہنچا رہے ہیں، ان دہشتگردوں کیلئے نرم گوشہ کیا اداروں کی حب الوطنی پر سوالیہ نشان نہیں ہے۔؟
سید سرفراز نقوی:
قیام پاکستان میں تشیع کا کردار کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ ہم اس لیے کہتے ہیں کہ پاکستان بنایا تھا پاکستان بچائیں گے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ اداروں میں کچھ ایسی کالی بھیڑیں موجود ہیں جو تشیع اور پاکستان کے دشمن تکفیریوں کی اعلانیہ مدد کرتی ہیں۔ ان کی سوچ و رائے کو تقویت فراہم کرتی ہیں۔ انہیں وسائل اور مواقع فراہم کرتی ہیں۔ دہشت گرد عناصر کا خاتمہ اتنا مشکل نہیں، مگر ضروری ہے کہ ان اداروں سے انہیں مدد ملنی بند ہو، جو ادارے ان کے خلاف متحرک ہیں۔ تشیع کے تحفظ کیلئے
تو کسی حد تک یہ ضروری ہے مگر پاکستان کی سالمیت، خودمختاری کیلئے ان کالی بھیڑوں اور دشمنوں کا خاتمہ ناگزیر ہے۔ اس میں تو کوئی دورائے نہیں ہیں کہ بدامنی کیساتھ کوئی بھی معاشرہ ترقی نہیں کرسکتا ، چنانچہ ترقی کیلئے امن اور امن کیلئے دہشتگردوں اور دہشتگردانہ سوچ کاخاتمہ ضروری ہے۔ پائیدار قیام امن کیلئے ان کالی بھیڑوں کا خاتمہ ازحد ضروری ہے کہ جو ان عناصر کی مدد کرکے ریاست، عوام کے ساتھ غداری کررہی ہیں۔

اسلام ٹائمز: ڈی آئی خان دہشتگری کی لپیٹ میں ہے، آپ وہاں گئے، شہداء کے خانوادوں سے ملے، اس حوالے سے اپنے احساسات و جذبات سے آگاہ فرمائیں۔؟
سید سرفراز نقوی:
برادر سید شاہد عباس شیرازی کی شہادت سے ڈیرہ میں ایک ہی دن میں جو چار شہادتیں ہوئی ، اس وقت میں ڈی آئی خان گیا ۔ زیادہ تفصیل میں نہیں جاؤنگا۔ ڈی آئی خان کے لوگ مایوسی کا شکار ہیں۔ پے درپے سانحات اور اس کے بعد قیادت کی جانب سے نتیجہ خیز اقدامات کا نہ ہونا ڈیرہ کے تشیع میں مایوسی کا باعث بنا اور جو کسی حدتک بے حسی میں بدل چکی ہے۔ میں اس حوالے سے وہاں کے شہریوں کو مورد الزام نہیں ٹھہراؤنگا۔ مسئلہ یہ ہے کہ اب تک جتنے بھی سانحات ہوئے اور ان کے بعد جو بھی لائحہ عمل پیش ہوا، وہ نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوا۔ اس کے علاوہ علماء کی کمی کے باعث وہاں تبلیغاتی ، مذہبی انقلابی سوچ و فکر کی ترویج نہیں ہوئی۔ وہاں کے افراد میں تنظیم سازی نہ ہونے کے باعث اجتماعی فکر پر انفرادی سوچ حاوی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ نظریاتی،فکری اور انقلابی سوچ کی ترویج کرکے لوگوں میں اجتماعی ذمہ داریوں کے احساس کو اجاگر کیا جائے۔ اس کے علاوہ شاہد بھائی کے جنازے پر ہونے والے دھرنوں اور احتجاج سے پہلے کبھی اس نوعیت کے احتجاج نہیں ہوئے ۔ ان مظاہروں و دھرنوں میں شہریوں کی بھرپور شرکت اس امر کی غماز ہے کہ وہ بیداری آسکتی ہے ، اگر علماء صحیح معنوں میں معاشرہ سازی پر توجہ دیں۔

اسلام ٹائمز: نوجوانوں کے نام کوئی پیغام۔؟
سید سرفراز نقوی:
دین کے بنیادی احکامات و فرائض کی ادائیگی بطریق احسن انجام دیں، قرآن، حدیث، نہج البلاغہ، صحیفہ کاملہ کو معمولات میں شامل کریں اور رولی وقت ہبر معظم کے ارشادات کو بغور سنیں ، پڑھیں، ان سے رہنمائی حاصل کریں
خبر کا کوڈ : 555558
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش