0
Thursday 22 Sep 2016 23:31
سانحہ ماڈل ٹاؤن اور پاناما لیکس حکومت کو لے ڈوبیں گے

امریکہ کسی صورت پاک بھارت جنگ نہیں ہونے دے گا، خورشید قصوری

مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے آخر ایک دن بھارت کو مذاکرات کی میز پر آنا ہی پڑے گا
امریکہ کسی صورت پاک بھارت جنگ نہیں ہونے دے گا، خورشید قصوری
خورشید محمود قصوری ممتاز قانون دان اور سابق وزیر خارجہ ہیں۔ وہ 18 جون 1941ء کو پیدا ہوئے۔ وہ 2002ء سے 2007ء تک پاکستان کے وزیر خارجہ رہ چکے ہیں۔ 1993ء میں قصور این اے 142 سے مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے الیکشن میں حصہ لیا اور کامیاب ہوئے۔ تحریک استقلال میں بھی رہے ہیں۔ آج کل پاکستان تحریک انصاف سے وابستہ ہیں۔ بہترین لکھاری ہیں، پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے کتاب بھی لکھ چکے ہیں۔ ملکی و غیر ملکی صورتحال پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے کشمیر کی موجودہ صورتحال کے حوالے سے لاہور میں ان کیساتھ ایک نشست کی، جسکا احوال قارئین کیلئے پیش کیا جا رہا ہے۔ یاد رہے کہ یہ انٹرویو وزیراعظم نواز شریف کے اقوام متحدہ میں خطاب سے قبل کیا گیا تھا۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: کشمیر میں تحریک آزادی سے پاک بھارت تعلقات ایک بار پھر کشیدہ ہوچکے، جنگ کی باتیں ہو رہی ہیں، بھارت کشمیریوں کی تحریک کو دبانے کی کوشش کر رہا ہے، کیا پاکستان کو اقوام متحدہ میں یہ مسئلہ نہیں اٹھانا چاہیے۔؟؟
خورشید محمود قصوری:
وزیراعظم پاکستان اقوام متحدہ جا رہے ہیں، انہیں چاہیے کہ وہ مسئلہ کشمیر کو بھرپور انداز میں پیش کریں، تاکہ دنیا پر حقیقت واضح ہو جائے، اب تو یہ حال ہے کہ بھارت نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے وفد کو مقبوضہ کشمیر تک رسائی دینے سے ایک بار پھر انکار کر دیا ہے۔ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کے مطابق بھارت اور پاکستان سے کشمیر کے دونوں اطراف کے دورے کی اجازت مانگی تھی، جس کی پاکستان نے اجازت دیدی، تاہم بھارت کی جانب سے کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ بھارت 7 دہائیوں سے کمشیری عوام کے جذبہ آزادی کو بندوق کے زور پر دبانے کی کوشش کر رہا ہے، مگر کشمریوں نے 80 ہزار سے زائد جانوں کا نذرانہ پیش کرکے دنیا پر ثابت کر دیا ہے کہ کوئی بھی طاقت کسی قوم کے جذبہ آزادی کو کنٹرول نہیں کرسکتی۔ حریت کمانڈر برہان وانی کی شہادت کو 2 ماہ سے زائد عرصہ گزر چکا ہے مگر آج بھی کشمیری نوجوان سراپا احتجاج ہیں، آزادی کیلئے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور سب سے بڑی فوج سے ٹکرا رہے ہیں۔ 7 لاکھ بھارتی قابض فوج اپنی پوری قوت اور بربریت کے باوجود کشمیریوں کی تحریک آزادی کو دبانے میں کامیاب نہیں ہوسکتی۔

بھارتی فوج مسلمان دشمنی میں پیلٹ گنز کے بہیمانہ استعمال سے 10 ہزار سے زائد افراد کی آنکھوں کا نور چھین کر بھی ان کے دلوں سے آزادی کی شمع کو بجھا نہیں سکی۔ یہ کشمیریوں کی بے مثال قربانیوں کا ہی ثمر ہے کہ عالمی برادری اپنے تمام تر مفادات اور سیاسی مصلحتوں کے باوجود کشمیریوں پر مظالم کی مذمت کرنے پرمجبور ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی پر تشویش کا اظہار کیا تو خود بھارت نے انسانی حقوق کی تنظیموں پر کشمیریوں کے حق میں آواز اٹھانے کی پاداش میں پابندی لگا دی گئی ہے بلکہ ایک تنظیم کے عہدیداروں کیخلاف بغاوت کے مقدمات درج کرکے ان کو ہراساں کرنے کی کوشش بھی کی گئی ہے۔ مگر بھارتی حکمران کشمیر بارے اقوام عالم کو جس قدر گمراہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، اسی شدت سے عالمی سطح پر کشمیریوں کے حق میں آواز اٹھائی جا رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کے ہائی کمشنر نے وادی کے حالات کا جائزہ لینے کیلئے پاکستان اور بھارت کے علاقوں میں دوروں کی اجازت طلب کی تھی۔

اسلام ٹائمز: اس صورتحال میں حکومت کی کیا ذمہ داری بنتی ہے۔؟؟
خورشید محمود قصوری:
بھارت کی وزارت خارجہ کے ترجمان وکاس سوروپ نے اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کے سربراہ اور وفد کو کشمیر کے دورے کی اجازت دینے کی بجائے کہا ہے کہ دہشتگردی انسانی حقوق کی سب سے بڑی خلاف ورزی ہے۔ ریاستی دہشتگردی کو دانستہ نظرانداز کر گئے ہیں۔ کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کا ہی ثمر ہے کہ آج عالمی برادری کشمیریوں کے حق میں آواز اٹھا رہی ہے اور بھارت کو مسئلہ حل کرنے کی تنبیہہ کی جا رہی ہے۔ ان حالات میں پاکستان پر لازم ہو جاتا ہے کہ عالمی ضمیر کو جگانے کیلئے تمام تر وسائل اور توانائیاں صرف کرے۔ حکومت نے عالمی سطح پر مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کیلئے پارلیمانی وفد کو مختلف ممالک بھجوانے کا فیصلہ کیا جو لائق تحسین ہے، مگر بہتر ہوتا کہ حکومت پارلیمانی وفود کیساتھ دنیا بھر میں موجود کشمیریوں کے اہم اور موثر افراد کو آزادی سفیر مقرر کرتی، تاکہ وہ اپنے اپنے ممالک میں نہ صرف بھارتی مظالم سے اپنے ممالک کے عوام اور حکمرانوں کو آگاہ کریں بلکہ دنیا بھر میں شعور کی بیداری کیلئے احتجاجی مظاہروں کا اہتمام بھی کریں اور عالمی برادری کو بھارت کی ریاستی دہشتگردی کے شواہد مہیا کرے۔ اسی طرح حکومت کو کشمیر کا معاملہ اقوام متحدہ کے ساتھ او آئی سی میں بھی پوری شدت کیساتھ اٹھانا چاہیے، تاکہ مسلم امہ بھی کشمیریوں کی حمایت میں آواز اٹھائے، کیونکہ بھارت کا یہ وطیرہ رہا ہے کہ جب بھی پاکستان کشمیر میں مظالم کی بات کرتا ہے تو بھارت حکمران دراندازی کا رونا رو کر اقوام عالم کو گمراہ کرتے ہیں، اگر دیگر مسلمان ممالک بھی کشمیریوں کے حق میں آواز بلند کریں گے تو عالمی برادری کشمیر تنازع بہتر طور پر سمجھ سکے گی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کیساتھ مسلمان ممالک بھی اقوام متحدہ پر دباؤ بڑھائیں، تاکہ بھارت کو تنازع کشمیر کے بامقصد اور نتیجہ خیز حل کیلئے مجبور کیا جائے اور خطے کی سلامتی اور خوشحالی کو یقینی بنایا جا سکے۔

اسلام ٹائمز: بھارت نے پاکستان کیخلاف افغانستان کو بھی اپنا ہم نوا بنا لیا ہے، دوسری جانب یہاں آپریشن ضرب عضب بھی جاری ہے، کیا تمام سیاسی جماعتوں کو ملکی سلامتی کیلئے ایک پیج پر نہیں ہونا چاہیئے۔؟؟
خورشید محمود قصوری:
الزام تراشیاں سب ایک دوسرے کیخلاف کرتے ہی رہتے ہیں، ہمیں اس وقت تمام مسائل سے گزر کر اپنی تمام تر ترجیحات دہشتگردی کے خاتمے کی طرف مبذول کرنا ہوں گی۔ دہشتگردوں نے ہمارے ملک کا بہت نقصان کر لیا، اب ہمیں دہشتگردی کو جڑ سے اکھاڑ ہی دینا چاہیے۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ پتہ چلایا جائے کہ ملک میں سے کہاں کہاں سے انہیں مدد مل رہی ہے اور کون سے عناصر ان کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ ڈرون حملے نے ایک بار پھر ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اس سے ایک بار پھر قومی ساکھ اور وقار کو دھچکا لگا ہے۔ فوج نے جس طرح آپریشن ضرب عضب شروع کر رکھا ہے، اس سے قوم مطمئن ہے مگر افغانستان کے راستے آنیوالے دہشتگرد ملک کے حساس مقامات کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ اس کیلئے ہمیں کھل کر افغان حکومت سے بات کرنی چاہیے۔ ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ حکومت افغانستان دہشتگرد بھیج رہی ہے، البتہ ان کے علاقے سے دہشتگرد ادھر آ رہے ہیں۔ اس میں بھارتی عناصر بھی ملوث ہیں، جو پاکستان میں استحکام پیدا ہوتا نہیں دیکھ سکتے۔ دہشتگردوں کے سہولت کاروں اور ان کے ساتھیوں پر قابو پائے بغیر ہم اس ناسور کو ختم نہیں کرسکتے۔ اس کیلئے تمام سیاسی و دینی پارٹیوں کو ایک صف میں آنا ہوگا، اسی میں ملک کی بقا کا راز پنہاں ہے۔ ہم مضبوط ہوں گے تو بھارت و افغانستان سمیت کوئی بھی ملک ہم پر انگلی نہیں اٹھا سکتا۔ اس کیلئے قومی اتحاد کی ضرورت ہے۔

اسلام ٹائمز: آپ پاکستان کے وزیر خارجہ رہے ہیں، آپ پاک بھارت کی موجودہ صورتحال کو کس نظر سے دیکھتے ہیں، کیا حالیہ کشیدگی ایٹمی جنگ کیطرف تو نہیں جا رہی۔؟؟
خورشید محمود قصوری:
آخر کار کشمیر ایشو پر بات چیت تو دونوں ملکوں کو کرنا پڑے گی، مودی چاہے یا نہ چاہے، کیونکہ اس کے علاوہ کوئی راستہ ہی نہیں، پاکستان اور انڈیا میں 60 کروڑ لوگ خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں اور میرے دور میں 10 لاکھ فوجی آئی بال ٹو آئی بال آمنے سامنے 11 ماہ کھڑے رہے، اس کا کیا فائدہ ہوا؟ ہم نے 5 جنگیں لڑیں، 3 بڑی اور 2 چھوٹی، کیا ملا؟ میں کہوں گا کہ اب آپ اگر تاریخ میں کامیاب وزیراعظم کے طور پر نام لکھوانا چاہتے ہیں تو آپ کو پالیسی بدلنا پڑے گی اور واپس میز پر آنا پڑے گا، نہیں تو دونوں ممالک کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بھارت جو عالمی طاقت بننے کا خواب دیکھ رہا ہے وہ بھول جائے، بہت سی ایسی چیزیں ہوں گی، جو دونوں ممالک کیلئے مضر ہوں گی۔ مزید کھل کر نہیں کہہ سکتا۔ دونوں کے پاس تباہ کن ایٹمی مواد ہے، دونوں کے پاس کروز میزائل ہیں، دونوں کے پاس بیلسٹک مزائل ہیں، دونوں کے پاس ایسی صلاحتیں بھی ہیں کہ اگر ایک ملک چھپ کر ایٹمی حملہ کر دے تو وہ خود بھی نہیں بچے گا، کیونکہ سمندر میں جو سب میرینز ہی،ں ان پر نیوکلیئر میزائل لگے ہوئے ہیں، جو اس حملے کو راستے میں ہی تباہ کرکے ناکام بنا دیں گے۔ اس لئے بات چیت کے علاوہ کوئی راستہ نہیں۔ بھارت کیلئے ایک پیغام ہے کہ پاکستان دنیا کا 5واں بڑا ملک ہے، آپ بھی بہت بڑے ملک ہیں، آپ کے پاس دنیا کی دوسری بڑی فوج ہے، پاکستان کے پاس چوتھی بڑی فوج ہے، پاکستان بھارت کو جلد مذاکرات کی طرف جانا پڑے گا۔ پاکستان اور انڈیا میں سے کوئی بھی جنگ نہیں جیت سکتا، کیونکہ دونوں ایٹمی طاقت ہیں، اگر انڈیا اور پاکستان جنگ بھی کر لیں پھر بھی بات چیت کرنا پڑے گی، جنگ مسئلہ کا حل نہیں۔

اسلام ٹائمز: پاکستان کے سیاسی و داخلی معاملات میں امریکہ نے ہمیشہ کردار ادا کیا ہے، اب امریکہ کا جھکاؤ پوری طرح بھارت کی طرف ہے، اس سے مستقبل کیسا دیکھ رہے ہیں۔؟؟
خورشید محمود قصوری:
ہر ملک اپنا مفاد چاہتا ہے، دور کوئی بھی ہو، مشرف کا ہو یا آج کا، امریکہ نے اپنے مفاد پر چلنا ہے، دیکھیں، چین اور امریکہ کا تصادم ہے، چین، روس، پاکستان اور افغانستان کا ایک مفاد ہے، امریکہ کبھی نہیں چاہے گا کہ پاکستان کی جنگ ہو جائے۔ اگر ایسا ہوا تو اب افغانستان کا حشر عراق جیسا ہوگا اور امریکہ نے جو وہاں کھربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے، وہ وہاں سے رسوا ہو کر نکلا، اب امریکہ کبھی نہیں چاہیے گا کہ پاکستان اور انڈیا کی جنگ ہو، کیونکہ جنگ نہ ہونے میں ہی اس کا مفاد ہے۔ امریکہ کے اپنے مفادات ہیں، ہر ملک وقت کیساتھ پالیسیاں بدلتا ہے۔ جب ہم نے ایٹمی دھماکے کا پروگرام بنایا تو ایک طرف حکومت پر امریکہ کا دباؤ تھا کہ دھماکے نہ کریں اور دوسری طرف قوم کا بہت زیادہ دباؤ تھا۔ اس وقت میں کابینہ میں نہیں بلکہ پارلیمنٹ میں تھا، ہم اس بات پر بالکل کلیئر تھے کہ بھارت کو جواب دینا چاہیے، غیر ممالک کا بڑا پریشر تھا، کلنٹن کے فون آتے تھے کہ اتنا پیسہ لے لیں دھماکے نہ کریں، اس وقت صورتحال یہ تھی کہ یا تو میاں صاحب دھماکہ کریں گے یا کوئی اور دھماکہ ہو جائے گا۔ مطلب یہ کہ کوئی راستہ نہیں تھا۔

اسلام ٹائمز: آج ملک نازک ترین دور سے گزر رہا ہے، کیا آپ نہیں سمجھتے کہ اسے ایک فل ٹائم وزیر خارجہ کی ضرورت ہے۔؟؟
خورشید محمود قصوری:
جس ملک کا وزیر خارجہ ہی نہ ہو، ملک مشکلات میں گھرا ہوا ہو اور وہاں وزیراعظم خود وزیر خارجہ بنے بیٹھے ہوں، ان سے پوچھیں کہ کیا آپ کو کوئی اور کام نہیں؟ وزارت خارجہ کیلئے فل ٹائم بندہ چاہیے ہوتا ہے، ہمیں ہر وقت حرکت میں ہونا چاہیے کیونکہ حالات ہی ایسے ہیں، بین الاقوامی معاملات کیا خاک حرکت میں ہوں گے، جب آپ کا وزیر خارجہ ہی نہیں ہوگا۔ وزیراعظم تو ہر وقت خارجہ امور پر مامور نہیں رہ سکتا، سرتاج عزیز کو دیکھیں، نہ تو انہیں وزیر بنایا اور نہ کسی اور کو یہ عہدہ دیا۔ اس عمارت میں 2 بندے بٹھا دیئے ہیں۔ کسی دفتر میں خواہ وہ اخبار کا دفتر ہو یا وزارت خارجہ کا یا وزیراعظم ہاؤس، وہاں 2 بندے بیٹھ جائیں تو اندازہ کریں کیا حشر ہوگا، فارن آفس میں 2 بندے بٹھا کر عہدہ اپنے پاس رکھ لیا ہے تو وہاں تو کوئی کام کھل کر ہو ہی نہیں سکتا۔ میں کیسے مطمئن ہوں گا۔ پاکستان جیسے ملک کو جو انتہائی حساس جگہ واقع ہے اور جسے بیرونی و اندرونی مسائل درپیش ہیں فل ٹائم وزیر خارجہ مقرر کیا جانا چاہیے۔ ڈرونز حملے کے بعد تو فل ٹائم وزیر خارجہ کی ضرورت اور بھی بڑھ گئی ہے۔ پھر وزیراعظم بھی دل کے آپریشن کے بعد بستر علالت پر ہیں۔

اسلام ٹائمز: حکومت نے رینجرز کو پنجاب میں محدود آپریشن کی اجازت دے دی ہے، کیا اس سے حکومت کے "دوست" ناراض نہیں ہو جائیں گے؟ آپ رینجرز کے پنجاب میں آپریشن کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔؟؟
خورشید محمود قصوری:
پنجاب میں مسلم لیگ نون کی حکومت نے فوج سے تعلقات بہتر کرنے کیلئے رینجرز کو پنجاب میں محدود کارروائی کرنے کی اجازت دیدی ہے، لیکن کچھ عرصے میں پنجاب کی حکومت اور رینجرز میں معاملات اس وقت بگڑ سکتے ہیں اور اس کی وجہ یہ بنے گی جب رینجرز ان انتہا پسند تنظیموں پر ہاتھ ڈالے گی، جن کے نون لیگ حکومت میں ہمددرد موجود ہیں۔ اپنے اردگرد گھیرا تنگ ہوتے دیکھ کر یہ عناصر نواز حکومت پر اپنا دباؤ بڑھائیں گے، جس کے نتیجہ میں پنجاب حکومت اور رینجرز کے درمیان ایک تنازع جنم لے سکتا ہے۔ تجربہ تو یہ بتایا کہ ان شدت پسندوں کو علم ہوچکا ہوگا کہ ان کے اب تھوڑے دن رہ گئے ہیں، لہذا وہ انڈر گراؤنڈ رہنے کی پالیسی اپنا سکتے ہیں، یعنی ملک سے فرار یا کچھ عرصے کیلئے کہیں چھپ بھی سکتے ہیں۔ اگر پنجاب حکومت سخت گیر رویہ رکھنے والی تنظیموں کا تحفظ کرے گی تو ان کے فوج سے تعلقات خراب ہوں گے اور اگر نواز لیگ نے انتہاپسند تنظیموں کا ساتھ نہ دیا تو نواز لیگ کا ووٹ بینک منتقل ہو کر عمران خان اور دیگر جماعتوں کو جا سکتا ہے۔ رینجرز کے پنجاب میں آپریشن سے نواز لیگ کے اہم ستونوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن میں رانا ثناء اللہ اور دیگر لوگوں کا نام آتا ہے، پنجاب سپورٹس فیسٹیول کے سلسلہ میں مالی خردبرد میں رانا مشہود کا تذکرہ ہر کسی کی زبان پر ہے جبکہ ایک فہرست بھی ایسے لوگوں پر مشتمل ہے، اب نواز لیگ کے کئی کردار بیشتر مشکوک کارروائیوں میں شامل رہے ہیں، اب نواز شریف کیلئے مشکلات کا الارم بج چکا ہے، ان تمام لوگوں میں سے کوئی ایک بھی جان بخشی کی امید پر وعدہ معاف گواہ بن گیا تو شریف برادران کے بڑے بڑے برج مشکلات میں پھنس جائیں گے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان تمام معاملات میں شریف برادران کیخلاف کارروائی شائد اس وقت نہ ہو جب تک وہ اقتدار میں ہیں۔ کیونکہ جب تک یہ اپنے عہدوں پر قائم رہتے ہیں، یہ اپنے بچنے کا کوئی نہ کوئی طریقہ نکالتے رہیں گے۔ شریف بردران میں چھوٹے بھائی کیساتھ کیا ہوگا یہ الگ بات ہے، مگر بڑا بھائی پاناما لیکس کے شکنجے میں بری طرح پھنس چکا ہے۔ اس ساری صورتحال میں وزیراعظم اپنے اوپر آئے اس مشکل وقت کو وقتی طور پر ملتوی تو کروا سکتے ہیں، مگر اس سارے عمل سے اپنی جان نہیں چھڑوا سکتے۔ ایک نہ ایک دن انصاف کی تلوار ان پر آ ہی گرے گی۔

اسلام ٹائمز: سانحہ ماڈل ٹاؤن اور پاناما لیکس کی تلواریں بھی تو حکومت کے سر پر لٹک رہی ہیں۔؟؟
خورشید محمود قصوری:
جی بالکل، عمران خان کے پاناما لیکس سمیت شریف برادران کی لوٹ مار کے حوالے سے تسلسل کیساتھ تقاریر میں ان تمام ایشوز کو نہ صرف زندہ رکھا بلکہ یہ تقاریر اس سارے معاملے میں دباؤ کا ذریعہ بھی بن رہی ہیں اور پھر قوم کو یہ بات بھی یاد ہے کہ لاہور ماڈل ٹاؤن میں تحریک منہاج القرآن کے مرکزی سیکرٹریٹ اور عوامی تحریک سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری کی رہائش گاہ کے باہر قائم تجاوزات کو ہٹانے کیلئے ایک آپریشن کیا گیا تھا، مگر قادری صاحب کے کارکنوں نے جب اس کیخلاف مزاحمت کی تو پولیس نے 14 افراد کی جان لے لی اور اس میں 100 کے قریب شدید زخمی بھی ہوئے۔ ہم نے نہیں دیکھا کہ پنجاب حکومت نے اس سلسلہ میں جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا، لیکن طاہرالقادری سمیت بہت سی جماعتوں نے وزیراعلٰی پنجاب کی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کو ماننے سے انکار کر دیا، پھر یہ ہوا کہ اس سلسلہ میں بنائی گئی جے آئی ٹی نے چند پولیس والوں کو قصور وار ٹھہراتے ہوئے ایف آئی آر میں نامزد تمام ملزمان کو بے قصور ٹھہرا دیا اور سارا مدعا عوامی تحریک پر ہی ڈال دیا۔ وقت کیساتھ ساتھ عوامی تحریک کو تحقیقات کے معاملے میں تحریک انصاف کی مکمل حمایت حاصل ہو رہی ہے۔ اس حمایت کی وجہ سے اس سانحہ کو کبھی بھلایا نہیں جا سکا، لگتا تو یہ ہے کہ پنجاب میں رینجرز کا آپریشن پاناما لیکس اور سانحہ ماڈل ٹاؤن کے یہ دونوں معاملات شریف برادران کیلئے ایسی مشکلات پیدا کر دیں گے کہ ان سے بچ نکلنا مشکل ہو جائے گا۔
خبر کا کوڈ : 569480
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش