4
0
Sunday 16 Oct 2016 09:08
سید عامر حسین شاہ کا قتل فرقہ وارانہ دہشتگردی نہیں بلکہ ذاتی دشمنی کا شاخسانہ ہے

شیخ محسن نجفی تشیع کے ہی نہیں بلکہ پاکستان کے بھی محسن ہیں، علامہ محمد رمضان توقیر

حکومت ایسی زیادتیوں سے اجتناب کرے جو برداشت سے باہر ہوں
شیخ محسن نجفی تشیع کے ہی نہیں بلکہ پاکستان کے بھی محسن ہیں، علامہ محمد رمضان توقیر
علامہ محمد رمضان توقیر ایک جانی پہچانی شخصیت ہیں جو کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ سابق مشیر وزیراعلٰی خیبر پختونخوا اور حال شیعہ علماء کونسل کے مرکزی نائب صدر ہیں۔ انکا بنیادی تعلق ڈیرہ اسماعیل خان سے ہے، وہ انقلاب اسلامی ایران کے وقوع پذیر ہونے کے بعد قم المقدس تشریف لے گئے اور وہاں 6 سال تک تعلیم حاصل کی، زمانہ طالب علمی میں ہی ملت کی تحریکی سرگرمیوں میں شمولیت اختیار کرنا شروع کر دی، قائد شہید علامہ عارف حسین الحسینی کے دور میں تحریک کی ضلعی صدارت سے باقاعدہ خدمات کا آغاز کیا، اسکے بعد تحریک کی صوبائی نائب صدارت اور پھر 1993ء میں صوبائی صدارت کی ذمہ داریاں ان کو سونپی گئیں، 4 سال بعد تحریک کے مرکزی رہنماء کی حیثیت سے فرائض سرانجام دیئے اور پھر صوبائی سربراہ کی حیثیت سے ذمہ داریاں سنبھال لیں، خیبر پختونخوا میں مخصوص حالات کے باوجود یہاں اتحاد بین المسلمین کو فروغ دینے میں ان کا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، وہ دینی جماعتوں کے غیر فعال اتحاد متحدہ مجلس عمل کے رہنما بھی رہے، وہ نرم مزاج اور حالات حاضرہ پر گہری نظر رکھنے والی شخصیت ہیں۔ اسلام ٹائمز نے علامہ محمد رمضان توقیر سے ایک انٹرویو کا اہتمام کیا، جو قارئین کے پیش خدمت ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: علامہ صاحب سب سے پہلے تو بتائیں کہ گذشتہ روز آپکے گاؤں میں ایک تشیع نوجوان کو بیدردی سے قتل کیا گیا ہے، کیا یہ قتل فرقہ وارانہ تھا یا کسی ذاتی عناد و چپقلش کا شاخسانہ۔؟
علامہ محمد رمضان توقیر:
اس قتل کے قرائن اور پولیس کی اب تک کی تحقیقات کے مطابق تو یہ فرقہ وارانہ قتل ہرگز نہیں۔ جس گاؤں میں یہ قتل ہوا ہے، وہ ہمارا آبائی علاقہ ہے۔ مقتول سید عامر حسین شاہ کے والد سے بھی میری تفصیلی بات چیت ہوئی ہے اور پولیس نے اس سلسلے میں دو افراد کو گرفتار بھی کیا ہے، جو کہ مقتول کے پڑوسی بھی ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ جس علاقے میں یہ قتل ہوا ہے، وہاں کسی باہر کے شخص کا اندر آکر قتل جیسے بھیانک جرم کا ارتکاب کرکے واپس جانا کوئی آسان بات نہیں ہے۔ دوسری بات مقتول ایک اٹھارہ انیس سالہ معذور نوجوان تھا، جو مذہبی، مسلکی یا قومی حوالے سے متحرک یا سرگرم نہیں تھا۔ علاوہ ازیں مقتول کے خانوادے نے بھی اپنے شک کا اظہار پڑوسیوں پر کیا ہے کہ جن کے ساتھ موبائل کا تنازعہ چل رہا تھا۔ پولیس نے ان دو لڑکوں کو بھی گرفتار کیا ہوا ہے۔ گیارہ محرم کو عامر حسین معمول کے مطابق دکان پر گیا۔ نماز مغربین تک واپس نہیں آیا۔ والدین سوگئے، کیونکہ عمومی طور پر مقتول دوستوں کے ساتھ یا پھر ہمشیرہ کے گھر سے دیر سے آتا تھا۔ رات دو بجے علاقے کا ہی ایک شخص اپنی زمین کو پانی دینے کیلئے گیا تو اسے کھیتوں میں عامر حسین کی لاش ملی، جس کو گولیاں مار کر قتل کیا گیا تھا، جبکہ رات آٹھ بجے گاؤں کے لوگوں نے فائرنگ کی آواز بھی سنی تھی۔ اسی طرح کوئی شخص مقتول کی سائیکل بھی اس کے گھر کے دروازے پر چھوڑ گیا تھا، چنانچہ یہ تمام حالات واقعات اس امر کی غمازی کرتے ہیں کہ یہ اہدافی قتل یا فرقہ وارانہ کلنگ کی کارروائی نہیں تھی بلکہ ذاتیات کی بنیاد پر ہونے والا قتل تھا۔ جسے فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کی گئی۔ صحافتی اداروں کو بھی چاہیئے کہ ذمہ داری کا مظاہرہ کریں، کیونکہ ان کی غفلت کسی نقصان کا باعث بھی بن سکتی ہے۔

اسلام ٹائمز: شکر الحمدللہ کہ پاکستان سمیت ڈی آئی خان میں محرم الحرام انتہائی پرامن رہا، کریڈٹ کسے دیتے ہیں۔؟
علامہ محمد رمضان توقیر:
اس میں کوئی شک نہیں کہ رواں محرم الحرام انتہائی امن و امان اور محبت و اخلاص کی فضا میں گزرا۔ جس میں سول سوسائٹی کا کردار انتہائی قابل تحسین و لائق ستائش ہے۔ رواں محرم میں گلی محلوں، بازاروں یا شاہراوں پر کسی تنازعے یا ہنگامے یا نعرے بازی وغیرہ کا کوئی واقعہ نہیں ہوا ہے۔ پہلے عمومی طور پر شہریوں کے اندرونی منافرانہ اختلافات و رویے بھی ہنگاموں کا سبب بنتے تھے، مگر شکر الحمدللہ کہ رواں محرم میں ایسی کوئی بات نہیں تھی۔ گذشتہ تین چار سالوں سے سول سوسائٹی کے مابین روابط اور میل ملاپ کے باعث ماحول اور حالات پر کافی اثر پڑا ہے، دونوں جانب سے متعدد پروگرام ایسے ہوئے ہیں، جن میں مل بیٹھنے کا موقع ملا ہے۔ چنانچہ رواں محرم پہ کوئی اندرونی تو نہیں البتہ خارجی عوامل بدمزدگی وغیرہ ضرور پیدا کرسکتے تھے، جس کا دارومدار انتظامیہ سکیورٹی اداروں پر تھا، جنہوں نے بہت اچھے طریقے سے انتظامات کرکے ہر قسم کا بندوبست کیا۔ علاوہ ازیں دونوں جانب کے علماء نے بھی بہت اچھا کردار ادا کیا اور منافرانہ گفتگو سے پرہیز کیا۔ ہر ادارے نے مکمل طور پر تعاون اور قابل تعریف انتظامات کئے، جس کیلئے ہم شکرگزار ہیں۔

اسلام ٹائمز: محرم الحرام کے دوران سردارے والا گاؤں میں ایک سو سے زائد عزاداروں کیخلاف ایف آئی آر درج کی گئی، کیا یہ انتظامیہ کی زیادتی نہیں تھی۔؟
علامہ محمد رمضان توقیر:
سردارے والا گاؤں میں عزاداروں پر ایف آئی آر میں انتظامیہ کی زیادتی سے زیادہ آپس کے اختلافات و تنازعات کارفرما تھے۔ وہاں مسئلہ یہ تھا کہ گرچہ وہاں کے ساکنین، شیعہ ہیں مگر ایک دوسرے سے ذاتی عناد وغیرہ رکھتے ہیں، یہاں تک کہ ایک دوسرے سے دست و گریباں ہوئے ہیں، جس پر انتظامیہ کو موقع ملا ہے اور وہ حرکت میں آئی۔ بہرحال بعدازاں یہ مسئلہ حل ہوگیا تھا، مگر اس ایف آئی آر کی وجہ ذاتی عناد و چپقلش تھی۔

اسلام ٹائمز: نو محرم تھویا فاضل سے برآمد ہونیوالا جلوس کہ جس پر ایک مرتبہ بم حملہ بھی ہوچکا ہے اور انتظامیہ اسے روکنے کی کوشش کرتی ہے، رواں محرم باقاعدہ جلوس کی صورت میں آپکی قیادت میں برآمد ہوا، کیا اس جلوس عزا کو قانونی حیثیت حاصل ہوگئی ہے۔؟
علامہ محمد رمضان توقیر:
جی بالکل، عزاداری کا کوئی جلوس غیر قانونی نہیں ہوتا۔ یہ تعزیتی جلوس برآمد ہوتا تھا، جسے انتظامیہ تسلیم نہیں کرتی تھی۔ تاہم رواں محرم انتظامیہ نے باقاعدہ اس کی اجازت بھی جاری کی اور مکمل سکیورٹی بھی فراہم کی۔ اب اس جلوس عزا کو آئندہ بھی کوئی انتظامی یا دیگر حوالے سے کسی مسئلہ کا سامنا نہیں ہوگا۔ ان شاء اللہ

اسلام ٹائمز: کوٹلی امام حسین (ع) کی زمین قابضین سے واگزار کرانا اور اسکی پرانی حیثیت کی بحالی شہریوں کا دیرینہ مسئلہ ہے، اسکا حل کیسے ممکن ہے۔؟
علامہ محمد رمضان توقیر:
اس حوالے سے متعدد کوششیں ہوچکی ہیں، مگر آپسی اختلافات کسی بھی کوشش کو ثمر آور نہیں ہونے دیتے۔ وکلاء کی کمیٹیاں بھی تشکیل دی جاچکی ہیں، مگر بات ایک خاص پوائںٹ سے آگے نہیں بڑھ پاتی۔ اب موجودہ زمین بھی ہم نے سخت کوششوں سے تحویل میں لی ہے، اس پر بھی بعض اوقات اپنے ہی لوگ اعتراض کر جاتے ہیں۔ میرے نزدیک اس مسئلہ کا بہترین حل یہی ہے کہ مالی طور پر مستحکم پڑھے لکھے افراد پر مشتمل ایک کمیٹی قائم کی جائے، جسے تمام حقوق حاصل ہوں۔ وہ کمیٹی کوٹلی امام حسین (ع) کی مکمل زمین کو واگزار کرانے اور اس کی پرانی حیثیت کی بحالی کیلئے کوششیں کرے۔

اسلام ٹائمز: پہلے متعدد افراد کو شیڈول فور میں شامل کیا گیا، جن میں کئی قابل ذکر علماء بھی شامل ہیں، پھر ان افراد کی پاکستانی شہریت معطل کر دی گئی۔ اس معاملے کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔؟
علامہ محمد رمضان توقیر:
ہم ایک طویل مدت سے یہ کہہ رہے ہیں کہ بیلنس پالیسی کا خاتمہ کیا جائے۔ ظلم و مظلوم اور شریف و بدمعاش کے مابین فرق کیا جائے۔ ریاست کو چاہیئے تھا کہ ظالم کی سرکوبی کرکے مظلوم کی حمایت کرتی، شریف کا ساتھ دیکر بدمعاش کی سرکوبی کرتی، مگر افسوس اس کے برعکس پالیسی اپنائی گئی اور تاحال اسی بیلنس پالیسی پر عملدرآمد جاری ہے۔ ایک طرف ایک ایسا شخص کہ جس نے وطن عزیز میں تعصب، نفرت، دہشت کی آگ لگا رکھی ہے، اس کے مقابلے میں ایک ایسے شخص کو لیکر آنا کہ جس نے دل آزاری پر مبنی ایک جملہ تک کبھی نہیں کہا، حکومت کی شدید زیادتی ہے۔ قبلہ شیخ محسن علی نجفی محسن تشیع نہیں بلکہ محسن پاکستان ہیں۔ اتنی علمی شخصیت، اتنی فلاحی خدمات، اتنے اچھے اچھے اور قابل ذکر اداروں کا بانی اور اس کا نام ایسی فہرست میں شامل کرنا، شدید زیادتی ہے۔ قبلہ شیخ محسن صاحب کے تمام کام قانون کے تحت بینک کے ذریعے ہوتے ہیں۔ ان کے اداروں کا باقاعدہ آڈٹ ہوتا ہے۔ ان کے پراجیکٹس میں ریٹائرڈ سینیئر افسران کام کرتے ہیں۔ ایسی شخصیت کے ساتھ اس طرح کا سلوک کہ ان کا نام شیڈول فور میں شامل کر لیا جائے، ان کی شہریت معطل کی جائے۔ بہت بڑی زیادتی ہے، ظلم ہے۔ اندھیر نگری اور چوپٹ راج والا معاملہ ہے۔ میرے پاس وہ الفاظ نہیں ہیں، جو اس ظالمانہ فعل کی شدت کا احاطہ کریں، بس بزرگوں کی خدمت میں یہ گزارش ہے کہ اگر شیخ محسن علی نجفی کے حق میں آواز نہ اٹھائی گئی تو حالات و معاملات انتہائی خراب ہوں گے۔ حکومت کو یہ حق حاصل ہی نہیں ہے کہ ایک ذمہ دار پاکستانی شہری کی شہریت منسوخ یا معطل کرے۔ اتنی شفاف شہرت کا مالک کہ جس پر نہ کسی کا کوئی اعتراض، نہ کوئی الزام اور ایسے شخص کو شیڈول فور میں شامل کرنا یا اس کی شہریت معطل کرنا سراسر ظلم اور حد سے متجاوز جسارت ہے، جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔

اسلام ٹائمز: اس حکومتی پالیسی کے کیا اثرات مرتب ہونگے، یا ممکنہ طور پر کیا ردعمل سامنے آسکتا ہے۔؟
علامہ محمد رمضان توقیر:
حکومت نے اگر یہ غیر ذمہ دارانہ اور ظالمانہ رویہ ترک نہ کیا تو اسے بہت بڑے عوامی احتجاج و ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا، جو کہ پاکستان کیلئے بھی نقصاندہ ہوگا۔ حکومت کو چاہیئے کہ ایسی زیادتیوں سے اجتناب کرے، جو کہ عوامی برداشت و صبر کا پیمانہ لبریز کر دیں۔

اسلام ٹائمز: شیخ محسن صاحب سے روا اس زیادتی کیخلاف کیا تشیع جماعتیں ایک پلیٹ فارم پر ہونگی۔؟
علامہ محمد رمضان توقیر:
بالکل، اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں۔ اس معاملے پر کوئی افتراق نہیں ہوگا۔ اس مسئلہ پر کوئی بھی اختلاف اپنے آپ سے زیادتی ہوگی، شیخ محسن کے مسئلہ پر پوری ملت یک زبان ہے۔ اس حوالے سے حکومت کو اپنے طرز عمل پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔
خبر کا کوڈ : 575734
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Iran, Islamic Republic of
احسن دیر آید درست آید اسلام ٹائم کا اچها اقدام ہے ایسی شخصیت سے انٹرویو کرکے، البتہ جن افراد نے ان کے خلاف بدتمیزی کی تهی شهید شاهد کے جنازه میں، یہ سوال بهی اس بزرگ عالم دین سے کر ہی لینا تها۔
شکر ہے کہ ایس یو سی کی قیادت کو کوئی سمجھ آئی ہے کہ بائیکاٹ وائیکاٹ کچھ نہیں ہوتا۔ اب باقی رہنما بھی اسلام ٹائمز کو انٹرویو دیں اور قومی حوالے سے اپنا نکتہ نظر بیان کریں۔
Iran, Islamic Republic of
تمهاری دوستی، تمهاری دشمنی سے بد تر ہے۔
Iran, Islamic Republic of
تم صرف اپنی پسند کی رائے ہی لگاتے ہو۔
ہماری پیشکش