0
Wednesday 28 Dec 2016 23:57
حکومت سنجیدگی کیساتھ ایران مخالف پروپیگنڈے کا نوٹس لیتے ہوئے داعش کے حامی گروہوں کیخلاف اقدامات کرے

حلب میں تکفیریوں کی شکست کے بعد پاکستان میں بھی ایران مخالف امریکی اسرائیلی پروپیگنڈا مہم جاری ہے، علامہ ناظر تقوی

پاکستان میں ملت تشیع نے ہمیشہ انتہائی مثبت کردار ادا کیا اور اپنی حکمت عملی سے ملکی فضا خراب نہیں ہونے دی
حلب میں تکفیریوں کی شکست کے بعد پاکستان میں بھی ایران مخالف امریکی اسرائیلی پروپیگنڈا مہم جاری ہے، علامہ ناظر تقوی
علامہ سید ناظر عباس تقوی کا تعلق صوبہ سندھ کے شہر کراچی سے ہے۔ زمانہ طالب علمی میں ان کا تعلق امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان سے رہا تھا، شروع سے ملی معاملات میں کافی فعال کردار ادا کرتے تھے۔ انہوں نے جب سے روحانی لباس زیب تن کیا، تب سے ہی اپنے کندھوں پر زیادہ ذمہ داری محسوس کرنے لگے۔ یہی وجہ تھی کہ شیعہ علماء کونسل میں شمولیت کے بعد کچھ ہی عرصے میں بزرگ علمائے کرام کے ہوتے ہوئے پہلے کراچی کے صدر منتخب ہوئے، اسکے بعد انہیں صوبہ سندھ کے جنرل سیکریٹری کی ذمہ داری دے دی گئی، آج کل وہ صوبائی صدر کی حیثیت سے ملی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ ریلی ہو یا دھرنا یا ملت کو درپیش کوئی اور مشکل، منفرد اور با اثر لب و لہجہ رکھنے والے مولانا ناظر عباس تقوی جتنی دیر بولتے ہیں، ان کے جملوں میں خلوص ہی خلوص ہی نظر آتا ہے، جس کی وجہ سے لوگوں کے دلوں میں گھر کر لیتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کو للکارنا ہو یا شیعہ و مسلمان دشمن جماعتوں کو، اس معاملے میں علامہ صاحب اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ ”اسلام ٹائمز“ نے علامہ ناظر عباس تقوی کیساتھ ان کی رہائش گاہ پر حساس موضوعات کے حوالے سے ایک مختصر نشست کی، اس موقع پر ان کیساتھ کیا گیا خصوصی انٹرویو قارئین کیلئے پیش ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: سب سے پہلے تو یہ بتائیں کہ کراچی سمیت سندھ بھر میں محرم الحرام و ربیع الاول میں کئے گئے سکیورٹی انتظامات سے مطمئن ہیں۔؟
علامہ سید ناظر عباس تقوی:
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں سمجھتا ہوں کہ سندھ حکومت اور سکیورٹی اداروں کی طرف سے محرم الحرام و ربیع الاول میں کئے گئے سکیورٹی انتظامات قابل اطمینان ہیں، جس کی وجہ سے بہت سارے سکیورٹی خدشات دور ہوئے، انتظامیہ نے بھی ہمارے ساتھ بہت تعاون کیا، لیکن نیشنل ایکشن پلان کی آڑ میں عزاداری کی روک تھام اور لاؤڈ اسپیکر ایکٹ کے تحت کئے جانے والے اقدامات افسوسناک رہے، سندھ بھر میں کوشش کی گئی کہ مجالس عزا کے اجتماعات میں لاؤڈ اسپیکر کو بند کرایا جائے، سبیل حسینی پر مائیک بند کرایا جائے، روایتی جلوس عزا کو ختم کیا جائے، رکشوں پر دیگر سواریوں پر نوحے چلانے کے سلسلے کو بھی روکنے کی کوشش کی گئیں، لیکن عوامی ردعمل کے باعث حکومت ان اقدامات کو اٹھانے سے گریز کرنے پر مجبور ہوئی، اگر عوامی ردعمل نہ ہوتا تو حکومت ایک قدم اور آگے بڑھاتے ہوئے عزاداری کو روکنے کی کوشش کرتی، عوام آگے بھی اپنے حقوق کی حفاظت کیلئے آمادہ و متوجہ رہے۔

اسلام ٹائمز: آئندہ کے حوالے سے پیپلز پارٹی کی قیادت سے رابطے و مطالبات کیا ہونگے۔؟
علامہ سید ناظر عباس تقوی:
ایام عزا میں ہم پیپلز پارٹی کی قیادت سے مسلسل رابطے میں رہے اور انہوں نے تعاون بھی کیا، لیکن پیپلز پارٹی کی قیادت کو اس حوالے سے مزید سنجیدگی سے سوچنا چاہئے کہ ملت تشیع پاکستان کا ایک طاقتور حصہ ہے، تشیع کا ایک بہت بڑا حصہ پیپلز پارٹی سے بھی وابستہ ہے، لہٰذا ہماری ملت تشیع کو اسکا آئینی و قانونی حق دلوانے میں اپنی ذمہ داری ادا کرے، ہم نے قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ، صوبائی وزیر سید ناصر شاہ سمیت کئی رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں، ان سے زائرین کو درپیش مسائل و مشکلات کو ایوانوں میں اٹھانے کا مطالبہ کیا، عزاداری کے حوالے سے ان بات کی، انہوں نے سندھ میں ہمارے ساتھ تعاون کیا، اس سال میں کہہ سکتا ہوں کہ پورے سندھ میں ہم نے عزاداری و عزاداروں کے خلاف ایک بھی ایف آئی آر نہیں کٹنے دی، کیونکہ ہم نے محرم سے قبل کراچی کے نشترپارک میں منعقدہ تحفظ عزا کانفرنس میں واضح اعلان کیا تھا کہ اگر ایک بھی ایف آئی آر کاٹی گئی تو ہم حکومت کے خلاف جیل بھرو تحریک کا آغاز کرینگے، الحمداللہ ہم عزاداری کے دفاع میں کامیاب رہے۔

اسلام ٹائمز: آج آرمی چیف نے مزید آٹھ دہشتگردوں کی سزائے موت کی توثیق کی ہے، لیکن اہل تشیع مسلمانوں کو دہشتگردی کا نشانہ بنانے والے قاتل اب تک سزاؤں سے بچے ہوئے ہیں، کیا کہیں گے اس حوالے سے۔؟
علامہ سید ناظر عباس تقوی:
ہم نے فوجی عدالتوں کے قیام کی حمایت کی تھی، کیونکہ لوگوں کو عدالتوں سے انصاف نہیں مل رہا تھا، مایوس ہو رہے تھے، لیکن اکیسویں آئینی ترمیم کے بعد بننے والی فوجی عدالتوں کے بعد قوم میں امید پیدا ہوئی کہ ہمیں اب انصاف ملے گا، کیونکہ ملت تشیع سب سے زیادہ دہشتگردی کا نشانہ بنی ہے، دو یا تین کیسز میں اہل تشیع کو نشانہ بنانے والے دہشتگردوں کو سزائے موت دینے کے علاوہ اب تک دہشتگرد عناصر کے خلاف کوئی مؤثر اقدام نہیں اٹھایا گیا، نہ ہی کوئی ٹھوس فیصلے کئے گئے، جس کے باعث ملت تشیع میں بہت بے چینی اور تشویش پائی جاتی ہے، جس طرح سانحہ صفورا، سانحہ آرمی پبلک اسکول و دیگر سانحات میں ملوث دہشتگردوں کو سزائے موت دی گئی ہے، امید ہے کہ نئے آرمی چیف، وزیراعظم اور صدر مملکت سانحہ عاشورا، سانحہ اربعین، سانحہ شکارپور، سانحہ کوئٹہ سمیت درجنوں سانحات جو ملت تشیع کے ساتھ پیش آئے، ان میں ملوث دہشتگردوں کو بھی جلد سے جلد سزائے موت سنائی جائے گی۔

اسلام ٹائمز: تحریک جعفریہ پر پابندی ختم کرنے کیلئے کئے گئے اقدامات کس مرحلے پر ہیں، نیز اس حوالے سے میڈیا میں جو پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے، اس حوالے سے کیا کہنا چاہیں گے۔؟
علامہ سید ناظر عباس تقوی:
مختصر یہ کہوں گا کہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان میں مظلوموں کو ہمیشہ ظالموں کے ساتھ کھڑا کرکے بیلنس پالیسی روا رکھی جاتی ہے، پاکستان میں تشیع کبھی بھی دہشتگردی میں ملوث نہیں رہی، نہ کوئی شیعہ جماعت اور نہ ہی کوئی شیعہ گروہ، نہ ہی پاکستان میں کوئی بھی شیعہ عسکری گروہ موجود ہے، جن گروہوں کا نام لیا جاتا ہے، ان کا تو وجود ہی نہیں ہے، کچھ فرضی گروہ تھے، جنہیں فرضی نام دیکر ہمارے گلے میں ڈالا گیا تھا، لیکن ان کا تو وجود ہی نہیں ہے کہ اسے ثابت کیا جائے، لہٰذا ملک میں تشیع کو سیاسی و مذہبی کردار کو روکنے کیلئے بیلنس پالیسی کی بھینٹ چڑھایا گیا، تحریک جعفریہ کو کالعدم قرار دینا بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، تحریک جعفریہ کے بعد اسلامی تحریک کو کالعدم قرار دیا گیا، آج تک کوئی ثبوت عدالت میں پیش نہیں کیا جا سکا، اسی وجہ سے سپریم کورٹ نے حکومت ایک ماہ کا وقت دیکر کہا ہے کہ یا تو ثبوت پیش کرے یا پھر بحال کرے، وفاقی وزارت داخلہ ہو یا چاروں صوبائی وزارتیں، انہوں نے جو رپورٹس پیش کیں، ہماری اطلاع کے مطابق وہ مثبت رپورٹس تھیں، جس کے بعد سپریم کورٹ نے ہماری بحالی کا نوٹس جاری کر دیا، جس کے بعد ہم نے انتخابات میں بھی حصہ لیا، لیکن حکومت نے ابتک نوٹی فیکیشن جاری نہیں کیا، قائد ملت جعفریہ علامہ سید ساجد علی نقوی نے آٹھ سو صفحات پر مشتمل کتابی صورت میں پابندی کے خلاف رپورٹ پیش کی ہے، اب صورتحال یہ ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے حکومت کو جواب جمع کرانے کیلئے تیس دن کا ٹائم دیا ہے، ہم اس کا انتظار کر رہے ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ ہم کامیاب ہونگے۔ جہاں تک کچھ صحافیوں کی بات ہے تو پاکستان میں صحافت آزاد نہیں ہے، اگر ہوتی تو اس طرح کے الزامات نہیں لگائے جاتے اور جن صحافیوں نے یہ باتیں کیں وہ تو خود آزاد نہیں ہیں، وہ تو خود کسی بیرونی ملک، قوت و طاقت سے وابستہ ہیں، جن کے الزامات کو ہم مسترد کرتے ہیں۔ ان شاء اللہ جلد ہی ہم قانونی جنگ جیت کر اس کا جواب دینگے۔

اسلام ٹائمز: حلب میں تکفیری دہشتگرد عناصر کی بدترین شکست کے بعد پاکستان میں میڈیا کا کردار حقائق کے برعکس اور منفی نظر آتا ہے، کیا کہیں گے۔؟
علامہ سید ناظر عباس تقوی:
عوام شام کے حقائق سے آگاہ نہیں ہیں، کیا پس منظر ہے، کون کون سے ممالک اور گروہ شام میں دہشتگردوں کی مالی، عسکری و ہر حوالے سے سپورٹ کر رہے تھے، لیکن سادہ لوح عوام کو میڈیا جہاں چاہے موڑ دیتا ہے، عوام کو میڈیا کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا، بدقسمتی سے یہاں میڈیا کا کردار منصفانہ نہیں ہے، میڈیا عوام کو حقائق پہنچانے کے بجائے چھپایا رہا ہے، گمراہ کر رہا ہے، میڈیا کو شام میں ان دہشتگرد عناصر کو بے نقاب کرنا چاہیئے تھا کہ جو امریکی و اسکے اتحادی ممالک کی ایما پر اسرائیل مخالف بشار حکومت کو عدم استحکام سے دوچار کرنا چاہ رہے تھے، یہ دہشتگرد عناصر شامی عوام پر شب خون مار رہے تھے، شہریوں کی گردنیں کاٹ رہے تھے، انہیں زندہ جلا رہے تھے، لیکن ان دہشتگرد عناصر کے مظالم کو پاکستانی میڈیا نے ہمیشہ چھپایا، دہشتگرد عناصر نے اہلبیت رسولؐ، اصحاب رسولؐ، انبیا کرامؑ کے مزارات کو دھماکوں سے اڑایا، ان کی قبریں کھودیں، مسمار کیں، لیکن پاکستانی میڈیا مجرمانہ طور پر خاموش رہا اور اب جب داعش، النصرہ فرنٹ سمیت درجنوں تکفیری دہشتگرد گروہوں کے نیٹ ورک کو وہاں شکست فاش ہوئی ہے تو میڈیا حقائق پیش کرنے کے بجائے ناصرف چھپا رہا ہے، بلکہ گمراہ کن خبریں پیش کر رہا ہے، میڈیا کسی بھی بیرونی ایجنڈے پر عمل پیرا ہونے کے بجائے اپنی ذمہ داری پوری ایمانداری سے ادا کرے، مظلوموں کو ظالم بنا کر پیش کرنا آزادی صحافت کے بھی خلاف ہے۔

اسلام ٹائمز: مخصوص مائنڈ سیٹ شام کے مسئلے کو لیکر پاکستان میں ایران مخالف پروپیگنڈے میں مصروف ہے، اسے کس نگاہ سے دیکھتے ہے۔؟
علامہ سید ناظر عباس تقوی:
دنیا کے جس کونے میں بھی ظلم ہو رہا ہے، انصاف کے ساتھ اس کے خلاف مشترکہ آواز بلند کریں، لیکن دوہرا معیار نہ رکھیں، کیا یمن میں عوام کو ظلم و بربریت کا نشانہ نہیں بنایا جا رہا، کیا بحرین کی عوام پر ظلم نہیں کیا جا رہا، ان کے خلاف یہ لوگ کیوں احتجاج نہیں کرتے، کیوں منافقانہ روش اختیار کئے ہوئے ہیں، درحقیقت کئی برسوں سے پوری دنیا میں امریکا، اسرائیل اور انکے اتحادیوں کی جانب سے ایران مخالف پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے، بدقسمتی سے اس میں کچھ عرب ممالک بھی شامل ہوچکے ہیں اور ایران مخالف نعرے و سرمایہ گزاری کر رہے ہیں، پاکستان میں بھی شام و دیگر مسائل کو لیکر ایران مخالف پروپیگنڈا بھی امریکی اسرائیلی پروپیگنڈا مہم کا تسلسل ہے، حقیقت یہ ہے کہ امریکا، اسرائیل، سعودی عرب اور انکے اتحادی ممالک نے شام، عراق، یمن، بحرین میں جو سرمایہ کاری کی ہے، ان میں انہیں ناکامی ہوئی ہے، اسی ناکامی کی وجہ سے پاکستان سمیت دنیا بھر میں ایران مخالف مہم جاری ہے، لیکن اب عوام کو بے وقوف بنانا ناممکن ہے، سوشل میڈیا کی وجہ سے تمام حقائق منظر عام پر آچکے ہیں، تکفیری دہشتگردوں کے حامی گروہوں کو شام میں شکست ہضم نہیں ہو رہی ہے، وہ سڑکوں پر نکلے مگر چونکہ عوام کی حمایت حاصل نہیں تھی، وہ احتجاج میں بھی ناکام ہوئے، جو آہستہ آہستہ دم توڑتا جا رہا ہے۔ ویسے بھی حلب میں تکفیری دہشتگردوں کی شکست کے بعد وہاں کی شیعہ، سنی، عیسائی عوام نے جس عظیم الشان طریقے سے بارہ ربیع الاول جشن عید میلاد النبیؐ اور کرسمس ڈے منایا، اس نے پوری دنیا میں امریکی اسرائیلی منفی پروپیگنڈے کا پردہ چاک کر دیا ہے۔

پاکستان میں منظم انداز میں ایران مخالف پروپگنڈے کے حوالے سے حکومتی ذمہ داری کیا بنتی ہے۔؟
علامہ سید ناظر عباس تقوی:
پاکستان میں جو گروہ ایران مخالف منفی پروپیگنڈے میں مصروف ہیں یا کسی بھی ملک کے خلاف پروپیگنڈا کر رہے ہیں، حکومت کی ذمہ داری ہے کہ سنجیدگی کے ساتھ ایران مخالف پروپیگنڈے کا نوٹس لیتے ہوئے ان گروہوں کے خلاف اقدامات کرے، تاکہ ملک میں فرقہ واریت کی فضا نہ بن پائے۔ ایران کے خلاف پروپیگنڈا امریکا و اسرائیل کی پرانی سازش ہے، جو دم توڑ چکی ہے۔

اسلام ٹائمز: اس حوالے سے ملت تشیع کی تنظیموں کا کردار کیا ہونا چاہیئے۔؟
علامہ سید ناظر عباس تقوی:
پاکستان میں ملت تشیع محب وطن، سمجھدار، سنجیدہ، معاملہ فہم ہے، ہمیشہ ملک میں انتہائی مثبت کردار ادا کیا ہے، اپنی حکمت عملی سے ملکی فضا خراب نہیں ہونے دی، ملک میں ایران مخالف مہم چلانے والے کرائے کے لوگ ہیں، بیرونی آقاؤں کی ایما پر ان سے پیسہ لیکر یہ فرقہ واریت پھیلانے کیلئے کام کر رہے ہیں، چاہتے ہیں کہ ملت تشیع بھی ان کے مقابلے میں سڑکوں پر نکل آئے، تاکہ دنیا بھر میں تاثر دیا جائے کہ پاکستان میں فرقہ واریت ہے، اس طرح سے سے ملکی فضا کو خراب کیا جائے، لیکن چونکہ ملت تشیع آزاد ملت ہے، کرائے کی ملت نہیں ہے، جسے پیسہ دیکر سڑکوں پر لے آیا جائے، لہٰذا ملت تشیع نے اس سازش کو بھی اپنے فہم و فراست و حکمت عملی کے ساتھ ہمیشہ کی طرح ناکام بنا دیا ہے۔
خبر کا کوڈ : 595433
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش