0
Tuesday 28 Feb 2017 19:34
دہشتگرد عناصر کا نشانہ تنہا شیعہ نہیں بلکہ اسلام اور مسلمانانِ جہاں ہیں

دشمنانِ اسلام پاکستان کو ایک تکفیری و سلفی ریاست بنانیکے درپے ہیں جو کبھی ممکن نہیں ہوگا، مولانا تقی رضا عابدی

دشمنانِ اسلام کو مسلمانوں کا امن و سکون ہرگز برداشت نہیں ہو رہا ہے
دشمنانِ اسلام پاکستان کو ایک تکفیری و سلفی ریاست بنانیکے درپے ہیں جو کبھی ممکن نہیں ہوگا، مولانا تقی رضا عابدی
مولانا سید تقی آغا عابدی کا تعلق بھارتی ریاست حیدرآباد دکن سے ہے، وہ تقریباً 2002ء سے ہندوستان میں اپنی دینی و سماجی ذمہ داریاں انجام دے رہے ہیں، اور مختلف دینی، سماجی و سیاسی سرکردہ تنظیموں سے جڑے ہوئے ہیں، اسوقت بھی یونائیٹڈ مسلم فورم کے جنرل سیکرٹری ہیں، جو ہندوستان بھر میں مختلف مذہبی و مسلکی مکاتب فکر کے علماء کرام کا مشترکہ پلیٹ فارم ہے، یہ فورم غیر سیاسی ہوتے ہوئے سیاسی پارٹیوں کی رہنمائی کرتا ہے، اسکے علاوہ آپ آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین سے بھی وابستہ ہیں، مولانا سید تقی رضا عابدی (تقی آغا) حیدر آباد میں مسلم پرسنل بورڈ کے نمائندے بھی ہیں، مجلس علماء ہند کی حیدر آباد کی نمائندگی بھی انکے پاس ہے، وہ 2015ء کے اوائل سے انٹرنیشنل مسلم یونٹی کونسل کے چیئرمین بھی ہیں، اسکے علاوہ وہ شیعہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن حیدرآباد کے روح رواں بھی ہیں، اسلام ٹائمز کے نمائندے نے مولانا سید تقی آغا عابدی سے ایک خصوصی نشست کے دوران انٹرویو کا اہتمام کیا، جو قارئین کرام کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: حالیہ دنوں میں لعل شہباز قلندر کی درگاہ پر ہوئے داعشی حملے کو آپ کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟
مولانا سید تقی رضا عابدی:
ایسے حملے قابل مذمت ہیں، اس حملے سے یہ بات واضح ہوگئی کہ جو لوگ یہ سمجھتے تھے کہ داعش کے حملے تنہا شیعوں پر ہو رہے ہیں، ان پر یہ بات واضح ہوگئی کہ دہشتگرد عناصر کا نشانہ تنہا شیعہ نہیں بلکہ اسلام اور مسلمانانِ جہاں ہیں، درگاہ لعل شہباز قلندر پر ہوئے حملے سے واضح ہوگیا کہ دشمنانِ اسلام کو مسلمانوں کا امن و سکون ہرگز برداشت نہیں ہو رہا ہے، ہم نے بار بار کہا ہے کہ یہ شیعہ و سنی جنگ نہیں ہے، اگرچہ دہشتگردوں سے سب سے زیادہ متاثر شیعہ ہی ہوئے ہیں، لیکن یہ دشمنانِ اسلام کی اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جنگ ہے، یہ دہشتگرد آج مسلمانوں کے کسی ایک فرقے کو تشدد کا نشانہ بناتے ہیں تو کل کسی اور فرقے کو نشانہ بناتے ہیں، لیکن یہ جنگ مسلمانوں کے کسی ایک فرقے کے خلاف جنگ ہرگز نہیں ہے۔ لعل شہباز قلندر کی درگاہ پر حملے نے ہماری وہ باتیں سچ ثابت کر دیں ہیں کہ ہم ایسے عناصر کو انسانیت کے خلاف قرار دیتے تھے۔ پاکستان بھر میں ہزاروں علماء شہید کر دیئے گئے، جو بات میں کہنا چاہتا ہوں، وہ یہ کہ پاکستانی عوام نے ہمیشہ غفلت سے کام لیا ہے، پاکستانی عوام غفلت کی شکار نہ ہوتی تو پاکستان کی تاریخ میں ایسے حملے روز روز نہ ہوتے۔ پاکستان کی سرزمین پر حالیہ حملے مسلم دنیا کو چونکا دینے کے لئے کافی ہیں، ہمیں ہوش کے ناخن لینے ہونگے۔

اسلام ٹائمز: کیوں مقدسات اسلامی کہ جنکے ساتھ مسلمانوں کے جذبات و عقیدے وابستہ ہیں، کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔؟
مولانا سید تقی رضا عابدی:
دیکھئے اسلام دشمن عناصر کا کھلا پیغام ہے کہ درگاہوں اور مزارات اسلام پر شرک ہوتا ہے، اگر اولیاء کرام سے وابستگی رکھنا شرک ہے تو یہ کیسے ان چیزوں کو برداشت کرسکتے ہیں، یہ تمام اعتقادی مسلمانوں کو کافر اور مشرک کہتے پھرتے ہیں، انہوں نے صاف کہا ہے کہ یہ مقدسات، یہ درگاہیں اور مزارات شرک کی فیکٹریاں ہیں تو یہ کیسے ان چیزوں کو برداشت کرسکتے ہیں، ایسے عناصر کا ماننا ہے کہ شیعہ و سنی دونوں واجب القتل ہیں، اس لئے ایسی کارروائیاں ہوتی رہیں گی اور پاکستان میں مزید حملے ہونے کے خدشات بھی ہیں، کیونکہ داعش کو شام و عراق میں بری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے، اس لئے یہ اب پاکستان میں اپنی کارروائیوں کو جاری رکھ سکتے ہیں۔ ہم ساتھ ہی یہ امید بھی کرتے ہیں کہ جس طرح شام و عراق میں عوام نے داعش کا متحد ہوکر مقابلہ کیا، اسی طرح پاکستانی عوام بھی دشمن کو منہ توڑ جواب دیں گے اور انہیں اپنی سرزمین پر قدم جمانے سے روکیں گے۔

اسلام ٹائمز: کیوں داعش کا اگلا ہدف و نشانہ پاکستان ہوگا۔؟
مولانا سید تقی رضا عابدی:
دیکھئے ان کی اصل دشمنی اہل بیت اطہار (ع) سے ہے، ان کے پیروکاروں سے ہے۔ جو بھی مسلمان اہل بیت (ع سے محبت کا اظہار کرے گا، وہ نشانہ پر ہوگا۔ دشمنانِ اسلام پاکستان کو ایک تکفیری و سلفی ریاست بنانے کے درپے ہیں، جو کبھی ممکن نہیں ہوگا۔ مسلمانان پاکستان کو بیداری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ پاکستانی حکومت نے پہلے بھی دہشتگردی کے خلاف کچھ موثر اقدام کئے ہیں، آئندہ بھی ہم پاکستانی حکومت سے یہی امید کرتے ہیں کہ وہ تکفیری دہشتگردوں کے ٹھکانوں اور انکے آلہ کاروں و ایجنٹوں کا ملک بھر سے صفایا کرے گی۔

اسلام ٹائمز: امریکہ کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اسلام دشمنی، جسکا ثبوت انہوں نے حلف اٹھاتے ہی سات مسلم ممالک پر پابندی کی شکل میں دیا ہے، پر آپ کیا تجزیہ کرنا چاہیں گے۔؟
مولانا سید تقی رضا عابدی:
دیکھئے مسلمان ممالک کے خلاف بیان دیکر امریکی صدر نے واضح کر دیا کہ انکے دل میں جو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف حسد و بغض بھرا ہوا ہے، اس پر وہ قابو نہیں کر پا رہے ہیں۔ اس نے اس بغض کا اظہار کرکے مسلمانوں کا کام آسان کر دیا، یہ ایک اچھی چیز ہے کہ انہوں نے امریکہ کی پالیسیوں کا کھلم کھلا اظہار کر دیا۔ ان ممالک کے باشندوں کو پہلے سے ہی امریکہ جانے پر ہزار قسم کی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا، لیکن اب انہوں نے اس چیز کا اظہار کرکے اپنی نادانی کا ثبوت بھی دے دیا ہے، مسلمانوں کو ڈونلڈ ٹرمپ کا حالیہ بیان اپنے حق میں لینا چاہئے۔ امریکہ کی تمام پالیسیاں اسلام دشمنی پر مبنی ہیں اور امریکہ جانتا ہے کہ اسلام ناب پر کون مسلم ممالک عمل پیرا ہیں۔ میں آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں کہ امریکہ کے زوال کا وقت قریب تر آگیا ہے، ایسی پابندیوں سے امریکہ کو اب نجات نہیں ملنے والی اور مسلمان ان پابندیوں سے مزید مستحکم ہونگے۔

اسلام ٹائمز: حالیہ دنوں مجمع جہانی تقریب بین المذاہب کے سربراہ آیت اللہ محسن اراکی نے بھارت کا تفصیلی دورہ کیا، حیدرآباد، لکھنؤ، بنگلور اور نئی دہلی می مختلف کانفرسوں سے خطاب بھی کیا، آپ سے آیت اللہ اراکی کے اس دورے کے مثبت نتائج کے بارے میں جاننا چاہیں گے۔؟
مولانا سید تقی رضا عابدی:
میں سمجھتا ہوں کہ آیت اللہ اراکی کا اتحاد اسلامی کے حوالے سے بھارت کا دورہ انتہائی اہمیت کا حامل دورہ تھا۔ اس ادارے کے سربراہ کا اس نوعیت کا بھارت دورہ اگرچہ بہت پہلے ہونا چاہئیے تھا، لیکن ابھی بھی زیادہ دیر نہیں ہوئی، انہوں نے اتحاد اسلامی کے حوالے سے یہاں مختلف کانفرنسوں اور سیمیناروں و نشستوں میں خطاب بھی کیا، جو بیانات اپنی مثال آپ ہیں، آج کے دور میں جب بھارت میں مختلف عناصر تفرقے کی سازشوں میں سرگرم ہیں، ایسے میں مسلمانوں کو اتحاد اسلامی کی جانب مائل کرنا اہم ترین فریضہ ہے۔ اس لئے ایسے حالات میں اس ادارے کے سربراہ کا بھارت دورہ انتہائی مفید رہا، بھارت کے مسلمانوں کو ایک دوسرے کے شانہ بشانہ رہنا چاہئے، اس بات پر سیمیناروں اور کانفرسوں میں زور دیا گیا۔ بڑے افق پر مسلمانوں کے اتحاد کی ضرورت ہے، جو صورتحال مسلمانوں کی پاکستان میں ہے، بھارت میں نہیں ہونی چاہئے، ہمیں اس بات کا علم ہونا چاہئے کہ مسلمانوں کا آپسی اتحاد تکفیریت کی موت ہے۔ آیت اللہ محسن اراکی ایک بڑی سنجیدہ، علمی و تجزبہ کار شخصیت ہے اور ایک بڑے ادارے کے سربراہ بھی ہیں، ایسے اشخاص کا اتحاد و اتفاق کے حوالے سے یہاں آنا انتہائی اہم ہے۔

لوگ تجربہ حاصل کرنے دیگر ممالک کا دورے کرتے ہیں، لیکن ایسی شخصیت تجربات دینے کے لئے ممالک کا دورہ کرتے ہیں، ان کی آمد پر بھارت کے مختلف مکاتب فکر کے علماء ایک ساتھ جمع ہوئے اور ایک اہم بات یہ سامنے آئی کہ ایران کے علماء کرام کو مسلمانوں کے اتحاد کی فکر ہے، وہ جہاں جاتے ہیں، لوگوں کو جوڑتے ہیں، ورنہ آپ دیکھتے ہیں کہ دیگر ممالک کے علماء یہاں آتے ہیں، لیکن اپنی نشستوں میں صرف اپنے مکتب فکر کے لوگوں کو بلاتے ہیں،  یہ واضح فرق ہے جو ہم یہاں آئے روز دیکھتے ہیں، ان ممالک کے علماء نے کبھی بھی اپنے بھارت دورے کے دوران امت مسلمہ کی بات نہیں کی، انہوں نے کبھی اتحاد اسلامی کی بات نہیں کی، وہ صرف یہاں تفرقہ پھیلانے آتے ہیں، وہ یہاں آئیں اور اتحاد اسلامی کے حوالے سے اقدام کریں، شیعہ و سنی علماء کو اپنے پاس بلائیں، مسلمانوں کے دکھ درد کی بات کریں، ایرانی علماء اس حوالے سے نمونہ عمل ہیں، ایرانی کلچر ہاؤس نئی دہلی میں مخصوص پروگراموں میں بھی اہل تسنن کے علماء کرام شریک ہوتے ہیں، یعنی کوئی بات مخفی و پوشیدہ نہیں ہوتی، وہ تمام مسلمانوں کو اپنا رازداں سمجھتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: آیت اللہ محسن اراکی کی موجودگی میں مختلف کانفرنسوں کا انعقاد کیا گیا، کیا آئندہ بھی اتحاد اسلامی کے حوالے سے مسلسل فعالیت کی کوئی برنامہ ہے۔؟
مولانا سید تقی رضا عابدی:
اتحاد و تقریب بین المذاہب کے حوالے سے کوششیں سالانہ کانفرسوں تک نہیں رہنی چاہیے، ہمیں یہاں اپنے طور پر اتحاد اسلامی کے حوالے سے اقدام کرنے ہونگے، ہمیں اب خود بھی کوئی حرکت کرنی چاہیے، ہمیں شعوری طور پر اتحاد اسلامی کے حوالے سے علمی اقدام اٹھانے ہونگے، ہم مسلمانوں کو صرف ایران کے پیچھے نہیں پڑا رہنا چاہیے، بلکہ ان سے اتحاد اسلامی کے حوالے سے انکے تفکرات کو سمجھ کر آگے بڑھنا ہوگا، جیسے لبنانی عوام نے پیش رفت کی ہے، ہمیں بھی آگے بڑھنا ہوگا۔ یہ کوششیں اب ایک طرفہ نہیں ہونی چاہیے۔ جیسے ایک زمانے میں جمال الدین افغانی آئے تھے اور امت کو جگایا تھا، ویسے ہی آج سید علی خامنہ ای کی سرپرستی میں علماء کرام یہاں آتے ہیں اور امت کو بیدار کرتے ہیں۔ غرضیکہ مسلمانوں کے درمیان اتحاد اور ایک مشترکہ پلیٹ فارم کا قیام اب ناگزیر بن گیا ہے۔ مسلمان ایک دوسرے کے ساتھ رابطہ استوار کرنا بہت ہی اہم ہے، حتٰی کہ مسلم میڈیا کا آپسی تال میل بھی بہت ضروری ہے، تاکہ ہمارے مسائل کی صحیح ترجمانی ہوسکے۔ مسلم میڈیا کو متحد کرنے کے حوالے سے آپ اہم ذمہ داری انجام دے سکتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 613248
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش