0
Tuesday 14 Mar 2017 20:27
ایران کی طرح افغان مہاجرین کو کیمپوں تک محدود رکھتے تو دہشتگردی کا سامنا نہ کرنا پڑتا

فوجی عدالتوں کو توسیع دیئے بغیر دہشتگردی ختم نہیں ہوسکتی، رحمت وردگ

پنجاب میں رینجرز کو براہ راست اختیارات نہیں دیئے گئے، آدھا تیتر آدھا بیٹر بنا دیا گیا ہے
فوجی عدالتوں کو توسیع دیئے بغیر دہشتگردی ختم نہیں ہوسکتی، رحمت وردگ
رحمت خان وردگ تحریک استقلال کے مرکزی صدر اور معروف سیاست دان ہیں۔ ملکی حالات پر گہری نظر رکھتے ہیں، ایئر مارشل اصغر خان کے بعد تحریک استقلال کا علم تھامے منزل کیجانب رواں دواں ہیں۔ بے لاگ تبصروں و تجزیوں کے حوالے سے بھی مشہور ہیں۔ پاکستان سے محبت انکے خون میں شامل ہے، ملک کو مسائل سے پاک اور پُرامن دیکھنے کے خواہاں ہیں۔ ہمیشہ کھری بات کرتے ہیں، حکمرانوں کو بھی اپنے تجزیوں سے مشورے دیتے رہتے ہیں، بہترین کالم نگار بھی ہیں۔ "اسلام ٹائمز" نے ملک کی موجودہ صورتحال کے حوالے سے لاہور میں انکی رہائش گاہ پر ایک نشست کی، جسکا احوال قارئین کیلئے پیش کیا جا رہا ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: دہشتگردی کیخلاف اب تک جو آپریشنز ہوئے ہیں، ان سے دہشتگردی میں کسی حد تک کمی تو ہوئی ہے مگر مکمل خاتمہ نہیں ہوسکا، آپکے خیال میں دہشتگردی کس طرح مکمل ختم ہوسکتی ہے۔؟
رحمت وردگ:
اب تک جتنے آپریشنز ہوئے ہیں، ان کے حوالے سے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ غیر موثر رہے ہیں، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ دہشتگردی کیخلاف جنگ میں پہلا کامیاب ترین آپریشن سوات میں جنرل کیانی نے شروع کیا، جس سے سوات میں مکمل طور پر دہشتگردوں کا صفایا ہوگیا۔ پھر آپریشن ضرب عضب کے تحت وزیرستان، فاٹا، کے پی، بلوچستان اور کراچی کو امن کا گہوارہ بنایا گیا اور مقامی و غیر ملکی دہشتگردوں کو چن چن کر ختم کیا گیا۔ اب جنرل باجوہ نے آپریشن ردالفساد کا آغاز کرکے پنجاب سمیت ملک کے طول و عرض میں دہشتگردوں اور ان کے سہولت کاروں کے خاتمے کا عزم کیا اور اس سلسلہ میں روزانہ کی بنیاد پر ملک بھر میں سینکڑوں دہشتگردوں کو گرفتار و ہلاک کیا گیا، جبکہ یہ سلسلہ جاری ہے۔ اصل میں جنرل راحیل شریف کی قیادت میں آپریشن ضرب عضب کی شاندار کامیابی کے بعد قوم اور سکیورٹی ایجنیسیاں مکمل طور پر مطمئن ہوگئیں اور کامیابیوں پر خوشی کے شادیانے بجائے جاتے رہے اور اسی دوران آپریشن ضرب عضب کے دوران فرار ہونیوالے دہشتگردوں نے افغانستان میں جمع ہو کر بھارت، امریکہ اور اسرائیل کی مدد سے ایسا منظم نیٹ ورک تشکیل دیا، جس نے بلوچستان کے راستے پاکستان میں دہشتگردی کی تباہ کن کارروائیاں کیں۔ جن میں ایک ہفتے کے دوران سینکڑوں افراد کو شہید کر دیا گیا۔

دہشتگردی کی اس لہر نے پوری قوم میں تشویشن کی لہر پیدا کر دی اور ایک بار پھر عوام میں خوف و ہراس پیدا ہوگیا۔ دہشتگردوں نے اس منظم انداز میں مقامات کا تعین کیا کہ چاروں صوبائی دارالحکومتوں کے عوام بے چین ہوگئے۔ اس بے چینی کی کیفیت میں جنرل قمر جاوید باجوہ نے آپریشن ردالفساد کا اعلان کیا تو قوم میں امید کی نئی کرن پیدا ہوئی اور اس آپریشن میں پنجاب میں رینجرز کی تعیناتی سمیت افغان بارڈر پر دہشتگردوں کے کیمپوں پر بھی حملوں کا آغاز کر دیا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ منظم دہشتگردی کے مقابلے میں ہمارا سٹینڈ بہت کمزور ہے، لیکن اس کمزوری کی نشاندہی کی اجازت نہیں دی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ اس پس منظر میں آپریشن ردالفساد بہت اہمیت اختیار کر گیا ہے، بلکہ مستقبل کو دیکھتے ہوئے اس کی اہمیت ماضی میں کئے گئے متعدد آپریشنز سے کہیں بڑھ چکی ہے۔ اس کے سامنے ناکامی کا کوئی آپشن نہیں، اسے ان شاء اللہ ہر صورت کامیاب ہونا ہے، تاکہ ملک کے مستقبل کو خوشحال بنایا جا سکے۔ اگر سیاسی قیادت نے اس پر سمجھوتے کر لئے اور ماضی کی طرح موثر آپریشن نیشنل ایکشن پلان پر مکمل عملدرآمد میں تساہل کا مظاہرہ کا مظاہرہ کیا گیا تو اس کے نتائج بہت بھیانک ہوں گے، جس کا ازالہ پھر ملکی نظام میں انقلابی تبدیلیوں کے بعد ہی ممکن ہوگا۔

اسلام ٹائمز: آپکے خیال میں پاکستان میں ہونیوالی دہشتگردی کے بنیادی اسباب کیا ہیں۔؟
رحمت وردگ:
پاکستان میں دہشتگردی کا سلسلہ گذشتہ 4 دہائیوں سے چلا آ رہا ہے اور افغانستان پر روس کے حملے کے وقت ہم نے امریکہ اور اس کے حواریوں کے ورغلانے پر اندھا دھند فیصلے کئے اور روس کے خلاف افغانستان میں جا گھسے، جس کا خمیازہ ہماری تیسری نسل بھگت رہی ہے۔ کچھ لوگوں کا یہ کہنا کہ نائن الیون کے بعد جنرل مشرف کی وجہ سے پاکستان میں دہشتگردی کی لہر آئی، میں اس سے سراسر اختلاف کرتا ہوں، اگر ہم افغانستان پر روس کے حملے کے وقت صرف اور صرف اپنی سرحدوں کا دفاع کرتے اور افغانستان میں جاکر روس کا تعاقب نہ کرتے تو ایران اور دیگر ممالک کی طرح افغان مہاجرین کو صرف اور صرف سرحدی کیمپوں میں رکھتے تو آج ہمارے ملک کی حالت یہ نہ ہوتی۔ اس امریکی جنگ میں ہم نے لاکھوں انسانی جانوں، افسران اور جوانوں کی جانوں کی قربانی دی اور پاکستان کو کھربوں ڈالرز کا معاشی نقصان بھی الگ اٹھانا پڑا۔ اگر ہم اس جنگ میں نہ کودتے تو آج پاکستان معاشی طور پر خطے میں سب سے نمایاں پوزیشن پر ہوتا۔ اُس وقت ایئر مارشل اصغر خان نے ان تمام نقصانات سے قوم کو بارہا آگاہ کیا، لیکن امریکی ڈالرز کی چمک نے یہاں کی قیادت کو اندھا کر دیا تھا۔ جس کی وجہ سے ایئر مارشل اصغر خان کو روس کا ایجنٹ قرار دے دیا گیا۔ آج وہی لوگ اعتراف کرتے ہیں کہ یہ جنگ امریکی مفاد کی جنگ تھی، جس میں پاکستان کو صرف ایندھن کے طور پر استعمال کیا گیا اور ابھی بھی کیا جا رہا ہے۔

اسلام ٹائمز: ہمارے ہاں سول حکومت بھی بنی اور فوجی بھی اقتدار میں رہے، لیکن ملک کے مسائل ویسے کے ویسے ہیں، دونوں کیصورت میں کوئی تبدیلی نہیں آسکی۔؟
رحمت وردگ:
یہ بات درست ہے، عوام دونوں صورتوں میں مایوس ہوئے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ سیاسی حکومتوں میں طالع آزما ہوتے ہیں، ان کی ذاتی اور سیاسی مصلحتیں ہوتی ہیں، جن سے وہ باہر نہیں آسکتے، نہ ہی ایسی پالیسیاں بنا سکتے ہیں، جن سے عوام کی مایوسی دور کی جا سکے۔ دوسری جانب جب مارشل لاء لگتا ہے تو کچھ عرصہ بعد سیاست دانوں کو شامل کر لیا جاتا ہے، جو حکومتی پالیسیوں پر اثرانداز ہوتے ہیں اور فوجی حکمران جو اعلان کرتے ہیں، ان پر عملدرآمد نہیں ہوتا، اگر ایسا ہو کہ 5 سال کیلئے مارشل لاء لگے اور ملکی و قومی مفاد میں خاص مقصد پیش نظر ہو تو پھر پوری مدت میں سیاستدانوں سے پرہیز کیا جائے۔ مثلاً جنرل پرویز مشرف کے 7 نکات ایک اچھا پروگرام تھا، مگر اپنی حکومت کو جمہوری رنگ دینے کیلئے سیاستدانوں کو شامل کیا گیا اور 7 نکاتی پروگرام کاغذوں تک محدود ہو کر رہ گیا، دوسرا سیاستدانوں کو بھی صحیح کردار ادا کرنا چاہیے، ملک میں عدالتی، قانونی اور پولیس کا نظام بہتر بنائیں، معاشی و سماجی ترقی کیلئے موثر پالیسیاں بنانے کے سلسلے میں کردار ادا کریں۔ جس میں لوگوں میں بھلائی کی امید پیدا ہو، یہ کتنی تکلیف دہ بات ہے کہ عزیر بلوچ اور دیگر جو دہشتگرد تھے، جو مالی دہشتگردی میں ملوث تھے، سیاست دانوں نے ان پر ہاتھ رکھے، جرائم پیشہ افراد کو چھتری فراہم کی۔

اسلام ٹائمز: فوجی عدالتوں کی توسیع کے حوالے سے تمام سیاسی جماعتیں متفق ہوگئی ہیں، پیپلزپارٹی ہی اتفاق نہیں کر رہی، پی پی پی کے الگ راگ کو کس نظر سے دیکھ رہے ہیں۔؟
رحمت وردگ:
پیپلز پارٹی کے اندر بھی جمہوریت نہیں، آپ سوچ سکتے ہیں کہ پیپلز پارٹی میں زرداری یا بلاول کے علاوہ کوئی پارٹی چیئرمین بن سکتا ہے؟ بلکہ ان کے مقابلے میں بھی آنے کی کوئی جرات نہیں کرسکتا ہے۔ باقی رہی بات فوجی عدالتوں میں توسیع کی تو پھر جمہوریت تو یہ ہے کہ جب تمام پارٹیاں متفق ہوگئی ہیں تو پھر ایک پارٹی کے اختلاف کو اتنی اہمیت کیوں دی جا رہی ہے۔ جمہوریت میں فیصلہ کثرت رائے سے ہوتا ہے، اتفاق رائے سے نہیں۔ بات یہ ہے کہ اگر حکومت اور اپوزیشن ملک سے دہشتگردوں کے سہولت کاروں اور کرپشن کا خاتمہ چاہتی ہیں تو فوجی عدالتوں کو توسیع دینا ہوگی۔ ابھی تک عدالتی نظام میں اصلاحات کی جا سکی ہیں، نہ خصوصی عدالتوں یا انسداد دہشتگردی کی عدالتوں کے ججز کی سکیورٹی کا فول پروف انتظام کیا جا سکا ہے۔ جب ایسا کر لیا جائے گا، تب یقیناً فوجی عدالتوں کی ضرورت نہیں رہے گی۔ لیکن جب تک ایسا نہیں کیا جاتا، اس وقت تک فوجی عدالتوں کو غیر فعال رکھنا دہشتگردوں اور سہولت کاروں کو چھوٹ دینے کے مترادف ہے۔

اسلام ٹائمز: پنجاب میں پولیس اور سی ٹی ڈی کیساتھ اب رینجرز کو بھی ملا دیا گیا ہے، کیا اس اقدام سے مطلوبہ نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں۔؟
رحمت وردگ:
جی نہیں، مشروط آپریشن سے مطلوبہ نتائج بالکل حاصل نہیں ہوں گے، رینجرز کو مکمل آزادی دی جائے، اگر پولیس موثر آپریشن کر سکتی تو رینجرز کو کیوں بلایا جاتا، جبکہ پولیس کے حوالے سے بہت زیادہ یہ خیال ہے کہ پولیس میں بھرتی میرٹ پر نہیں ہوتی، نہ ضروری تربیت ہے، نہ ہی مطلوبہ وسائل رکھتی ہے، اسکی بڑی مثال چھوٹو گینگ ہے، پولیس اس پر قابو پانے میں ناکام رہی اور رینجرز نے آکر اسے پکڑ کر پولیس کے حوالے کیا۔ اس لئے یہ تحریک استقلال کا مطالبہ ہے کہ پورے پاکستان میں بشمول پنجاب رینجرز کو غیر معینہ مدت کیلئے اختیارات دیئے جائیں، تاکہ وہ یکسوئی اور تسلسل کیساتھ دہشتگردوں اور ان کے سہولت کاروں کو کیفر کردار تک پہنچایا سکے۔ اس کے ساتھ ہی ایسے آپریشن جس کے ڈانڈے دہشتگردی یا جرائم سے ملتے ہوں، اس کی بیخ کنی کی جا سکے، بصورت دیگر یہ فوج اور رینجرز کو بدنام کرنے کی سازش سمجھا جائے گا۔

اسلام ٹائمز: پنجاب میں دہشتگردوں کیخلاف آپریشن کا مطالبہ پیپلز پارٹی پہلے دن سے کر رہی ہے، اب آکر آپریشن شروع کیا گیا ہے، کیا اس سے مطلوبہ نتائج حاصل ہونگے۔؟
رحمت وردگ:
جی ہاں بالکل، یہ مطالبہ چھوٹے صوبوں کی جانب سے کیا جا رہا تھا، پیپلز پارٹی واقعی روز اول سے یہ مطالبہ کر رہی تھی، پنجاب حکومت اسے مسلسل ٹال رہی تھی، لاہور میں مال روڈ پر ہونیوالے بم دھماکے کے بعد اب یہ شروع کیا گیا ہے تو ان شاء اللہ نتائج ملیں گے۔

اسلام ٹائمز: تو یہ کہہ سکتے ہیں کہ پنجاب میں آپریشن پیپلز پارٹی کے مطالبے پر کیا گیا ہے۔؟
رحمت وردگ:
نہیں ایسا نہیں ہے، بلکہ جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا، مال روڈ پر ہونے والے خودکش حملے کے بعد فوج نے آپریشن کا فیصلہ کیا ہے، یہ قدم فوج نے براہ راست اٹھایا، آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز حکومتی ترجمان کے بیان سے پہلے آئی کہ پورے ملک اور پنجاب میں آپریشن شروع کیا گیا ہے، پنجاب میں وزیراعلٰی کو سمجھا بجھا کر اگرچہ شروع کیا گیا، مگر اسے پولیس اور سی ٹی ڈی کے اشتراک سے آدھا تیتر اور آدھا بٹیر بنا دیا گیا۔ یعنی جن علاقوں میں حکومت کہے گی، وہاں آپریشن ہوگا، اس میں بھی رینجرز کو براہ راست اختیارات نہیں دیئے گئے۔ یعنی پنجاب پولیس اور سی ٹی ڈی ساتھ ہوگی، اس لئے دوسرے صوبے تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: پنجاب میں آپریشن کا آغاز پٹھان آبادیوں سے کیا گیا، اگرچہ وزیراعلٰی نے وضاحت بھی کی کہ یہ آپریشن پٹھانوں کیخلاف نہیں، بلکہ دہشتگردوں کیخلاف ہے، تاہم میڈیا میں ایسی خبریں آرہی ہیں اور کے پی سے بھی پختون لیڈر لاہور آکر اسی بات پر سیاست چمکا رہے ہیں۔؟
رحمت وردگ:
یہ دراصل افغان مہاجرین کی آبادیاں ہیں، جو پشتون ہیں، برصغیر میں افغانوں کی آمد کی ایک تاریخ ہے، ہم بھی افغانی ہیں، افغانستان کے علاقے وردگ سے تعلق ہے، ہمارے آباؤ اجداد احمد شاہ ابدالی کیساتھ آئے اور یہاں ہی آباد ہوگئے۔ اب ان آبادیوں میں یہ خوف طاری ہے کہ کسی دن یا رات کے وقت چھاپہ نہ پڑ جائے، میڈیا رپورٹس کے مطابق ان چھاپوں کے دوران چادر اور چاردیواری کے تقدس کا خیال نہیں رکھا جاتا، جو بہت افسوسناک ہے، بے شک پنجاب میں دہشتگردوں کے سہولت کار موجود ہیں، تب ہی تو وہ واردات کر جاتے ہیں، مگر یہ ضروری نہیں کہ وہ سب پٹھان ہی ہوں، مگر لگتا یہ ہے کہ اس آپریشن کو صرف پٹھانوں تک محدود رکھا گیا ہے، ٹی وی چینلز اور اخبارات میں صرف پٹھان اور افغانی ہی اس کا ہدف ہیں۔ وہ گذشتہ 20 سال سے رہ رہے ہیں، ان کے متعلق تھانے میں انٹری ہے کہ فلاں جگہ موجود ہیں، تو رات 3 بجے پولیس والے دیوار پھاند کر اندر گھس جاتے ہیں، یہ تو زیادتی ہے۔

اسلام ٹائمز: اگر آپریشن کا سلسلہ روک دیا جائے تو دہشتگردوں کو تو ان بستیوں میں محفوظ ٹھکانہ مل جائیگا۔؟
رحمت وردگ:
ہاں ایسا ممکن ہے، میں یہ نہیں کہتا کہ چھاپے نہ مارے جائیں، جس کے بارے میں شک ہو یا کوئی خفیہ اطلاع ملے، اس گھر کا محاصرہ کرنے کے بعد صاحب خانہ کو دروازے پر دستک دے کر باہر بلایا جائے اور پوچھ گچھ کی جائے اور اگر خانہ تلاشی ضروری ہو تو اسے اعتماد میں لے کر ایسا کیا جائے۔ اس آپریشن کو پنجابی اور پٹھانوں کی لڑائی نہ بنایا جائے۔ ایسا تاثر قائم نہیں ہونا چاہیے، اس حوالے سے احتیاط کرنی چاہیے، اگر پٹھان پنجاب میں آباد ہیں تو بہت سے پنجابی خیبر پختونخوا میں بھی آباد ہیں، ایک بڑی مثال غلام احمد بلور اور حاجی عدیل کے خاندان کی ہے، اگر پنجاب میں اس آپریشن کو پٹھانوں کیخلاف کارروائی کا تاثر دیا گیا تو اس کے خطرناک نتائج ہوں گے، پھر کے پی میں بھی پنجابیوں کیخلاف ردعمل آسکتا ہے۔ حالانکہ عوام کی سطح پر دونوں صوبوں میں کوئی دوری نہیں پائی جاتی۔ وہ مل جل کر رہتے اور اکٹھے کاروبار کرتے ہیں۔ انتظامی معاملات اور اقدامات میں بے احتیاطی سے مسائل کی ایسی گرہیں پڑ جاتی ہیں کہ جن کو کھولنا آسان نہیں ہوتا۔
خبر کا کوڈ : 618247
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش